آب و ہوا

پاکستان کے منظور کردہ موسمیاتی تبدیلی ایکٹ کے بارے میں ماہرین کے تحفظات

ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ نۓ موسمیاتی بل کو بینالاقوامی فنڈز حاصل کرنے کا وسیلہ بنانے کے بجاۓ، مستحکم حکومتی حمایت اور موافق منصوبوں کے لئے فنڈنگ کی ضرورت ہے-
اردو
<p>Pakistan is one of the world&#8217;s countries most vulnerable to the impacts of climate change [image by Asian Development Bank]</p>

Pakistan is one of the world’s countries most vulnerable to the impacts of climate change [image by Asian Development Bank]

سترہ مارچ کو پاکستانی سینیٹ میں منظور کیے جانے والے موسمیاتی تبدیلی ایکٹ کا خیرمقدم بہت سوں نے گرمجوشی کے ساتھ کیا، یہ ایک ایسے ملک کے لئے درست سمت میں قدم ہے جو موسمیاتی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے برسرپیکار رہا ہے-

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ سینیٹر زاہد حامد کے تحریر کردہ بل کو منظور کرنے کا مقصد  اس بات کو یقینی بنانا  ہے کہ ملک ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر پورا اترے- گو کہ  پاکستان گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے ملکوں میں 153 نمبر پر ہے، حامد نے سینیٹ کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں اسکا نمبر ساتواں تھا- بل، قومی اسمبلی میں پہلے ہی منظور کیا جاچکا ہے-

اس نۓ قانون کے ساتھ پاکستان ان چند مٹھی بھر ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جنہوں نے خاص موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے قانون سازی کی ہے، یہ مچل نچمنے کا کہنا ہے جو گرانتھم انسٹیٹیوٹ میں موسمیاتی قانون سازی کے حوالے سے عالمی جائزے کی قیادت کر رہے ہیں- ادارے کی طرف سے نناوے ملکوں کے جائزے کے مطابق، سال 2017 میں موسمیاتی تبدیلی اور توانائی سے متعلق چار سو سے زائد قوانین تشکیل دیے گۓ ہیں- بہرحال، بہت کم مملک جیسے فن لینڈ، برطانیہ، ڈنمارک، کینیا، آسٹریلیا، بلغاریہ، نیوزی لینڈ، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ، مائکرونیزیا اور فلپائن نے موسمیاتی تبدیلی ایکٹ باقاعدہ منظور کیا ہے-

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سیکرٹری سید ابواحمدعاکف کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے وقف ایک قومی ادارہ ہونا پاکستان کے لئے قابل ستائش ہے- لیکن دیگر ماہرین کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اس اقدام سے کوئی خاص نتیجہ حاصل نہ ہوگا-

“بل میں بہت سی بنیادی باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے”، برلن میں قائم موسمیاتی تجزیات کے سائنسی مشیر فہد سعید کہتے ہیں، ان پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لئے جس ” آتشی طاقت ” کی ضرورت ہے اس کے بغیر کوئی خاطر خواہ  نتیجہ حاصل نہیں ہوگا-

آئی یو سی این (IUCN ) کے عالمی نائب  صدر، ملک امین اسلم صاحب کے مطابق، یہاں آتشی طاقت سے مراد حکومتی سطح پر سیاسی عزم اور مناسب فنڈز ہیں-  امین اسلم صاحب کہتے ہیں کہ جب تک  “آہنی ارادے”  اور “عملی اقدامات”  نہیں ہوں گے بل کی تشکیل محض “‘کاغذی کارروائی” ہے-

“یہ بل اس لحاظ سے کارآمد ہے کہ یہ پاکستان کے انٹنڈڈ نیشنلی ڈیٹرمیںڈ کونٹریبوشنز Pakistan’s Intended Nationally Determined Contributions (INDCs) کو قانونی شکل دیتا ہے- [ UNFCC کے تحت اس بات کا وعدہ اور تعمیل کہ علمی اخراج کو دو ڈگری سینٹی گریڈ حرارت کی حد سے نیچے رکھیں گے] اور اعلیٰ سطح کی فیصلہ ساز باڈی تشکیل دیں گے، لیکن پچھلے کئی سالوں سے ہم موسمیاتی خطرات کے بیچ ڈھیروں پالیسیاں، حکمت عملی اور انتظامی آرگنائزیشنز بنا چکے ہیں اور یہ بل اس ڈھیر میں ایک اور اضافہ ہے”، اسلم صاحب نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا- نۓ قانون کے تحت تین اہم ادارے تشکیل دیے گۓ ہیں؛ پاکستانی کونسل براۓ موسمیاتی تبدیلی، پاکستان موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی اور پاکستان فنڈ براۓ موسمیاتی تبدیلی-

بہتر ہوگا کہ گورنمنٹ اپنی حمایت اور سرمایہ براہراست صوبوں کو دے جو پہلے ہی موسم موافق منصوبوں پر عمل درآمد کررہے ہیں، اسلم صاحب نے کہا، وہ پاکستان کے سب سے کمزور صوبے خیبر پختون خواہ کی سبزکاری مہم کی سربراہی بھی کررہے ہیں- پچھلے تین سالوں میں خیبر پختون خواہ نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کچھ ٹھوس اقدامات کر کے ایک مثال قائم کی ہے کہ مقامی سطح پر کیا کچھ کیا جاسکتا ہے- صوبے میں دو سو مائکرو-ہائیڈرو پاور منصوبے تعمیر کے گۓ ہیں (سال کے اختتام تک ڈیڑھ سو مزید منصوبے مکمّل کرلئے جائیںگے)؛ جنگلات میں دو فیصد اضافہ (2013 کے بیس فیصد سے 2016 میں بائیس فیصد تک) صوبائی فنڈ براۓ موسم دوست جنگلات میں 700% یعنی 2013 میں تین سو ملین روپے ( 2.86 USD) سے لے کر 2016 میں دو بلین (19 ملین ) تک اضافہ ہوا ہے-

اختیارات کا مسئلہ :

نۓ بل سے ممکن ہے مرکز اور صوبوں کے بیچ اختیارات کا مسئلہ کھڑا ہو، آب و ہوا اور پانی سے متعلق تھنک ٹینکلیڈ  پاکستان (LEAD ) کے سربراہ علی توقیر شیخ کہتے ہیں- ” اگر احتیاط سے منصوبہ بندی نہ کی گئی، خدشہ یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم (جس کے تحت اختیارات صدر سے پارلیمنٹ اور صوبوں کو منتقل کردیے گۓ) کے بعد صوبے کو جو اختیارات حاصل ہیں، وہ ختم ہوجائیں”، انہوں نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا-

آئین کی رو سے، موسمیاتی تبدیلی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، عاکف صاحب نے اتفاق کرتے ہوۓ کہا، “لیکن موسمیاتی تبدیلی اتنا اہم موضوع ہے کہ اسے صوبوں اور بلدیات پر نہیں چھوڑا جاسکتا- اب یہ سائنسدانوں، محققین اور سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ چاہیے اس کشتی کو پار لگائیں یا غرق کردیں “-

تحقیق کا فقدان:

سعید صاحب کہتے ہیں کہ کوئی بھی بل اس وقت تک قابل عمل نہیں جبتک اسے درست معلومات، بصیرت اور نفاز کے لئے اتھارٹی کا سہارا نہ ہو- انکا کہنا ہے کہ پاکستانی سائنسدان، بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں مشکل ہی سے کوئی معیاری ریسرچ پیش کرپاتے ہیں- ” ہم اپنے کام  کا جائزہ  بین الاقوامی جرائد میں اعلی معیار کی مطبوعات کے ذریعے عالمی محققین کے ہاتھوں ہونے کے بجاۓ میڈیا پر پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں- میری نظر سے ایسے بہت سے  مطالعے گزرے ہیں جو خاص طور سے موسمی تبدیلی کے نقطہ نظر سے پاکستان پر کئے گئے، جن کے مصنف میں سے کسی کا بھی  (یا مشکل سے ایک) تعلق پاکستانی انسٹیٹیوٹ سے نہیں تھا، جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کتنی افسوسناک ہے”، سعید صاحب نے تاسف کا اظہار کرتے ہوۓ کہا-

وزارت کا ریسرچ ونگ اور موسمیاتی تبدیلی پر سائنٹفک تحقیق کرنے کے لئے وقف واحد ادارے، گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (GCISC) کی مثال دیتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ، اس سینٹر کا مقصد ملکی سائنٹفک ریسرچ کو مستحکم کرنا ہے لیکن پچھلے تین چار سالوں سے یہاں کے سربراہ عہدوں پر کوئی تقرری نہیں ہوسکی-

ڈونر فنڈز کی فراہمی :

نئی پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کے سربراہ وزیر اعظم ہونگے، عاکف صاحب نے بتایا، اور دیگر “بااثر” ممبران وزراء اعلیٰ ہونگے جنکا کردار علاقائی سربراہ کا ہوگا- مزید اس میں ماحولیات کے چاروں صوبائی وزراء بھی شامل ہونگے اور باقی کونسل کے 20 ارکان تعلیمی اداروں، تجارت اور صنعت اور سائنس کے نمائندہ ہوں گے. ایک طرف کونسل، وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ہدایات دےگی،  دوسری طرف دنیا کو یہ بتاۓ گی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے، عاکف صاحب نے مزید بتایا-

“مجھے خدشہ ہے کہ اس بل کی منظوری کے  پیچھے محرک صرف گرین کلائمیٹ فنڈ اور دیگر ذارئع کے ڈالرز تک رسائی ہے”، ڈیلاویئر یونیورسٹی میں ماحولیات اور توانائی کے پروفیسر سلیم ایچ علی کا کہنا ہے- حامد صاحب نے حال ہی میں ایکٹ کی وضاحت میں ایک تقریر کی جس میں بتایا کہ ایکٹ صرف “موسمیاتی رسک” سے ہی نہیں نمٹے گا بلکہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے تحفظ، خاص کر کاشتکاروں کی خاطر منصوبوں کے نفاز کے لئے “عالمی فنڈز بھی ممکن ” بناۓ گا-

لیکن اگر مقصد فنڈز حاصل کرنا ہے تاکہ موسم موافق منصوبوں کی شروعات کی جاسکے، ” تو ان فنڈز کومؤثر طریقہ سے استعمال کیا جانا ہی اصل امتحان ہوگا”، علی نے کہا-

شیخ، جو کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ نالج نیٹ ورک (CDKN ) کے ایشیا ڈائریکٹر بھی ہیں، سوال کرتے ہیں کہ اگر کونسل براۓ موسمیاتی تبدیلی نے کلائمیٹ چینج اتھارٹی تشکیل دی تو کیا وہ موجودہ وزارت براۓ موسمیاتی تبدیلی کے متوازی کام کرے گی یا اس کی اتھارٹی پر اثر انداز ہوگی؟ لیکن عاکف صاحب نے اس بات پر زور دیتے ہوۓ کہا کہ کلائمیٹ چینج اتھارٹی، وزارت کا “عملی بازو ” ہے جو قانون سازی اور عالمی روابط کے معاملات دیکھے گی-

اور اگر اتھارٹی کی حیثیت “عملی بازو” کی ہے تو اس کی توجہ ” فنڈز تک رسائی حاصل کرنے کے بجاۓ، اندرونی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے قانون سازی پر مرکوز ہونی چاہیے”، علی کہتے ہیں-  مثال کے طور پر ہاؤسنگ اور کمرشل رئیل اسٹیٹ میں توانائی کی زیادہ بچت کے لئے تعمیراتی کوڈ یقینی بنانا، یا انتہائی زدپزیر سیلابی علاقوں یا ساحلی علاقوں کی درجہ بندی کرنا تاکہ وہاں کی آبادیوں کو محفوظ رکھا جاسکے-