حیاتی ماحول

خدشہ ہے کہ پرفانی اور عام چیتے ایک دوسرے کے حریف بن جائیں گے

چونکہ آب و ہوا کی تبدیلی برفانی چیتے کو زیریں علاقوں میں منتقلی پر مجبور کررہی ہے ، انہیں نئے خطرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بشمول عام چیتوں کے جو کہ اسی وجہ سے بالائی علاقوں کا سفر کررہے ہیں--- عالمی برفانی چیتے کے دن پر ایک رپورٹ-

ہمالیہ میں اچانک شدید  برفباری کےدورانیے – آب و ہوا کی تبدیلی کا اثر ہیں جو برفانی چیتے کو نچلے علاقوں  کی طرف مجبور کررہے ہیں ، جہاں انکا ٹکراؤ موسمی تبدیلی کی وجہ سے اوپر کی جانب سفر کرنے والے دوسرے جانوروں سے ہوتا  ہے ، جن میں عام چیتے شامل ہیں۔ –  تحفظ پسندوں کو خدشہ ہے کہ اس سے معدودیت سے دوچار برفانی چیتوں کے لئے خطرات میں اضافہ ہوگا ، جو پہلے ہی قدرتی ماحول کی تباہی اور غیر قانونی شکار کے دباؤ میں ہیں۔

سکم میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے ایک ہی کیمرہ ٹریپ  سے برفانی چیتوں اور عام چیتوں کی تصاویر لیں۔ سیکڑوں کلومیٹر مغرب میں  ہمالیہ میں ایک اور ہندوستانی ریاست اترا کھنڈ کے مکین اب سردیوں میں برفانی چیتے اپنے دیہات کے قریب گھومتے ہوئے دیکھ رہے ہیں  جب اس موسم میں زیادہ تر انسانی باشندے مزید نچلے حصّوں کی طرف چلے جاتے ہیں- شمالی پاکستان سے بھی اسی طرح کے واقعات کی اطلاع ملی ہے۔

A snow leopard checks out a camera trap
A snow leopard checks out a camera trap [image by: Rishi Kumar Sharma]

مادھویندرہ سنگھ ان چند باشندوں میں شامل ہیں جو  موسم سرما کےدوران  ہرسل میں رہتے ہیں- یہ موسم گرما کے  مصروف زیارت گاہ اور گنگا کے ماخذ، گنگوتری کے راستے میں سطح سمندر سے 2،745 میٹر بلند ایک گاؤں ہے- “2018 کے موسم سرما میں بہت برف باری ہوئی۔” ،  انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا-  “اترکاشی کے قریب جھالا گاؤں میں، جو 2،200 میٹر کی اونچائی پر ہرسل سے نیچے ہے، برفانی چیتے کی تصویر لی گئی۔ سن 2019 کے موسم سرما میں بھی برفانی چیتے زیریں علاقوں میں دیکھے گۓ تھے۔” جانور عام طور پر تقریباً 3،000 میٹر اوپر درختوں کی قطار اور گلیشیر خطے کے لگ بھگ 6،000 میٹر کے درمیان رہتا ہے۔

“عام طور پر ، برفانی چیتے چھپے رہتے ہیں۔ کون جانے، جب زیادہ تر لوگ سردیوں میں نیچے کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں تو ، وہ ہمارے گاؤں کے گرد گھوم رہے ہوں”،  سنگھ نے مزید کہا۔ “ہم نے پہلے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔”

اس خطے کا بڑے قصبے، اترکاشی کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر سندیپ کمار نے اتفاق کیا کہ اب برفانی چیتے کے بارے میں مقامی لوگوں میں زیادہ دلچسپی ہے۔

“جب سردیوں میں شدید برفباری  پڑتی  ہے تو  برفانی چیتے 3،000 میٹر سے نیچے اتر آ تے ہیں”، کمار نے دی تھرڈ پول کو بتایا- “ان کے شکار – بھرال (نیلی بھیڑیں) ، کستوری ہرن ، ہمالیہ تھر ، آئبیکس – خوراک کی تلاش میں نیچے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ گذشتہ نومبر اور فروری کے درمیان ، بھرال کا ریوڑ اترکاشی کی سمت گنگوتری نیشنل پارک سے  50 کلومیٹر نیچے اترتے دیکھا گیا- اگر بھرال وہاں موجود ہیں تو برفانی چیتوں کا بھی وہاں ہونا ضروری ہے۔ ”

بڑی حدود، کم تعداد

ہندوکش ہمالیہ اور وسطی ایشیاء میں برفانی چیتوں کی ایک بہت بڑی رینج ہے۔ وہ ممالک جو انکی حدود میں شامل ہیں وہ افغانستان ، بھوٹان ، چین ، ہندوستان ، کازخستان ، کرغزستان ، منگولیا ، نیپال ، پاکستان ، روس ، تاجکستان اور ازبکستان ہیں۔ لیکن چٹانوں اور برفیلی گھاٹیوں کی انتہائی دشوار دنیا میں جہاں وہ رہتے ہیں ، ان کی تعداد کم ہے- تخمینہ 3،500 اور 7،000 کے درمیان ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر  نے برفانی چیتے کو “خطرے سے دوچار” قرار دیا ہے- موسم کی تبدیلی کی وجہ سے برفانی چیتے کی رینج عام چیتے کے ساتھ متصادم ہونے لگی ہے جسکی وجہ سے انکے لئے  خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ دونوں کا بنیادی  شکار ایک ہی ہے-

دہرادون میں واقع   وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ڈبلیو آئی آئی ) کے سائنس دان ایس ستیہ کمار کے مطابق ، ہندوستان میں تقریبا 516 برفانی  چیتے موجود ہیں۔ اس میں جموں وکشمیر میں 285 ، ہماچل پردیش میں 90 ، اتراکھنڈ میں 86 اور سکم میں 13 اور اروناچل پردیش میں 42 شامل ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ ہندوستان کی وزارت ماحولیات 2022 کے آخر تک آبادی کا موجودہ تخمینہ مکمل کرلے گی۔

A snow leopard shelters below a cliff overhang
ڈبلیوڈبلیو ایف کی جانب سے برفانی چیتے کی حد کا نقشہ

موسمیاتی تبدیلی اور دیگر اثرات

جموں وکشمیر ، ہماچل پردیش ، اتراکھنڈ اور سکم میں ، مرکزی وزارت ماحولیات اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام بائیو ڈائورسٹی اور مقامی معشیت کے تحفظ کے لئے   سکیور ہمالیہ پروجیکٹ چلارہے ہیں برفانی چیتوں کی حفاظت اس منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

اتراکھنڈ کے پروجیکٹ افسر ، اپرنا پانڈے نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، “ہرسل کے قریب اور سکم میں نچلے علاقوں پر برفانی چیتے نظر آنے کا مطلب موسمیاتی تبدیلی ان کے ٹھکانوں کو متاثر کررہی ہے۔ وہ خوراک اور پانی کی تلاش میں نیچے کی طرف جارہے ہیں۔”

بین الاقوامی کرایوسفیر کلائمیٹ انیشی ایٹو کے مطابق ، ہمالیائی خطے میں سالانہ اوسط درجہ حرارت پہلے ہی قبل از صنعت دور سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے۔ یہ 1C سے تھوڑا اوپر اوسط عالمی اضافے سے کہیں زیادہ ہے- اسنو لیوپارڈ ٹرسٹ کے مطابق تبت کے مرتفع پر اوسط درجہ حرارت میں اس عرصے میں 3 درجہ اضافہ ہوا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے ، آب و ہوا کی تبدیلی ہر جگہ بارش اور برف باری کی ساخت کو بھی متاثر کررہی ہے۔

ہمالیہ میں اچانک شدید برف باری کے دورانئے ان اثرات کا ایک حصہ ہے۔

ہمالیہ میں پھولوں اور پھلوں کا دائرہ حیات زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے بھی تبدیل ہو رہا ہے، ایس ستیہ کمار نے کہا- “پھول جو مئی میں کھلتے تھے اب اپریل میں کھلتے ہیں۔ پچھلے 20 سالوں سے اس کا مطالعہ کرتے ہوئے ، ہمیں پتہ چلا ہے کہ ان پودوں پر منحصر جانور بھی اپنی سرگرمیاں تبدیل کر رہے ہیں۔ اگر برفانی چیتے کا شکار نچلے علاقوں کی طرف منتقل ہوتا ہے تو وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ”

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ بلند ہمالیہ میں سڑک کی تعمیر اور کان کنی برفانی چیتے کے ٹھکانوں کو متاثر کررہی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف انڈیا کی 2015 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی بلند ہمالیہ میں پودوں کی  ساخت  میں ردوبدل کر رہی تھی ، اور اگنے والے نئے پودے اور گھاس بھیڑوں ، بکریوں اور ہرنوں کی اقسام کی پسندیدہ خوراک نہیں رہے جو برفانی چیتے کے شکار تھے۔ اس پر مزید یہ کہ ، ہوا خشک تر ہوتی جارہی تھی اور موسمی پانی کی دستیابی تبدیل ہوتی جارہی تھی کیونکہ گلیشیئر سال کے شروع میں پگھل رہے تھے- رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یہ سب برفانی چیتوں کے پناہ گاہوں میں ایک تہائی کمی کر سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ برفانی چیتے کی  پناہ گاہیں  پہلے ہی 20٪ کے قریب سکڑ چکی  ہیں۔

مدمقابل

ایک برفانی چیتا گہری برف سے گزر رہا ہے [تصویر بشکریہ رشی کمار شرما]
ایک برفانی چیتا گہری برف سے گزر رہا ہے [تصویر بشکریہ رشی کمار شرما]

اترکاشی کے جنگل بان سندیپ کمار نے بتایا کہ چونکہ برفانی چیتے قدرے کم اونچائی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، عام چیتے (جن کے ٹھکانے میں جنگلات اور نچلی سطح پر جنگلات شامل ہیں) اوپر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ “موسم سرما میں برفانی چیتے 3،000 میٹر سے نیچے دیکھنا حیرت کی بات نہیں ہے۔ میں نے 3500 میٹر کی بلندی پر بھی عام چیتے کو دیکھا ہے۔ ”

ڈبلیو ڈبلیو ایف انڈیا کے رشی کمار شرما نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، “یہ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ درختوں کی قطار   اوپر کی طرف بڑھنے کی وجہ سے ہے۔ برفانی چیتے اور عام چیتے ایک دوسرے سےمتصادم ہوں گے۔ اس سے برفانی چیتوں کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوںگی ، کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی ان کی پناہ گاہیں محدود کرے گی- دونوں جانور ایک جیسے سائز کے ہیں ، خوراک کی ایک جیسی عادات رکھتے ہیں۔ وہ مستقبل میں حریف بن سکتے ہیں ، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی عام چیتے کےٹھکانوں کو توسیع دے گی جبکہ  برفانی چیتے کے ٹھکانوں کومحدود کرے گی۔”

شرما نے مزید کہا کہ برفانی چیتے کے تمام شکاروں کو پہلے ہی سکڑتے ٹھکانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ وہ بھی پوچنگ کا شکار ہیں۔

“اس سے برفانی چیتے متاثر ہونگے۔ ہمالیہ کے بالائی خطے کا زیادہ مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس معیاری کوائف نہیں ہیں جن کی بنیاد پر تحفظ کی پالیسیوں کو بنایا جائے۔ ”  اس جانور کا نیپال میں دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ قریب سے مطالعہ کیا گیا ہے اور اس لئے محققین کے مابین مزید تعاون کا کیس بھی موجود ہے-

تحفظ کی کوششیں

برفانی چیتے کو بچانے کے لئے قومی اور بین الاقوامی کوششیں ہو رہی ہیں ، جن میں سے کچھ مقامی رہائشیوں کے لئے بھی بہت مددگار ثابت ہوئی ہیں-

اس اگست، اتراکھنڈ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اتراکشی کے قریب ہندوستان کا پہلا برفانی چیتے کے تحفظ کا مرکز قائم کرے گی۔ ریاستی حکومت کو امید ہے کہ اس سے موسم سرما کی سیاحت کو فروغ ملے گا – برفانی چیتے کے بہت سے شوقین ہر موسم سرما میں ہماچل پردیش جاتے ہیں ، جبکہ یہ لداخ میں ماحولیاتی سیاحت کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔

ہماچل پردیش میں اس وقت بہت جوش و خروش دیکھنے میں آیا جب برفانی چیتے کے بچے کو پھندے سے آزاد کرایا گیا اور اس موسم گرما  کچھ ہفتوں کے بعد جنگل میں واپس لوٹا دیا گیا- اگرچہ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ بچہ زندہ بچ گیا یا نہیں، تاہم اس واقعے سے برفانی چیتے کے سیاحت کو فروغ  ملنے کی توقع ہے۔

ورشا سنگھ اتھارکھنڈ کے دہرادون میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں۔ وہ ماحولیات ، ماحولیاتی تبدیلی ، معاشرتی پہلوؤں اور لوگوں کے تحفظات سے متعلق امور پر لکھتی، اور @BareeshVarsha پر ٹویٹس کرتی ہیں-