دولت خان ان بیس جواں مردوں میں سے ایک تھے جو برفانی طوفان میں اپنے گاؤں مداشیل سے مسلسل پانچ گھنٹے سفر کر کے پڑوسی گاؤں شیرشیل، کریم آباد پہنچے- افغان سرحد کے نزدیک، پاکستان میں ہندوکش ہمالیہ خطے کے ضلع چترال کے پہاڑوں میں ایک دور دراز گاؤں شیرشل پر برفانی تودہ گرا تھا- اس تودے نے تین گھروں کو منہدم کرڈالا اور نو زندگیوں کے چراغ بجھا ڈالے-
“جب ہم شیرشل پہنچے تو مکمّل بھیگ چکے تھے”، خان نے صوبہ خیبرپختون خواہ میں اپنے گاؤں سے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوۓ بتایا- انکا کہنا تھا کہ اس سفر نے انکے جسموں سے توانائی نچوڑ لی ہے- “ہم نے برف میں پھنسے چار زندہ افراد کو نکالنے میں گاؤں والوں کی مدد کی”- جب تک وہ وہاں سے گھر واپس لوٹے رات ہوچکی تھی-
علاقے کے ایک مقامی باشندے اور خیبر پختون خواہ اور فاٹا میں ترقیاتی کام کرنے والی ارگنائزیشن، سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے سربراہ مسعود الملک نے شیرشل کے متعلق دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا،
“یہ دور افتادہ کریم آباد وادی میں، پہاڑوں کی کافی اونچائی پر آباد ایک بلکل تنہا گاؤں ہے- ایسے موسم اور ان جگہوں کے خراب انفراسٹرکچر کی وجہ سے انتہائی فعال حکومت بھی اس تک نہیں پنہنچ سکتی- گاؤں تقریبا 90 ڈگری کی ڈھلان پر واقع ہے- مجھے یاد ہے، نوے کی دہائی میں جب میں نے وادی کی دوسری جانب سے اسے دیکھا تو یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ آخر بچے یہاں ڈھلانوں سے پھسلے بغیر کیسے کھیلتے کودتے ہونگے- ان وادیوں کی آبادی بڑھ گئی ہے- لوگوں نے ایسے مقامات پر گھر بنا لئے ہیں جہاں ماضی میں کوئی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا”- نتیجتاً برفانی تودوں اور شدید برفباری میں جانیں ضائع ہوتی ہیں-
طویل مصائب کا شکار لوگ
چترال کے بالائی حصّے پر کئی برفانی تودے گرے لیکن سب سے زیادہ متاثر شیرشل ہوا- گاؤں کے مکین مہربان علی پنا کہتے ہیں کہ پانچ فروری کو اس زوردار گھڑگھڑا ہٹ کو وہ کبھی نہیں بھول سکتے جو موسلادھار بارش کے بیچ بھی سنائی دے رہی تھی- “وہ کوئی ڈیڑھ بجے رات کا وقت ہوگا، چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا- مجھے نیچے آتی برف تو نظر نہیں آرہی تھی، لیکن آواز اتنی تیز تھی کہ میں پہلے پہل سمجھا زلزلہ آیا ہے”، انہوں نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا-
اس سے پہلے سالوں میں لینڈ سلائڈ کی وجہ سے شیرشل کے پچھتر گھروں میں سے بائیس گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ان کے متاثرہ مکین اپنے پڑوسیوں کے گھر میں رہ رہے ہیں- اب جبکہ تین مزید تین گھر برف میں پوری طرح دفن ہیں اور باقی درجن بھر رہنے کے قابل نہیں رہے تو اسکا مطلب کچھ عرصہ کے لئے قابل رہائش گھروں پر مزید بوجھ بڑھے گا-
“ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں ہر گھر کو متاثرہ خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کے لئے کہا جاتا ہے “، خان صاحب اس آفت کو خدا کی مرضی سے منسوب کرتے ہوۓ کہتے ہیں-
اسی دوران افغانستان کے صوبے بدخشاں اور نورستان میں بھی برفانی تودوں نے تباہی مچائی ہے– جن سے پورے پورے گاؤں تباہ ہوگے ہیں اور سو سے زائد جانوں کے ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے- جنوری کے اختتام پر بھارتی جموں کشمیر میں بھی برفانی تودوں سے بشمول دس فوجی کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں–
ادھر چترال میں موسلا دھار بارش اور لینڈ سلائڈ امدادی کاموں میں رکاوٹ ہیں- “عام حالات میں (چالیس کلومیٹر دور) مرکزی ٹاؤن سے متاثرہ گاؤں تک تین گھنٹے کا سفر ہے وہ بھی 4×4 جیپ پر؛ فی الوقت یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ کئی سڑکیں بند ہوگئی ہیں”، خان صاحب نے بتایا- مقامی باشندوں کے لئے وہاں پنہنچنا آسان تھا کیونکہ وہ راستوں سے واقف ہیں اور پیدل وہاں تک پنہنچ سکتے ہیں، انہیں نے مزید بتایا- فوجی ہیلی کاپٹرز امدادی سامان — ٹینٹ، ایندھن، لکڑی، دوائیں، گرم کپڑے اور رضائیاں کے ساتھ کوئی چوبیس گھنٹے بعد متاثرہ خاندانوں تک پنہچے-
یہ تباہ کاریاں معمول بن گئی ہیں
ماضی میں اس طرح کے واقعات شاذونادر ہی ہوتے تھے لیکن اب ان میں تیزی آگئی ہے- محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل،غلام رسول اس رجحان کا تعلق موسمیاتی تبدیلی بتاتے ہیں- خطّے میں اتنی تیز موسلا دھار بارش پچھلے بیس سالوں میں کبھی نہیں ہوئی- “اور یہ سب انتہائی مختصر مدّت میں ہوا ہے”، انہوں نے بتایا-
“بچپن سے آجتک میں نے کبھی ایسی بارش نہیں دیکھی تھی”، مقامی باشندے حامد میر صاحب نے ہمیں بتایا- میر صاحب کئی سالوں سے خطّے میں برفانی جھیل کے تباہ کن سیلابوں (GLOFs ) پر تحقیق کررہے ہیں اور علاقے کے جغرافیہ اور موسم سے واقف ہیں- وہ مزید بتاتے ہیں، “پچھلے تین دنوں میں چترال ٹاؤن میں کوئی تین فٹ جبکہ بالائی وادیوں میں چھ فٹ تک برفباری ہوئی ہے”-
میر نے بتایا کہ اپنے حسّاس جغرافیائی و موسمیاتی حالت اور نازک ماحولیاتی نظام کی وجہ سے چترال مختلف آفات جیسے برفانی تودوں، جی ایل او ایفس، لینڈ سلائڈ / راک سلائڈ، دریائی سیلاب اور زلزلوں (فالٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے ) کا شکار رہتا ہے-
مزید یہ کہ برفباری کا رجحان بھی بدل گیا ہے، رسول صاحب نے بتایا- “گرمیوں کا دورانیہ طویل ہوگیا ہے اور سردیاں دیر سے آتی ہیں”- مختصر سردی کا مطلب برف کو جمنے مکے لئے کم وقت ملتا ہے”، میر صاحب نے بتایا- اسطرح ڈھلانوں سے برفانی تودوں کے گرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ انہیں روکنے کے لئے ٹھوس برفانی رکاوٹیں نہیں بن پاتیں-
“حتیٰ کہ جب بارش ہوئی تو ہم نے اس میں گرمیوں کی بارشوں جیسی تیزی دیکھی. بارش موسلادھار تھی اور کئی گھنٹوں تک جاری رہی”، رسول صاحب نے ایک اور موسمیاتی بے قاعدگی کی طرف توجہ دلائی-
بشمول شدید برفباری کے برفانی تودوں کے گرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، حتیٰ کہ ریکٹر سکیل پر دو اعشاریہ صفر جتنی کم شدّت کی ارضیاتی حرکت بھی اسکا باعث بن سکتی ہے- رسول صاحب نے مزید کہا، “زمینی سطح کی قدرتی حالت میں تبدیلی بھی برفانی تودوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے”-
میر صاحب نے بھی اس کی تصدیق کی- انہوں نے کہا کہ بالائی وادیوں کی چارہ گاہوں پر مویشیوں کی تعداد میں اضافے سے خاصا بوجھ پڑ گیا تھا- “تیزی سے گھٹتے جنگلات اور چراہ گاہیں بھی برفانی تودوں، جی ایل او ایفس، غیر متوقع سیلابوں اور لینڈ سلائڈز کا محرک ہیں”-
آفات سے نمٹنے کی تیاری
افسوسناک بات یہ ہے کہ صورتحال جو رخ اختیار کرتی جا رہی ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مقامی روایتی طریقہ کار اب کارآمد نہیں رہا- ” یہ سب ان کے لئے بلکل نیا ہے اور وہ ان حالات سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں”، میر صاحب نے کہا، “ضرورت ہے کہ ہم مقامی باشندوں میں موسم کے بدلتے رجحان کے حوالے سے شعور پیدا کریں اور اس سے مطابقت پیدا کرنے میں انکی مدد کریں”-
گولین اور بندوگول وادیوں میں محکمہ موسمیات کا تعمیر کردہ قبل از وقت انتباہی نظام (EWS – Early Warning System ) خاصا کامیاب ہے، میر صاحب نے بتایا، جیسا کہ اس نظام کا مقصد غیر متوقع سیلابوں اور لینڈ سلائڈ کی پیشنگوئی کرنا ہے، ان سے برفانی تودوں جیسے دیگر آفات سے متعلق ڈیٹا بھی حاصل کیا جاسکتا ہے-
ای ڈبلیو ایس میں بارش کی پیمائش، برف کی پیمائش، پانی کے اخراج کی پیمائش، گلیشیر اور جھیل کی نگرانی کا نظام، موسمیاتی اسٹیشن اور کیمرہ نیٹ ورک شامل ہے- ” یہ پورا نظام، پی ایم ڈی کو بروقت ڈیٹا فراہم کرتا ہے- اس نظام سے حاصل کردہ ڈیٹا کے تجزیے کے بعد وارننگ جاری کی جاتی ہے”، میر صاحب نے بتایا جوکہ یو این ڈی پی کے قائم کردہ جی ایل او ایف پروجیکٹ کے سابقہ مینیجر رہ چکے ہیں- یہ انتباہی نظام بھی اسی ادارے نے فراہم کیا ہے- “یہ سب سیٹلائٹ سے منسلک ہے”، انہوں نے بتایا-
ماحولیاتی انجنیئر شاہد لطفی کہتے ہیں کہ برفانی تودوں سے متعلق پیشنگوئی اگرچہ مشکل ہے لیکن ان جگہوں پر ماضی میں برفانی طوفانوں کا محرک بننے والے ایسے واقعات اور برفباری کے اعداد و شمار کی تہہ بہ تہہ نقشہ بندی کر کے ایک جیوگرافک انفارمیشن سسٹم ماڈل تیار کیا جاسکتا ہے- ” موسمیاتی پیشنگوئی اور برفباری کی نگرانی کر کے برفانی تودوں کے امکانات کا تعین کیا جاسکتا ہے”- ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ یہ مشق مہنگی ثابت ہوگی کیونکہ اس کے لئے ناصرف فنڈز بلکہ تجربہ کار و مخلص انسانی وسائل کی بھی ضرورت ہوگی-
مسعود الملک دور دراز علاقوں کو لاحق چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تجویز کرتے ہیں کہ” قدرتی آفات سے نمٹنے اور ترقیاتی کاموں کے لئے ایک مقامی نظام کواپنانے کی ضرورت ہے جو مشکلات پر قابو پانے کی مقامی صلاحیت اور مطابقت پذیری پر قائم کیا جاۓ”- رسول صاحب نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ “ہم وارننگ کر لئے روایتی طریقہ یعنی عبادت گاہیں استعمال کرتے ہیں- چونکہ کمیونٹی کا نظام مربوط ہے اس لئے خبر تیزی سے پھیل جاتی ہے اور لوگ صورتحال کے تحت انتظامات شروع کردیتے ہیں”-