گرمیاں ختم ہورہی ہیں (جولائی کا آخری ہفتہ) مگرپاکستان کے شمالی علاقہ جات میں دیوسائی کی چراگاہو ں میں اب تک برف نہیں پگھلی اور خدشہ ہے کہ اس سال جانوروں کو وافر مقدار میں گھاس نہیں مل سکے گی۔
عبدالرﺅف اور ان کے خاندان کے 400 سے زائد گھرانے اور لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں اس وقت دیوسائی نیشنل پارک اوراستور کی (12479فٹ( بلند چراگاہ میں موجود ہیں جہاں ان کے جانور چارے کی کمی سے دوچار ہیں۔عبدالروﺅف قدیم بکروال برادری کی ایک ذیلی شاخ کالوخیل سے تعلق رکھتے ہیں۔
بھیڑ بکریاں پالنے اور انہیں چرانے کے لیے پہاڑوں پر جانے والوں کو بکروال یا گجر کہا جاتا ہے۔ان کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں بکریاں،بھیڑیں، سواری کے لیے گھوڑے اور حفاظت کے لیے کتے بھی محدود تعداد میں ہوتے ہیں۔بکروال یا گجر زیادہ تر خیبر پختونخواہ، آزاد جموں کشمیر اور پنجاب کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا ذرائع معاش جانوروں کی خریدو فروخت، ان کا گوشت، اون اور چمڑے کی فروخت سے وابستہ ہے۔سردیوں میں یہ قبائل میدانی یا نشیبی علاقوں میں عارضی جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں اور اردگرد کی زمینیں اجارہ سسٹم کے تحت کرائے پر لے کر جانور چراتے ہیں جبکہ گرمیوں میں یہ اپنے جانور لے کر پیدل پہاڑوں مثلا آزاد کشمیر، دیوسائی ، سوات وغیرہ کی بلند چراہ گاہوں پر چلے جاتے ہیں۔یہ عمل صدیوں سے جاری ہے مگر اب کلائمیٹ چینج نے اس قدیم کلچر اور لاکھوں افراد کی معاش کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ بھی شواہد موجود ہیں کہ بکروال برادری کے بہت سے گھرانوں نے چراہ گاہ مالکان سے مسلسل تنازعات اور محکمہ
ءجنگلات کی پابندیوں کے باعث اپنی روایات کے برخلاف کوئی اور ذریعہ ءروزگار اپنا لیا ہے۔
ماحول کے لیے انتہائی اہم بکروال خطرے سے دوچار !
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر محمد نفیس کی ایک ریسرچ کے مطابق بکروالوں کا ماحول اور معیشت کے لیے بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے ، یہ ریسرچ جوانہوں نے برن یونیورسٹی سوئیٹزرلینڈ کے ساتھ مل کر2009 سے لے کر 2012 کے دوران کی تھی صوبہ خیبرپختونخواہ کے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈیویژن کے بکروالوں پر تھی۔ ڈاکٹر نفیس کے مطابق صرف ان علاقوں میں 7,400 بکروال خاندان آباد ہیں جن کے پاس ایک ملین مویشی ہیں اور صرف گوشت، اون اور چمڑے کی مد میں یہ صوبے کی معیشت میں 64 ملین ڈالرز کا حصہ ڈالتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ سرکاری طور پر بکروال کی ملک میں آبادی کے حوالے سے اعدادو شمار موجود نہیں ہیں۔حتی کہ یہ 2017 کی مردم شماری میں بھی شامل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی مستقل رہائشی پتا نہیں ہوتا اس لیے یہ نیشنیل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی میں رجسٹرڈ نہیں ہوتے لہذا ان کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے مستند مردم شماری کے 1931کے انڈیا کے اعدادوشمار موجود ہیں جس کے مطابق تقریبا بیس لاکھ گجر بکروال انڈیا کی 8 ریاستوں میں موجود ہیں۔
ڈاکٹر نفیس کی ریسرچ کے مطابق بکروال بلند ترین چرا گاہوں اور میدانوں کو کھاد ،نائٹروجن اور فاسفورس مہیا کرتے ہیں( یہ نیوٹرینٹ سائیکل فکس کرتے ہیں)۔ ان کے جانوروں سے پولی نیشن ہوتی ہے۔یہ آرگینگ گوشت، اون اور لیدر انڈسٹری کی بیک بون ہیں۔
بکروال پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ چراہ گاہوں پر گنجائش سے زیادہ جانور چراتے ہیں ، درخت کاٹتے ہیں اور جڑی بوٹیاں اسمگل کرتے ہیں مگر پروفیسر نفیس کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے اگر کسی چراہ گاہ پر گھاس کم ہوتی ہے تو وہ دوسری چراہ گاہ پر چلے جاتے ہیں، یہ خود مینیج کرلیتے ہیں۔
عبدالرﺅف بھی اس اعتراض کو رد کرتے ہیں ” ہمارے کچھ اصول ہیں ۔ایک چراہ گاہ پر دس سے زیادہ گھرانے جانور نہیں چراتے۔ محکمہ جنگلات کی جگہ جگہ چیک پوسٹس موجود ہیں ، اگر ایسا ہورہا ہے تو لوگوں کو پکڑ کر سزا دیں۔“
عبدالرﺅف نے تھرڈ پول کو بتایا کہ مشکلات کے باعث بہت سے بکروال اب اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر محنت مزدوری کررہے ہیں اور ان مشکلات میں سر فہرست گرمی، بارشوں اور برف باری کا بڑھنا ہے۔
کلائمیٹ چینج کے مسائل
عبدالرﺅف کالوخیل کا کہنا ہے کہ طویل اور بے موسم بارشوں ،برف باری اور بڑھتے ہوئے درجہ ءحرارت نے ان کے سفر کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہم اپنے گوجری کیلینڈر کے حساب سے بیساکھ کے مہینے( ہندی کیلینڈر کا دوسرا مہینہ) تک سفر شروع کرتے ہیں مگر اب بے موسم بارشیں اور ہارش ویدرسفر کو مشکل کردیتا ہے ۔چراہ گاہ لیٹ پہنچتے ہیں تو جانوروں کو کھلائی پلائی کا وقت کم ملتا ہے۔“
”پاکستان میں سردی کے اواخر میں بارشیں اب زیادہ ہونے لگی ہیں۔“اس حوالے سے محکمہ موسمیات پاکستان کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کے مطابق کچھ ریسرچ اسٹڈی یہ بتاتی ہیں کہ سردی کی ابتدا یعنی دسمبر، جنوری کی بارشیں کم ہوگئیی ہیں اورسردی کے اواخر کی بارشیں بڑھ گئی ہیں جو بدلتے موسموں کا ہی شاخسانہ ہے۔“
عبدالرﺅف نے مزید بتایا کہ ہمارے جانور گرمی کے عادی نہیں ہوتے ہیں۔ہم نے 4 ماہ دیوسائی میں گزارے ہیں جہاں درجہ
ءحرارت 6 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جب کہ اکتوبر میں جب ہم نیچے پنجاب کے میدانی علاقوں میں پہنچتے ہیں تودرجہ ءحرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے ۔ جانور موسم اور درجہ ءحرارت کی یہ تبدیلی برداشت نہیں کرپاتے اور بیمار ہوجاتے ہیں اور انہیں بیچنا پڑجاتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اس سال بھی گلگت بلتستان شدید بارشوں کی زد میں ہے جس کے باعث ہمیں ایک ماہ پہلے ہی واپس آنا پڑگیا۔
“پچھلے سال بھی اکتوبر میں ہم نے 700کے قریب دنبے اونے پونے فروخت کردیے تھے کیونکہ وہ بیمار ہوگئے تھے۔“عبدالرﺅف نے مزید کہا ”اس سال بھی چند روز پہلے گنگا چوٹی کشمیر کی چراگاہ پر جاتے ہوئے ہمارے رشتے داروں کی تین سو بکریا ں ٹیمپریچر کی تبدیلی ( گرمی سے سردی) سے مرگئیں۔“
حکومت پنجاب کی ساﺅتھ فارسٹ کمپنی (پائیدار جنگلاتی وسائل میں سرمایہ کاری) کے سابق سی ای او اور ماہر ماحولیات طاہر رشید ان تمام باتوں سے اتفاق کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بکروال کلچر کو سب سے زیادہ خطرہ کلائمیٹ چینج سے ہی ہے، رین فال پیٹرن ، برف باری کا دورانیہ بدل گیا ہے۔ اگر دیر تک برف موجود ہوگی تو گھاس نہیں مل سکے گی جس سے جانوروں کی صحت متاثر ہوگی اورکمزور جانور وں کی قیمت کم ملتی ہے۔ فریکوئینٹ کلائمیٹ چینج ایونٹ ان کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔
جنگلات سے گزرنے پر پابندی
ایک اور مسئلہ جس پر بکروال سراپا احتجاج ہیں وہ یہ ہے کہ محکمہ ءجنگلات نے خیبر پختونخواہ سے ان کے پیدل گزرنے پر پابندی لگائی ہے ۔ اس حوالے سے فارسٹ ڈپارٹمنٹ خیبر پختونخواہ کے ایاز خان نے وضاحت کی کہ صوبے میں بلین ٹری سونامی کے تحت لگائے گئے پودوں کی حفاظت کے لیے بکروالوں اور ان کے مویشیوں کے پیدل چلنے پر پابندی ہے البتہ گاڑیوں میں یہ گزر سکتے ہیں۔
ایاز خان نے مزید کہا کہ بکروالوں کے ہزاروں جانورجب جنگلات سے گزرتے ہیں تو چھوٹے پودے کھا جاتے ہیں اور بکریاں پودے کو جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں ، اس طرح ساری انوسٹمنٹ ضائع ہوجاتی ہے۔
لیکن بکروال جانوروں کو گاڑیوں میں لے جانے کے حوالے سے پریشان ہیں ۔ کیونکہ خراب سڑکوں پر جب ٹرک اچھلتے ہیں تو ان میں موجود بھیڑ بکریاں زخمی ہوجاتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ لوگ گاڑیوں کاخرچ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔اس لیے یہ اپنے جانوروں کو پیدل لے جانے میں زیادہ فائدہ سمجھتے ہیں۔
سلطان کا کہنا ہے کہ ” ٹرکوں میں جانور اتارے چڑھانے میں اکثر بکریاں مرجاتی ہیں جس سے ہمارا نقصان ہوتاہے ۔“
بکروالوں کے حوالے سے ایک کشمیری ریسرچرپروفیسر جمیل کھٹانہ کے مطابق تین دہائی پہلے تک بکروالوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں جانور ہوتے تھے جو اب صرف چند سو تک محدود ہوگئے ہیں کیونکہ چراہ گاہوں کو زرعی زمین میں تبدیل کیا جارہا ہے۔
بکروال کا تحفظ کیسے کیا جائے
بکروال کی آبادی اورمویشیوں کی تعداد کے حوالے سے مستند اعدادو شمار موجود نہیں ہیں ۔ پروفیسر نفیس کے مطابق صرف خیبرپختونخواہ کے ہزارہ اور مالا کنڈ ڈیویژن میں بکروال کمیونٹی کی آبادی 50 ہزارافراد پر مشتمل ہے۔
سابق آئی جی پنجاب سید ناصر محمود کے مطابق
کو پاکستان نے ریٹیفائی The United Nations Declaration on the Rights of Indigenous Peoples (UNDRIP) 2007
کیا ہے۔ لہذا حکومت پر لازم ہے کہ ان کے صدیوں پرانے کلچر کو تحفظ دے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے پالیسی بنائے۔
”حکومت نیشنل پارک ضرور بنائے مگر بکروال کو ان قونین میں ضرور شامل کرے۔“ انہوں نے تھرڈپول سے بات کرتے ہوئے کہا۔” یہ بکروال قبائل صدیوں سے ان ہی راستوں پر سفر کررہے ہیں اور انہیں روکنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔“
طاہر رشید کہتے ہیں کہ حکومت ان کے رول اور حقوق کو تسلیم کرے اور جو خدمات یہ مہیا کرتے ہیں اسے جی ڈی پی میں شامل کرے۔ پروٹیکٹڈ ایریا ز میں ان پر پابندی لگانے کے بجائے انہیں اکوموڈیٹ کرے۔ ان کے سفر کے لیے نئے کلائمیٹ کیلینڈر ڈیولپ کرے۔ ویدر الرٹ سسٹم ان تک پہنچائے تاکہ یہ اس حساب سے خود کو ایڈجسٹ کرسکیں۔
پروفسیر ڈاکٹر محمد نفیس انھیں فاریسٹ پالیسی میں شریک کرنے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے سیکھ سکتے ہیں۔ جہاں بکروال قومی پالیسی کے ہر شعبے کا لازمی حصہ ہیں۔پروفیسر نفیس کے مطابق پالیسی کا حصہ بنا کر ہی ہم اس کلچر کو بچا سکتے ہیں۔ چراگاہوں اور زرعی زمینوں کے لیے کوئی سسٹم بنایا جاسکتا ہے کہ مخصوص بلندی کے بعد کی زمین چراگاہ تصور ہوگی۔ ان کے مویشیوں کی پراپر ویکسینیشن ہو تاکہ یہ موسموں کی سختی جھیل سکیں۔ موبائل اسکول، ہیلتھ سسٹم اور موبائل عدالتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگران کے مسائل حل نہیں کیے گئے تو یہ لوگ اپنا پیشہ بدل سکتے ہیں اور ایسا ہوا تو پاکستان نہ صرف روایتی اور سستی لائیو سٹاک کی پیداوار سے محروم ہوجائے گا بلکہ گوشت، چمڑے اور اون کی صنعت پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے اور پہاڑوں کا ایکو سسٹم بھی غیر متوازن ہوجائے گا۔