اپنے آغاز سے ہی، صوبہ خیبر پختون خواہ کے “بلین ٹری سونامی ” پروجیکٹ کو مختلف رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے— ایک ایسا منصوبہ جسکا مقصد شمال مغربی پاکستان کے ہندوکش ہمالیہ خطے میں بڑھتی ہوئی جنگلات کی کٹائی کو روکنا ہے- صوبہ اب تک اپنے ہدف کا 80 % پورا کر چکا ہے اور سال 2017 کے اختتام تک ایک ارب درخت کا ہدف مکمّل ہوجانا متوقع ہے-
اس دلفریب نعرے کو حقیقت میں بدلنے کے لئے، صوبہ خیبر پختون خواہ کی گورننگ پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے چاررُخی حکمت عملی تشکیل دی تھی: نۓ درخت لگانا اور موجودہ جنگلات کی ازسرنو افزائش کرنا؛ اعلیٰ سطح پر شفافیت کو یقینی بنانا؛ عوام مرتکز ترقی پر خصوصی توجہ برقرار رکھنا؛ اور سب سے اھم، بااثر “ٹمبر مافیا” سے نمٹنا- یہ بارسوخ مافیا جنگلاتی لکڑی کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ رہا تھا اور طاقتور اشرافیہ اس میں حصّہ دار تھے–
پڑھیے : Pakistan’s ‘Billion Tree Tsunami’ takes hold
آج یہ منصوبہ جہاں کھڑا ہے وہاں پنہنچنے کے لئے ان چاروں اسٹیجز کی مکمّل وضاحت اور بیک وقت اطلاق ضروری تھا- سب سے پہلے صوبے نے عالمی “بون چیلنج” کے ساتھ جنگل کے 384.000 ہیکٹر کی بحالی کا گرین ٹارگٹ مخصوص کیا، جس سے صوبے کے عزم اور ساکھ کو تقویت پنہچی ہے- کمیونٹی کی بنیاد پر قدرتی جنگلاتی تحفظ پر مشتمل بہتر قدرتی افزائش نو کے ذریعہ ایک ارب درختوں کے ہدف کا ساٹھ فیصد حاصل کیا گیا ہے- باقی کا چالیس فیصد، پبلک و پرائیویٹ ماڈل کے مشترکہ آمدن اور پیداوار پر مبنی شجرکاری میں توسیع سے پورا کیا جارہا ہے-
دوسرے، اعلیٰ سطح پہ شفافیت کے لئے ایک تیسری خودمختار پارٹی کے ذریعہ سالانہ کارکردگی آڈٹ کروایا گیا — اس کے لئے ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل (WWF–International) کی خدمات لی گئیں- تمام متعلقہ معلومات جیسے جی آئی ایس/جی پی ایس اور باغات کے محل وقوع، پروجیکٹ کی دستاویزات اور آڈٹ رپورٹس ایک ویب سائٹ پرپبلک کے لئے موجود ہیں-
تیسرے، “گرین جابز ” کے ذریعہ منصوبہ کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسکا مرکز پبلک رہے- جس کے نتیجہ میں “یوتھ نرسریز” اور جنگل کے مقامی محافظوں یا “نگاہ بان” جیسی اسکیموں کے ذریعہ پانچ لاکھ سے زائد ملازمتیں تخلیق ہوئیں، خاص کر دیہاتی عورتوں اور نوجوانوں کے لئے-
چوتھا اور اس منصوبے کی کامیابی کا سب سے اہم اسٹیج صوبے میں ٹمبر مافیا کو پیچھے دھکیلنا تھا- پچھلی چند دہائیوں کی غفلت اور حکومتوں کی سازباز کے نتیجہ میں یہ مافیا صوبائی نظام میں گہرائی تک پنہنچ گیا ہے- سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹ تک، شعبہ جنگلات کے افسران سے لے کر ٹمبر ٹھیکیداروں تک اور کتنے ہی لوگ ذاتی مفادات کے لئے ٹمبر کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں- یہ واضح تھا کہ جب تک اس مافیا سے نہ نمٹا گیا، قدرتی جنگلات کی تجدید کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی-
2013 تک، خیبر پختون خواہ کے جنگلات کا چوہتر فیصد غیر قانونی کٹائی کی بنا پر ختم ہوچکا تھا اور اس کی تجدیدی صلاحیت بھی ختم ہوچکی تھی- کاغذات کے مطابق درختوں کی کٹائی پر قانونی پابندی تھی جبکہ حقیقت میں محکمہ جنگلات اور منافع خور ٹھیکداروں کی ملی بھگت اور ساز باز کے ساتھ پابندی کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی رہی ہے- نتیجتاً، درخت تو تیزی سے کٹتے چلے گۓ جبکہ حکومت کے حصّے میں کوئی آمدنی نہیں آئی- مزید یہ کہ اس غیرقانونی کام کے لئے قانونی “نکتہ” نکالا گیا جہاں ایک مسخ شدہ “ونڈ فال ” پالیسی کی آڑ میں ہزاروں پرانے عمر رسیدہ درخت مزید افزائش کے لئے ناکارہ قرار دیکر قانونی طور پر کٹائی کے لئے منظور کردیے گۓ-
اس صورتحال کوتبدیل کرنے کے لئے باہمّت، ٹھوس اور اٹل سیاسی عزم کی ضرورت تھی- گورننگ پارٹی کے “گرین” ہدف کے امتحان کا آغاز ہوگیا اور اس نے قانونی، سیاسی اور انتظامی اقدامات کی شکل میں فوری کارروائی شروع کردی-
قانونی طور پر، سب سے زیادہ ناجائز استعمال ہونے والی “ونڈ فال ” پالیسی کو ختم کیا گیا اور ساتھ ہی ہزاروں پرانے درختوں کی کٹائی کی منظوری بھی منسوخ کردی گئی- پائیدار اور سائنسی انتظامات پر مبنی جنگلاتی پالیسی تشکیل دی گئی، جبکہ درخت کٹائی پر پابندی برقرار رہی لیکن صرف خیبر پختون خواہ کے مخصوص جنگلات میں- مزید یہ کہ حکومت درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے لئے کسی قسم کی لچک دکھانے کے خلاف پرعزم رہی- جلد ہی حکومت کے اس عزم کا بھی امتحان ہوگیا جب ایک مشکوک ٹھیکے کا انکشاف ہونے پر محکمہ جنگلات کے تین درجات کے افسران ایک ہی وقت میں برطرف کردیے گۓ- ایسے غیر متزلزل اقدامات نے ایک ذہنی تبدیلی کا آغاز کیا اور درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف کارروائی کے لئے دوسروں کے حوصلے بلند ہوۓ- اسطرح غیر قانونی تاجروں کے خلاف ایک مؤثر مہم کو کامیابی حاصل ہوئی-
اس مہم کا آغاز، سیٹلائٹ کے ذریعہ جنگلاتی زمین کے تعین سے ہوا، جوکہ تقریباً سو سال کے وقفے کے بعد ہوا ہے، اور اس کے نتیجہ میں 3,000 ہیکٹر جنگلاتی زمین مافیا اور ان کے حواریوں اور تحفظ یافتہ قابضین کے چنگل سے آزاد کروا لی گئی- اس کے ساتھ ساتھ مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژنز میں 617 آرا مِلوں کو ختم کر کے ان کے آپریشنل لائسنس منسوخ کردیے گۓ، اور خلاف ورزی کرنے والے تین سو ہائی پروفائل مجرموں کو گرفتار کرلیا گیا اور غیر قانونی ٹمبر تجارت میں استعمال ہونے والی آٹھ سو سے زائد گاڑیوں کو تحویل میں لے لیا گیا- اس مہم کی سب سے بڑی کامیابی اربوں روپے مالیت کی ایک لاکھ کیوبک فیٹ غیر قانونی لکڑی کی برآمدگی ہے- یہ لکڑی نیلام کردی گئی اور اس سے حاصل شدہ آمدنی صوبے میں شجرکاری پروگرام کی توسیع میں استعمال کی گئی-
کمیونٹی کی شمولیت
ان تمام ٹھوس انتظامی کارروائیوں سے ناصرف غیر قانونی لکڑی کے کاروبار کی بیغ کنی ہوئی بلکہ قدرتی افزائش کے لئے گنجائش بھی پیدا ہوئی ہے- خیبر پختون خواہ کے گھٹتے ہوۓ جنگلات اب محفوظ کمیونٹی ماحول میں قدرتی طور پر نشو نما حاصل کررہے ہیں— ( ڈبلیو ڈبلیو ایف کی آڈٹ رپورٹس کے مطابق) شرح افزائش دو سال میں دگنی ہوگئی ہے- صوبے کے قدرتی جنگلات کو کم ز کم چار ہزار محفوظ کمیونٹی احاطوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جہاں کمیونٹیز ناصرف درختوں کی ناکارہ لکڑی سے استفادہ حاصل کرسکتی ہیں بلکہ گرین جابز کی شکل میں بطور جنگلات کے محافظین “نگاہ بان” کی ملازمت بھی کررہی ہیں-
کمیونٹی کی بنیاد پر بناۓ گۓ اس ماڈل نے ایسے باہمّت لوگ جنم دیے جنہوں نے ٹمبر مافیا کا بیخوفی سے سامنا کیا، اس مہم کے لئے تین بہادر محافظین نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں سے ایک کو انٹرنیشنل رینجرز فیڈریشن کے رول آف آنرکا اعزاز دیا گیا-
اس مہم کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2016 کے ان اعداد و شمار کے مطابق پہلی بار خیبر پختون خواہ نے چھ ہزار کیوبک فیٹ لکڑی درآمد کی کیونکہ غیر قانونی بلیک مارکیٹ میں لکڑی دستیاب نہیں تھی- خیبر پختون خواہ کا ٹمبر مافیا اب ناقابل تسخیر نہیں، اور پاکستان کی سب سے بڑی شجرکاری مہم نے یہ ثابت کردیا کہ جب ارادے مضبوط ہوں تو کوئی کام ناممکن نہیں-
ملک امین اسلم خان صاحب، پاکستان تحریک انصاف کے گرین گروتھ انیشیٹو کے چیئرمین اور پارٹی کی کور-کمیٹی کے رکن ہیں- اس کے علاوہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN ) کے عالمی نائب صدر اور سابق ریاستی وزیر براۓ ماحول بھی رہے ہیں-
جنا