حیدر اور اس کے گاﺅں والوں کا دعوی ہے کہ وادی کے اوپر جو گلیشئرپھل پھول رہا ہے وہ ان کے آباﺅاجداد نے تقریبا 150سال قبل لگایا تھا۔ مناور گاﺅں اسکردو کے قریب سطح سمندر سے 2,228 بلندی پر واقع ہے ۔ مناور ایک بڑا گاﺅں ہے جس میں تقریبا 500 گھرانے آباد ہیں۔ ان سب کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ حیدر ایک 50 سالہ ادھیڑ عمر آدمی ہے، اس کا کنبہ دس افراد پر مشتمل ہے۔ وہ اپنی زمین پر گندم، آلو اور سبزیاں اگاتا ہے۔ وہ گاﺅں کے خوش حال لوگوں میں سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنی خوش حالی کا کریڈٹ بزرگوں کو دیتا ہے جنہوں نے وادی کے اوپر گلیشئر گرافٹ کرکے پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کیا۔ اب ان کے گاﺅں کی زمین آباد تھی۔
گلگت بلتستان کے علاقے کو اگرچہ گلیشئرز کی سر زمین سمجھاجاتا ہے اوریہاں 7,000 سے زائدچھوٹے بڑے گلیشئرز موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے علاقے ایسے ہیں جو دریا کے اوپر واقع ہیں جہاں پانی نہیں پہنچتا اور وہاں قدرتی طور پربھی کوئی گلیشئر موجودنہیں ہے لہذا ایسے علاقوں میں صدیوں سے گلیشئرز کو مصنوعی طور پر لگایا جاتا ہے تاکہ پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہوجائے۔ اسے گلیشئر کی پیوند کاری بھی کہتے ہیں۔ یہ طریقہ ءکار صدیوں کی روایت کے ساتھ ساتھ تکنیکی بنیادوں پر کیا جاتا ہے جسے بہرحال سائنس بھی تسلیم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پانی کے وسائل بھی متاثر ہورہے ہیں اس لیے پچھلی ایک دہائی سے گلیشئر گرافٹنگ کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
گلیشئر لگانے کے لیے سب سے اہم جگہ کا انتخاب ہے ، اس کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے جوسطح سمندرسے کم از کم چار سے پانچ ہزارمیٹر بلند ہو اور جہاں کا ٹمپریچر سارا سال منفی رہتا ہو۔ وہاں برف باری اور ایوالانچ عام ہواور سورج کی روشنی براہ راست نہ پہنچتی ہو۔ یہ جگہ کسی چٹان میں واقع غار بھی ہوسکتی ہے یا پھر کوئی گہرا گڑھا کھوا جاتا ہے۔
عورت اور مرد گلیشئر
اس عمل سے کچھ دلچسپ روایات بھی جڑی ہیں مثلامقامی روایات کے مطابق کچھ گلیشئرز مردہوتے ہیں اور کچھ عورت، ان میں مردانہ گلیشئرز کا رنگ مٹیالا اور اس میں برف کے ساتھ بہت زیادہ مٹی اور پتھر ہوتے ہیں۔ جبکہ زنانہ گلیشئرچمکیلا دودھیا یا پھر نیلگوں رنگ کا ہوتا ہے۔ عورت اور مرد گلیشئرز کی کہانیاں گلگت بلتستان میں عام ہیں۔ ایسی ہی روایات دیگر ممالک میں بھی نظر آتی ہیں مثلا بھوٹان میں بدھ ازم کے ایک مقدس مقام Punakha Dzong پر جو دو دریا آپس میں ملتے ہیں ان میں سے پرسکون بہتے دریا کو موچو (عورت دریا) اور تیز و غضب ناک انداز میں بہتے دریا کو پوچو( مرد دریا) کہا جاتا ہے۔
اسکردو کے رہائشی ایک نوجوان لیاقت علی بلتی جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکیومنٹری بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ” گلگت بلتستان کے لوگ گلیشئرز کو زندہ اجسام سمجھتے ہیں اسی لیے انہیں عورت اور مرد گلیشئرز سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان ہی عورت مرد گلیشئرز کے ملاپ سے نئے گلیشئرز پیدا ہوتے ہیں۔ مرد گلیشئرز کو ” پو گینگ“ اور عورت گلیشئر کو ” مو گینگ“ کا نام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مرد گلیشئرز سے کم پانی حاصل ہوتا ہے اور یہ آہستہ حرکت ہوتے ہیں۔جبکہ عورت گلیشئر ایک بڑھتا ہوا گلیشئر ہوتا ہے جس سے بہت زیادہ پانی حا صل ہوتا ہے۔”
گرافٹنگ کے لیے ان مردانہ اور زنانہ گلیشیئرز سے دو مختلف ٹکڑے( تقریبا 35 کلوگرام )لاکر اس مخصوص جگہ رکھ دیے جاتے ہیں۔ مقامی روایت کے مطابق لوگ برف کے ان ٹکڑوں کوتنکوں کی ٹوکری میں موٹے کپڑے سے لپیٹ کرکندھے پر اٹھا کر بغیر رکے ہوئے مذکورہ جگہ لاتے ہیں۔ راستے میں نہ رکتے ہیں، نہ بات کرتے ہیں اور نہ برف کے ان ٹکڑوں کو نیچے زمین پر رکھا جاتا ہے۔ پہلے سے منتخب کردہ مخصو ص جگہ پر رکھ کران ٹکڑوں کو مٹی، راکھ اورچارکول وغیرہ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور گڑھے یا غار کو بڑے بڑے پتھروں سے بند کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر برکت اور کامیابی کے لیے اجتماعی دعا اور جانور بھی ذبح کیے جاتے ہیں ۔ مقامی طور پر اس عمل کو گلیشئرز کی شادی بھی کہا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کم از کم دس 12 سال بعد یہ برف کے ٹکڑے ایک بالغ گلیشئرز کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ان سے پانی ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ گلیشئر گرافٹنگ کے حوالے سے گلگت بلتستان کا ہر شخص بات کرسکتا ہے، ہر ایک کے پاس ایک کہانی ہوتی ہے جوزیادہ تر سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں مگرایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جنہوں نے اس عمل میں خود حصہ لیا ہو۔
کھرمنگ واہ کے شمشیر علی بھی ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی جانب سے اس عمل میں حصہ لیا تھا ۔
وہ بتاتے ہیں یہ بارہ سال پرانی بات ہے، میں بھی AKRSPکی اس گلیشئر گرافٹنگ ٹیم کا حصہ تھا جو کھرمنگ میں گلیشئر گرافٹ کررہے تھے۔ ہماری ٹیم نوجوانوں پر مشتمل تھی۔اس کام میں نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ گلیشئرز کے ٹکڑوں کوکئی کلومیٹر دور سے اٹھا کر بہت اونچائی پر لے جا کرگرافٹ کرنا ہوتا ہے۔ ہم گلیشئرز کے ٹکڑے شگر کے قریب موجود ارندو گاﺅں سے لے کر آئے اور مسلسل دو رات و دن ہم ان ٹکڑوں کو اٹھا کر چلتے رہے ۔ اگرایک تھک جاتا تو دوسرا اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیتا۔ اس طرح دو دن لگے پہنچنے میں۔”
شمشیر نے مزید بتایا کہ ” میں 5 سال پہلے وہاں گیا تھا تو دیکھا کہ گلیشئربڑھ کر غار سے باہر پھیل چکا تھا ۔“اس کا کہنا ہے کہ اس گلیشئر سے پہلے ہمارے گاﺅں میں پانی کی کمی تھی لیکن اب ہمارے ندی نالوں میں پانی کی مقدار پچاس فیصد بڑھ گئی ہے اور اب ہمارے گاﺅں میں گندم، جو،باجرہ اور سبزیاں باقاعدگی سے کاشت ہورہی ہیں۔ پہلے پانی باقاعدگی سے نہیں ملتا تھا تو اس لیے فصلیں عموما خراب ہوجاتی تھیں۔
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام سے بطور مینیجر وابستہ نذیر احمد کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے اب تک انیس مختلف مقامات پر گلیشئرز کی پیوند کاری کی ہے اور اس میں سے اسی فیصد ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اگرچہ آغا خان پروگرام صرف لوک روایات کا ہی احاطہ نہیں کرتا، اس کی مثال سرحد پار لداخ کے علاقے میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ایک ریٹائرڈ انجینئر Chhewang Norphelنے1987میں ایک پہاڑی دریا کا رخ موڑ کر اس کے بہاﺅ کو بہت آہستہ کیا تاکہ پانی آہستگی سے بہتے ہوئے جم جائے ، بعد ازاں ایک اور انجینئر Sonam Wangchukنے اس تیکنیک کو آگے بڑھاتے ہوئے برف کے اسٹوپا بھی تیار کیے۔
گلیشر پیوند کاری کی تاریخ
بلتستان یونیورسٹی کے اشتیاق علی کے مطابق اولین روایات اس دور سے جڑتی ہیں جب اس خطے میں مشہور مبلغ اور مذہبی رہنما امیر کبیر سید علی ہمدانی(1314-1384 AD) یہاں آئے اور لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ تبت اور کاشغر کے لوگ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں ہمیں ان سے بچایا جائے۔ پہلا گلیشئر اسی دور میں لگایا گیا تاکہ وہ پہاڑی درے بند کیے جاسکیں جہاں سے حملہ آور ان علاقوں میں آتے ہیں۔ مزید ثبوت کالونیل دور سے ملتے ہیں،
گورنمنٹ ڈگری کالج چترال کے اسسٹنٹ پروفیسر عنایت اللہ فیضی کے مطابق اگرچہ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ پہلا گلیشئر اس علاقے میں کب لگایا گیا لیکن یہ شواہد موجود ہیں کہ 1812 میں آب پاشی کے لیے گلیشئر لگایا گیا تھا۔ مزید دستاویزی ثبوت 1920میں ایک برطانوی ایڈمنسٹریٹر ڈی ایل آر لوریمر سے ملتے ہیں جس نے اگرچہ گلیشئر گرافٹنگ کی تکنیک کو فرسودہ قرار دیا تھا مگر اس کے باوجود وہ شکر گزار تھا کہ ان ہی گلیشئر کے باعث برطانوی راج کو غذا کی مسلسل فراہمی ممکن ہوسکی تھی-
گلیشئر اور خواتین
گلیشئرز گرافٹنگ اگرچہ خالصتا مردانہ سرگرمی سمجھی جاتی ہے مگر اس کا براہ راست فائدہ خواتین کو بھی ہوتا ہے۔ گلیشئرز گرافٹنگ سے زراعت اور گھر کے استعمال کے لیے پانی کی فراہمی بڑھ جاتی ہے اور خواتین کی زندگی کچھ آسان ہوجاتی ہے۔
گلگت کی تہذیب بانو نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد سے کلائمیٹ چینج اینڈ ڈیولپمنٹ میں ایم فل کررہی ہیں ۔ ان کے تھیسس کا موضوع
“Glacier Grafting: A Community based Adaptation to the Climate Induced Food Insecurity in the Himalayan Ranges of Pakistan”
تہذیب کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سرگرمی میں براہ راست خواتین حصہ نہیں لیتیں مگر گھر کے قریب پانی کا حصول ان کی زندگی کو آسان کردیتا ہے۔ تہذیب نے اپنے تھیسس کے لیے گول، کھرمنگ اور مچلو(گھانچے) کے مصنوعی گلیشئرز پر ریسرچ کی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں پانی کی مقدار میں 50%اضافہ ہوا ہے اور ان خشک سالی والے علاقوں میں کامیابی سے گندم، مکئی، باجرہ اور سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔
گلوف ٹو (GLOG2) جووزارت موسمیاتی تبدیلی اور یو این ڈی پی کا ایک مشترکہ منصوبہ ہے جس کی مالی معاونت گرین کلائمیٹ فنڈ کررہا ہے، سے وابستہ پروجیکٹ کے فیلڈ آفیسر رشیدالدین کا کہنا تھا کہ ہم نے کواردو گاﺅں کے بالائی علاقے میں گلیشئرگرافٹنگ کی سرگرمی انجام دی ہے اور کوشش کی ہے کہ مشاورت اور عملی طور پر خواتین کو ساتھ رکھا جائے۔ رشیدالدین نے بتایا کہ پانی ان کے لیے اب قیمتی اور جنس نایاب بن چکا ہے۔ اگرچہ کواردو گاﺅں سے کچھ فاصلے پر دریائے سندھ گزرتا ہے مگر اس ریتیلے راستے پروزن اٹھا کر چلنا آسا ن نہیں ہے۔ اس گلیشئر گرافٹنگ کے دوران برف باری شروع ہوگئی تھی جسے” نیک شگون“ گردانا گیا۔ اس کے علاوہ اس سال بہت برف پڑی ہے اور جس اونچائی پر گلیشئرگرافٹ کیا گیا ہے وہاں یقینا درجہ ءحرارت منفی چالیس ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ اتنی برف باری میں یہ عمل کامیاب ہوگا۔
امید ہے کہ اس گلیشئر سے جو پانی حاصل ہوگا اس سے دو ہزارکینال سے زیادہ زمین کاشت ہوسکے گی۔ اس سال مزید 4 گلیشئرز گرافٹ کیے جائیں گے جن سے امید ہے کہ مستقبل میں آٹھ سے دس ہزار کینال زمین زرخیز ہوجائے گی۔
لوک روایات اور سائنس
بلتستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر آف اکیڈمک اینڈ لنکیجز ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سائنس ابھی اپنے ارتقائی مراحل میں ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”جب کسی ایسے مقام پر برفیلی سطح کے ٹکڑے کافی عرصے کے لیے محفوظ رہیں جہاں مخصوص درجہ ءحرات، نمی، بارشیں اور برف باری ہوتی رہے تو ایک خاص وقت کے بعدجب پگھلنے اور بڑھنے کا عمل یکساں ہوجائے تو یہ برف کے ٹکڑے بڑھنے لگتے ہیں اور یوں نئے گلیشئر وجود میں آتے ہیں۔”
موسمیاتی تبدیلی کے ایک اورماہر ڈاکٹر آصف خان جو آج کل
IPCC, WG-I, AR-6 water Chapter
کے مرکزی مصنف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ٹمپریچر بڑھنے سے ہندوکش ہمالیہ میں برف جلد پگھل رہی ہے جس سے گلیشئرز پگھلنے کی رفتار تیز ہوگئی ہے ایسے میں ہندوکش اور ہمالیائی خطے میں مصنوعی طور پر گلیشئرز بڑھانا ایک موثر حل سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں قراقرم کی بہ نسبت گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں