انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان دنیا کا تیسرا پانی کی سب سے زیادہ قلّت کا شکار ملک ہے اور یہ امکان ہے کہ 2025 تک اسے پانی کی مطلق قلّت کا سامنا کرنا پڑے گا
پانی کی قلّت سے خواتین مزید غیرمحفوظ ہو رہی ہیں
جب پینے کا پانی آسانی سے میسر نہ ہو، تو یہ ذمہ داری عام طور پر خواتین کے کندھوں پرپڑتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے لئے طویل فاصلہ طے کر کے پانی بھر کرلائیں۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 72% گھریلو پانی خواتین کو بھر کے لانا پڑتا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں، کچی آبادیوں اور پسماندہ عارضی بستیوں میں۔
پانی کی مطلق کمی سے کیا مراد ہے؟
پانی کی مطلق کمی سے مراد، جب پانی کی دستیابی روزمرّہ کی ضرورت جیسے پینے، نہانے اور کھانا پکانے کے لئے درکار مقدار سے کم ہوتی ہے۔ سالانہ معیاری ضرورت 500 مکعب میٹر فی فرد ہے۔
بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت پاکستان میں بہت سی خواتین کے لئے ایک عیاشی کی مانند ہے، جوکہ پانی کی فراہمی اور سیوریج کی سہولیات کی دستیابی سے جڑی ہوئی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو اکثر رفع حاجت کے لئےاندھیرہ ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جو انھیں بدسلوکی اور جنسی حملوں کا شکار بنا سکتا ہے۔
جب دور دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے تو پاکستان کی خواتین کا کہنا ہے کہ اس سے انکا معاش متاثر ہوتا ہے- خاص طور پر نوجوان لڑکیاں اس سے متاثر ہوتی ہیں: چونکہ پانی بھرنے کی ذمہ داری انکی ہوتی ہے، اس لئے وہ اسکول نہیں جا سکتیں، اور اگر وہ اسکول جاتی ہیں، تو یہ ذمہ داریاں اس وقت کو محدود کرتی ہیں جو وہ اپنی تعلیم کے لیے وقف کر سکتی ہیں۔ نئی سہولیات خاص طور پر پانی سے مستفید ہونے والی کمیونٹیز میں، لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
یہاں تک کہ وہ مسائل جو مردوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ان کا اثر خواتین پر پڑتا ہے، جیسے کہ آب و ہوا کی وجہ سے ملازمتوں کی تلاش کے لیے مردوں کی نقل مکانی۔ جب کسی خاندان کے مرد بہت دور جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، تو پانی کی قلّت کے بیچ گھر چلانے کی ذمہ داری خواتین پر آجاتی ہے۔ خاندان میں مرد ارکان کی کمی سے خواتین میں اجنبیوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا خطرہ بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے، جس سے ان کی نقل و حرکت کی آزادی محدود ہوتی ہے۔
خواتین پر پانی کی کمی کے اثرات کو پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کی گفتگو میں اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر پانی کی قلّت کی وجہ سے دشوار حالات میں ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتے ہیں- فیلڈ ورک کے دوران، یہ رجحان خاص طور پر تھرپارکر (صوبہ سندھ) اور مظفر گڑھ (پنجاب) کے اضلاع میں دیکھا گیا ہے۔ تھرپارکر میں سالانہ اوسطاً بہت کم بارشیں ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں خشک سالی، پانی کی قلت اور خوراک کا عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ تھاری خواتین کو ذہنی صحت کے مسائل جیسے تنہائی کی وجہ سے ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ان کے مرد بہتر روزگار کے لئے ہجرت کرجاتے ہیں۔ تھرپارکر میں خودکشی کی بلند شرح تشویشناک ہے، اور اس کا تعلق پانی کی کمی سے ہے۔
مزید ستم یہ کہ مناسب پانی، صفائی اور صحت (ڈبلیو اے ایس ایچ یا واش) کی سہولیات تک رسائی کی کمی سے وابستہ بیماری اور وقت کا زیاں نوعمروں اور بالغوں کو روزی کمانے یا اپنی پوری صلاحیت کو بروۓ کار لانے سے روکتا ہے۔حتیٰ کہ اگر خواتین اور لڑکیاں اسکولوں اور پیشہ ورانہ جگہوں میں داخلہ حاصل کر بھی لیتی ہیں، تب بھی واش تک ناقص رسائی اور ماہواری میں حفظان صحت کے لئے رازداری ان کے چیلنجوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اس وقت، پاکستان کی لیبر فورس میں صرف 22% خواتین شامل ہیں، جہاں انہیں اکثر ان کے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے اور انہیں کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ یو این ڈی پی اور ڈویلپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان کی ایک اشاعت کے مطابق، 2018-19 میں خواتین نے مردوں کی کمائی کا صرف 18 فیصد کمایا۔ 2021 گلوبل جینڈر انڈیکس گیپ رپورٹ نے پاکستان کو 156 ممالک میں 153 ویں نمبر پر رکھا۔ افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کی شرح 22 سالوں (1992-2014) کے اندر تقریباً دوگنی ہوگئی ہے، لیکن یہ اضافہ اتنی تیزی سے نہیں ہو رہا ہے۔
گرین معیشت کو صنفی طور پر مثبت معیشت ہونا چاہیے
معیشت کو گرین بنانا صنفی مساوات اور بڑے صنفی تفاوت والے شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کا ایک موقع ہو سکتا ہے۔ مؤثر اور کثیر جہتی پالیسیوں کے ذریعے پانی کی قلّت کے مسئلے پر کام کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان، 2021 میں یو این ایف سی سی سی کو جمع کرائے گئے اپنے نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن میں گرین معیشت کی طرف منتقلی کا عزم ظاہر کیا ہے، جو ایسی ملازمتوں کی تشکیل کو ترجیح دے گا جن کا مقصد ماحول کی بحالی اور تحفظ ہو۔ پاکستان کی جامع ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے، جس کے لئے ضروری ہے کہ افرادی قوت میں خواتین کی شرکت موجودہ 22% سے بڑھ کر 2047 تک 45% ہو جائے، ان ملازمتوں کو اس طرح ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے جو خواتین کو درپیش ساختی رکاوٹوں سے نمٹ سکے-
افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے کام کی وسعت کے پیش نظر، گرین معیشت میں صنف کی زیادہ سے زیادہ شرکت کے حصول کے لئے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ پاکستان کی 63% آبادی نوجوانوں (15-33 سال کی عمر) کے زمرے میں آتی ہے، بدلتی ہوئی آب و ہوا کے تناظر میں انہیں مستقبل کے لئے تیار کرنے کے لئے تیزی سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ صلاحیتی تربیت، گرین سکلز ٹریننگ اور خواتین کی پانی کے شعبے میں ملازمت کو یقینی بنا کر ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ موجودہ اور مستقبل کے اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سرکاری محکمے نوجوانوں اور خواتین پر توجہ مرکوز رکھتے ہوۓ وسیع تحقیق اور ترقیاتی کام کریں- یہ سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں تحقیق اور اعلیٰ تعلیم پر کام کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کیا جانا چاہیے، جس کا مقصد صوبوں میں پانی کی دستیابی کو محفوظ کرنا، بہتر بنانا اور آگے بڑھانا ہو۔
موسمیاتی پالیسی کو نہ صرف گرین ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی، جیسے کہ زراعت، سیاحت اور توانائی کے شعبوں میں، بلکہ خواتین کے لیے ان ملازمتوں تک رسائی کے راستے بھی ہموارکرنا ہوں گے۔
گرین ورک فورس میں خواتین کی کمی کا چیلنج عالمی سطح پہ دیکھا گیا ہے- لنکڈان کی “گلوبل گرین سکلز رپورٹ 2022″ کے مطابق، “خواتین کی گرین صلاحیتوں میں 2015 سے اضافہ ہوا ہے لیکن وہ ابھی تک مردوں سے پیچھے ہیں-” یہاں پر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ موسمیاتی پالیسی میں صرف زراعت، سیاحت اور توانائی کے شعبے جیسے گرین روزگار پیدا کرنے کے لئے اقدامات اور فنڈنگ شامل نہیں ہونی چاہیے، اس میں خواتین کے لئے ملازمتوں کی ضرورت کو ناصرف مانا جاۓ بلکہ ملازمتوں تک رسائی کے لئے راستے بھی ہموار کیے جائیں- ایسا ہونے کے بعد ہی زیادہ مساوات ہو گی اور خواتین کو صحت، سماجی اور معاشی خود مختاری ملے گی۔ اس سے پانی کے حصول سے وابستہ خطرات اور ان کے درمیان تعلق تبدیل ہوجاۓ گا-
سماجی تبدیلی فوری اور ضروری ہے
گرین ملازمتیں معاشروں کو تبدیل کرنے کا ایک اہم پہلو بنتی جا رہی ہیں- جیسا کہ متعدد کانفرنسوں سے ظاہر ہوتا ہے جہاں ماحولیاتی مشیر موجود ہیں اور زیادہ پائیدار طریقوں کے لیے پالیسیاں بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔ تاہم، رویے اور سماج میں تبدیلی ابھی تک غائب ہے.
پاکستان کلائمیٹ چینج جینڈر ایکشن پلان (سی سی جی اے پی) کو حتمی شکل دینے کے عمل میں ہے۔ یہ منصوبہ زراعت اور خوراک کے تحفظ، پانی اور صفائی ستھرائی، قدرتی آفات کے خطرے کے انتظام، اور توانائی اور نقل و حمل کے لیے صنف پر مشتمل طریقہ کار کو لاگو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا اثر خواتین کی زندگی پر پڑے گا۔
مزید برآں، کویڈ19 وبائی مرض کے تناظر میں گرین محرک پیکج موجود ہے، جہاں خواتین کو پودوں کی نرسریوں میں یا جنگلاتی علاقوں کی حفاظت کے لیے ملازمت دی جاتی ہے؛ کامیاب جوان اسکیم، جو خواتین کاروباریوں کو 25% قرض دیتی ہے اور ہنرمند پاکستان پروگرام میں خواتین کے اندراج کی شرح 50% ہے۔ یہ ان اقدامات کی مثالیں ہیں جو گرین ملازمتوں اور صنفی مساوات کو مرکزی دھارے میں لانے پر مرکوز ہیں۔ تاہم، ان کوششوں کو کم فنڈ کیا جاتا ہے
تمام شعبوں میں خواتین کی شراکت میں اضافہ کیے بغیر پاکستان آنے والے پانی کے بحران پر قابو نہیں پا سکتا۔ مسئلے کے بارے میں مزید تعلیم، پانی سے متعلق خطرات کو کم کرنے کے طریقے، اور خواتین کی سماجی اور اقتصادی بااختیاریت ہی آگے بڑھنے کے واحد راستے ہیں۔