سندھ کا اچھرو تھر صحرا اپنے ریت کے ٹیلوں اور جھیلوں کے خوبصورت نظارے کے لئے مشہور ہے- 23،000 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے، کھارے نمکین صحرا کو اپنی قدرتی سفید ریت کی وجہ سے “سفید صحرا” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جہاں صرف اتنا ہی سبزہ اگتا ہے جس سے مویشیوں کی ایک مختصر تعداد کو خوراک مہیا ہوسکے- نتیجتاً، یہاں کے باسیوں کی گزر بسر کا دارومدار نمک پیدا کرنے والی آٹھ جھیلوں پر ہے-
انڈس ماحولیاتی خطّہ، متعدد نمک کی جھیلوں جیسے؛ موڈیکر ، بصریو ، کھارور ، سنہریری ، بندھی واری ، سنہری اور پانی واری کا گھر ہے- موسلا دھار بارش کے بعد ، جھیلوں میں پانی بھر جاتا ہے اور نمک سطح پرآجاتا ہے- نمک کی جھیلیں تب بنتی ہیں جب پانی نمک اور معدنیات کےساتھ دریائی بیسن میں رہ جاتا ہے- جب پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے تو اپنے پیچھے تحلیل شدہ نمکیات چھوڑ جاتا ہے- جب نمک ایک مخصوص گاڑھے پن تک پہنچ جاتا ہے تب اسے نکالا جاتا ہے اور پھر اسکی صفائی کی جاتی ہے- اگرچہ یہ ‘شمسی بخاراتی’ کان کنی دنیا کے کچھ حصوں میں مشینوں کی مدد سے کی جاتی ہے لیکن اچھرو میں جھیلوں کے قریب مقیم مرد اور عورتیں یہ کام ہاتھ سے کرتے ہیں-
اچر کولھی برسوں سے ان نمکین جھیلوں پر کام کر رہے ہیں- ان کے بازو ، پیر اور ہاتھ نمک کی تہہ سے ڈھکے ہوئے ہیں- انکے پاؤں سبز رنگ کے دھبوں سے بھرے ہوے تھے جوکہ جلد
پر لگے زخموں کے لئے ایک ‘خودساختہ علاج ‘ ہے-
“یہ مقامی گوند صمد بانڈ ہے، ” انہوں نے بتایا ، “نمک جھیل میں کام کرتے ہوئے میں اکثر زخمی ہوجاتا ہوں ، لہذا اسے لگاتا ہوں کیونکہ کوئی اور چیز نمک کو زخم میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی ہے – ہم کھارے پانی سے بچاؤ کے لئے اکثر یہ ٹوٹکا استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنا کام جاری رکھ سکیں”-
صمدبانڈ کوئی دوا نہیں ناہی مرہم ہے- یہ مقامی طور پر، خاص کر بڑھئی کے یہاں مختلف گھریلو سامان جوڑنے کے لئے استعمال ہوتا ہے – تاہم کان کن، اس گوند کا استعمال نمک کی سخت سطح کو کھودنے کے دوران لگنے والے زخموں پر موٹی پرت کی شکل میں کرتے ہیں۔ ” زخموں کے لئے ہمیں کوئی دوا نہیں ملتی- نمک سے زخموں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمارے
پاس یہی ٹوٹکا ہے” ،اچر نے مزید بتایا-
زخم عام طور پر ہاتھوں اور انگلیوں پر لگتے ہیں- نمک جمع کرنے والا، نمک ٹھوس اینٹوں کی شکل میں بیچتا ہے- جمع کرنے والا نمک کو باریک کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں رگڑتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر و بیشتر ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں- اس عمل میں نمک کے چھوٹے چھوٹے پتھر ان کے پیر کو بھی زخمی کردیتے ہیں-
اچر بچپن سے ان جھیلوں میں کام کررہے ہیں- وہ صبح سویرے آتے ہیں اور شام چھ بجے تک کام کرتے ہیں- سیکڑوں دوسرے مزدوروں کے ساتھ ، وہ کئی گھنٹوں تک جھیل کی سطح سے نمک کی سخت پرت کھودتے اور اس کو پیستے ہیں- اس کے بعد نمک کو پانی سے دھو کر بیگز میں بھرتے ہیں-
نمک کی ان جھیلوں پر کام کرنے والے کان کن دگرگوں حالات میں رہتے ہیں جہاں صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں اور ناہی ان کے پاس میڈیکل سینٹر تک میلوں سفر کرنے کے لئے پیسے ہیں- ان میں اکثر جھیلوں کے قریب گھاس پھوس اور لکڑی سے بنی جھگیوں میں رہتے ہیں- عورتیں اور مرد دونوں کام کرتے ہیں لیکن دونوں کی کمائی ملا کر بھی وہ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں-
ایک لوڈر کو ایک ٹرک کے (USD 2.58) ر400 روپے ملتے ہیں- لوڈنگ کے دوران آٹھ مزدور بیگز بھرتے ہیں اور ایک بیگ بھرنےوالے کو ماہانہ 3000 روپے (USD 19.38) ملتے ہیں- جو شخص بیگ باندھتا ہے اسے بھی ماہانہ 3000 روپے ملتے ہیں– ایک بیگ کی اجرت آچر کو محض 1.5 روپے (USD 0.009) ملتے ہیں-
“یہ سستی مزدوری ہے لیکن ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے”، اچر کہتے ہیں- ان کے والد بھی نمک کے کان کن تھے- ” اورشاید میرا بیٹا بھی یہی کام کرے”-
ان جھیلوں سے جمع کیا ہوا نمک پورے ملک میں پہنچایا جاتا ہے- یکن سارا کاروبار مقامی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں ہے اور ایک غیر رسمی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے- وہ کسی لیبر قوانین پر عمل نہیں کرتے-
پاکستان کے لیبر قوانین کے برخلاف یہاں گورنمنٹ کے اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی طرف سے کوئی سماجی تحفظ یا ملازمین کی انشورنس نہیں ہے- ایک ٹھیکیدار مزدوروں کی شکایات کی تردید کرتا ہے۔ “مزدور خود سستی اجرت پر کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ مقامی لوگ نسلوں سے یہ کام کررہے ہیں یہ ہم سے خوش ہیں”، اپنا نام نہ ظاہر ہونے کی درخواست کرتے ہوۓ انہوں نے کہا-
انہوں نے کہا، ” انہیں بغیر حفاظتی تدابیر کے کام کرنے کی عادت ہے- چوٹیں اور زخم لگنا عام بات ہے لیکن اس کے علاج کے لئے یہ لوگ مقامی ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں- انکی صحت تشویشناک نہیں”- جیسےکہ ان کے مطابق مزدوروں کی صحت تشویشناک نہیں یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ٹھیکیداروں اور حکومت کے نزدیک ان مزدوروں کی صحت اہمیت نہیں رکھتی-
جھیل کے کنارے بکھریجی گاؤں کا رہائشی ، کرشن چھ سال سے نمک کے تھیلے بھر رہا ہے۔ اب اس کی عمر 18 سال ہے۔
میں یہ کام اپنے والد کے ساتھ کررہا ہوں ، جو ایک ٹرک پر لوڈر ہیں- میں نمک تھیلوں میں بھرتا ہوں اور وہ ان کو ٹرک پر لوڈ کرتے ہیں- سردیوں میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں”- کرشن اور اس کے والد اپنے خاندان کے کفیل ہیں- اس نے کہا کہ اگر ٹھیکیدار سے اجرت بڑھانے کی بات کرو تو وہ نوکری چھوڑدینے کو کہتا ہے- ” یہاں بہت سے بیروزگار لوگ ایسے ہیں جوکہ کم اجرت پر کام کے لئے تیار ہوجاتے ہیں”-
زیادہ تر مزدور بغیر کسی حفاظتی سامان کے اپنے کام انجام دیتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے- فی الحال، کھپرو اور ہتھنگو کے قریب تین جھیلیں ہیں جو نمک پیدا کرتی ہیں- نمک کی سب سے بڑی جھیل کو ’’ جھیل نمبر 1 ‘‘ کہا جاتا ہے جہاں تقریبا ایک ہزار کارکن نمک جمع کرتے ہیں- ان میں پچاس عورتیں ہیں-
خواتین مزدوروں کی نظرانداز کردہ ضروریات
50 سالہ جمنا بائی جھیل سے ملحقہ گاؤں میں رہتی ہے- اس کا کام جھیل کے پانی سے نمک کو دھونے اور صاف کرنا ہے- ” ہم ایک کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے یہ نوکری اس وقت شروع کی تھی جب میں جوان تھی اور اب میں ایک بوڑھی عورت ہوں- ان تمام سالوں میں ہمارے حالات نہیں بدلے”-
انہوں نے مزید کہا ” جب میں نمک کو پانی سے دھوتی ہوں تو مجھے اکثر چوٹیں آتی ہیں- میں کبھی کبھی پلاسٹک کے تھیلے میں [اپنے ہاتھ پاؤں] لپیٹ لیتی ہوں لیکن یہ زیادہ کارگر نہیں ہوتا”-
جمنا بائی کے گھر والے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ ان کے بڑے اور چھوٹے بیٹے نمک سے بھرے ہوئے تھیلے باندھتے ہیں۔ نمک نے ہمارے کھال اور گوشت گلا ڈالا ہے- ہمیں علاج کے لئے کوئی دوا نہیں ملتی- ہم مجبوری اور غریبی کی وجہ سے یہ کام کررہے ہیں- یہاں کچھ ایسی عورتیں بھی کام کر رہی ہیں جو حاملہ ہیں لیکن اگر وہ آرام کے لئے چھٹی مانگیں تو انہیں اجرت نہیں ملتی اور ان کے بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے- ” میں اپنے پوتے کو اسکول جاتے دیکھنا چاہتی ہوں لیکن قریب کوئی اسکول نہیں ہے”-
میٹھے پانی کی نعمت
حال ہی میں ، ایک مقامی سماجی کارکن نے بخریجی گاؤں میں میٹھے پانی کے چار نلکے لگائے۔ پہلی بار میٹھے پانی کے لئے میلوں پیدل سفر کرنے کے بجاۓ گاؤں والوں کو پانی اپنی دہلیز پر دستیاب ہوا-
سماجی کارکن نہال وڈوانی نے کہا ، “یہ غریب مزدور انتہائی سخت حالات میں اپنا کام انجام دے رہے ہیں- مجھے حیرت ہوئی جب پتا چلا کہ ان کو کوئی حفاظتی سامان فراہم نہیں کی گیا ہے- میں نے کئی مرد اور خواتین مزدوروں کو دیکھا جو زخمی ہاتھوں اور پیروں سے نمک جمع اور لوڈ کررہے تھے- ان کے لئے کوئی ڈسپنسری بھی موجود نہیں- نمک کے پانی میں مسلسل کام سے ان کے پیر مفلوج ہوجاتے ہیں کیونکہ پیروں کے زخم نقصان دہ انفیکشن میں تبدیل ہوجاتے ہیں- یہ انفیکشن پورے جسم پر اثرانداز ہوتے ہیں کیونکہ ان کا علاج کرنا آسان نہیں ہے”-
انہوں نے مزید بتایا کہ قریب ترین کلینک گاؤں سے بہت دور ہے ، اور دن بھر کی جسم توڑ مشقت کے بعد وہ طبی مدد حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتے- حال ہی میں ، صوبائی حکومت کے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (SEF ) کی جانب سے ایک اسکول قائم کیا گیا ہے—— لیکن وہ بکھرجی گاؤں سے دس کلومیٹردور ہے چناچہ یہاں کے بچے اسکول نہیں جاسکتے-
پاکستان میں ، ماہانہ کم سے کم اجرت 17000 روپے (110 USD) مقرر کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر اس رقم کا اطلاق ممکن نہیں-
لیگل ایڈ سوسائٹی کے پروگرام منیجر جمیل جونیجو کہتے ہیں کہ حکومت سندھ کے پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت کے 2017 کے قانون کے تحت ان کی سلامتی کا بیمہ ہونا ضروری ہے-
قانون کہتا ہے ، “ایسی چیزوں، مواد اور مادے کے استعمال، ہینڈلنگ، اسٹوریج، تلفی اور نقل و حمل کے نتیجے میں کارکنوں کی صحت کو درپیش نقصان کے خطرہ سے بچاؤ اورسدباب کو یقینی بنانے کے انتظامات کریں۔ طبیعاتی، کیمیائی ، حیاتیاتی ، ریڈیولاجیکل ، ایرگونومک ، نفسیاتی یا کسی بھی دوسرے خطرات کو جو ملازمت کی جگہ پر کارکنوں اور دیگر افراد کی حفاظت اور صحت کو متاثر کرتے ہیں ان سے بچاؤ اور روک تھام کے انتظامات کریں”۔
جونیجو نے مزید کہا” کوئی بھی مزدور، خواہ وہ نمک کی جھیلوں پر کام کر رہا ہو یا کسی اور صنعت میں ، اسے انہی صحت اور معاشرتی تحفظ کے چیلنجوں کا سامنا ہے- مالکان اوور ٹائم ادا نہیں کرتے۔ یہ مزدوروں کے حقوق کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے”-
لیکن پھر بھی، ان کی صحت “تشویشناک نہیں” ہے۔