جنگلات

پاکستان کے گرین اسٹمیولس کا مستقبل کیا ہے؟ 

موسمیاتی تبدیلی کی نئی وزیر شیری رحمان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان موسمیاتی تحفظ کےلئے سنجیدہ رہے گا
اردو
<p>لاہور میں ایک شخص پودوں کی نرسری میں پنیریوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے (تصویر بشکریہ محسن رضا الامی)</p>

لاہور میں ایک شخص پودوں کی نرسری میں پنیریوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے (تصویر بشکریہ محسن رضا الامی)

32 سالہ وجاہت شاہ صوبہ خیبرپختونخوا میں 3,000 ہیکٹر فوجی اراضی پر پھیلے ہوئے ایک سرکاری شجر کاری میں مزدور ہیں۔ شاہ نے دی تھرڈ پول کو بتایا، “حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے دس دن بعد، مجھے اپنی کریانے کی دکان بند کرنی پڑی۔”

یہ شجرکاری دس بلین ٹری سونامی پروگرام کا حصہ ہے، جو کہ حال ہی میں  برطرف  ہونے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کا معروف منصوبہ ہے۔ ایک فارسٹ آفیسر محمد عثمان خان نے کہا کہ یہ منصوبہ وجاہت شاہ جیسے 85,000 رہائشیوں کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوا ہے۔

کوویڈ-19 سے پہلے، شاہ اپنی دکان سے ماہانہ 25,000 روپے ( 129 امریکی ڈالر) کماتے تھے۔ اب، شجرکاری پر  کام  سے یہ  15,000 روپے  ( 77 امریکی ڈالر ) کماتے ہیں، اور انکی دکان سے (جسے کوئی اور چلا رہا ہے ) انہیں ایک معمولی کرایہ ملتا ہے۔

 انہوں نے کہا، “میں جانتا ہوں کہ یہ بہت کم ہے، لیکن ہمارے تین افراد کے خاندان کی ضرورتیں اب کم ہیں۔ اس کے علاوہ میں باہر کام کرنے کو ترجیح دیتا ہوں،” اس طرح وجاہت شاہ کو اپنی بیچلر ڈگری کے لئے پڑھنے کا وقت ملتا ہے۔

تاہم، فاریسٹ آفیسر خان نے اعتراف کیا کہ 3,000 ہیکٹر بنجر فوجی اراضی کو نخلستان میں تبدیل کرنا، زیتون، ززیفس کنول، روز ووڈ، ببول کے درخت اور بہت کچھ اگانا، ان 50 مزدوروں کے لئے بہت بڑا کام ہے جو ان باغوں میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ہاتھ فنڈز کی کمی کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ علاقہ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں سے کھینچے گۓ زیر زمین پانی کے ساتھ وافر مقدار میں پانی رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس افرادی قوت کافی نہیں ہے۔ خان نے کہا، “ہمارے پاس ہر 40 ہیکٹر کے لئے کم از کم آٹھ مزدور ہونے چاہئیں،” انہوں نے مزید کہا کہ مزید عملے کے بغیر علاقے کو سرسبز رکھنا ممکن نہیں ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لئے ” بوسٹر خوراک” 

سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نےکوویڈ-19 کو بطور تشبیہہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک سے 120 ملین امریکی ڈالر کا قرضہ، پاکستان کے گرین اسٹمیولس اور اسی نوعیت کے منصوبوں کے لئے ایک “بوسٹر خوراک” کے طور پر تصور کیا گیا تھا۔

اسلم نے کہا کہ یہ رقم، اصل میں پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ایک پروجیکٹ کے لئے مختص کی گئی تھی، کوویڈ-19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کے جواب میں اسے فطرت کی بحالی کی طرف منتقل کردیا گیا تھا۔

عمران خان کی وزیر اعظم کے عہدے سے برطرفی کے بعد 29 اپریل کو دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے، اسلم نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ پیکج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ 

اسلم نے گرین اسٹمیولس پیکج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ “فطرت سے متعلق مثبت فنڈز” حقیقی معنوں میں ہماری دسترس میں تھے”، اس کی پہلی قسط 15 اپریل تک جاری کی جانی تھی۔ “پہلا مرحلہ رول آؤٹ کےلئے تیار تھا، جب ہم خود قبل ازوقت رول آؤٹ ہو گئے!” انہوں نے افسوس کا اظہار کیا-

گرین اسٹمیولس فنڈز کیسے استعمال کئے جانے تھے ؟

پاکستان کے گرین اسٹمیولس  نے 2019 میں شروع ہونے والے چار سالہ دس بلین ٹری سونامی پروگرام کے فریم ورک کے اندر فطرت کی بحالی پر مرکوز ملازمتیں فراہم کرنا تھا۔ پاکستان کے 45 قومی پارکوں کے انتظام اور تحفظ کے لئے پارک رینجرز کی 6000 تک ملازمتیں فراہم کرنا تھیں۔

اس کے علاوہ، تین قومی پارکوں میں کمیونٹی وارڈنز جو 2019 سے اپنی اجرت کا انتظار کر رہے تھے، آخرکار انہیں اجرت ادا کردی جاتی۔ 

گرین اسٹمیولس کے ذریعے سپورٹ کئے جانے والے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ موجودہ مینگرووز کی حفاظت اور ساحلی پٹی میں 50,000 ہیکٹر پر شجرکاری کا بھی تھا، اس سے بھی مزید ملازمتیں  پیدا ہوتیں۔ جب منصوبے شروع  ہوتے، اس اسکیم سے 150,000 لوگوں کو نوکریاں ملنی تھیں۔ شہد کی مکھیوں کی افزائش، اور زیتون اور مگرناشپاتی کے باغات سمیت نئے منصوبے متعارف کرائے جانے تھے۔

پاکستان کا گرین اسٹمیولس، یواین ڈیکیڈ آن ایکوسسٹم ریسٹوریشن  2021-2030 کے دائرہ کار میں فٹ بیٹھتا ہے، یہ ایک فریم ورک ہے جو ماحولیاتی بحران سے لڑنے کے لئے ماحولیاتی نظام کے نقصان کو ریورس کرنے پر مرکوز ہے۔ اسلم نے وضاحت کی کہ اس کا مقصد “فطرت کی حفاظت اور نوجوانوں اور خواتین سمیت ہزاروں لوگوں کو گرین ملازمتیں فراہم کرنا تھا۔”

اب پاکستان کے سیاسی بحران کے نتیجہ میں، اسلم نے خدشہ ظاہر کیا کہ “فطرت کے تحفظ اور گرین نوکریاں دینے کی تمام کوششیں ناکام ہو سکتی ہیں”۔

نئی وزیر پاکستان کے گرین اسٹمیولس کو جاری رکھنا چاہتی ہیں موسمیاتی تبدیلی کی

اسلم کے خدشات بے بنیاد ہو سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی نئی وزیر شیری رحمان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ یہ گرانٹ پاکستان کے لئے دستیاب رہے گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ورلڈ بینک ملک کو سپورٹ کر رہا ہے، نہ کہ کسی مخصوص پارٹی کے تحت کسی خاص انتظامیہ کی، اس لئے معاہدہ اب بھی قائم ہے۔

دی تھرڈ پول نے قرض کی صورتحال کے بارے میں عالمی بینک سے رابطہ کیا۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کے وقت تک جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

وزارت براۓ موسمیاتی تبدیلی گرین اسٹمیولس منصوبے کو جاری رکھنا چاہے گی اور اگر ضرورت ہو تو مستقبل میں کسی بھی اصلاح کو اپنانا چاہے گی
شیری رحمان، پاکستان وزیر براۓ موسمیاتی تبدیلی

معاہدے کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر اینڈ رسک مینجمنٹ فنڈ کے نام سے ایک ادارہ فنڈز وصول کرے گا اور انہیں مختلف محکموں میں تقسیم کرے گا۔ گیارہ پراجیکٹس کی جانچ پڑتال اور منظوری بینک نے پہلے ہی دے دی ہے۔

رحمان نے کہا، “ایم او سی سی (منسٹری آف کلائمیٹ چینج )  گرین محرک منصوبے کو جاری رکھنا چاہے گی اور اگر ضرورت ہو تو مستقبل میں کسی بھی اصلاح کو اپنانا چاہے گی۔”

تاہم، عہدہ سنبھالنے کے بعد، وہ یہ توقع کر رہی تھیں کہ وزارت کی حیثیت “ایک پراجیکٹ پر عمل درآمد کے محکمے” سے زیادہ ہوگی جو صرف درخت لگانے کے لئے وقف ہے۔ 

” ایم او سی سی  بنیادی طور پر ایک پالیسی منسٹری ہے، پراجیکٹ پر عمل درآمد کا محکمہ نہیں،” انہوں نے وزارت براۓ موسمیاتی تبدیلی کے اپنے وژن کی تفصیل بتاتے ہوئے نشاندہی کی، جس میں پالیسی ڈیزائن، صوبوں کی نگرانی اور پاکستان کے معاملے کو کم آلودگی پھیلانے والے ملک کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے سامنے پیش کرنا شامل ہے۔ 

یکن سب سے بڑھ کر، رحمان نے کہا، ” ضروری ہے کہ وزارت، ریاستی اور کمیونٹی ایکشن کے ذریعے تحفظ اور آب و ہوا کے اہداف پر عوامی گفتگو کی شروعات کرے-“

پاکستان کو “ذمہ داری کے ایک ایسے جال” میں پھنسا دیا گیا ہے جہاں، بین الاقوامی سطح پر، “اس نے اس سے کہیں زیادہ کا وعدہ کیا ہے جس کی وہ پیمائش تک نہیں کر سکتا، ڈیلیور کرنا تو دور کی بات ہے
شیری رحمان، پاکستان وزیر براۓ موسمیاتی تبدیلی

انہوں نے وزارت میں موسمیاتی ابلاغ سیل کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ وفاقی سیکرٹری کا اب تک عہدہ خالی ہے۔ اور جب صنف کی بات آتی ہے، توانہوں نے مزید کہا، “پاکستان میں ادارہ جاتی فریم ورک نادانستہ طور پر عدم مساوات کو برقرار رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی کونسل، ایک ایسا فورم جہاں صوبوں کے نمائندوں کو موسمیاتی کارروائی کے فریم ورک پر بات چیت اور تعاون کرنے کے لئے ملنا تھا، غیرفعال ہے اور اس کے تحت گزشتہ چار سالوں میں ایک بھی میٹنگ نہیں کی گئی۔  انہوں نے کہا، “یہ سب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔”

اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ رحمان  کو موسمیاتی محاذ پر ملک کی ضروریات اور ترجیحات کا “اچھا آئیڈیا” ہوسکتا ہے، اسلم نے خبردار کیا کہ “عمل درآمد اور فوکَس” کے لئے سیاسی ملکیت اور اعلیٰ ترین سطح پر درکار افہام و تفہیم اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے جو “اس انتظامیہ میں شائد موجود نہیں”۔

ملکی اصلاحات نئی ترجیح ہے

اسلم نے کہا کہ “صاف توانائی کی طرف منتقلی اور فطرت پر مبنی حل کے استعمال کے دو جہتی طریقہ کار” کو اپنانا ضروری ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پچھلی حکومت کے مقرر کردہ اہداف کو تبدیل کرنے کے نہ صرف ماحولیاتی بلکہ معاشی اور سماجی نتائج ہوں گے جن کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ موجودہ حکومت “اس بات کو سمجھ سکتی ہے اور موسمیاتی موافق ترقی کی طرف منطقی راستہ اختیار کر سکتی ہے۔”

تاہم، رحمان نے تبصرہ کیا کہ وہ فکر مند ہیں کہ پاکستان کو “ذمہ داری کے ایک ایسے جال” میں پھنسا دیا گیا ہے جہاں، بین الاقوامی سطح پر، “اس نے اس سے کہیں زیادہ کا وعدہ کیا ہے جس کی وہ پیمائش تک نہیں کر سکتا، ڈیلیور کرنا تو دور کی بات ہے۔”

 انہوں نے نشاندہی کی”حالانکہ اخراج کو کم کرنے کے وعدے بیرون ملک کئے گئے تھے، توانائی کی حقیقی منتقلی کے لئے اندرون ملک کسی بنیادی ڈھانچے یا ادارہ جاتی اصلاحات کی کوشش نہیں کی گئی۔”

اور بحران کی “موجودگی” کے باوجود، پالیسی سازی یا کمیونٹی کی سطح پر کوئی آگاہی پیدا نہیں کی گئی۔ رحمان نے کہا، “پانی کی کمی پر کوئی کام یا عوامی پیغام نہیں دیا گیا،” اگرچہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی کمی کا شکار ہو جائے گا۔ “ایسا لگتا ہے کہ آب و ہوا کے حل کو صرف درخت لگانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔”