پانی

سیٹلائٹ اور ایس ایم ایس کی معاونت سے پاکستانی کسان بہتر آبپاشی کر رہے ہیں

ناسا سے حاصل کردہ ڈیٹا استعمال کرکے، پاکستان واٹر ریسرچ ایجنسی دس ہزار کسانوں کو بارش کی پیشگی معلومات فراہم کررہی ہے جس سے نظام آبپاشی مؤثر اور فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے
اردو
<p> تصویر بشکریہ عادل احمد</p>

تصویر بشکریہ عادل احمد

محمّد اشرف ایک کسان ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح اسلام آباد میں بیٹھے لوگ ان کے گاؤں میں اگلے دو دنوں میں ہونے والی بارش کی پیشنگوئی کرلیتے ہیں- انہیں اس بات پر بھی تعجب ہے کہ اس پیشنگوئی کی بنیاد پر وہ یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ چاول اور گنے کی فصل کو کتنا پانی لگایا جانا چاہیے

میں حیران ہوں کہ سائنس ایسی باتوں کی پیشنگوئی کرسکتی ہے جوکہ انسان کے لئے نامعلوم ہیں اور جس پر صرف خدا کا اختیار ہے” چھتیس سالہ کسان محمّد اشرف کہتے ہیں- ہر جمعہ کے دن انہیں اردو زبان میں ایک ایس ایم ایس موصول ہوتا ہے، جس میں لکھا ہوتا ہے:  “عزیز کسان دوست، آپکی اطلاع کے لئے 21 اور 28 جولائی 2017 کے درمیان آپ کے علاقے (بہاول نگر) میں فصلوں کے لئے ( کپاس 1.6 اور گنا 1.7 انچ ) پانی درکار ہوگا- اگلے ہفتے آپ کے علاقے کے بعض حصّوں میں بارش کا امکان ہے چناچہ براۓ مہربانی اسی مناسبت سے فصلوں کو پانی دیں-”

یہ ایس ایم ایس، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR ) کی جانب سے بھیجا جاتا ہے، یہ ایک حکومتی ایجنسی ہے جوکہ پانی پر تحقیق سرانجام دے رہی ہے- اشرف صاحب یہ جان کر شاید مزید حیران ہوں کہ یہ معلومات خلاء سے حاصل کی جاتی ہیں-

” زمین کی حرکت ناپنے والے سیٹلائٹس اور ماڈلز کے ذریعہ ہم ایک مخصوص وقت اور مخصوص علاقے کی فصلوں کے لئے پانی کے تناسب کا تعین کرتے ہیں”، واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک ریسرچ گروپ سسٹینیبلٹی، سیٹلائٹ، واٹر اینڈ انوائرنمنٹ (SASWE ) کے سربراہ فیصل حسین کہتے ہیں، اس گروپ نے ایسا پروگرام تیار کیا ہے جوکہ ” پورے ملک کے لئے مناسب لاگت اور پائیدار انداز میں فصلوں کے پانی کا تعین کرے-”

اشرف صاحب، جوکہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں حیات پور میں رہتے ہیں اب ان پیغامات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں- پانچ سال پہلے وہ PCRWR کے آبی ماہرین سے ملے جو زمینی پانی کے تحفظ اور فصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لئے سروے کررہے تھے- سروے کے دوران ماہرین کو معلوم ہوا کہ کسان فصلوں کو ضرورت سے زیادہ پانی دے رہے تھے- انہوں نے اشرف صاحب کے بارہ ایکڑ کھیت میں پانی کا میٹر نصب کیا اور انہیں بتایا کہ اگر تیر کا نشان ڈائل پر موجود سبز جانب مڑ جاۓ تو فصلوں کے پاس وافر پانی ہے اور جب سرخ رنگ کی جانب مڑے تو فصلوں کو پانی دینے کی ضروت ہے-

” گاؤں کے دیگر کسانوں کی طرح میں نے بھی انکی باتوں پر یقین نہیں کیا، ہم جدی پشتی کسان ہیں اور جانتے ہیں کیا چیز کارآمد ہے اور کیا نہیں”، اشرف صاحب نے دی تھرڈ ول ڈاٹ نیٹ کو بتایا- لیکن اگلے سال، انہوں نے فیصلہ کیا کہ فصلوں کو پانی تبھی دیں گے جب میٹر پر تیر کا نشان سرخ جانب ہو- اس سال ان کے یہاں پیداوار بھی زیادہ ہوئی، ٹیوب ویل کو چلانے کے لئے ڈیزل بھی کم لگا- نتیجتاً گاؤں کے دیگر کسانوں کے مقابلے میں منافع بھی زیادہ کمایا- ” دوسروں نے اپنے گنے کی فصلوں کو مجھ سے تین گنا زیادہ پانی دیا اور ناصرف میرے پودے بڑے اگے، میری فصلوں کو کیڑے بھی دوسروں کے مقابلے میں کم لگے-”

اشرف صاحب نے بتایا کہ ان کی ایک ایکڑ زمین سے ہزار من  (ایک من = سینتیس کلو) گنّا حاصل ہوا- ہرمن ایک سو اسی روپے (1.7 USD) میں فروخت ہوا- ” میں نے اپنی فصل ایک لاکھ اسی ہزار (1700 USD ) میں بیچی جبکہ دوسرے کسان اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے ( 755- 944 USD ) کے درمیان کما سکے- اب ان کے خیالات بدل گۓ ہیں اب وہ  PCRWR کی ہر بات پر غور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں- ” بارش کے حوالے سے ان کی ننانوے فیصد پیشنگوئی درست ہوتی ہے”، اشرف صاحب کہتے ہیں-

گزشتہ سال سے، PCRWR اشرف اور ان جیسے دوسرے کسانوں کو ہفتہ وار معلوماتی ایس ایم ایس بھیجتی ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ انکی فصلوں کو کتنا پانی درکار ہے- اس کے علاوہ موسمی پیشنگوئی بھی بھیجی جاتی ہے-

اپریل 2016 میں شروعات پورے پاکستان میں سات سو کسانوں سے ہوئی تھی، اور رواں سال جنوری سے پیغامات وصول کرنے والے کسانوں کی تعداد دس ہزار ہوگئی ہے”، PCRWR کے ڈپٹی ڈائریکٹر احمد زیشان بھٹی کہتے ہیں- مشوروں  کو بہتر بنانے اور ایک لاکھ کسانوں تک اپنی خدمات پہنچانے کے لئے ایجنسی نے کچھ آرگنائزیشنز کو تجاویز بھیجی ہیں-

“ہمارے مشوروں کے حوالے سے کسانوں کے تاثرات جاننے کے لئے ہم نے ایک سروے کیا جس میں ہمیں حوصلہ افزاء جوابات حاصل ہوۓ”، انہوں نے بتایا- پچیس سے تیس کے بیچ کسان مزید معلومات کے لئے فوراً رابطہ کرتے ہیں- “ہمارے ابتدائی ٹیلیفونک سروے سے یہ معلوم ہوا کہ محتاط آبپاشی کے ذریعہ کسان تقریباً چالیس فیصد پانی بچا رہے ہیں”، انہوں نے بتایا، ساتھ یہ بھی اضافہ کیا کہ یہ سروس سالانہ 250 ملین کیوبک میٹر آبپاشی کے پانی کی بچت میں معاون ہے- پروگرام کے اگلے مرحلے میں  PCRWR کسانوں اور شعبہ زراعت کے ملازمین کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تاکہ تحقیقی اور موسمیاتی مشوروں کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جاسکے-

“میرے خیال سے جو معلومات یہ بھیجتے ہیں وہ خاصی فائدہ مند ہیں کیونکہ پانی کی بچت کر کے ہمیں منافع زیادہ ہوگا”، فیصل آباد کے سینتیس سالہ کسان محمّد طارق کہتے ہیں- البتہ وہ دیگر قسم کی معلومات کی بھی خواہش رکھتے ہیں جیسے فصل کب لگانی ہے، کب کیڑے مار دو کے چھڑکاؤ کرنا ہے، کتنی بار کرنا ہے اور کس فصل کے لئے کس قسم کے بیج بہتر ہوں گے-

” فی الوقت ہم زرعی مصنوعات بیچنے والوں پر انحصار کررہے ہیں جو ہمیں بیجوں اور کیڑے مار دواؤں کے بارے میں بتاتے ہیں- وہ جو بتاتے ہیں ہمیں ماننا پڑتا ہے- اگر یہ معلومات حکومتی ایجنسی فراہم کرے تووہ مستند ہوگی”، انہوں نے کہا-

”جب1847 سے 1947 کے بیچ  انگریزوں نے انڈس بیسن اریگیشن سسٹم (IBIS ) ڈیزائن کیا تو مقصد %67  دریائی طاس کو کھیتوں میں تبدیل کرنا تھا”، لاہور میں واقع  انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کے علاقائی محقق، عظیم شاہ نے بتایا-

1947 میں انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی حکومتی انجنیئر پرانے نظام میں ڈیموں، بیراجوں، نہروں وغیرہ کا اضافہ کرتے رہے ہیں- آج IBIS میں تین بڑے ڈیم، پچاسی چھوٹے ڈیم، انیس بیراج، بارہ بین الدریائی نہریں، پینتالیس بڑی نہریں اور 0.7 ملین ٹیوب ویل ہیں- ابھی بھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ سسٹم میں موجود لیکیج کی مرمّت کرکے، مؤثر میٹرنگ کر کے اور پانی کی طلب کم کرنے کے لئے بہتر حل تیار کر کے نہری آبپاشی کی افادیت موجودہ تینتیس فیصد سے بڑھا کر نوے فیصد (ترقی پذیر ممالک میں ) تک لیجائی جاسکتی ہے اور اسی دوران زرعی پیداوار بھی بڑھائی جاسکتی ہے-

مزید یہ کہ آجکا کسان 1947 سے مختلف ہے، آج کاشت کاری %150 بڑھ گئی ہے کیونکہ آجکا کسان کوئی بھی زمین بنجر نہیں چھوڑنا چاہتا- وہ  اب فصلیں بھی دو سے تین کاشت کرتے ہیں- ” گزشتہ ستر سالوں میں پانی کی مقدار تو وہی ہے لیکن زراعت کو دوسرے سیکٹرز سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے ہے، مثلًا صنعت اور بڑھتی ہوئی آبادی”، شاہ صاحب کہتے ہیں- ان کے   کے مطابق، آج آبپاشی کی تقریباً پچاس فیصد طلب IBIS سے پوری کی جاتی ہے جبکہ باقی پچاس فیصد زمین کے اندرونی وسائل سے-

ایس ایم ایس پروگرام کی تکنیکی اور مالی اعانت واشنگٹن یونیورسٹی کا گلوبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ، ناسا اپلائڈ سائنس پروگرام، دی ایوان ہو فاؤنڈیشن اور حکومت پاکستان کررہے ہیں- آغاز میں PCRWR صرف ہفتہ وار معلومات فراہم کرتے تھے، لیکن اب موجودہ اور مستقبل کے لئے بھی پیشنگوئی کرسکتے ہیں- حسین صاحب نے بتایا کہ اگرچہ طویل مدّتی پیشنگوئی ممکن نہ تھی، مختصر مدّتی موسمی معلومات کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا- “مٹی کی نمی یاداشت اور جمود رکھتی ہے، چناچہ گزشتہ ہفتے کتنی بارش ہوئی اور پانی کتنا عرصہ مٹی میں موجود رہا یہ سب معلومات اگلے ہفتے کی آبپاشی پلان کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے”، انہوں نے واضح کیا-

واشنگٹن یونیورسٹی کی مدد سے PCRWRعالمی موسمیاتی پیشنگوئی ماڈل تک رسائی میں کامیاب ہوگیا ہے، یہ کام ایک چینی ماڈل کے استعمال اور پاکستانی محکمہ موسمیات کے تعاون سے ممکن ہوا- ” اس طرح خاصی درست معلومات فراہم کرنا ممکن ہوگیا ”، بھٹی صاحب کہتے ہیں-

پاکستان ان بہت سے ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلی اور شدید موسمی حالات کی زد میں ہیں، مؤثر آبپاشی کے لئے سائنسی طریقہ کار وقت کی اہم ضرورت ہے- کیا آنے والے سالوں میں، ان مشوروں سے کسانوں کو شدید موسمی حالات سے نمٹنے یا روکنے میں مدد ملے گی؟

”کوشش یہی ہے”، بھٹی کہتے ہیں کہ ان مشوروں سے کسان ناسازگار موسمیاتی حالات جیسے گرمی کی شدید لہر یا شدید بارشوں کے سلسلوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے-

حسین کا نظریہ اس حوالے سے محتاط ہے: ” سال 2040 تک عام گردشی ماڈل کے اندازوں کی افادیت کسانوں کے لئے بہت کم رہ جاۓگی، ہم صورتحال کی مناسبت سے معلومات فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، بجاۓ اس کے کہ موافقت کے لئے طویل مدّتی حکمت عملی پر مبنی معلومات بھیجیں”

پاکستان میں سیل-فون پر مبنی یہ کوئی پہلا منصوبہ نہیں- صوبہ پنجاب میں، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (PITB ) اور پنجاب محکمہ زراعت، ٹیلی نار (سیلولر کمپنی) کی شراکت داری میں ان کسانوں کو مالی خدمات فراہم کررہی ہے جن کے پاس بینک اکاؤنٹس نہیں- “ہم ناصرف چھوٹے کاشکاروں کو سود سے پاک قرضے دے رہے ہیں بلکہ پیداوار بڑھانے کے لئے جدید زرعی طریقہ کار کی مشاورت بھی مہیا کررہے ہیں اور انہیں زرعی ماہرین، تحقیقی اداروں، زرعی توسیع کارکنوں اور ماہرانہ راۓ دینے والوں سے منسلک کررہے ہیں”، PITB سے سینئر مینیجر، عزیر شاہد صاحب نے بتایا-

امید ہے کہ رفتہ رفتہ، پاکستانی کسان سیل فون ٹیکنالوجی کو بہتر پیداواری مستقبل کا لازمی جزو سمجھنے لگیں گے