“ہم انصاف چاہتے ہیں… موسمیاتی انصاف!”
نعرے بلند ہوتے ہیں۔ نعرے، پوسٹر، بیجز، اسکارف، اور بہت سارے نوجوان۔ اِن مناظر نے دبئی میں کوپ 28 کی رونق میں اضافہ کرنے بہت اہم کردار ادا کیا۔
2022 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد، جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا اور اَسّی لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے، موسمیاتی تبدیلی ملک کے لئے ایک ناگزیر حقیقت بن گئی ہے۔ اس کے بعد سے، پاکستان میں نوجوانوں کی ماحولیاتی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جو کوپ 28 میں واضح تھا۔
دیگر موسمیاتی ایکشن گروپوں کے علاوہ فرائیڈے فار فیوچر اینڈ ری ارتھ انیشی ایٹو کی نمائندگی کرنے والی ردا راشد نے کہا کہ “بہت سی کوپس میں شرکت کرنے کے بعد مجھے یہ بالکل واضح دکھائی دیتا ہے کہ عالمی رہنما لوگوں پر اقتدار کو ترجیح دیتے ہیں۔ ردا احتساب پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ “میں شفافیت اور احتساب کے طریقہ کار کی وکالت کرتے ہوئے مقامی، قومی اور بین الاقوامی حکومتوں کو جوابدہ بنانے پر توجہ مرکوز کرتی ہوں۔”
اقوام متحدہ کے سالانہ موسمیاتی مذاکرات حد سے زیادہ مباحثوں کے لئے بدنام ہیں اور یہ سال بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ 12 دسمبر کو ختم ہونے والی کانفرنس، اِس کے بجائے اگلی صبح اپنے حتمی معاہدے (تقریباً 200 فریقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے) کی اشاعت کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ نتیجے میں سامنے آنے والی دستاویز اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے جس میں واضح طور پر “فوسل فیولز سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی” پر اتفاق کیا گیا ہے۔
لیکن دی تھرڈ پول نے جن نوجوان پاکستانی ماحولیاتی کارکنوں کے انٹرویو کیے وہ خاص طور پر مقامی مسائل میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔
یوتھ کلائمیٹ ایکٹوسٹ پاکستان کی سربراہ ہانیہ عمران نے کہا کہ “اس کوپ میں میری توجہ نقصان اور تباہی فنڈ (Loss and Damage Fund) پر ہے کیونکہ یہ دونوں پاکستان کے لئے بہت اہم ہیں جبکہ اِس موسمیاتی مذاکرات میں کام صرف عارضی حل کے ارد گرد کیا جا رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ “پاکستان نے کوپ 27 میں بہت دباؤ ڈالا تھا، لیکن ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ فنڈز ہمیں قرضوں کی شکل میں دیئے جائیں گے۔ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ معاوضہ صرف حکومت کے حوالے کیا جائے گا، یا کمیونیٹیز کے نقصان کی بھی تلافی کی جائے گی۔”
‘کوپ اِن مائی سٹی پروگرام کے ذریعے آٹھ نوجوان پاکستانی ماحولیاتی کارکنوں کا ایک گروپ ملک کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے تعاون سے کوپ 28 میں آیا، جسے ہانیہ نے “غیر معمولی” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے نوجوانوں کو کوپ 28 جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر لانا ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ ‘کوپ اِن مائی سٹی’ کی پروجیکٹ لیڈر اور کوپ 28 میں بطور کلائمیٹ کنسلٹنٹ شرکت کرنے والی خاتون حفصہ رضوان نے کہا کہ انہیں براہِ راست یہ جاننے کا موقع ملا کہ موسمیاتی ڈپلومیسی کس طرح کام کرتی ہے۔
حفصہ نے کہا کہ موسمیاتی ڈپلومیسی اور فعالیت میں نوجوانوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں، جہاں 68 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ”یہ نوجوان ہی ہیں جو موسمیاتی بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔” دوسری بات یہ ہے کہ پالیسیاں وفاقی اور صوبائی پالیسی سازوں کی جانب سے بنائی جاتی ہیں مگر اُن پر عمل درآمد نچلی سطح پر ہوتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں نوجوان آگے بڑھتے ہیں اس لئے اِن کی آواز کو پالیسیوں کا حصہ ہونا چاہیے۔
دی تھرڈ پول نے یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے سرکاری یوتھ گروپ ‘ینگو’ کی نمائندگی کرنے والی کارکن زینب زاہد سے ملاقات کی۔ وہ نوجوانوں کی زیرِ قیادت چلنے والی ایک تنظیم کلائمیٹ فارورڈ پاکستان (سی ایف پی) کی رکن بھی ہیں۔ “بااختیار خواتین منصفانہ موسمیاتی کاروائیوں کے حصول کے لئے اہم متعلقین میں سے ہیں۔ معاشرے کی تشکیل کرنے والی یہ خواتین موسمیاتی اثرات کے خطرات اور زراعت اور قدرتی وسائل کے انتظام میں مرکزی کردار کے پیش نظر اہم ذمہ داریاں اٹھاتی ہیں۔”
دریں اثنا، کلائمٹ فارورڈ پاکستان کے شریک بانی دورلبھ اشوک نے تکنیکی آب و ہوا کے حل کی تبدیلی کی صلاحیت کی ہمایت کی، “جدت طرازی اور اس کی آب و ہوا کی لچک کو بڑھانے کی صلاحیت پر زور دے کر، میرا مقصد ایسی بات چیت کو شروع کرنا ہے جو پائیدار طریقوں میں جدید ٹیکنالوجی کے انضمام کو آگے بڑھائے۔”
دورلبھ کوپ 28میں گلوبل اسٹاک ٹیک کی پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے تھے جس میں UNFCCC کے پہلے یوتھ اسٹاک ٹیک کے عمل کا اختتام شامل تھا، جو نوجوانوں کے عزم کا تجزیہ کرتا ہے۔
فرائیڈے فار فیوچر پاکستان کے شریک بانی اور لیڈ آرگنائزر کامران علی گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے کوپ 28 میں شریک ہوئے ۔کامران نے وضاحت کی کہ “پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں گلگت بلتستان جیسی جگہوں پر کارکنوں کو دشوار گزار علاقے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معلومات کا اشتراک کرنا یا تقریبات کو منظم کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ وہاں اچھی انٹرنیٹ یا فون سہولت نہیں ہے۔”
کامران نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس خطہ میں موسمیاتی خطرات جیسے بار بار آنے والے سیلاب کے امکانات ہیں اسی لیے میں نے اس میدان میں قدم رکھا۔ “میں خطوں جیسے کہ گلگت بلتستان کے لیے پائیدار حل تلاش کرنے اور لچک پیدا کرنے کی حکمت عملیوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے گہرا احساس محسوس کرتا ہوں۔ کمیونٹیز پر اس طرح کی آفات کے اثرات کو روکنے یا کم کرنے کی عجلت نے مجھ میں آگاہی پیدا کرنے، موافقت کے اقدامات کو نافذ کرنے، اور ایسی پالیسیوں کی وکالت کرنے پر مجبور کیا جو موسمیاتی لچک کو ترجیح دیں۔
حافظ جواد سہیل جو اپنی مسلسل تیسری کوپ میں شریک تھے نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس سال ان کی توجہ قومی آب و ہوا کی پالیسی سازی کی بہتر تفہیم حاصل کرنے پر مرکوز ہے اور کوشش ہے کہ نوجوانوں کی نمائندگی کو کیسے شامل کیا جائے۔ “میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ بین الاقوامی موسمیاتی ڈپلومیسی کیسے کام کرتی ہے اور مذاکرات بین الاقوامی مراحل جیسے کوپ میں کیسے ہوتے ہیں۔
دی تھرڈ پول نے سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹو عائشہ خان سے بھی بات کی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس موسمیاتی تحریک میں نوجوانوں کے لیے کوئی مشورہ ہے: “نوجوان زیادہ بامعنی اور موثرکردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ پیرس معاہدے کے مضامین سے خود کو بہتر طور پر واقف کر لیں اور اپنی سرگرمیوں کو ان طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کے راستے تلاش کریں جو ممالک کو این ڈی سی کے وعدوں کو حاصل کرنے میں مدد دیں۔
نیشنلی ڈیٹرمنڈ کونٹریبوشن – این ڈی سی
2015 کے پیرس معاہدے کے تحت، ممالک کو قومی اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی کوششوں کے لیے ایک خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان وعدوں کو نیشنلی ڈیٹرمنڈ کونٹریبوشن – این ڈی سی کہا جاتا ہے۔
این ڈی سی ہر پانچ سال بعد جمع کرائے جاتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر این ڈی سی سابقہ (نام نہاد ‘ریچیٹ میکانزم’) سے زیادہ حوصلہ افزا ہوں گے۔ مشترکہ طور پر، یہ قومی اہداف موسمیاتی تبدیلی کی شدت اور اثرات کو کم کرنے کے لیے ایک مربوط عالمی کوشش کے مترادف ہونا چاہیے۔
ردا نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس نے اس سال کوپ میں نوجوانوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم فعال طور پر مذاکرات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، اقدامات کر رہے ہیں، مظلوموں اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ یکجہتی کر رہے ہیں، اور وکالت میں مصروف ہیں۔ اگرچہ اس میں سال لگ سکتے ہیں لیکن ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو لوگوں کی طاقت کو شکست دے سکے۔”