تازہ گھاس کی چھت سے ڈھکی ٹائر کی مرمت کی دکان پر بیٹھے ہوئے ، 53 سالہ تھنور کولہی ، پاکستان کے صوبہ سندھ میں آنے والی شدید بارشوں کے بارے میں تازہ اطلاعات جاننا چاہتے ہیں۔ “میں دعا کرتا ہوں کہ یہاں بارش نہیں ہو” ، انہوں نے بڑبڑاتے ہوۓ کہا-
کولہی تیس سال سے کاشتکاری کررہے ہیں- برسات کے دوران ، وہ اناج کا ذخیرہ اندوز کرنے اور جانوروں کی خوراک تیار کرنے کے لئے زمینوں پر ہل چلاتے ہیں- باقی سال ، وہ مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں-
پچھلے کچھ سالوں سے ، انہوں نے ضلع تھرپارکر میں اپنے گاؤں جمہار کے قریب ٹائروں کی مرمت کا کام شروع کردیا ہے۔ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے، نو افراد کے کنبہ کی گزربسر اور 15 بھیڑوں کے ریوڑ کی دیکھ بھال کھیتی باڑی کی آمدنی کے ذریعہ ممکن نہیں۔
اس سال ان کے کھیتوں میں جولائی کے وسط اور اگست کے اوائل میں بارش کے دو اچھے موقع آۓ۔ لیکن ، صحرائے تھر کے دوسرے بہت سے باسیوں کی طرح ،انہوں نے بھی ٹڈیوں کے خطرہ کی وجہ سے اپنے کھیتوں میں ہل نہیں چلاۓ۔
گزشتہ سال صحرائے تھر میں پانچ سال سے زائد عرصہ خشک سالی کے بعد پہلی بار بارش ہوئی تھی ، تب انہوں نے فصلیں لگائیں۔ “میں نے اپنی زمین پر 35،000 (210 امریکی ڈالر) خرچ کیے۔ آخر میں پیداوار میری سرمایہ کاری سے کم رہی۔ ٹڈیوں کے دل نصف فصل کھا گۓ ” ، کولہی نے بتایا۔
انہوں نے باجرا ، پھلیاں ، دال اور دوسری فصلیں لگائی تھیں۔ لیکن جب ان کو کٹانے کا وقت آیا تو ٹڈیوں کے دل نے حملہ کردیا۔ “عام طور پر ، باجرا کٹنے کے تین چکر لگتے ہیں ۔ جتنا ہم کاٹتے ہیں ، یہ اتنا ہی بڑھتا ہے۔ میں نے مشکل سے پہلا چکر ہی مکمل کیا تھا کہ ٹڈیوں نے حملہ کردیا اور ہری بھری فصلیں اور چراہ گاہ صاف کرگئیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے [جانوروں کی خوراک] کے پتے اور بھوسے بھی چٹ کرلئے۔
اس سال انہوں نے کھیتی باڑی کا موقع تو کھو دیا ہے ، لیکن امید ہے کہ کم از کم ٹڈیوں کے دل سے گھاس بچ جائے گی- بصورت دیگر ، انہوں نے کہا ، “ہمارے جانور بھوک سے مر جائیں گے۔”
اسلامکوٹ ضلع کے چاہو رہوماں کے رہائشی جیسو بھیل اپنے تہی دست فارم میں کھڑے تھے۔ ٹڈی دلوں نے پہلے ہی ناقابل تلافی طور پر ان کی فصلوں کو ، خاص طور پر باجرا کو نقصان پہنچایا ، اور پیچھے ریتیلی مٹی میں لاکھوں ٹڈی بچے چھوڑ گۓ ہیں۔ اپنی فصلوں کو مزید نقصان سے بچانے کے لئے، انہوں نے اپنے فارم کے اطراف میں تین فٹ گہری خندق کھودنی شروع کردی۔ وہ آدھا کام ہی مکمّل کرسکے تھےتب تک ٹڈی کے بچے بالغ ہونا شروع ہوچکے تھے-
ان کے گاؤں اور اس کے آس پاس تین بار بارش ہوچکی ہے۔ بیشتر مکینوں نے اپنی زمینوں پر ہل نہیں چلایا تھا۔ بھیل ان چند میں سے ایک تھے جنہوں نے ایسا کیا- “میں اس صورتحال سے واقف تھا ، اور ٹڈی کے خطرہ کی وجہ سے ہل چلانے سے باز رہنے کے لئے حکومت کا مشورہ بھی سنا تھا۔ لیکن میں صرف کھیتی باڑی میں مہارت رکھتا ہوں- یہ زمین نہ صرف ہم انسانوں بلکہ ہمارے مویشیوں کو بھی کھلاتی ہے۔ ہم انسان بھیک مانگ سکتے ہیں۔ لیکن جانور کہاں جائیں گے ؟
یہی جانور قحط سالی میں کام آتے ہیں۔ یہ میرے اہل خانہ کا پیٹ بھرتے ہیں۔”
کھیت کی باجرا ، پھلیاں اور دیگر نقد فصلوں کی اوسطا سالانہ پیداوار ایک ہزار من (ایک من تقریبا 40 کلوگرام ) ہے۔ لیکن اس سال نہیں- میں نے دن رات کام کیا ٹڈیوں کو فصلوں سے دور بھگایا- میں لاکھوں کی تعداد میں انہیں مارا- لیکن جتنا ہم انہیں ماریں گے ، یہ اتنا ہی مٹی سےنکلتے ہیں- اب میں مزید ٹڈیوں کو مار کر گناہ نہیں کرنا چاہتا – اور میں تھک گیا ہوں۔
تھرپارکر ضلع میں 1.6 ملین افراد آباد ہیں۔ 96٪ دیہات میں رہتے ہیں اور کھیتی باڑی اور جانوروں کی دیکھ بھال پر انحصار کرتے ہیں۔ تھر میں 1،014،000 ہیکٹر میں سے نصف زمین قابل کاشت ہے ، لیکن نگرپارکر تحصیل کے کچھ علاقوں کے علاوہ جہاں ٹیوب ویلوں کے ذریعہ زمین کے پانی سے زمین کی کاشت کی جاتی ہے ، اس علاقے کی اکثریت بارش پر منحصر ہے۔
موسمیاتی تبدیلی بارش کو متاثر کررہی ہے
آب و ہوا میں بدلاؤ کی وجہ سے ، بارش کے انداز بدل گئے ہیں۔ قحط سالی بڑھتی گئی ہے۔ ساتھ ہی غیر متوقع اور منتشر بارش بھی۔ پچھلے سال سے ، ٹڈیوں نے صورتحال کو کئی گنا خراب کردیا ہے۔ لوگ اب اپنے کھیتوں میں سرمایہ لگانے سے خوفزدہ ہیں۔
اس سال صحرائے تھر کے مختلف علاقوں میں پہلے ہی دو سے چار بار بارش ہوچکی ہے۔ ماحولیات کے ماہر اور ایسوسی ایشن فار واٹر، اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینیو ایبل انرجی (AWARE ) کے سربراہ علی اکبر راہمون نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بوائی کے لئے ، مون سون کے دوران ہونے والی کل بارش سے زیادہ بارش کا وقت اہمیت رکھتا ہے-
اگر مون سون کے آغاز میں کسی کھیت میں 1،100 ملی میٹر بارش ہوتی ہے لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا ہے تو ، یہ کسان کے لئے یقینی طور پر قحط ہے۔ “تھر کے صحرا میں وقفے وقفے سے تین سے چار بارشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھی فصلوں کے لئے 300 سے 350 ملی میٹر بارش کافی ہوتی ہے” انہوں نے بتایا۔
صحرا کے معیار کے مطابق ، اس سال اچھی بارشیں ہوئی ہیں۔ لیکن بارش ٹڈیوں کی نئی نسل کے لئے بھی اچھی رہی ہے۔ بھرو مل امرانی – سوسائٹی فار کنزرویشن اینڈ پروٹیکشن آف انوائرنمنٹ کے سابق کوآرڈینیٹر نے کہا ،“ ٹڈیاں گذشتہ سال سے موجود ہیں۔ ، انہوں نے صحرا کی ریت میں انڈے دے رکھے ہیں جن سے اب بچے نکل رہے ہیں اور ٹڈیوں کی ایک نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکام نے مشورہ دیا ہے کہ وہ اس سال فصلیں نہ لگائیں۔ لیکن محکمہ زراعت سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ حکومت نے کاشتکاروں کو فصلوں کی بوائی کرنے سے منع نہیں کیا ہے۔ ” انہوں نے کہا کہ ہم نے فصلوں کو [ٹڈیوں] کے نقصان سے بچانے کے لئے حکمت عملی تیار کی ہے۔ پودوں کے تحفظ کا محکمہ اسپرے کر رہا ہے جہاں ٹڈییں موجود ہیں۔ ”
“ہم نے ضلع تھرپارکر میں 30،000 ہیکٹر اراضی پر چھڑکاؤ کیا ہے”، انہوں نے مزید کہا- انہوں نے کہا کہ اس میں سے 500 ہیکٹر رقبہ قابل کاشت اراضی ہے۔ ہم نے تحصیل اسلام کوٹ (سب ڈسٹرکٹ) میں 400 ہیکٹر پر فضائی چھڑکاؤ بھی کیا ہے۔ یہ تمام علاقے ٹڈیوں کی افزائش گاہ ہیں۔
رہائشی متاثر نہیں ہیں- “سب سے پہلے ، کچھ زمینیں [جہاں ٹڈیوں کی افزائش ہورہی ہے] ریت کے ٹیلوں کے پیچھے ہیں ، جہاں [محکمہ زراعت کی] کچی سڑکوں والی گاڑیاں بھی نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ دوسرا ، ان کے اسپرے سے ٹڈیاں نہیں مرتیں۔ اگر ہم تیز دوائیاں استعمال کرنے پر اصرار کرتے ہیں تو اس سے گھاس اور فصلیں جل جاتی ہیں” بھیل شکوہ کرتے ہیں-
افسر نے اعتراف کیا کہ انہیں گاؤں والوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اپنے کھیتوں پرادویات کا چھڑکاؤ نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن ، انہوں نے کہا ، اور بھی ہیں جو صورتحال کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسپرے سے متعلق دیہاتیوں کے خیالات کو مسترد کردیا- انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ، “ہم کاشت شدہ اراضی اور چراہ گاہوں کے لئے لیمبڈا سائہلوترین [ایک کیڑے مار دوا] کی دو مختلف مقداریں استعمال کر رہے ہیں-”
اس سال بارش نے صحرا کو سر سبز تو کردیا ہے ، لیکن اس سے خوشی کی کوئی امید پیدا نہیں ہوئی ہے۔” اس بار بارش ساتھ ٹڈیوں کوبھی لائی ہے “، کولہی نے کہا۔ “وہ صرف 30 کلومیٹر دور ہیں۔ ٹڈیوں کے بغیر بارش ہو اور بہت ہو ایسا کون سا تھاری (تھر کا باسی) نہیں چاہے گا؟ “