جنوبی ایشیا کی ترقی اورخوشحالی خطرے میں ہے۔ اقوام متحدہ کی سائنسی کمیٹی کے زیر اہتمام موسمیاتی مسائل پر بین الاقوامی اتحاد نے موسمیاتی بحران کی پہچان کے لئے بہت عمدہ معیار قائم کئے ہیں۔ حال ہی میں جدید تحقیق پر مبنی ایک لمبی لسٹ جاری کی گئی ہے، جس میں خطے بھر میں پھیلے ہوئےموسمیاتی مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دس سالوں سے خطے بھر کے ممالک کی طرف سے مشترکہ طور پر اس بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی قابل ذکر اقدامات سامنے نہیں آئے بلکہ بہت سے مسائل کے حوالے سے تو کوششیں مکمل طور پر ترک ہی کر دی گئی ہیں۔ لیکن جنوبی ایشیا کے تعاون کے بغیر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بنائے گئے مقاصد کا پورا ہونا انتہائی مشکل ہے۔
چوتھائی بھر صدی میں ہم نے کسی دریا کے حوالے ے کوئی معاہدہ طے ہوتے نہیں دیکھا، حساس مشترکہ وسائل جیساکہ زیر زمین پانی، ہوا، جنگلی حیات وغیرہ سب کے سب بدانتظامی کا شکار ہیں۔ خطے میں مستقل بدلتا ہوا بجلی کی تجارت کا طریقہ کار بھی پریشان کُن ہے، خاص طور پر اِس دور میں جب دنیا قابل تجدید ذرائع کی طرف متوجہ ہے، لیکن ہمارے ہاں معاملات ہر وقت سیاسی کڑواہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ امید کے چند لمحات جو سارک کے موسمیاتی تبدیلیوں پر ا یکشن پلان کے حوالے سے تھے اور جنہیں جنوبی ایشیائی مما لک کےماحولیاتی وزرا نے ایک مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں ۲۰۰۸ میں ڈھاکہ میں پیش کیا، وہ سب جلد بھلا دئے گئے۔
سارک آٹھ دسمبر ۱۹۸۵ میں قائم ہوئی۔ یہ نیپال، بھوٹان ، بنگلہ دیش ، افغانستان، مالدیپ، بھارت ، پاکستان اور سری لنکا کو قریب لانے کے لئے بنائی گئی۔اس کا مقصد جنوبی ایشیائی ممالک میں معاشی، معاشرتی ، علاقائی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کے ذریعے خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دینا تھا۔ تاہم سارک کا آخری اجلاس ۲۰۱۴ میں ہوا مگر ممبر ممالک میں اختلاف اور مسائل کی وجہ سے تنظیم اب تک دوبارہ مل کر نہیں بیٹھ سکی ہے۔
گو کہ یہ حیران کُن بات نہیں مگر حالیہ جغرافیائی سیاست اور آپس کی چپکلشوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے خطے کا خاکہ بالکل دھندلا گیا ہے۔ چائنہ کی خطے میں معاشی برتری اور نئے دوطرفہ تعلقات کی وجہ سے ہمسایہ ممالک کے آپس کے تعلقات میں دراڑیں آنے لگیں ہیں، خصوصا ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے درمیان۔ ادارے جیساکہ سارک کی بحالی کے بھی اثرات نظر نہیں آتے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ ماحولیاتی، موسمیاتی اور دیگر سرحد پار مسائل اور خطرات بڑھتے جا رہے ہیں مگر دہائیوں تک سیاسی مصالحت کی کوششوں کے باوجود بھی ہم کسی بھی ایسے ادارے کے تحفظ کے بغیر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔
موسمیاتی مسائل پر علاقائی تعاون کا حال
اصل میں یہ خود ساختہ قومی اور علاقائی حدود خطے میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتائج کا مقابلہ کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ ہمیشہ یہ حدود سیاسی نظر سے دیکھی جاتی ہیں جبکہ ماحولیاتی اور سیّاروی حدود کو ہمیشہ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اور آج ان کے اثرات ان نام نہاد حدود کے اُس پار بھی ہر طرف محسوس کئے جا رہے ہیں۔ گلیشئرز کا پگھلنا پورے ہندوکش ، ہمالیہ اور اس سے جڑے آٹھ ممالک کی ہائڈرولوجی کو بدل رہا ہے ، ہندوستان میں شدید اور غیر متوقع مون سون کی بارشیں، پر خطر خشک سالی اور کئی دوسرے علاقوں میں تباہ کُن سیلاب اس کی مثالیں ہیں۔ جنوبی ایشیا کے مستقل بارڈر (حدود) جو کہ پچھلی صدی کے وسط میں بہت جلد بازی میں متعارف کروائے گئے تھے اکیسویں صدی کے مسائل کے لئے غیر موزوں ہیں۔
جنوبی ایشیا میں موسمیاتی بحران پر باہمی تعاون کا کیس بہت سادہ ہے۔ بہت سے متاثرہ اور مسائل والے علاقوں میں انفرادی سے زیادہ اجتماعی طور پر کام کرنے سے مقاصد کا حصول اور مسائل کا حل ممکن ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتائج سے نمٹنے کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر درست سمت میں بھرپور اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ مگر علاقائی اور خطے کے لیول پر مشترکہ تعاون مذکورہ مسائل کے حل کے لئے بہتر ، جدید اور نئی سمت میں اقدامات کو فروغ دے گا، مسائل کے حل کی تلاش میں یقینا تیزی آئے گی، جس سے مسائل کم ہوجائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک بڑا علاقائی بجلی گھر ہندوستان کو اپنے ہمسایہ ممالک میں قابلِ تجدید بجلی کی تجارت میں مدد دے گا اور اس منصوبے سے خطے میں طلب اور رسد کی وجہ سے جو کمی ہے اس کو پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایک اور تجویز راجھستان میں شمسی توانائی کا منصوبہ ہوسکتا ہے، جوکہ پورے برصغیر میں پھیلے گا اور اندھیرے میں ڈھاکہ کو توانائی فراہم کرے گا۔ ایک علاقائی بجلی گھر کا خیال ہندوستان کے دنیا بھر میں گرڈ بچھانے کے بہت بڑے منصوبے کی بنیاد ہونا چاہئے، جس کا اعلان اُس نے حال ہی میں سی۔او۔پی ۲۶ کے دوران ایک بڑی تقریب میں کیا ہے۔
اسی طرح مشترکہ طاس دریا ﺅں کے حوالے سے منصوبہ بندی بھی ساحلی پٹی پر پانی کے راستوں سے تجارت کو فروغ دے سکتی ہے۔ اگر اس منصوبے کو بہتر طور پر ترتیب دیا جائے تو اس کا مطلب یقینی طور پر سڑک کا کم سے کم سفر اور اس کے نتیجے میں گاڑیوں کا کم دھواں اور کم آلودگی ہے۔
سی۔او۔پی ۲۶ میں مشترکہ اتحاد
موسمیاتی معاملات پر مذاکرات خطے کی بوجھل سیاست کے باوجود ایک تسلسل کو بحال رکھنے کا موقع فراہم کریں گے۔ اور اس یقین کے لئے بھی ٹھوس وجوہات موجود ہیں کہ علاقائی موسمیاتی سفارت کاری کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔
اول، جنوبی ایشیا کے تقریبا تمام حکمران ماضی قریب میں اپنی اپنی پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اور جیسے جیسے سائنسی شواہد خطرے کی حد تک بڑھتے جارہے ہیں انہوں نے کچھ نہ کچھ اپنی منصوبہ بندیاں (پالیسیز) بھی ترتیب دی ہیں۔ سو خطے کی پالیسیز اس ابا ل کا حصہ بن سکتی ہیں۔
دوسرا، موسمیاتی مسائل پرخرچ کرنے کے حوالےسے ترقی پزیر ممالک اور کثیر جہتی تنظیموں کی سرگرمیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں، ان کی مصروفیات اور سرگرمیوں کو بھی ایسے منصوبوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، جو سینکڑوں نہ سہی دسیوں جنوبی ایشیائی باشندوں کو فائدہ دے سکتی ہیں۔ اس خطے میں ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں، جب یہاں بین الحکومتی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے زیر انتظام بڑے اہم منصوبے منعقد ہوتے رہے ہیں اور ان سے جنوبی ایشیائی ممالک کے تعاون میں بھی بہتری آئی، ان تنظیموں میں انٹر نیشنل سنٹر فار اِنٹی گریٹڈ ماونٹین ڈیویلپمنٹ، ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) بھی شامل تھیں۔ تیسرا، خطے کی قیادت ہندوستان کے لئے ایک ایسا آسان موقع ہے کہ وہ خود کو خطے کے آب وہوا (کلائمیٹ ) کے رہنما کے طور پر بھی منوا سکے۔ کم ترقیاتی ممالک کا موسمیاتی بلاک، جس میں نیپال اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں، نے حال ہی میں سی۔پی۔او ۲۶ سے پہلے ایک بیان جاری کیا ہے جو اس پریشانی اور دبا ﺅ کی نشاندہی کرتاہے جو وہ ممالک محسوس کر رہے ہیں جنہوں نےخود کو موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں کیا۔ جنوبی ایشیا دنیا کے بڑے ممالک ان خطرات کو علاقائی اور دوطرفہ ایجنڈوں میں شامل کر کے کوئی بہتر نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔
سیاسی تعلقات کے جمود کو کیسے توڑا جائے؟
موسمیاتی بحران کے بڑھتے ہوئےخطرات کے پیش نظر تعلقات میں بحالی کی کسی بھی کوشش کو جنوبی ایشیا کی دو دہائی پرانی تاریخ سےکچھ سیکھنا چاہئے۔ پریشان کُن جغرافیائی سیاست (جیو پالیٹکس) کے تناظر میں معمولی عملی اقدامات بھی طویل مدتی تعاون کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ جیساکہ ہندوستان کے سابقہ ماحولیاتی وزیر نے تھرڈ پول کی طرف سے منعقدہ ایک پروگرام میں ذکر کیا تھا کہ ہمیں ہر قیمت پر باہمی گفتکو کو روکنے والے عناصر سے بچ کر، چھوٹے اور بامعنی قدم اٹھاتے ہوئے مذاکرات ضرور شروع کرنے چاہئیں۔ یہ حکمتِ عملی مثال کے طور پر کسی بھی دریائی معاہدے کی تجدید سے پہلے ہمالیہ کے برفانی پہاڑوں (گلیشئیرز) کے حوالے سے ایک مشترکہ سائنسی ایجنڈا ترتیب دینے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
ریاستوں اورصوبوں کی خاص انفرادی صلاحتیں بھی جنوبی ایشیا کے منصوبوں میں نئی جان ڈال سکتی ہیں۔ جیساکہ ہندوستان کی پہاڑی ریاستیں نیپال یا بھوٹان کے پہاڑی صوبوں سے مل کر مشترکہ سائنسی ادارے قائم کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح ایسے ہمسایہ صوبے یا ریاستیں جن کا انحصار زیرِ زمین پانی کے مشترکہ ذخائر پر ہے وہ کسی بھی حکومتی مداخلت سے پہلے اگر آپس میں بات چیت کرسکیں تو شائید زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ ہندوستان کی مشرقی اور شمال مشرقی ریاستیں شائید چھوٹے پیمانے پر پانی کے ایسے راستے بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں کہ جن کے ذریعے (خطے کے اندر) پانی کے راستے تجارت کو فروغ مل سکتا ہے، جو کہ یقینی طور پر سرحد پار ہمسایہ ممالک کو بھی فائدہ دیں گے۔ قومی حکومتیں تو زیادہ تر دوٹوک انداز میں بات کرتی ہیں اُس کے بر عکس اِس طرح صوبائی پیمانے پر بات چیت دوطرفہ مذاکرات کو ایک زیادہ مفید شکل دے سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں تعاون کو بدلنے کے لئے مالی وسائل فراہم کرنا
گو کہ اس سلسلے میں بہت سے علاقائی اور امید افزا اقدامات خاموشی سے دم توڑ چکے ہیں، کیونکہ حکومتیں انہیں قائم رکھنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکیں۔ اب جنوبی ایشیا ئی ممالک کو مل کر اٰیک چھوٹی سی ماحولیاتی کمیٹی بنانے پر غور کرنا چاہئے، جو کہ ایک شفاف اور مشترکہ ادارے کے زیر انتظام ہو۔ اور وہ پہلے سے متففق شدہ موضوعات کے حوالے سے حوصلہ افزا منصوبوں کو فنڈز (مالی مدد) فراہم کرے گی۔ یہ کسی علاقے میں بجلی کی ترسیلی (ٹرانسمیشن) لائن کی تجارت سے لے کر سیلاب کے خطرے کی قبل ازوقت اطلاع دینے والے سسٹم تک کوئی بھی منصوبہ ہوسکتا ہے
۔ ۲۰۱۰ میں سارک ممالک کے حکمرانوں نے ایک مطالعہ کی دعوت دی تھی کہ لوگ ایسے منصوبوں کو سرمایاکاری فراہم کرنے کے طریقے سامنے لائیں جن میں کاربن کا کم سے کم استعمال ہو اور جو قابل تجدید توانائی پر مشتمل ہوں ۔ گو کہ یہ بھی ایسے فنڈ کے لئے ایک مظبوط اور مناسب بنیادہے، تاہم اگر اس میں کاربن کے استعمال کو کم کرنے والے اور متبادل سے موافقت پیدا کرنے والے پہلو بھی شامل کر لئے جائیں تو تحقیق زیادہ مفید رہے گی۔ اور اس سے ہمیں اس بات کا اندازہ بھی ہوگا کہ جنوبی ایشیا کے نازک حالات کے بارے میں ہماری معلومات میں اب تک کتنا اضافہ ہوا ہے۔
موسمیاتی مسائل پر تعاون اور جغرافیائی سیاست کو الگ رکھنا
اصل میں جنوبی ایشیائی ممالک میں موسمیاتی مسائل کے حوالے سے تعاون کا دارومدار مکمل طور پر ان ممالک کی وزارتوں اور حکومتوں پر ہے۔ دوسری تمام وزارتوں کے ساتھ ساتھ وزارتِ خارجہ، بجلی و توانائی کی ایجنسیوں اور پانی کی وزارتوں کو جہاں مفید اور ضروری ہو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اورپھر اس کردار کا نحصار بھی اُن ممالک کی موسمیاتی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پر ہوگا۔
حال ہی میں شریک مصنف کے طور پر لکھے گئے میرے ایک مقالے میں یہ ذکر موجود ہے کہ ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عملی کام کرنے کے لئے اداروں کی بنیادیں کمزور ہیں۔ موسمیاتی حکمتِ عملی کے لئے (جس کا ایک جزو علاقائی تعلقات بھی ہیں ) جن تخلیقی تصورات کا ہونا ضروری ہے ایسے حالات میں ان کا پروان چڑھنا ناممکن ہے۔ جنوبی ایشیا کا موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کا ایجنڈا سرحدوں سے قطع نظر، صرف اور صرف متعلقہ ممالک کے مظبوط ارادوں اور ان کی صلاحیتوں پر منحصرہے۔
اور اس ایجنڈے کو قابل عمل بنانے کے لئے موسمیاتی مسائل کے حوالے سے اقدامات کو حدود کی قید سے آزاد ہو کر دیکھنا چاہئے۔ دنیا کے دوسرے علاقوں میں ایسی کوششیں کی جاچکی ہیں جس میں امریکہ اور چین قابل ذکر ہیں۔ اور یہ بات سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ جنوبی ایشیا ماحولیاتی تسلسل والا ایک براعظم ہے اور یہاں باہمی منصوبوں کو زندہ رکھنے کا بھی یہی ایک طریقہ ہے۔ سی۔او۔پی ۲۶ جنوبی ایشیائی راہنما ﺅں کے لئے نئے آغاز کا ایک موقع ہے، کہ وہ تھمفو معاہدے کے ساتھ اپنے عہد کا اعادہ کرسکیں۔ موسمیاتی بحران کو اکثر سیاسی انتشار کا سبب سمجھا جاتا ہے، مگر ایک قابل عمل سیاسی ذہانت کے ساتھ کمزور اور بیمار سیاسی منصوبہ جات کو پھر سے ایک نئی زندگی دی جاسکتی ہے۔
This translation was produced by Muqaddas Tariq through Water Science Policy and reviewed by The Third Pole. Versions in other languages can be accessed here.