آب و ہوا

تبصرہ: پاکستان کے پالیسی سازوں کو موسمیاتی نقل مکانی پر توجہ دینی چاہیے

پاکستانی کمیونٹیز ، خصوصاً خواتین ، قدرتی آفات کے نتیجے میں بے گھر ہونے پر زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔ صنف حساس موافقت کے اقدامات اور امدادی پالیسیوں کو قومی مباحثے کا حصہ بننا چاہیے۔
اردو
<p>  پاکستان کے حیدرآباد میں ماہی گیر دریائے سندھ کے کنارے جال کھینچ رہے ہیں۔ تقریباً  40 فیصد آبادی ماہی گیری ، زراعت اور مویشیوں کی افزائش پر انحصار کرتی ہے۔ جو موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ذریعہ معاش ہیں -( تصویر بشکریہ اخترسومرو /الامی )</p>

پاکستان کے حیدرآباد میں ماہی گیر دریائے سندھ کے کنارے جال کھینچ رہے ہیں۔ تقریباً 40 فیصد آبادی ماہی گیری ، زراعت اور مویشیوں کی افزائش پر انحصار کرتی ہے۔ جو موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ذریعہ معاش ہیں -( تصویر بشکریہ اخترسومرو /الامی )

 پاکستان میں ، موسمیاتی نقل مکانی ایک حقیقت بن چکی ہے۔ پاکستان نہ صرف دنیا کے 10 آب و ہوا سے  سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے ، بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی کے روزمرہ اثرات سے نمٹنے کے لیے تیزی سے اقدامات بھی نہیں کر رہا۔ جس کا دائرہ  موسم کی غیر یقینی ترتیب  اور گرمی کی لہروں سے لے کر برفانی جھیل کے سیلابی ریلوں  (جی ایل او ایفس) تک ہے جس سے  پوری کمیونٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور بے گھر ہوجاتی ہے۔

ملین 63 

 2050 تک جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد۔

ملک کا متنوع ٹوپوگرافک اپنی وجاہت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے۔ لیکن اس کے بہت سے معروف گلیشیئر ، دریا اور صحرا ، بڑھتی آبادی کے ساتھ مل کر ، ایک پھندا سا بن گئے ہیں ، جو شہریوں کے گرد مسلسل تنگ ہو رہا  ہے، کیونکہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج گلوبل وارمنگ کو مہلک ڈگری تک لے جا رہا ہے اور قدرتی آفات کو متحرک کررہا  ہے۔

دسمبر 2020 کی ایک رپورٹ ، ‘ کوسٹ آف کلائمیٹ ان-ایکشن : ڈسپلیسمنٹ اینڈ ڈسٹریس مائیگریشن ‘ ، جنوبی ایشیا کی موسمیاتی نقل مکانی کے بحران کو اعداد کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں ، خطے میں 18 ملین سے زیادہ لوگوں نے موسمی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کی۔ اگر گلوبل وارمنگ اپنی موجودہ رفتار پر جاری رہتی ہے اور عالمی اوسط درجہ حرارت 3.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے ، تو پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش ، نیپال اور سری لنکا میں تقریباً  63 ملین افراد بے گھر ہوں گے۔ توقع ہے کہ 2050 تک اکیلے پاکستان میں 20 لاکھ کے قریب موسمی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکان ہوں گے، ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو سیلاب اور سمندری طوفان جیسے موسمیاتی آفات کے اچانک واقع ہونے سے بے گھر ہو جائیں گے۔ 

اس مسئلے کے سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے ، گنجان آبادی والے شہر لاہور اس وقت تقریبا ً 11 ملین افراد کا گھر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 30 سال سے بھی کم عرصے میں ، ایسے لوگوں کی تعداد جنہیں جنوبی ایشیا میں رہنے کے لیے ایک نئی جگہ کی ضرورت ہے ، پاکستان کے دوسرے بڑے شہر کی موجودہ آبادی سے چھ گنا ہو سکتی ہے۔

 زیادہ تر  موسمی تبدیلی سے نقل مکانی کرنے والے دیہی علاقوں اور پاکستان کے ساحلی پٹی سے بے گھر ہوۓ ہیں اور ہوں گے۔ ایک بار شہروں میں پہنچنے کے بعد ، موسمی تبدیلی سے نقل مکانی کرنے والوں کو امتیازی سلوک، روزگار کے لیے تک ودو اور غیر یقینی زندگی کی صورت میں اضافی سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 موسمی تبدیلی معاش کو متاثر کرتی ہے

2017-18 لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان کی 39 فیصد آبادی زراعت ، مویشی گیری اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سب آب و ہوا کی تبدیلی سے منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔غربت موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کا فیصلہ کن عنصر ہے اور نقل مکانی کی بڑی وجہ بھی- 

چین اور امریکہ بلا شبہ آب و ہوا کی تبدیلی کو تیز کر رہے ہیں (جیسا کہ یہ دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کے دو سب سے بڑے خارج ہیں،جو  بالترتیب 27 فیصد  اور 11  فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں) ، اور پاکستان نے فوری طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ وہ خود آلودگی کا بڑا ذمہ دار نہیں – لیکن عالمی اخراج کی فہرست میں نیچے ہونا قومی حکومت کوملکی موسمیاتی  کے بحران سے نمٹنے کی ذمہ داریوں سے بری نہیں کرتا۔

ناقص اور غیر مساوی ملکی حکومتی پالیسیوں نے پاکستان میں عالمی موسمیاتی بحران کی شدت کو ہوا دی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے بڑے علاقوں سے موسمیاتی نقل مکانی میٹھے پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے ، جس کے بغیر مقامی لوگ فصلیں نہیں اگا سکتے ، جانور نہیں پال سکتے اور نہ ہی اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ تاہم ، پاکستان کے پانی کے بحران  سے نمٹنے کے لیے حکومت کا مزید ڈیموں کی تعمیر کا موقف برقرار ہے ، جو ملک کے جنوبی حصوں کو یقینی  طور پر بنجر زمین میں بدل دے گا۔

جب تک میٹھا پانی دریاۓ  سندھ کے بالائی حصّے میں نہیں چھوڑا جاتا اور اسے تلچھٹیں کے ساتھ  بحیرہ عرب میں بہنے نہیں دیا جاتا، سمندری پانی کی دراندازی انڈس ڈیلٹا اور اس کے ساتھ والے علاقے کو بانجھ اور غیر آباد کردے گی۔ 

ایک دستاویزی فلم جسے نتاری (‘اینکر’) کہا جاتا ہے ، کھارو چن میں موسمیاتی نقل مکانی کرنے والوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتی ہے ، جو کہ بین الاقوامی سطح پر سراہے جانے، لیکن مقامی طور پر تباہ شدہ  سندھ طاس کا ایک گاؤں ہے۔

ایک انٹرویو دینے والا حکومت کی سندھ کو بھوکا رکھ کر چند صوبوں کی زرعی ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈیم بنانے کی امتیازی پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے، اور کہتا ہے، “وہ ڈیم بنانے کی بات کرتے ہیں ، لیکن دریا سمندر تو تک بھی نہیں پہنچتا۔”

پاکستانیوں کا حصّہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 0.8 فیصد سے کم ہے اور وہ موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن ستم یہ کہ، غیر مساوی حکومتی پالیسیوں نے ان کے گھر اور معاش چھین لئے ہیں۔

پاکستان میں موسمیاتی نقل مکانی کی متاثر عورتیں  ہیں

‘نتاری ‘ میں عورتیں کہیں نہیں ہیں- پروڈکشن ٹیم کی متعدد درخواستوں کے بعد بھی ، کھارو چن میں مردوں نے اپنے خاندانوں کی خواتین اور لڑکیوں کے انٹرویو یا فوٹیج کی اجازت نہیں دی۔ عورت کی حالت زار ، چاہے کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو ، بند دروازوں کے پیچھے چھپی رہتی ہے۔ 

اس کے باوجود پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ہجرت خواتین کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔ یہ ان کی جسمانی اور جذباتی صحت اور تندرستی کو متاثر کرتا ہے ، ان پر گھریلو کام کا بوجھ بڑھاتا ہے ، نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور کمائی کے مواقع کو ختم کرتا ہے (زیادہ تر دیہی خواتین زرعی شعبے میں کام کرتی ہیں)۔

آکسفیم کی 2019 کی ایک رپورٹ ، ‘ کلائمیٹ انڈیوسڈ مائیگریشن ان سندھ ، پاکستان’ ، ان روزمرہ کی مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے جن کا سامنا موسمی تبدیلی سے نقل مکانی کرنے  والی خواتین کرتی ہیں- ان میں جنگلی جانوروں کا  بڑھتا  ہوا  خطرہ، سانپ اور ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریاں ، کمزوری اور جنسی ہراسانی ، رازداری کی عدم موجودگی اور اپنے گھروں کو چھوڑنے کی مسلسل جذباتی پریشانی شامل ہیں۔

پاکستان میں ، جہاں موسمی ہجرت خود قومی مکالمے سے غائب ہے ، خواتین پر اس کے اثرات پر پالیسی سازوں دھیان  مشکل سے جائیگا۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کا حل مجموعی طور پر صنفی ذمہ دارانہ پالیسیوں اور ان پر عمل درآمد میں ہے۔ یہ تب ممکن ہوگا جب حکومت سرمایہ کاری کرے گی اور اعلی معیاری، مقامی سطح پر صنفی اعداد و شمار جمع کرے گی۔

ہر موسمی مہاجر کے لئے مستقبل کے خواب کی جگہ بقا کے لیے ایک خوفناک جدوجہد نے لے لی ہے۔ نتاری جیسی دستاویزی فلموں میں ان کی دردناک ، حقیقی زندگی کی کہانیاں شعور بیدار کرنے اور پالیسی سازوں کو متاثر کرنے کا ایک راستہ ہے۔ 

ہم آب و ہوا کی تبدیلی کو واپس  نہیں لا سکتے ، لیکن ہم موثر استقامت کے اقدامات ، مساوی پانی کے انتظام ، صنفی موافقت اور آفات سے نجات کی پالیسیاں اور سماجی تحفظ کے اقدامات رکھ سکتے ہیں ، بشمول وہ جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ خواتین کے ذریعہ معاش کے ذرائع کو متنوع بنانے میں مدد کریں-پروقار تحریک ، نہ صرف ایک جگمگاتے شہر کی طرف بلکہ ایک محفوظ مستقبل کی طرف ، ہر موسمیاتی مہاجر کا حق ہونا چاہیے۔