22-23 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں 41 عالمی رہنماؤں کی آب و ہوا سے متعلق سربراہی اجلاس کو ترقی پذیر ممالک خدشات کی نظر سے دیکھتے رہے- 2015 میں پیرس آب و ہوا کے سربراہی اجلاس میں اخراج کو روکنے اور گلوبل وارمنگ کو صنعتی سطح سے پہلے کی سطح سے دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے ایک بڑے مقصد پر متفقانہ فیصلے کے ساتھ ، رہنماؤں نے آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لئے اپنے عزائم کا اعلان کیا – اور بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ آب و ہوا پر تعاون کے لئے بھی تبادلہ خیال کیا۔
بحیثیت میزبان اور دنیا کے دوسرے بڑے کاربن اخراج کنندہ ، 2030 سے پہلے اخراج کو 2005 کی سطح کے مقابلے میں نصف کرنے کے ہدف کے ساتھ امریکا نے اعلانات کی پہل کی- اگرچہ کانفرنس کا عالمی رہنماؤں نے بڑے پیمانے پر اس کا خیرمقدم کیا ہے ، لیکن اس پر تنقید بھی کی گئی ہے کہ آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے “موجودہ عزائم ضرورت سے انتہائی کم ” ہیں-
موسمیاتی سربراہی اجلاس سے قبل ، بائیڈن کے بین الاقوامی آب و ہوا کو فائنانس کرنے کے لئے ڈھائی ارب ڈالر کے عہد کو بھی جنوبی ایشیاء کے تجزیہ کاروں نے شبہات کی نگاہ سے دیکھا ، جن کا کہنا تھا کہ یہ موسمیاتی انصاف کے لئے یہ ناکافی ہے۔ سربراہی اجلاس میں ، چین اور ہندوستان ان بڑے آلودگی کاروں میں شامل تھے جنھوں نے سبز توانائی کے حصول کے اپنے ارادے کا عندیہ دیا۔
صدر ژی جنپنگ نے اگلے پانچ سالوں میں کوئلے سے بجلی پر “سختی سے قابوپانے ” اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعہ سبز سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا ، لیکن بی آرآئی منصوبوں میں کوئلہ فنانس کے خاتمے کے بارے میں ایک جامع بیان سے گریز کیا- بھارت نیٹ-زیرو تک پہنچنے کے لئے ہدف سال مخصوص کرنے سے کترا گیا، لیکن اس نے 2030 تک ملک میں قابل تجدید توانائی کی 450 گیگا واٹ تنصیبات کرنے کے عہد کی تصدیق کی۔
ایک طرف امریکہ نے تمام ممالک سے کاربن اخراج کو محدود کرنے کے لئے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ اور ترقی پذیر ممالک میں آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے اپنی مدد کا وعدہ کررہا ہے، دوسری طرف ایشیاء میں بڑے آلودگی کار اور آب و ہوا سے متاثرہ ممالک اس فکر میں ہیں کہ معاش ، پیداوار اور ترقی کے لئے اس کا کیا مطلب ہے۔
دی تھرڈ پول نے آب و ہوا کے لئے سربراہی اجلاس میں نمائندگی کرنے والے ممالک کے ماہرین سے ان کے خیالات کے بارے میں پوچھا کہ آئندہ دہائی میں توقعات اور تعاون کے لئے نتائج کیا معنی رکھتے ہیں۔
الکا کیلکر
ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ انڈیا میں آب و ہوا کے پروگرام کی ڈائریکٹر
صدر بائیڈن کی طرف سے بلائے گئے آب و ہوا سے متعلق اجلاس میں ہونے والے اعلانات اس لئے اہم ہیں کہ وہ تباہ کن وبائی امراض اور معاشی بحران کے نتیجے میں آئے ہیں۔ ایک سال پہلے ، جب ہم وبائی مرض کی پہلی لہر کے دہانے میں تھے ، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اگر ممالک اقتصادی بحالی کے مفاد میں آب و ہوا کے اقدام کو قربان کرگزریں- آج ، اس سربراہی اجلاس کی بدولت ، ہم جانتے ہیں کہ تمام ممالک نے آب و ہوا سے متعلق عزائم اور پیرس معاہدے کے حتمی مقصد کے لئے اپنی وابستگی کی توثیق کی ہے۔
اگرچہ اس سربراہی اجلاس میں ہونے والے اعلانات پر عملدرآمد اگلی دہائی کے دوران اور اس سے آگے ہونے کی ضرورت ہے ، لیکن ان میں سب سے اہم وعدہ 2030 تک امریکہ کے اخراج کو نصف اور 2050 تک نیٹ-زیرو کرنے کا عہد تھا۔ آب و ہوا کی تبدیلی میں دنیا کے سب سے بڑے شراکت دار کی حیثیت سے ، امریکہ کی شمولیت عالمی آب و ہوا کی کارروائی کی کلید ہے۔
یورپی یونین اور برطانیہ نے نہ صرف بڑے وعدے کیے بلکہ انہیں قانون کا حصّہ بھی بنا دیا ہے ، جو دوسری قوموں کے لئے تقلید کی ایک قابل ذکر مثال ہے۔ تاہم اس سربراہی اجلاس میں کی جانے والی مالی وعدوں میں کافی کی گنجائش باقی رہ گئی- سربراہی اجلاس میں ہندوستان کی تقریر میں اپنے موجودہ ملکی اور بین الاقوامی وعدوں کو دہرایا گیا۔ امریکہ کے ساتھ ، اس نے صاف ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے لئے ایک نیا کلائمیٹ اینڈ کلین انرجی ایجنڈا 2030 پارٹنرشپ کا اعلان کیا۔
لیو یوانلنگ
انسٹیٹیوٹ آف امریکن اسٹڈیز چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کی معاون محقق
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا چین اور امریکہ کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کے بیچ باہمی تعاون کی تجدید نے ایک بہت ہی مثبت سگنل بھیجا ہے- چین اور امریکہ نے گرین ہاؤس (ریفریجریٹ) گیسوں کے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لئے کیگالی ترمیم پر عمل درآمد کا اعلان کیا۔ اس سے آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے اہم سال میں عالمی سطح پر اعتماد کو بہت زیادہ تقویت ملی ہے۔ تاہم ، دونوں فریقوں کے مابین تعاون کو چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لئے جو وقت باقی ہے وہ کم ہے۔ چین اور امریکہ آب و ہوا کے معاملات پر مختلف نقطہ نظررکھتے ہیں ، جیسے باہمی اعتماد کا فقدان ، غیر مساوی اقدامات ، فنڈ میں سرمایہ کاری اور صلاحیت میں اضافہ۔ بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کے باہمی تعلقات میں بہتری نہیں آئی ہے- آب و ہوا کے مسائل ، جن پرطویل عرصے سے سیاست کی گئی ہے ، موجودہ خراب دوطرفہ تعلقات سے متاثر ہونگے۔ دونوں ممالک کے پاس نوجوان باصلاحیت جانشینوں کی بھی کمی ہے۔ چین اور امریکہ کی آب و ہوا کے تعاون کے موجودہ قائدین ژی ژنہوا اور جان کیری جیسے تجربہ کار ہیں ، جو ماحولیاتی امور کے لئے جوش ، جذبہ اور حتی کہ مشن کا ایک خاص احساس رکھتے ہیں۔ مستقبل میں بھی ایسے ہی جانشین ہوں گے یا نہیں یہ غیر یقینی ہے۔
کیگالی ترمیم کیا ہے؟
کیگالی ترمیم مونٹریال پروٹوکول میں ایک ترمیم ہے جس کا مقصد اوزون پرت کی حفاظت کرنا ہے ، جو زمین کے ماحول کا وہ حصہ ہے جو سورج کی بیشتر بنفشی تابکاری کو جذب کرتا ہے۔ ممالک نے اگلے 30 سالوں میں ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) کی پیداوار اور کھپت میں 80٪ سے زیادہ کمی کرنے پر اتفاق کیا ہے- یہ بتدریج کٹوتی کا مرحلہ آب و ہوا کے لئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ، کیوں کہ ایچ ایف سیز گرین ہاؤس گیسیں ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ گرمی کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
جین سو
سینٹر آف بائیولاجکل ڈائیورسٹی، امریکہ توانائی انصاف پروگرام کی ڈائریکٹر ہیں
2030 تک صدر بائیڈن کا ملکی اخراج میں 50-52٪ کمی کا وعدہ ،آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال سے بڑے پیمانے پر نمٹنے کی ضرورت سے کہیںدرجہ کم ہے- آب و ہوا کے بحران کو حل کرنے کے لئے سائنس اور مساوات دونوں کا استعمال کرنا ہوگا۔ امریکہ سب سے بڑا تاریخی آلودگی کار اور ایک دولت مند ترین ملک ہے اس لحاظ سے اسے اپنا کردار منصفانہ انداز میں نبھانا ہوگا اور 2030 تک ملکی اخراج میں کم از کم 70 فیصد لازمی کمی کرنا ہوگی اور آب و ہوا کے اس بھاری قرض کی ادائیگی کے لئے گلوبل ساؤتھ ممالک کی کاربن کٹوتی کے لئے مالی اعانت کرنا ہوگی۔ ملکی سطح پر آب و ہوا کے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قدرتی ایندھن کے استعمال کو ختم کر کے ہماری معیشت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ایک قابل تجدید اور نسل پرستی کےخلاف توانائی کا نظام تشکیل کی جو پہلے انصاف کو فروغ دے۔
نوروز دبش
سینٹر فار پالیسی ریسرچ ، انڈیا کے پروفیسر
ایک قابل ذکر تبدیلی جو آب و ہوا سے متعلق اجلاس میں دیکھنے کو آئی وہ یہ کہ سیاسی زور قریب المدّت 2030 اقدامات پر رکھا گیا ہے جوکہ طویل المدتی نیٹ-زیرو مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یہ ایک مفید سگنل ہے ، کیونکہ مستقبل کے اہداف ، چاہے جتنے اہم ہوں، آج کے اقدامات کے لئےدباؤ نہیں ہونے چاہئیں۔ اس تبدیلی سے یہ امکان زیادہ تر ہوجاتا ہے کہ قلیل مدتی پالیسی اور طویل مدتی ہدف کی ترتیب ایک دوسرے کی معاونت کریں گے۔
بھارت سمیت وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک ، اپنے عہد کی تجدید نہیں کی ، انکا کام واضح ہے: وہ وعدے وضع کریں جو مختصر مدت میں تبدیلی کے عزم کا مظاہرہ کریں اور بہتر ہوگا کہ اسے نیٹ-زیرو ہدف تک پہنچنے کے طویل المدّتی مقصد کا حصّہ بنائیں، اور وہاں تک پہنچنے کے لئے واضح اور معتبر پالیسیاں مرتب کریں۔
بھارت سمیت بہت سارے ممالک میں یہ کام انجام دینے کے لئے ادارہ جاتی ڈھانچے موجود نہیں ہیں اور ان اداروں کی تعمیر پہلی ترجیح ہے۔ بھارت کی اب تین ترجیحات ہیں۔ سب سے پہلے ، بجلی کے شعبے کی زیرقیادت ، کلیدی شعبوں میں ہمارے ترقیاتی راستے کو منتقل کرنے کے لئے واضح ، قابل عمل منصوبوں کو تیار کرے۔ ان تبدیلیوں میں کاربن کے اخراج کی حدود کے ساتھ ساتھ ، روزگار کی تخلیق اور مقامی فضائی آلودگی جیسے ترقیاتی فوائد پر بھی زور دینا چاہئے- دوسرا ، بجلی کے منصوبے کے طور پر ، وقت آگیا ہے کہ ہندوستان قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بڑھانے اور گرڈ کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ کوئلہ بجلی کی صلاحیت کو محدود کرنے پر غور کرے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے ہمیں کوئلے پر منحصر ریاستوں کے لئے بھی منتقلی کے منصوبے کی ضرورت ہے۔ تیسرا ، شعبے کے منصوبوں پر عملدرآمد اور ان کو طویل مدتی مقاصد سے وابستہ کرنے کے لئے ، بھارت کو فوری طور پر ایک آزاد تجزیاتی ادارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو مستقبل میں کم کاربن معیشت کی تعمیر کے بارے میں عوامی گفتگو کو بھی جنم دے۔
زو جی
انرجی فاؤنڈیشن چین کے صدر
مجھے بڑی توقعات ہیں کہ چین اور امریکہ کے بیچ آب و ہوا پر تعاون اوباما کے دور صدارت کی سطح پر واپس آجائے گا۔ اس وقت ، دونوں رہنماؤں کی جانب سے پے درپے متعدد مشترکہ بیانات دیئے گئے۔ اگر چین اور امریکہ نے مخلصانہ اور عملی طور پر تعاون جاری رکھے تو وہ اعلی رہنماؤں کی حیثیت سے مشترکہ بیان جاری کرسکیں گے۔ اس صورت میں، وضاحتیں، طاقت اور اثر و رسوخ زیادہ ہو جائے گا. دونوں ممالک نے کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس جیسے حیاتیاتی ایندھن کی کھپت کو کم کرنے کا عہد کیا ہے- یہ پہلا موقع ہے جب ایک مشترکہ بیان میں حیاتیاتی ایندھن کی اقسام کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ چین کو کوئلے کے استعمال کو کنٹرول کرنے ، توانائی کے شعبے میں کوئلے کے تناسب کو کم کرنے ، اور قابل تجدید توانائی متعارف کروانے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ جب کہ امریکہ میں ، تیل اور قدرتی گیس کی کھپت کو کم کرنا بنیادی تضاد ہے- چین اور امریکہ حیاتیاتی ایندھن کی کھپت کو محدود اور کم کرنے کے لئے تعاون کرسکتے ہیں۔
شہاب انعام خان
جہانگیر نگر یونیورسٹی، بنگلہ دیش میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر
جنوبی ایشیائی ممالک اس وقت ایک دوراہے پر ہیں. اگر حکومتیں ماحولیاتی تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں کوڈ 19 سے پہلے کا رویہ برقرار رکھتی ہیں تو ، کوویڈ 19 کے بعد کی دنیا ان پر متعدد غیر روایتی دباؤ ڈالتی رہے گی۔ ان ممالک کو ماحول کے بارے میں “ٹاک شاپ” رویے سے باہر نکلنا ہوگا۔ ان کو پانی کی گورننس اور سمندری تعاون سے لے کر پائیدار ماحولیاتی نظام تک ایک اجتماعی ردعمل اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ کاربن پر مبنی توانائی کے نظام سے قابل تجدید اور جدید توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں منتقل ہونے کے لئے بہادرانہ اقدامات کرنے ہونگے- اس فیصلہ کن دھائی کے لئے بی آئی ایم ایس ٹی ای سی (بے آف بنگال انیشیٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن) اور سارک (ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن) کے تحت علاقائی عزائم کے اقدامات عمل میں لاۓ جانے چاہییں۔ [سارک ممالک کی] سیاسی قیادت کو یاد دلاۓ جانے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب افسر شاہی کی سیاست کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک وجود خطرہ ہے جس کو نیٹ-زیرو تک پہنچنے کی واضح منصوبہ بندی کے ساتھ اخراج میں کمی کے عزائم کی ضرورت ہے۔
فہدسعید
علاقائی آب و ہوا کے سائنٹسٹ، کلائمیٹ انالیٹکس ، پاکستان
ہم صدر بائیڈن کے 2030 تک اخراج کو خاطر خواہ حد تک کم کرنے کے پختہ عزم کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم ، پچھلی امریکی انتظامیہ کے دوران دنیا نے آب و ہوا پر اقدامات کے چار اہم سال کھو دیے ہیں- یہ بہت اہم ہے کیونکہ ہر سال آب و ہوا سے متعلق غیر فعال ہونے کے بعد ، آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات مزید خراب ہوتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ لہذا ، ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ نہ صرف ضائع ہونے والے وقت کی تلافی کرے گا بلکہ ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا کے مالیات ، صلاحیت میں اضافے اور ٹکنالوجی کی منتقلی کے سلسلے میں مدد فراہم کرنے میں بھی کوششیں تیز کرے گا۔ اگرچہ عالمی اخراج میں پاکستان کی شراکت 1٪ سے بھی کم ہے ، لیکن موسمیاتی تبدیلی ایک اعلی ترجیحی ایجنڈا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں صف اول کی حیثیت سے ہونے کے ناطے ، پاکستان کے لئے لاپرواہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس کے 10 ارب درختوں کے معروف منصوبے کے علاوہ ، پاکستان کو اپنے توانائی کے نظام میں حیاتیاتی ایندھن کا حصہ کم سے کم کرنے کے لئے سخت پالیسیاں اور عملی منصوبے تیار کرنا ہوں گے۔ پچھلی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ قابل تجدید ذرائع کی طرف متتقلی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے جیسے نئی ملازمتیں پیدا ہونا، صحت کا معیار بہتر ہونا ، درآمدی بلوں میں کمی ، آف گرڈ بجلی کی فراہمی وغیرہ۔ پاکستان کو ماضی کی ٹیکنالوجیز کو ترک کرنا چاہئے اور قابل تجدید ذرائع کے آنے والے دور کو اپنانے کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔
باربرا فنامور
نیچرل ریسورسزڈیفنس کونسل ، امریکہ میں ایشیا کی سینئر اسٹریٹجک ڈائریکٹر
صدر ژی جنپنگ کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر سختی سے قابو پانے ، اور چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران کوئلے کی کھپت میں اضافے کو سختی سے کم کرنے کے وعدے امیدافزاء ہیں۔ چین کے آب و ہوا کے اہداف کو حاصل کرنے کا اگلا مرحلہ یہ ہے کہ تفصیلی سیکٹرل پانچ سالہ منصوبے مرتب کیے جائیں، جن میں : 1) کوئلے کے نئے پلانٹوں کی تعمیر کو روکنا، 2) موجودہ پلانٹس کی ریٹائرمنٹ کے لئے ایک معقول ٹائم ٹیبل اپنانا ، اور 3) کوئلے کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج پر مطلق پابندی مقرر کرنا شامل ہے۔ چین بیرون ملک واقع کوئلہ فنانس کے خاتمے کے سلسلے میں جنوبی کوریا کی مثال پر عمل کرکے ملکی آب و ہوا کے عزائم کی مطابقت میں اپنی بیرون ملک سرمایہ کاری کی پالیسیوں کو بھی ترتیب دے سکتا ہے۔ قابل تجدید توانائی میں عالمی رہنما کی حیثیت سے ، چین کو ترقی پذیر ممالک کو سبز اور کم کاربن کی نشوونما میں تیزی لانے کی پیش کش کی ہے۔ قابل تجدید توانائی میں عالمی رہنما کی حیثیت سے ، چین دیگر ترقی پذیر ممالک کو گرین اور کم کاربن منتقلی کی طرف توسیع میں تیزی لانے کے لئے بہت کچھ پیش کش کرسکتا ہے-