آب و ہوا

کراچی میں ہلکی نوعیت کے زلزلوں میں اضافہ آفات سے نمٹنے کی تیاری کا تقاضا کررہا ہے!

ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں عمارتوں کے تعمیراتی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے، جبکہ زیرِ زمین پانی کا بے تحاشہ اخراج، جو ان تعمیرات کو غیر مستحکم کرتا ہے ،کو بھی قابو میں لانا ناگزیر ہے۔
اردو
<p>جولائی 2025 میں کراچی کے علاقے لیاری میں ایک رہائشی عمارت کے منہدم ہونے کے واقعے نے شہر میں ناقص تعمیراتی معیار اور زلزلے جیسے قدرتی واقعات سے نمٹنے کی تیاری پر سنگین سوالات اٹھا دیے۔ (تصویر: پاکستان پریس انٹرنیشنل / الامی)</p>

جولائی 2025 میں کراچی کے علاقے لیاری میں ایک رہائشی عمارت کے منہدم ہونے کے واقعے نے شہر میں ناقص تعمیراتی معیار اور زلزلے جیسے قدرتی واقعات سے نمٹنے کی تیاری پر سنگین سوالات اٹھا دیے۔ (تصویر: پاکستان پریس انٹرنیشنل / الامی)

جون میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پے در پے زلزلوں کے جھٹکوں نے شہر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان کے محکمہءموسمیات کے مطابق یکم سے 25 جون کے دوران کم شدت کے 57 زلزلے ریکارڈ کیے گئے، جن کی شدت ریکٹر اسکیل پر 1.5 سے 3.8 کے درمیان تھی۔ اس کے چند ماہ بعد اکتوبر کا آغاز بھی شہر کے شمالی علاقے ملیر میں 3.2 شدت کے زلزلے سے ہوا تھا۔

کراچی جغرافیائی اعتبار سے تین بڑی ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرحدوں کے قریب واقع ہے اور شہر کے اندر اور اطراف میں متعدد فالٹ لائنز گزرتی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کراچی کے 300 کلومیٹر کے دائرے میں چار یا اس سے زائد شدت کے تقریباً 49 زلزلے آ چکے ہیں۔

جیولوجیکل اوشینوگرافر اور جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر آصف رانا کے مطابق، ہلکی نوعیت کے زلزلے بعض اوقات ”قدرتی دباو¿ کے اخراج“ کا کام کرتے ہیں، جو ممکنہ طور پر زیادہ تباہ کن زلزلوں کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں، تاہم ان زلزلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

کراچی میں ہلکی نوعیت کے زلزلے بھی ان عمارتوں کے لیے ممکنہ طور پر تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں جن کی تعمیراور بنیادیںمضبوط نہیں ہیں۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے جولائی میں بتایا تھا کہ شہر میں تقریباً 700 ایسی عمارتیں نشان زد کی گئی ہیں جو محفوظ رہائش کے لیے موزوں نہیں۔ یہ بیان اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد سامنے آیا تھا، جب گنجان آباد علاقے لیاری میں ایک خستہ حال عمارت بغیر کسی زلزلے کے منہدم ہو گئی، جس کے نتیجے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے۔

رانا خبردار کرتے ہیں کہ گنجان آباد علاقوں میں 3 سے 4 ( ریکٹر اسکیل ) کی شدت کے درمیانے درجے کے جھٹکے بھی کمزور اور پرانی عمارتوں کے جزوی یا مکمل انہدام کا سبب بن سکتے ہیں۔

ان خطرات کے پیشِ نظر، ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں عمارتوں کی مضبوطی اور آفات سے نمٹنے کی تیاری میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے ذہن میں ایک بڑے زلزلے کا امکان ہے۔ آئل، گیس اور معدنیات کے ماہر معین رضا خان نے لنکڈن پر لکھا تھا کہ اگر 1945 جیسا زلزلہ، جس کی شدت 8.1 تھی ایک بار پھر رونما ہو، اور یہ واقعہ مکران ٹرپل جنکشن کے قریب پیش آئے، تو کراچی کے ساحلی علاقے کا بیشتر حصہ تباہ ہو سکتا ہے۔مکران ٹرپل جنکشن یوریشین، انڈین اور عربی پلیٹوں کے درمیان واقع ہے، اور کراچی اس سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔۔

کراچی کی عمارتوں کو کمزور بنانے والے عوامل کیا ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی عمارتیں غیر منظم اور ناقص تعمیرات کی وجہ سے کسی بھی آفات میں حتیٰ کہ ہلکے زلزلوں سے بھی خطرات سے دوچار ہوسکتی ہیں، اور زمین کے دھنسنے کے عمل سے یہ غیر مستحکم صورت حال مزید بڑھ جاتی ہے۔

ریٹائرڈ پروفیسر جیالوجی، سیما ناز صدیقی کے مطابق زمین کے دھنسنے کی ایک اہم وجہ شہر میں تیز رفتار شہری ترقی اور تعمیرات ہیں۔

تعمیرات شروع ہونے سے پہلے زیرِ زمین پانی، جو مٹی اور چٹان کی تہوں کے درمیان موجود خلا کو بھر کر انہیں سہارا دیتا ہے، نکال لیا جاتا ہے تاکہ کھدائی کا علاقہ خشک اور مستحکم بنایا جا سکے۔

کراچی کی بیشتر مٹی پہلے ہی کمزور ہے، کیونکہ یہ زیادہ ترپانی سے بھری ہوئی (دلدلی) اور دباو میں آسانی سے سکڑنے والی تلچھٹ پر مشتمل ہے جو لیکویفیکشن کے خطرے سے دوچار رہتی ہے۔ بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والے ایک تجزیاتی مضمون میں معین رضا خان نے اس جانب توجہ دلائی ہے۔

ہائیڈرو جیولوجسٹ حاذق خان کے مطابق تعمیرات کے دوران کھدائی اور پائلنگ (کراچی جیسے شہروں میں جہاں مٹی نرم اوردلدلی ہو، پائلنگ اس لیے کی جاتی ہے تاکہ عمارت بیٹھ نہ جائے ) کا عمل زیرِ زمین تہوں کو متاثر بھی کر سکتا ہے۔

حاذق خان کے مطابق، ایسی صورتِ حال میں مٹی کی کثافت بڑھ جاتی ہے، جس سے زمین غیر یکساں طور پر بیٹھتی ہے اور عمارتیں غیر مستحکم ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے وہ علاقے جو نرم مٹی یا آبی تلچھٹ (ایسے مادے جو دریاوں کے ذریعے جمع ہوتے ہیں، جیسے ریت، کیچڑ یا مٹی) پر بنائے گئے ہیں، سب سے زیادہ کمزور ہیں کیونکہ یہاں عموماً پانی کی سطح کم گہری ہونے کی وجہ سے مٹی کی کمزوری بڑھ جاتی ہے۔ 2022 میں کیے جانے والے ایک مطالعے میں بتایا گیا کہ کراچی کے زیادہ تر علاقے آبی تلچھٹ کی تہوں (دلدل) کے اوپر تعمیر کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غیر منظم بلند عمارتوں کی تعمیر زمین کی کمزور مٹی پر بھاری وزن ڈال کر زمین کے دھنسنے کے عمل کو تیز کرتی ہے۔

حاذق خان کے مطابق یہ نازک مٹی اور غیر منظم زیرِ زمین پانی کا اخراج، اورساتھ ہی تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی بھی شامل ہو جائے، تو معتدل نوعیت کے زلزلے بھی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ علاقے جہاں مناسب منصوبہ بندی کے قوانین اور بنیاد ی ڈیزائن ہی غیر معیاری ہو، غیر متناسب خطرات کا سامنا کرتے ہیں، خاص طور پر وہ گنجان آباد شہری علاقے جہاں نکاسی آب کا نظام بھی ناقص ہو۔ اس میں نارتھ کراچی اور پرانے شہر کے کچھ حصے شامل ہیں۔

ناقص نکاسی آب پانی کے بہاؤ کو روک دیتا ہے، جس سے مٹی پانی سے بھر جاتی ہے اور لیکوئفیکیشن کے خطرے میں آ جاتی ہے، یوں زمین کے دھنسنے کے عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔

شہری منصوبہ بندی کے ماہر اور کراچی کی غیر منافع بخش تنظیم اربن ریسورس سینٹر کے بورڈ رکن زاہد فاروق کے مطابق چھوٹی عمارتیں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گھر عموماً چھوٹے پلاٹس پر بنائے جاتے ہیں اور خاندان کے بڑھنے کے ساتھ عمارت میں اضافی منزلیں شامل کر دی جاتی ہیں۔ اس پورے عمل کے دوران، “کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ بنیاد کتنی پرانی یا مضبوط ہے”۔

2023 کے ایک مطالعے کے مطابق شہر کے اہم علاقوں میں زمین کے دھنسنے کی شرح سالانہ تقریباً 17 ملی میٹر تک ہے اور یہ شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مطالعے میں بتایا گیا کہ کچھ علاقوں میں زمین کے دھنسنے کی وجہ جزوی طور پر خراب بنیادی ڈھانچے، جیسے ٹوٹے ہوئے سیوریج اور پانی کی لائنیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کو ” مقامی طور پرزمین دھنسنے کے نمونوں میں تبدیلیوں” کا سبب قرار دیا گیا ہے، جہاں پانی کے رساوسے وقت کے ساتھ مٹی دلدل میں تبدیل ہوکر دھنس سکتی ہے۔

اس مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہر میں ایک فعال فالٹ لائن موجود ہے، جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں یہاں زلزلے آنے کا امکان ہے۔ مصنفین نے نوٹ کیا کہ ڈیٹا میں فالٹ کے ساتھ واضح حرکت دیکھی گئی ہے، خاص طور پر 10 کلومیٹر طویل حصے میں۔ یہ شہر کے لیے “تشویشناک خطرہ” پیدا کرتا ہے کیونکہ اس فالٹ میں توانائی کے جمع ہونے پر تحقیقات نہیں ہوئی ہیں، جو بالآخر خارج ہونے پر زلزلے کا سبب بنتی ہے۔ ڈیٹا کی اس کمی سے شہر “ایک بڑے زلزلے کے امکان کی پیش گوئی اور منصوبہ بندی“ کے حوالے سے خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔

ممکنہ حل !

ان خطرات کے درمیان، ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے زمین کے دھنسنے کی روک تھام، عمارتوں کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد اور جیوفزیکل سرویز کا مجموعی استعمال ضروری ہے۔

حاذق خان کے مطابق زمین کے دھنسنے کے خطرات کو کم کرنے کے لیے “جیوتیکنیکل بنیادوں پر” عمارت سازی کے قوانین کو نافذ کرنا اور کمزور علاقوں میں بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔

حاذق خان مزید بتاتے ہیں کہ شہری منصوبہ بندی میں نکاسی آب کے نظام کی بہتری اور زمین کے استعمال کے مطابق زوننگ کو لازمی طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ بارش کے پانی کو جمع کرنا اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر (aquifer) کی بحالی بھی مٹی کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ زیرِ زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتی ہے اور مٹی کےدھنسنے کے عمل کو کم کرتی ہے.

لیکن ڈاکٹر احمد محمود نے کہا کہ اگرچہ یہ اقدامات زمین کے مزید دھنسنے کے عمل کو سست کر سکتے ہیں، یہ مٹی کو مستقل طور پر مستحکم نہیں کرسکتے ، اس لیے ابتدائی روک تھام ضروری ہے۔ اس کے لیے زیرِ زمین پانی کے اخراج کو سنجیدگی سے محدود کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا، “ہمیں غیر قانونی بور ویل اور ٹینکر کمپنیوں کی پانی نکالنے کی سرگرمیوں پر پابندی یا سخت حدود نافذ کرنی ہوں گی۔” پاکستان کی قومی حکمت عملی برائے پانی کی حفاظت 2023-2027 میں بھی زیرِ زمین پانی کے اخراج کی نگرانی اور کنٹرول کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

حاذق خان حکومت کے لیے چند ممکنہ حل تجویز کرتے ہیں:

1.         پائپ شدہ پانی کے نیٹ ورکس کو بڑھانا تاکہ غیر قانونی بور ویل کی ضرورت نہ پڑے۔

2.         ریچارج اسکیم کا قیام تاکہ پانی کے اخراج اور بھرائی میں توازن قائم رہے۔

3.         پانی کے حد سے زیادہ استعمال میں کمی،عوامی اور صنعتی سطح پر پانی کی حفاظت کے بارے میں آگاہی اور غیر قانونی بور ویل کی روک تھام ۔

وہ کہتے ہیں کہ کراچی کو باقاعدگی کے ساتھ زلزلہ مشقیں (ارتھ کوئیک ڈرلز) بھی کرنی چاہئیں

رانا نوٹ کرتے ہیں کہ پاکستان کا بلڈنگ کوڈجو 2005 میں کشمیر کے خوفناک زلزلے کے بعد 2007 میں اپنایا گیا تھا اور جس میں کم از کم 79,000 افراد ہلاک ہوئے ،زلزلے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات فراہم کرتا ہے۔ لیکن، ان کے بقول، “نافذ کرنے اور اس کے مطابق ڈھالنے کے لیے ابھی طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ بلڈنگ کوڈ ایک مضبوط فریم ورک ہے، لیکن کراچی کے بہت سے مقامی قوانین اس سے مکمل ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ۔

صدیقی آفات سے نمٹنے کی تیاری کے حوالے سے آگاہی بڑھانے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں اور اس بات کا افسوس ظاہر کرتی ہیں کہ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے کوئی مخصوص فورم موجود نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ہمیں ایسے فورمز کی ضرورت ہے جہاں سائنسی اور عملی حل پر بات ہو، اور ایسے حکومتی پالیسیاں تیار کی جائیں جو کراچی میں ممکنہ زلزلوں کے اثرات سے نمٹنے کے قابل ہوں۔

فاروق کا کہنا ہے کہ حکام کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ سروے کریں تاکہ “یقین دہانی ہو سکے کہ تعمیرات کے لیے منتخب زمین فالٹ لائن پر یا اس کے قریب نہ ہو”۔

نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی کے ماہر ڈاکٹر احمد محمود نے کہا کہ سیٹلائٹ InSAR کے ذریعے تفصیلی جیوفزیکل سرویز کرنا، جو ریڈار تصاویر کے ذریعے زمین کی تبدیلی کو ناپتا ہے، اور زلزلے کے خطرے والے علاقوں میں سیزمک مانیٹرنگ کرنا، زمین کے دھنسنے اور فالٹ کے رویے کو نقشہ بندی کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے

معین رضا خان نے لکھا کہ اگرچہ زلزلوں کی شدت کم رہی ہے، لیکن ان کی تعداد شہر کے ٹیکٹونک عوامل، زمین کے دھنسنے اور شہری کمزوری کے حوالے سے کافی تشویش پیدا کرتی ہے۔ ” تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے ،1935میں کوئٹہ زلزلے سے لے کر 1945 کے مکران سونامی پیدا کرنے والے زلزلے تک ہمارے خطرات محض خیالی نہیں ہیں۔”

وہ زور دیتے ہیں ” یہ کسی طرح کے ڈر یا خوف کا تاثر نہیں ہے ، بلکہ یہ تیاری، پالیسی میں اصلاحات، اور فوری مضبوطی کے اقدامات کے لیے ایک انتباہ ہے”۔

مترجم: شبینہ فراز

Privacy Overview

This website uses cookies so that we can provide you with the best user experience possible. Cookie information is stored in your browser and performs functions such as recognising you when you return to our website and helping our team to understand which sections of the website you find most interesting and useful.

Strictly Necessary Cookies

Strictly Necessary Cookie should be enabled at all times so that we can save your preferences for cookie settings.

Analytics

This website uses Google Analytics to collect anonymous information such as the number of visitors to the site, and the most popular pages.

Keeping this cookie enabled helps us to improve our website.

Marketing

This website uses the following additional cookies:

(List the cookies that you are using on the website here.)