ایک شام 43 سالہ عثمان بھٹی والی بال کھیل رہا تھا جب اسے یہ خبر موصول ہوئی کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گاؤں چھاہورمیں اس کا تین کمروں والا مکان پانچ بھینسوں، دو بیلوں اوردیگر ساز وسامان کے ساتھ سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ خوش قسمتی سے گھر میں کوئی نہیں تھا، میری بیوی اور دو بیٹے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے کراچی گئے ہوئے تھے۔ اگست 2013 کے اس تباہ کن دن کو یاد کرتے ہوئے وہ شکر گزار تھا کہ اس کا خاندان محفوظ رہا۔ لیکن اس کا خیال ہے کہ اگر بروقت وارننگ مل جاتی تو اتنے بڑے نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔ اس دن کیا ہوا تھا، بھٹی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملک بھارت اور 47 زیر آب دیہاتوں سے ہوتا ہوا 19500 کیوسک پانی کا ریلا سیالکوٹ ضلع میں اس کے گاؤں کے قریب ایک برساتی ندی، نولہ ڈیک تک پہنچ گیا۔ اگرحکومت نے علاقے میں ایک ارلی وارننگ سسٹم نصب کیا ہوتا اور اورہمیں بروقت اطلاع مل جاتی تو میں کم از کم اپنے بیلوں اور کچھ قیمتی گھریلو سامان کو ہی بچا لیتا۔
سیالکوٹ، شمالی پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے 125 کلومیٹر کے فاصلے پر دریا چناب کے قریب کشمیر کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ بھٹی کی کہانی کی گونج ملک بھر میں ہے۔ اور یہ ارلی وارننگ سسٹم کی ضرورت کی نشاندہی کرتی ہے تاکہ زندگیوں اور روزگار کو بچایا جاسکے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں اندازاً 715،000 افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کا سالانہ نقصان تقریبا 1 فیصد یعنی 1.7 ارب ڈالر ہوتا ہے۔ اس کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں 2030 تک پاکستان میں سالانہ 2.7 ملین افراد دریا ئی سیلابوں سے متاثر ہو سکتے ہیں تاہم ملک میں خستہ حال ارلی وارننگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے اور سیلابی خطرات سے متاثر شہروں میں سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کوکم کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طویل مدت کی واٹر پالیسی، اپ گریڈیڈ ٹیکنالوجی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ پاکستان کو سیلابی پانی کی آفات سے نکلنے میں مدد کرسکتا ہے۔
محکمہ موسمیات پاکستان (PMD) کے چیف میٹریولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ملک میں موسم کی پیشں گوئی کے لئے مختلف شہروں میں صرف سات ریڈارز نصب کیے گئے ہیں جو کہ اگرچہ ایک ارلی وارننگ سسٹم کے اہم حصے ہیں لیکن ان میں سے صرف دو مؤثر طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہما رے پاس 15 سال پرانی ریڈار ٹیکنالوجی ہے، اگر ملک کو سونامی، سائکلون اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے موثر انداز میں بچانا ہے تو اس پرانے نظام کو فوری طور پر جدید نظام سے بدلنے کی ضرورت ہے۔
پڑوسی ممالک کے ساتھ ماحولیاتی اعداد و شمار کا تبادلہ
انہوں نے مزید کہا پاکستان کو مؤثر طریقے سے سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ملک بھر میں کم از کم 13 موسمیاتی ریڈار نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے اپنے نظام کو اپ گریڈ کرے جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کرچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ورلڈ میٹریولوجیکل آرگنائزیشن کے ارکان ہیں، دونوں کو موسمیاتی اور ماحولیاتی اعداد و شمار کا تبادلہ کرنا چاہئے۔ اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا لیکن ان کے درمیان کشیدہ تعلقات انہیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔
سردار محمد طارق، سابق ریجنل چیئر، گلوبل واٹر پارٹنرشپ جنوبی ایشیا نے بتایا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئےبرادریوں کی سطح پر حل نکالا ہے۔ سیلاب کے خطرات سے متاثرہ کمیونٹیز کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے انہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سیلاب کے خطرات سے متاثر علاقوں میں لوگوں اور متعلقہ امدادی ایجنسیوں کو ان کے موبائل فون پر پانی کے خطرے کی سطح تک پہنچنے کی اطلاع دینے کے لیے ا سپیشل معلومات کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستانی حکومت کوبھی چاہئے کہ سیلاب کے خطرات سے متاثر علاقوں میں لوگوں کو خطرے کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے کے لیے ذرائع ابلاغ کے خصوصی مراکز قائم کرے۔ پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اس کے دریاؤں کی کل اوسط بہاؤ کے موجودہ ٪ 7 سے بڑھا کر ٪ 40اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال آنے والے سیلاب کی شدت اور نقصان کو کم کیا جاسکے۔ ملک میں پانی کی کوئی پالیسی موجود نہیں ہے، ہمیں سیلاب سے نمٹنے کے لئے اکیلےہی ایک مؤثر حکمت عملی اور انتظامی ڈھانچے کی تیاری کرنے ہوگی۔ ان کے خیال میں حکومت کو سیلاب جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے عارضی انتظامات پر انحصار کرنے کے بجائے طویل مدتی پالیسیاں تشکیل دینا چاہئے۔ خطے میں ہمارا ارلی وارننگ سسٹم سب سےزیادہ خستہ حال ہے کیونکہ ہمارے یہاں لوگوں کو آنے والی آفات کے بارے میں کم از کم 24 گھنٹے پیشتر مطلع کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے رکن احمد کمال نے کہا کہ اگرچہ درمیانی اور طویل مدتی موسمیاتی پیشں گوئیاں سیلاب کے ساتھ نمٹنے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔ انسانی لاپرواہی سے آنے والی آفات سے نمٹنے کے بجائے بہتر ہے کہ حکومت کو آب و ہوا اور آفات سے متعلقہ انتظامی امور کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ موسمیاتی پیشں گوئیوں کی محض ایک مخصوص حد تک تشریح کی جا سکتی ہمیں متعلقہ محکموں میں بہتر رابطے اور سیلابوں سے نمٹنے کے لئے بہتر تیاری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
کمال کے مطابق پاکستان کو دریائی بہاؤ اور بارشوں پر نظر رکھنے کے لئے جدید ترین گیجنگ نظام نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی پیش گوئی کے مراکز کو بروقت اور درست معلومات حاصل ہو سکیں۔ اس حوالے سے پہلے کچھ اقدامات اٹھائے گئے تھے جن کے اچھے نتائج آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2007 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں ایک برساتی ندی نالہ لیہہ پر جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA) کی طرف سے 5.5 ملین ڈالر کی گرانٹ سے ایک ارلی وارننگ سسٹم نصب کیا گیا تھا جو سیلابی بہاؤ کے آنے سے کم از کم 60 منٹ پہلے رہائشیوں کو ہوشیار کرکے انخلأ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بارش ناپنے والے چھ گیج اور پانی کی سطح ناپنے والے دو گیج پانچ دنوں کے بیک اپ پاور کی صلاحیت کے ساتھ نصب کیے گئے تھے۔یہ گیج ہر دو منٹ بعد پانی کی سطح کی پیمائش لیتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مواصلاتی ترسیل کے ذریعے سے محکمہ موسمیات اسلام آباد کے ہیڈ کوارٹر میں ایک کنٹرول روم میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔ ماہرین موسمیات ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرکے موسمیاتی پیش گوئیاں راولپنڈی میں ایک کنٹرول روم بھیج دیتے ہیں جہاں سے عوام کو وارننگ جاری کی جا تی ہے۔ مکینوں کو بلند مقامات پرپہنچنے یا علاقے کو خالی کرنے کی ہدایات جاری کرنے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں دس اطلاعی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
کمال نے کہا کہ ملک بھر میں ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کے لیے تقریباً 24 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبہ اب تک شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔
چیف میٹریولوجسٹ محکمہ موسمیات غلام رسول نے بتایا کہ جاپانی حکومت اور یونیسکو نے حال ہی میں پاکستان میں سیلاب کی اطلاعی اور انتظامی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے 4.05 ملین ڈالر کا منصوبہ شروع کرنے پر اتفاق رائے کیا ہے۔ تاہم ابھی اس میں وقت لگے گا۔ محکمہ موسمیات کے اسلام آباد اور کراچی کے اسٹیشنوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کرنے اور ملک میں اوسط مدت کی موسمیاتی پیش گوئیوں کو بہتر بنانے میں کم از کم دو سال لگیں گے۔
مارچ 14-18 جاپان میں جاری کانفرنس میں قدرتی آفات کے خطرات میں کمی کے لئے ایک نیا عالمی ایکشن پلان منظور کر لیا گیا ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے رکن ممالک کے ساتھ موسمیاتی اور ماحولیاتی معلومات کے تبادلے کا ایک پر اثر ریجنل ماڈل تجویز کیا ہے۔یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ پاکستان میں اب ماہرین اس مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔