پاکستان کے علاقہ آذاد جموں کشمیرمیں اکتوبر 2005 میں آنے والے خطرناک زلزلہ کے نتیجہ میں روبینہ سلیم کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اور وہ خود بھی زندگی بھر کےلئے مفلوج ہو گئی کیونکہ وہ اپنے گھر کے ہی ملبے کے نیچے دب گئی تھی۔ اس کی زندگی اب دوبارہ پہلے جیسی تو کبھی نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی وہ خوش قسمت ہے کہ ایک غیرسرکاری تنظیم پاکسبیب
میں نے2013(PAKSBAB)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک شہر راولپنڈی کے مضافاتی علاقہ میں اسے گھاس پھوس سے ایک مضبوط گھر بنا کر دیا ہے۔
ویل چیئر میں بیٹھی 52 سالہ سلیم کا کہنا ہے کہ “اس گھر میں کم توانائی خرچ ہوتی ہے اور ہمارا پہلا والا گھر جو اینٹوں اور پتھروں سے بنا تھا اس کے برعکس یہ گرمی اور سردی کے دونوں موسموں میں آرام دہ ہوتا ہے۔”
سرخ اینٹوں سے بنے گھروں کے درمیان روبینہ سلیم کا گھر بھی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے اتنا ہی مضبوط نظر آتا ہے جتنا کہ اس کے ارد گرد کے پکے گھر، وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ اس گھر میں رہتی ہے اور اب وہ ان گھاس پھوس سے بنے گھروں کو بہت سپورٹ کرتی ہے، خاص کر ان پہاڑی علاقوں کے لئے جہاں اکثر زلزلے آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ “اگر2005 والے زلزلہ کے وقت میں اسی طرح کے گھر میں رہ رہی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ میری ریڑھ کی ہڈی کبھی بھی نہ ٹوٹتی۔” زلزلے مانیٹرکرنے والی ایک ویب سائٹ
کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں زلزلے سب سے زیادہ آتے ہیں، اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں صرف 2015 میں 215 زلزلے آئے ہیں۔ ورلڈبینک
کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2005 کے زلزلہ کی وجہ سے پاکستان کو پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا، کیونکہ اس زلزلہ کی وجہ سے تقریبا 28 لاکھ لوگ بے گھر جب کہ 73،000 لوگ مر گئے تھے۔
گھاس پھوس سے گھر بنانا اس لئے آسان ہے کیونکہ یہ زراعت کا ایک بائی پراڈکٹ ہے اور آسانی کے ساتھ مل جاتا ہے، پہلے اسکی گانٹھیں بنائی جاتی ہیں اور پھر دیواریں بنانے کے لئے اس کو باقاعدہ ایک فریم میں فٹ کرنے کے بعد مٹی سے پلسترکر دیا جاتا ہے، چھت اور دیواروں کو مضبوط کرنے کے لئے لکڑی کے ایک فریم سے سہارا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں زلزلہ متاثرین کے لئے پاکسبیب اب تک 40 گھر بنا چکا ہے اور ان گھروں کے رہائشیوں سے بھی ان کو زبردست فیڈبیک ملا ہے، اسکی چیف ایگزیکٹو افسر ڈارسی میسنرڈنووان
(Darcey Messner Donovan)
کا کہنا ہے کہ “گھاس پھوس سے گھرتعمیر کرنے کا ہمارا طریقہ یہ ہے کہ قابل تجدید اور مقامی میٹیریل استعمال کیا جائے، جس سے کم خرچہ سے گھروں کی تعمیر ہوتی ہے اور یہ زلزلہ پروف ہونے کے ساتھ ساتھ توانائی بچانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔”
ایسے گھروں کی تعمیر کی لاگت، مزدوری اور میٹیریل کی قمیت شامل کر کے، تقریبا 500سے 600روپے فی مربع فٹ آتی ہے اور یہ کسی حد تک میٹیریل کی دستیابی اور گھر کے ڈیزائن پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ پاکستان میں متوسط طبقہ کے گھروں کی تعمیر کی لاگت ان گھروں سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے جو کہ 1500 سے 1700 روپے فی مربع فٹ بنتی ہے اور پوش علاقوں میں تو گھروں کی تعمیرکی لاگت کہیں زیادہ ہے۔
ڈارسی کا کہنا ہے کہ، “ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اچھی ٹیکنالوجی ہے جسے لوگوں کی تربیت سے مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔”
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے کچھ قانون سازوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور چاہتی ہیں کہ اس پراجیکٹ کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
پاکسبیب پاکستان میں اب تک کوئی 70 کے قریب مقامی معماروں کو تربیت بھی دے چکی ہے لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے فی الحال اس نے اپنا کام روک دیا ہے کیونکہ یہ تنظیم تمام گھر زلزلہ متاثرین کو مفت بنا کر دے رہی تھی۔ ڈارسی کا کہنا ہے کہ، “ہمارا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اس پراجیکٹ کے لئے پیسے اکٹھا کرنا ہے، ہم نے دوستوں کے عطیات اور چھوٹی مالی گرانٹس کے ساتھ کافی کچھ مکمل کر لیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس پراجیکٹ کو اگلے لیول تک لے کر جایا جائے۔”
گھاس پھوس سے بننے والے گھروں کی کئی خوبیا ں ہیں جن میں توانائی کا کم استعمال، گرمی کے خلاف مزاحمت اور کم پیسوں میں ان کی تعمیر شامل ہے، لیکن حکومتی عدم توجہی کے سبب انہیں پاکستان میں تاحال وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ حق دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ بھی ان گھروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ زلزلوں، سیلاب اور لینڈ سلائڈنگ کے خلاف موئثر بھی ثابت ہو سکیں گے یا نہیں۔
حکومتی عدم توجہی کے باعث زلزلہ پروف اور گرین عمارتوں کی تمیر نہ ہونے کے سبب قدرتی آفات اور زلزلوں کی صورت میں جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان گرین بلڈنگ کونسل
(Pakistan Green Building Council)
کے سینئر معمار منیب حیدر کا کہنا ہے کہ گرین عمارتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ انکا مزید کہنا ہے کہ گھاس پھوس سے بنی عمارتیں نہ صرف کاربن اخراج کم کرنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ سخت موسم اور ہیٹ ویو جیسے عمل کو روکنے میں بھی مدد دیتی ہیں- “گھاس پھوس سے بننے والے گھر ماحول دوست بھی ہوتے ہیں کیونکہ انکا میٹیریل اینٹوں اور پتھروں سے بننے والی عمارتوں کے برعکس آسانی کے ساتھ خود بخود قدرتی طور پر زمین میں تحلیل ہو جاتا ہے۔”
حیدر تاہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان گھروں کی کامیابی کے لئے لوگوں کی مختلف پہلووں سےحوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا ہے کہ “پاکستان کے دونوں شہری اور دیہاتی علاقوں میں لوگ سوشل اسٹیٹس کا خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ گھاس اور مٹی سے بننے والے گھر صرف غریب لوگوں کے لئے موزوں ہیں۔”
کامسیٹ یونیورسٹی کے ایک سینٹر برائے ماحولیاتی تحقیق اور ترقی
(Centre for Climate Research and Development)
کے سینئر مینیجر بلال انور کا کہنا ہے کہ گھاس پھوس کی گانٹھوں والے جدید طریقہ کار کے باعث زیادہ تر قدرتی آفات کا شکار ہونے والے علاقوں کے لوگوں کو با اختیار بنایا جا سکتا ہے اور اگر انہیں اس کی مناسب تربیت دی جائے تو وہ قدرتی آفات کے باعث تباہ ہونے والے گھر خود بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔
انور کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے بے گھر ہونے کے سبب اور پھر انہیں نئے سرے سے کسی دوسری جگہ پر بسانے کی وجہ سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑتا ہے اس لئے گھاس پھوس سے بننے والے گھر ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی نقصان بھی کم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ “قدرتی آفات سے بچائو کے لئے کام کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گرین اور گھاس پھوس سے بننے والی عمارتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور مقامی لوگوں، معماروں اور ماحول دوست کارکنوں کے ساتھ مل کر ان کی ترویج بھی کریں۔”