پانی

پاکستان – انفراسٹرکچر پر خصوصی توجہ کا اب وقت آگیا ہے

پاکستان - بھارت کشیدگی میں سندھ طاس معاہدہ بھی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے کمزور اور فرسودہ نظام کی تعمیر نو اور درستگی کرے-
اردو
<p>The Shigar, a tributary to the Indus, winds through Skardu [image by Zofeen T Ebrahim]</p>

The Shigar, a tributary to the Indus, winds through Skardu [image by Zofeen T Ebrahim]

حال ہی میں انڈین آرمی کے ایک دستے پر تخریبی کارروائی کا بعد سے پاکستان-انڈیا کشیدگی کا رخ سندھ طاس معاہدے کی طرف مڑ گیا ہے- ایک طرف انڈین مبصرین معاہدے کی منسوخی یا معطلی کی باتیں کررہے ہیں دوسری طرف انڈین وزیر اعظم کو بھی یہ کہتے سنا گیا ہے کہ “خون اور پانی دونوں ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے “، اس صورتحال نے پاکستان کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے- پاکستان، بھارت کا نشیبی پڑوسی ہے اور اپنے میٹھے پانی کے وسائل کے لئے انڈیا کے راستے بہنے والے دریاۓ سندھ، جہلم اور چناب پر انحصار کرتا ہے-

فی الحال، بھارت نے فقط سندھ طاس کمشنرز کے درمیان تازہ ترین میٹنگ ہی کی منسوخ کی ہے اور معاہدے کے تحت اپنے آبی ذخائر کے بہتر استعمال کا عندیہ دیا ہے-

دیکھیں : سندھ طاس معاہدہ اور تازہ ترین بحران

دیکھیں : انڈیا کی طرف سے سندھ طاس کمشنروں کی میٹنگ معطل

پاکستان کے سندھ طاس کمشنر، مرزا آصف بیگ، کہتے ہیں کہ بھارت معاہدے سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھانے کے لئے اس سے حاصل ہونے والے تمام مواقعوں کو ہائیڈرو پاور اور زرعی پروجیکٹس کے لئے استعمال کرسکتا ہے- “اگر یہ منصوبے معاہدے میں متعین کردہ ڈیزائن اور آپریشنل معیار کے مطابق ہوۓ تو پاکستان ان پر اعتراض نہیں کرسکتا-“

بہرحال انہوں نے ساتھ یہ بھی اضافہ کیا، “بھارت کے مستقل رویہ کے پیشنظر ممکن ہے کہ وہ اپنے پروجیکٹس اس انداز میں بناۓ جیسے ان کے ڈیزائن اور آپریشن کے لئے معاہدے میں کوئی مخصوص ہدایت یا پابندی موجود نہیں اورایسے ڈیزائنز کے جواز کے لئے وہ مقامی حالت اور حاصل فوائد کو بنیاد بناۓ گا-“

کشن گنگا کیس کی مثال دیتے ہوۓ بیگ صاحب نے کہا، ” کشن گنگا کیس میں ثالثی عدالت نے یہ واضح کردیا تھا کہ معاہدے کی رو سے فوائد کے مکمّل حصول کی اجازت نہیں؛ بھارت معاہدے کے تحت دیے گۓ ریگولیٹری حدود کے اندر رہتے ہوۓ ان منصوبوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے-“

لیکن پاکستان کے ٹاپ آبی ماہر، خالد موحتدللہ کے مطابق بھارت بالائی ساحل پر واقع ہے اور موجودہ صورتحال میں پانی کے ساتھ گڑبڑ کرسکتا ہے-

اور اگر بھارت سنگین اقدامات کرتا ہے، یعنی “دریائی پانی کا بہاؤ نشیبی حصّے میں جانے سے روکتا ہے تو پاکستان کے لئے سراسر تباہی ہوگی”، واشنگٹن ڈی سی سے ووڈرو ولسن سینٹر کے ایک سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کگلمین نے بتایا-

بہرحال، گلوبل واٹر پارٹنر (GWP) اور انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ (IWMI ) کے سینئر ایڈوائزر جناب موحتدللہ (سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کی دھمکیوں سے متعلق) کہتے ہیں کہ پاکستان کو دباؤ میں آکر اپنے آبی حقوق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے- ” بھارت سخت جذباتیت کا مظاہرہ کررہا ہے “، انہوں نے مزید کہا-

بیگ صاحب، خالد موحتدللہ کی تائید کرتے ہوۓ مزید وضاحت کرتے ہیں، ” سندھ طاس معاہدے کا مقصد پاکستان اور انڈیا کے مابین آبی شراکت داری کے معاملات سے نمٹنا ہے- اس معاہدے کا بشمول کشمیر دیگر بیرونی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں- چناچہ بھارت کا موجودہ رویہ معاہدے کی دفعات کے خلاف ہے-“

” امید ہے بھارت کو یہ احساس ہوجاۓ گا کہ معاہدے پر ایماندارانہ اور شفاف عمل درامد اس کے اپنے لئے فائدہ مند ہے- پاکستان کے حقوق کا احترام اور ذمہ داری کا احساس خطّے کی امن و سلامتی اور ترقی کے لئے ناگزیر ہیں”، مرزا آصف بیگ نے دی تھرڈ پول کو بتایا- وہ ورلڈ بینک کے عہدےداروں سے ملاقات کے لئے واشنگٹن میں موجود تھے-

اور جہاں تک بھارت کے پانی روکنے کا سوال ہے اس میں تھوڑا وقت لگے گا-

“پاکستان تک پانی کا بہاؤ روکنے کے لئے جتنی گنجائش درکار ہے اسکی تیاری میں کچھ سال لگیں گے”، مائیکل کگلمین نے بھی اس سے اتفاق کیا، لہٰذا پاکستان کے پاس انتظامات کرنے کے لئے وقت ہے-

“بھارت چند ہفتوں یا مہینوں میں پانی نہیں روک سکتا- پانی روکنے یا کم کرنے یا اسکا رخ موڑنے کے لئے انفراسٹرکچر چاہیے جس کی تیاری میں سالوں لگیں گے”، جغرافیہ اور پانی کے تحفظ کی ماہر سیمی کمال کہتی ہیں- وہ امید کرتی ہیں کہ جلد ہی صورتحال بہتر ہوجاۓ گی لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں، ” انڈس سسٹم کا بہاؤ روکنے یا کم ہونے کی صورت میں ہمیں کم پانی کے ساتھ طویل عرصہ تک انتظامات چلانے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی-“

خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور اب ضروری ہے کہ پاکستان اپنا تجزیہ کرے اور اپنے آبی وسائل کے انتظامات درست کرے- ساتھ ہی ماہرین کو بھی یہ موقع ملا ہے کہ گورنمنٹ سے یہ سوال کرے کہ آیا کسی قسم کی ہنگامی صورتحال کے لئے منصوبہ بندی کی گئی ہے یا نہیں-

“پانی کا ایک ایک قطرہ قیمتی ہے، اسے محفوظ کیا جانا چاہیے”، موحتدللہ اس بات پر زور دیتے ہووے مزید کہتے ہیں، ” تاکہ ایسے کسی بھی قسم کے جھٹکے کو ہم برداشت کرسکیں- موجودہ صورت حال سے قطع نظر ہمیں بہتر آبی انتظامات کے ذریعہ اپنی زراعت میں پانی کا استعمال بہتر بنانا ہوگا- انکا اشارہ آب پاشی میں استعمال ہونے والے پچانوے فیصد پانی کی طرف تھا، جوکہ ایک غیر مستحکم تناسب ہے-

بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے اس بحران سے نمٹنے کے لئے بہت کم غوروغوض دیکھنے میں آیا ہے-

موحتدللہ تجویز کرتے ہیں کہ گنے اور چاول کے علاوہ دوسری فصلیں اگائی جائیں (دونوں کے لئے ہی بہت سارا پانی درکار ہوتا ہے)، زرعی علاقوں کی معقول تقسیم کی جاۓ تاکہ مناسب ماحولیاتی حالات میں صحیح زمین پر صحیح فصل اگائی جاسکے اور باضابطہ سائنسی تحقیق پر مبنی زراعت پر غور کیا جاۓ- “اس طرح محفوظ شدہ پانی خشک علاقوں جیسے سندھ کے زیریں میدان، جنوبی پنجاب اور مشرقی بلوچستان کو فراہم کیا جاسکتا ہے تاکہ وہاں سے مفلسی کا خاتمہ ہوسکے”، انہوں نے کہا-

وقت کی سب سے اھم ضرورت اس وقت ذخیرہ اندوزی ہے، موحتدللہ کہتے ہیں- ” تالابوں کی شکل میں، ہر جگہ، ہر قسم کے چھوٹے بڑے ڈیم-“

” ہم بہت سا پانی ضائع کردیتے ہیں، دریاؤں کو صحتمند رکھنے کے لئے ماحولیاتی بہاؤ سے کہیں زیادہ”، انہوں نے کہا-

1976 میں تربیلا ڈیم کے بعد سے اب تک کوئی بڑا ڈیم پاکستان میں تعمیر نہیں کیا گیا- منگلا ڈیم ملا کر دریاۓ سندھ کے دو بڑے آبی ذخائرپاکستان سے سالانہ گزرنے والے پانی کے ایک سو پینتالیس ملین ایکڑ فیٹ کا صرف چودہ ملین ایکڑ فیٹ ذخیرہ کرسکتے ہیں وہ بھی صرف تیس دن کے لئے، جبکہ آبی ذخائر کا بین الاقوامی معیار ایک سو بیس دن ہے-

آئی ایم ایف 2015 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبی طلب بڑھتی جارہی ہے جوکہ 2025 تک دو سو چوہتر ملین ایکڑ فیٹ ہوجاۓ گی جبکہ سپلائی ایک سو اکانوے ملین ایکڑ فیٹ تک ہی متوقع ہے، نتیجتاً ڈیمانڈ اور سپلائی کے بیچ تقریباً تراسی ملین ایکڑ فیٹ کا فرق متوقع ہے- ” فی فرد پانی کی فراہمی میں سنگین کمی کی سب سے بڑی وجہ ہمارے بےتحاشا بڑھتی ہوئی آبادی ہے”، ماہر ماحولیات، شفقت کاکاخیل کہتے ہیں- شفقت کاکاخیل، یو این انوائرنمنٹل پروگرام (UNEP ) کے لئے بطور ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر خدمات انجام دے چکے ہیں اس کے علاوہ یو این کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں-

ورلڈ پاپولیشن پروسپیکٹس 2015 کے مطابق، ملک کی موجودہ آبادی تقریباً ایک سو نوے ملین ہے- سنہ 2030 تک یہ دو سو چوالیس ملین ہوجاۓ گی، اور اکیسویں صدی پوری ہونے تک تین سو چونسٹھ ملین کا تخمینہ لگایا گیا ہے- بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ طلب بھی بڑھتی جاۓ گی-

کگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے ہی سے پانی کی شدید کمی کا شکار ہے- پاکستان مٹیورو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ (PMD ) کے ڈائریکٹر جنرل، جناب غلام رسول کے مطابق سنہ 2025 تک پانی کمیاب ہوجاۓ گا- پاکستان میں پانی کی سالانہ فراہمی فی فرد ایک ہزار سترہ کیوبک میٹرز ہے جوکہ خطرناک حد تک ایک ہزار کیوبک میٹرز کے قریب ہے- اس سے نیچے جانے پر ایک ملک کو پانی کی قلّت کا شکار ملک تصور کیا جاتا ہے-

پانی کے اہم وسائل کی طرف سے کسی قسم کی کمی انتہائی سنگین حالات پیدا کردے گی- “مثال کے طور پر کاشتکار جوکہ پہلے ہی گھٹتے ہوۓ دریاۓ سندھ کی وجہ سے جدوجہد کررہے ہیں، ان کے لئے پانی بلکل ناپید ہوجاۓ گا”، کگلمین نے نشاندہی کی-

“ہونا تو یہ چاہیے کہ پانی بند ہونے کی دھمکی پر پاکستانی سیاسی لیڈرشپ کسی سنگین صورتحال کی پیش بندی اور اپنا قیمتی پانی محفوظ رکھنے کی خاطر انتہائی اقدامات کرنے کے لئے حرکت میں آجاۓ— جیسا کہ قیمتوں کا تعین کرنے کے لئے ایسے منصوبے بناۓ جائیں جن میں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے پر صارف جرمانہ ادا کرے، ایسے مراعاتی منصوبے متعارف کرائیں جائیں جن میں آبپاشی کے لئے کم پانی استعمال ہو، وغیرہ وغیرہ”، مائیکل کگلمین نے کہا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا، ” لیکن میرے خیال سے حقیقت میں بھارت کو پاکستان جواب میں صرف غصّے کا اظہر اور دھمکیاں ہی دیگا، اس بات پر کم ہی غور کیا جاۓگا کہ کس طرح وہ خود کو بھارت کی آبی سازشوں سے محفوظ کرسکتا ہے-“

سائیڈ بار:

آگے کی جانب قدم:

Thethirdpole.net سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوۓ، UNEP کے سابق سیکرٹری جنرل اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (SDPI ) کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرپرسن جناب شفقت کاکاخیل نے پاکستان کے آبی مسائل سے نمٹنے کے لئے مندرجہ تجاویز پیش کیں:

١. قدیم طریقہ آبپاشی کی جگہ (جس میں کھیتی باڑی اور بیج کاری سے تھوڑا پہلے کھیتوں میں ڈھیروں پانی چھوڑکر پھر اس کے خشک ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے) جدید آبپاشی کا نظام متعارف کرایا جاۓ- پانی کی بچت والے آبپاشی کے طریقے جیسے چھڑکاؤ اور قطرہ پاشی سے صورتحال میں بہتری ممکن ہے-

٢. کمزور اور فرسودہ آبی انفراسٹرکچر (ڈیم، نہریں،چینلز ) وغیرہ کی مرمّت کی جاۓ- ڈیم سے کھیتوں تک پہنچنے میں تقریباً چالیس فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے اسکی روک تھام کے لئے نہروں اور چینلز کی استرکاری کی جاۓ-

٣. پانی کی بچت کے لئے قیمتیں بڑھائی جائیں تاکہ محکمہ آبپاشی کے عملے کے لئے فنڈز حاصل ہوسکیں-

٤. ایسا میکانزم تیار کیا جاۓ جو زمینی پانی کی برآمدگی کو ریگولیٹ کرسکے کیوں اس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے-

٥. روایتی دیہاتی تالابوں اور جوہڑوں کی بحالی کو فروغ دیا جاۓ جس سے زمینی آبی ذخائر بڑھیں گے-

٦. عصری تقاضوں پر مبنی بارشی پانی اور سیلابی پانی کی ذخیرہ اندوزی کے انتظامات کیے جائیں- گھریلو سطح پر بارشی پانی کی ذخیرہ اندوزی آسان بھی ہے، سستی بھی اور کارآمد بھی، گھروں کی تعمیر کے وقت اسے لازم قرار دیا جانا چاہیے-

٧. فیکٹریوں خاص کر SMEs میں پانی کی ترسیل کے لئے سخت قاعدے بناۓ جائیں اور گندے پانی کی صفائی پر زور دیا جاۓ-

٨. پاکستان آبی وسائل کے لئے انتظامی اسکولوں اور پالیسی ڈویلپمنٹ کے لئے تربیتی اداروں میں سرمایہ کاری کرے-

٩. مرکزی و صوبائی سطح پر موجود، پانی سے متعلق نصف درجن یا جتنے بھی ادارے ہیں ان کے بیچ کوآرڈینیشن اور ربط ہونا چاہیے –

١٠. پانی کے شعبے کو بھی اہمیت دی جاۓ- مرکزی وزارت میں موجود واٹر اینڈ پاور کے پانچ جوائنٹ سیکرٹریز میں سے صرف ایک پانی کا شعبہ دیکھتا ہے باقی تین بجلی (جوکہ زیادہ تر پرائیویٹائزڈ ہے) سے متعلق ہیں جبکہ ایک انتظامیہ سنبھالتا ہے-

١١. آبی پالیسی کی حتمی شکل، جس کا سب سے اھم حصّہ ایک مربوط آبی نظام ہونا چاہیے، ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہے- اس سے کم ز کم مرکزی و صوبائی مینڈیٹ اور ذمہ داریوں کا تعین ہوسکے گا- ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اس وقت قومی آبی پالیسی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے-