پاکستان میں صحرائے تھر کے بیشتر باشندے تب ہی فصلوں کی کاشت کرسکتے ہیں جب بارش کے بعد پانی بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنا دے۔ لیکن 60 سالہ کسان الله رکھیو کھوسو کو بارش کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نگرپارکر کے شہر میں ، کارونجھار پہاڑوں کے سائے میں کھوسو نے صحرا میں ایک باغ کو مٹکا یا گھڑے استعمال کرکے حقیقت بنادیا ہے— ایک روز مرہ کی چیز جو عام طور پر کھیتوں کے بجاۓ گھر میں پائی جاتی ہے۔
آٹھ سالوں کے بعد ، کھوسو کے پاس 400 بیری کے درخت ، 70 لیموں کے درخت ، تین آم کے درخت اور انار کے چار درخت ہیں۔ وہ تھرپارکر ضلع میں اپنی سرزمین پربھنڈی ، کریلے ، پیاز ، مرچ اور ٹنڈا (اسکواش کی ایک قسم) جیسی سبزیاں اور ساتھ ہی تربوز اگاتا ہے۔
گھڑے آبپاشی میں ، چوڑے پیندے اور تنگ چوٹی والےمٹی کے ایک بڑے برتن کو زمین میں دفن کرکے پانی سےبھر دیا جاتا ہے- پانی آہستہ آہستہ آس پاس کی مٹی میں چھوڑ جاتا ہے اور قریبی پودوں کی جڑوں میں جذب ہوتا جاتا ہے، اور بخارات میں اس قیمتی مائع کی کم مقدار ضائع ہوتی ہے۔
صحرا میں پانی
کوئلے سے مالا مال ہے لیکن پانی سے محروم ہے ، یہ پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کا سب سے بڑا صحرائی زون ہے۔ اس کے رہائشی بارش پر انحصار کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کنوؤں سے اپنا روزمرہ کا پانی لیتے ہیں اور بارش کا پانی، پانی کے ٹینکوں میں جمع کرتے ہیں۔ گرمیوں میں بہت سے کنویں خشک ہوجاتے ہیں اور زمینی پانی کھارا ہوجاتا ہے۔
آج بھی، کچھ کنویں جدید مشینری کے بغیر کھودے گئے ہیں۔ حال ہی میں چار مزدور کنواں کھودنے کے دوران دیواریں گرنے سے ہلاک ہوگۓ-
پانی اتنا اہم جنس ہے کہ اس پر شادی طے کرتے وقت مزاکرات ہوتے ہیں؛ رشتہ قبول کرنے سے قبل ، دلہن کے والدین دولہا کے کنبے سے پوچھتے ہیں کہ نزدیک ترین کنواں کتنا قریب ہے۔ صاحب سلامت کے دوران لوگ میٹھے پانی کے کنوؤں کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں۔
بہر حال ، صحرا میں رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ پیاس اور غربت ناگزیر ہو۔
گھڑا آبپاشی کیسے کام کرتی ہے؟
“بہت سال پہلے ، میرا ایک دوست ہمارے گاؤں کا دورہ کرنے آیا تھا اور اس نے گھڑے سے آب پاشی کے بارے میں بات کی” ، کھوسو نے کہا- “مجھے آئیڈیا سمجھ آیا اور اس پر کام کرنا شروع کردیا۔ شروع میں ، یہ کافی مشکل تھا لیکن اب یہ بہت آسان نظر آتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر میں بارش کے پانی کے بغیر اپنے کھیت کو سرسبز بنا سکتا ہوں تو مجھے یہ کرنا جانا چاہئے-“
نیا گھڑا لگانے کے لئے ، کھوسو پہلے گھڑے کےپیندے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کرتے ہیں- وہ چھید سے رسی ڈالتا ہے ، پھر گھڑے کودبا دیتے ہیں، اور اس کے گرد کیچڑ اور ریت کو اچھی طرح بھر دیتے ہیں۔ اس سے صرف اس گھڑے کا منہ کھلا رہتا ہے ، جسے کھوسو پانی سے بھرتے ہیں۔
پانی چھدری مٹی سے گذرتا ہے اور رسی کے ذریعے ریت میں منتقل ہوتا رہتا ہے ، جہاں وہ آس پاس لگی فصلوں کی جڑوں میں جذب ہوتا جاتا ہے- قدرتی کھاد کے ساتھ ساتھ کھوسو نگر پارکر کے قریب واقع شہر وراوہ سے کیچڑ استعمال کرتے ہیں جہاں ایک قدیم جھیل موجود ہے۔ ہر گھڑا 2-3 فٹ چوڑا ہے اور اس میں 10 لیٹر پانی آتا ہے ، جو 15-20 دن تک مٹی کو سیراب کرے گا۔
آبپاشی کے لئے نئے گھڑے بہتر ہوتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ چھدرے ہیں اور ، ایک بار اپنی جگہ پر لگا دیے جائیں تو تین سال تک چل جاتے ہیں۔ کھوسو تقریباً ہر 10 دن پر پانی لاتے ہیں۔ ایک کنواں ان کے کھیت میں ہے ، اور ایک نزدیک ہی ہے۔
درختوں کے لئے ، کھوسو ہر پودے کے لئے ایک گھڑا استعمال کرتے ہیں- کبھی کبھی آم کے درختوں کے لئے دو گھڑے، درخت ایک دوسرے سے 25 فٹ (7.6 میٹر) کی دوری پہ لگاۓ جاتے ہیں۔ پانی کی ضرورت کی مقدار فصل پر منحصر ہے ، درختوں کو زیادہ گھڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھوسو کے پاس باغ کو سیراب کرنے کے لئے 400 گھڑے ہیں۔
کھوسو کا خیال ہے کہ یہ ڈرپ آبپاشی سے کہیں زیادہ موثر طریقہ ہے ، جہاں پائپ ہر ایک پودےکی جڑوں تک براہ راست پانی اور کھاد کی ایک خاص مقدار ہر منٹ پرپہنچاتے ہیں- انہوں نے کہا کہ ڈرپ ایریگیشن سبزیوں کے لئے موزوں ہے ، لیکن باغات میں گھڑا آبپاشی پودوں کو زیادہ موثر طریقے سے پانی پہنچا سکتی ہے۔
انہوں نے حساب لگایاا کہ 10 دن تک ان کے 400 بیری کے درختوں کے لئے 280 لیٹر کافی تھا۔
اب اس نظام کی کارکردگی کو قبول کرلیا گیا ہے۔ ایک مطالعہ جس میں خربوزے کی حاصلات کا موازنہ کیا گیا ہے کہ گھڑے آبپاشی میں دو کیوبک سنٹی میٹر (سی سی) پانی استعمال ہوا اور اس میں فی ہیکٹر میں 25 ٹن خربوزہ حاصل ہوا ، جبکہ سیلاب آبپاشی کے نظام میں 26 سی سی پانی استعمال ہوا اور فی ہیکٹر میں 33 ٹن حاصل ہوا۔
کھوسو نے کہا ، “ہمارے پاس نہر یا [روایتی آبپاشی] نہیں ہے لہذا ہم سب کا فرض ہے کہ ہم پانی کی بچت جتنی ممکن ہو کریں۔ میں نے صحرا کو سرسبز بنانے کی کوشش کی ہے اور میں اس باغ کے ذریعہ اپنی روٹی روزی کما رہا ہوں۔ پچھلے سیزن میں ، میں نے پیاز سے 130،000 روپے [تقریبا 77 776 امریکی ڈالر] اور سرخ مرچوں سے تقریبا 600،000 روپے[3،580 امریکی ڈالر] کمائے۔ میں گھڑے والی ٹکنالوجی کے استعمال کے لئے تبلیغ کررہا ہوں… جو لوگ یہ کوشش کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے گھروں سے چھوٹے پیمانے پر شروعات کرنا چاہئے۔
مقامی تجارت
کھوسو ایک کمہار حسین کمبھر سے اپنے گھڑے خریدتے ہیں۔ “یہ میرے باپ دادا کا پیشہ ہے۔ میں الله رکھیو کو گھڑے بیچ کر اچھی آمدنی حاصل کرلیتا ہوں”، کمبھر کہتے ہیں- ” “جب سے وہ اپنے باغ میں کام کر رہا ہے میں نے ایک ہزار سے زیادہ گھڑے فروخت کیے ہیں۔ صحرائے تھر میں لوگ ابھی بھی پینے کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے گھڑے استعمال کرتے ہیں ، لیکن گھڑے کے ذریعے زراعت ہمارے کاروبار کے لئے فائدہ مند ہے۔ مجھے فی گھڑا 100-150 روپے[0.6- 0.9 امریکی ڈالر] ملتا ہے۔ “
کمبھر، نگرپارکر سے تقریبا 25 کلومیٹر دور کھاڑک گاؤں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ وہ اس علاقے کے واحد کمہار ہیں جو گھریلو استعمال کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے لئے گھڑے فروخت کرتے ہیں— لہذا اسکا امکان نہیں ہے کہ علاقے کے دوسرے کاشتکار یہ طریقہ استعمال کر رہے ہوں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں
پاکستان میں گھڑے کے ذریعہ آب پاشی عام نہیں ہے۔ بہت سے کسان نہروں سے اپنے کھیتوں کی آبپاشی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ نہری آبپاشی میں بخارات اور زیادہ استعمال کی وجہ سے بہت زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ مستقبل میں ، کاشتکاری کے مختلف طریقوں کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ پانی کی تھوڑی مقدار کے ساتھ زیادہ فصلیں اگائی جائیں۔
“لوگ گھڑا والی ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہیں لہذا یہ اتنا عام نہیں رہا ہے۔ ضلع سانگھڑ میں ، کچھ کسانوں نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ لیموں کے باغات لگائے ہیں۔ شہروں میں لوگ اس ٹیکنالوجی کو چھوٹے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہندوستان کے راجستھان ریگستان جیسے نیم بنجر علاقوں میں بہت کارآمد ہے۔ جہاں پانی کی فراہمی دستیاب نہیں ہے ، وہاں کاشتکار اپنی زراعت کو فروغ دینے کے لئے گھڑے استعمال کرتے ہیں”، ٹنڈوجام میں سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کے پروفیسر اسماعیل کمبھر نے کہا-
پروفیسر نے مزید کہا ، “صحرا میں لوگ خوشحال نہیں ہیں – انہیں گھڑے والی ٹکنالوجی کی اہمیت کا احساس نہیں ہے اور ہمارے ملک میں یہ سستی بھی نہیں ہے ، لہذا ہمیں پانی کی بچت کی یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر نظر نہیں آتی۔ یہ کچن باغبانی
کے لئے بھی کارآمد ہے۔ مجھے ماننا ہے کہ حکومت سندھ اور محکمہ زراعت کو ان کاشتکاروں کی سہولت کے لئے آگے آنا چاہئے جو محدود وسائل کے ساتھ گھڑے والی ٹکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ ” انہوں نے کہا کہ حکومت کو گھڑے آبپاشی کی تربیت فراہم کرنا چاہئے اور گھڑے کی قیمت کی ادائیگی یا سبسڈی دینا چاہئے۔
محمد وسیم کالرو عمرکوٹ میں واقع پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں سینئر سائنسی تحقیقاتی افسر ہیں۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ گھڑا آبپاشی کا طریقہ کار کسی بھی فصل کے لئے روایتی آبپاشی سے 70 فیصد کم پانی استعمال کرتا ہے-
اس کے فوائد کے باوجود ، ٹکنالوجی اپنی فطرت کی وجہ سے ایسی جگہوں اور پودوں تک ہی محدود ہے جو اس کے استعمال سے مفید طور پر اگائی جاسکتی ہے- کالر و نے کہا کہ گھڑا آبپاشی مٹی کے مقابلے میں ریت میں زیادہ موثر ہے اور “یہ صحرا کے علاقوں کے لئے ہی موزوں ہے… اگر ہم اس ٹیکنالوجی کو قومی سطح پر استعمال کریں تو ہمیں زیادہ پانی اور زیادہ گھڑے کی ضرورت ہوگی ، اور یہ بہت مہنگا ہوگا ، لہذا یہ بہترین ہے گھریلو سطح اور ان علاقوں میں جہاں پانی کی کمی ہے-” خاص طور پر تھر میں ، اب لوگ گھڑے کی کاشت سے تازہ سبزیاں استعمال کر رہے ہیں۔ لہذا یہ مقامی لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہم یہاں عمرکوٹ میں کام کر رہے ہیں اور خشک زراعت کے مختلف نمونے تیار کیے ہیں ۔ “
پانی کے ماہر اور سابق سکریٹری آبپاشی ، ادریس راجپوت نے اس پر اتفاق کیا۔ “گھڑے آبپاشی کا دائرہ کار بہت محدود گنجائش ہے۔ یہ پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کے لئے استعمال ہوسکتا ہے۔ گھڑا آب پاشی سے بڑے پیمانے پر آب پاشی ممکن نہیں ہے۔ یہ ان صحرائی علاقوں میں مددگار ہے جہاں لوگ روایتی آبپاشی سے اپنی زمین کاشت نہیں کرسکتے ہیں” انہوں نے کہا۔