ایک باپ بیٹے نے اپنے مچھلی پکڑنے کے جال خالی کیے۔ انہوں نے یہ جال گذشتہ رات سندھ کے بدین شہر سے 18 کلومیٹر جنوب میں واقع سیرانی کے قریب میر واہ نہر میں لگاۓ تھے۔ انکا شکار چھوٹی چھوٹی مچھلیوں پر مشتمل تھا- اس سے وہ تقریبا 300 روپے (1.80 امریکی ڈالر) کما سکیں گے۔
” ہم نے گزشتہ 10-15 سالوں کے دوران اندرون ملک آبی ذخیروں میں شاید ہی کوئی بڑی مچھلی دیکھی ہو ، لیکن ہمیں اپنے خالی پیٹ خاندانوں کی بقا کے لئے یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کسے پرواہ ہے اگر اس کی ممانعت ہے یا یہ غلط عمل ہے”، 36 سالہ والد نے کہا۔
ابوبکر شیخ ماحولیاتی محقق ہیں جنھوں نے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لئے متعدد مطالعات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا ، “جون اور جولائی میں ، 17 سے زیادہ آبی حیات کے بیج [نوعمر مچھلی] سندھ کے ساحلی پٹی کے میٹھے پانی تک پہنچتے ہیں ، لیکن اس میں سے زیادہ تر ماہی گیر شکار کرلیتے ہیں۔”
سندھ کے ساحل میں پاکستان کے ماہی گیری کے 71٪ وسائل شامل ہیں جس میں بحیرہ عرب ، دریا کا ڈیلٹا اور اندرونی جھیلیں شامل ہیں- صوبے میں تقریبا 400،000 افراد براہ راست اس شعبے پر منحصر ہیں۔ ان میں سے اکثریت ضلع بدین میں ہے۔ لیکن طوفانوں اور پانی کی قلت جیسی قدرتی آفات کی وجہ سے اس کے لوگ اب سندھ کے پانی سے متاثرہ اضلاع میں سے ایک میں رہ رہے ہیں۔
اس کے نتیجہ میں ، لوگوں نےچھوٹی مچھلی پکڑنے جیسے تباہ کن طریقے اپنا لیئے ہیں ، جو کہ مچھلیوں کی آبادی کے لئے مضر ہے کیونکہ اس سے کم عمر کی مچھلیوں کو بلوغت تک پہنچنے اور افزائش نسل کا موقع نہیں مل پاتا-
ملک کے سالانہ معاشی سروے کے مطابق ، 2010 میں ، پاکستان نے 257،973 میٹرک ٹن اندرونی پانیوں کی مچھلی پیدا کی۔ مالی سال 2019۔20 کے لئے یہ شماریات 227،701 میٹرک ٹن تھی۔
غلط عمل جاری ہے
سندھ فشریز آرڈیننس 1980 میں کہا گیا ہے کہ ایک مخصوص سائز سے کم کی مچھلی پکڑنا جرم ہے- مجرموں کو چھ ماہ تک کے لئے گرفتار کیا جاسکتا ہے اور انہیں 10،000 روپے (60 امریکی ڈالر) تک جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
چھوٹی مچھلی پکڑنے میں استعمال ہونے والے جال – بلّو ، گجو اور کترو – باریک میش سے بنے ہوتے ہیں جو چھوٹی مچھلیوں کو بچ نکلنے نہیں دیتے۔ حکومت نے سندھ کے اندرون اور سمندری پانی میں ان جالوں کے استعمال کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ تاہم ، یہ عمل جاری ہے-
بدین میں محکمہ فشریز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد تالپور نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، “ہم مشکل میں ہیں کیونکہ جب ہم فشریز آرڈیننس کے تحت کسی کو چھوٹی مچھلی پکڑنے پر گرفتار کرتے ہیں تو ، اس کی کمیونٹی کے ممبران اور مقامی حقوق کی تنظیمیں شور مچانا شروع کردیتے ہیں اور اسکی رہائی کے لئے ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ غریب ہیں اور وہ یہ کسی انتخاب کے تحت نہیں کرتے، لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ قانون قانون ہے۔ ہم نے ساحلی دیہاتوں میں گشت اور نگرانی کی ٹیموں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور امید ہے کہ اس عمل میں کمی آئے گی۔”
مایوسی کا شکار
خطے میں پانی کی قلت کا مطلب ہے کہ زمین میں پیداواری صلاحیت نہیں ہے ، اور لوگوں کے پاس ذریعہ معاش کے مواقع کم ہیں۔ دریائے سندھ خطے میں اچھی مقدار میں پانی لاتا تھا ، لیکن جب سے اوپری بہاؤ پر ڈیم اور بیراج تعمیر کیے گئے حالات خراب ہوگئے۔
“تقریبا 12 سال پہلے ، ہمارے گاؤں تک نہر کا پانی آتا تھا”، بحیرہ عرب سے کچھ پہلے ضلع بدین کے آخری گاؤں میں رہنے والے غلام ملّاح نے کہا۔ “قریبی نہروں اور جھیلوں میں پکڑنے کے لئے ہر قسم کی بہت سی بڑی مچھلیاں تھیں۔”
ملّاح نے کہا کہ 2010 میں تباہ کن سیلاب کے بعد میٹھے پانی کی فراہمی رک گئی۔ تب سے، ہم ہر روز سات کلومیٹر شمال میں، میر واہ میں چھوٹی مچھلیاں پکڑنے کے لئے سفر کرتے ہیں ، انہیں وہاں اکٹھا کرنے والے ایک سینٹر میں بیچ دیتے ہیں اور اپنے کنبے کیلئے کچھ آٹا اور سبزیاں لیتے ہیں۔
بدین سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ، عامر بخش نے کہا ، “سندھ کی ساحلی کمیونٹیز اس صوبے میں غریب ترین ہیں۔ چونکہ اس علاقے میں پانی کی قلت شروع ہوگئی ہے ، ان کی معاش کے واحد ذریعے یعنی مچھلی پکڑنے میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے چھوٹی مچھلیوں کی ماہی گیری جیسے منفی طریقوں کو اپنایا ہے۔”
سول سوسائٹی آرگنائزیشن پاکستان فشر فولک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نےدی تھرڈ پول کو بتایا ،” حکومت ماہی گیروں کے مسائل پر غور کرنے میں ناکام رہی ہے ، جس میں پانی کی قلت ، مقامی جاگیرداروں کا ویٹ لینڈ / جھیلوں پر غیرقانونی قبضہ اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنا شامل ہے۔ لہذا ماہی گیروں نے وہ اپنا لیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ “
بدین اور گولارچی: دو تعلقہ ، یا سب ڈویژن ، ضلع میں چھوٹی مچھلیوں کی ماہی گیری کا مرکز ہیں۔ مقامی چھوٹی مچھلی فروشوں کے مطابق ، سال کے بیشتر حصوں میں ان دو تعلقوں سے ہر ماہ میں اوسطا 1500 کلو گرام مچھلی پکڑی جاتی ہے۔ لیکن ڈیلروں کا کہنا ہے کہ یہ اگست اور اکتوبر کے درمیان بڑھ جاتا ہے ، اور ایک ہی دن میں 20،000-30،000 کلوگرام تک چھوٹی مچھلی پکڑی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تب تک بچہ مچھلی لے جانے والا پانی تقریبا تمام میٹھے پانیوں تک
دیسی اقسام کا خاتمہ
میٹھی پانی کی مچھلیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جومعدود ہوگئی ہے ، جن میں مونڈھی ، کھگحو ، چہلڑی ، سنری ، ڈیو ، پوپری ، غنر ، ڈھینڑھ ، لہر ، جھرکو ، غلو اور جھار شامل ہیں۔ تہواروں اور شادی کی تقریبات میں ساحلی ماہی گیر کمیونٹی کی خواتین کی طرف سے گائے جانے والے بہت سے لوک گیتوں میں ان گمشدہ اقسام کا ذکر ہے۔
مختیار احمد مہر ، سندھ یونیورسٹی کے کوسٹل اینڈ ڈیلٹک اسٹڈیز (سی سی ڈی ایس) کے ڈائریکٹر نے کہا، “سندھ کے ساحلی علاقوں میں بہت سی مچھلیوں کی اقسام کی گمشدگی کے پیچھے چھوٹی مچھلیوں کے بےدریغ شکار ، زیر زمین آبی ذخیروں میں زہریلی صنعتی فضلہ کی آمیزش اور پانی کی قلت بنیادی وجہ رہی ہے۔ تقریبا 15 سال پہلے ، سندھ میں مچھلی کی 176اقسام رپورٹ کی گئی تھیں لیکن اب یہاں صرف 35 سے 40 اقسام ہیں۔”
اس عمل کے وسیع تر مضمرات ہیں۔ یونیورسٹی آف سندھ کےفریش واٹر اینڈ فشریز ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بارادی واریانی نے وضاحت کی کہ بہت سارے نقل مکانی کرنے والے پرندے سندھ کی میٹھی پانیوں کی طرف آتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، “یہ پرندے مچھلی پر منحصر ہیں ،” انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے پرندوں کی تعداد پہلے کی نسبت 70 فیصد رہ گئی ہے۔ “مچھلیوں کی مقدار میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے ، اور نقل مکانی کرنے والے پرندے اب ان علاقوں کا رخ نہیں کرتے ہیں۔”
حکومتی کارروائی کی ضرورت ہے
کارکن امیر بخش نے کہا ، “حکومت کو معاملے کی سنگینی کو سمجھنا چاہئے اور [مقامی لوگوں] کو معاش کے متبادل ذرائع فراہم کرنا چاہئے۔ ان کمیونٹیز کے نوجوان اس سرگرمی میں بہت زیادہ شامل ہیں۔ انہیں تربیت دی جانی چاہئے تاکہ وہ کسی بھی نوع کو نقصان پہنچائے بغیر اپنا معاش کمائیں۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دیہات اور بستیوں میں فش نرسریوں کے قیام میں ، مچھلی کے بچے اور تکنیکی مدد مفت فراہم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
اس معاملے پر حکومت کی مناسب تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔ سندھ کے تین ساحلی اضلاع کی ضلعی حکومتیں تیل اور گیس کی تلاش اور وہاں کام کرنے والی پروڈکشن کمپنیوں سے “سمندری تحقیق اور ساحلی علاقے کی ترقی کی فیس / فنڈز” وصول کرتی ہیں۔
سندھ یونیورسٹی سے، مختیار احمد مہر نے کہا کہ تیل اور گیس کمپنیاں اس فنڈ کو بطور “رائلٹی / پروڈکشن بونس” ادا کرتی ہیں ، لیکن “متعلقہ ضلعی حکومتوں نے ان رقوم کو تحقیق کے مقصد کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” کم از کم اس پٹی میں خطرے سے دوچار مچھلیوں کے تحفظ کے بارے میں تحقیقی مطالعہ کرنے کے لئے سمندری تحقیقاتی فیس کو استعمال کیا جانا چاہئے۔”
ماحولیاتی محقق ، ابوبکر شیخ نے کہا کہ حکومت اور ماہی گیر دونوں ہی ذمہ دار ہیں- “[ماہی گیر] خود اپنے پیروں کلہاڑی مار رہے ہیں کیونکہ انہوں نے آمدنی حاصل کرنے کے لئے یہ شارٹ کٹ اپنایا ہے۔ فی الحال یہ ان کے لئے آسان نظر آرہا ہے ، لیکن وہ یہ نہیں سمجھنا چاہتے کہ آگے جا کر یہ کتنی تباہی لائے گی۔ وہ آنے والی نسلوں کے لئے بے روزگاری ، بھوک اور محرومی کے بیج بو رہے ہیں۔
محمد عباس خاشخیلی ایک آزاد مصنف ہیں جو مٹھی ، سندھ میں مقیم ہیں اور صوبے کے معاشرتی اور ماحولیاتی امور کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ان سے رابطہ [email protected] پہ کیا جاسکتا ہے اوروہ @mabas_khaskheli پرٹویٹ کرتے ہیں-