تقریباً ایک دہائی قبل تک، پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں جھمپیر ایک خشک، بنجر زمینی علاقہ تھا، جس میں خانہ بدوش قبائل آباد تھے۔ آج، یہ تقریباً دو درجن ونڈ فارمز میں سینکڑوں گھومنے والے فیل پیکر بلیڈوں کا مسکن ہے۔
کراچی سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر جھمپیر پاکستان کے سب سے بڑے ‘ونڈ کوریڈور’ کا مرکز ہے، جو 11,000 میگاواٹس (ایم ڈبلیو) صاف توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ابتدائی سرمایہ کاروں میں چائنا تھری گورجز کارپوریشن، ایک چینی سرکاری پاور کمپنی تھی، جو ایک سرمایہ کاری ہولڈنگ کمپنی چائنا تھری گورجز ساؤتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے تحت کام کر رہی تھی۔
کمپنی نے تقریباً 150 میگاواٹ کی مشترکہ صلاحیت کے تین ونڈ پروجیکٹس کو فنڈ اور تعمیر کیا ہے۔ ان میں سے پہلے پروجیکٹ کی تعمیر 2012 میں شروع ہوئی تھی۔ 2018 میں مکمل ہونے والے مؤخر الذکر دو منصوبوں کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پی ای سی) کے تحت مالی اعانت فراہم کی گئی تھی، جو بیجنگ کے فلیگ شپ ملٹی بلین ڈالر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک لازمی حصہ ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے 1-2 نومبر 2022 کو چین کے دورے کے بعد ایک سرکاری بیان میں، شریف نے پاکستان کی ترقی کے لئے سی پی ای سی کی اہمیت کا اعادہ کیا۔
فی الحال، قابل تجدید ذرائع پاکستان کے توانائی کی پیداواری مرکب کا صرف ایک چھوٹا سا حصّہ۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی اسٹیٹ آف انڈسٹری 2022 کی رپورٹ کے مطابق، کل 43,775 میگاواٹ میں سے، ہوا اور شمسی توانائی کے لئے نصب صلاحیت بالترتیب 4.2 فیصد (1,831 میگاواٹ) اور 1.4فیصد (630 میگاواٹ) ہے۔ سی پیک کے لحاظ سے، چین اور پاکستان کے نومبر 2022 کے مشترکہ بیان میں تیل اور گیس کو “سی پیک تعاون کے ترجیحی شعبوں” میں شامل کیا گیا ہے۔
Bلیکن چینی سرمایہ کاری کی سمت میں حالیہ تبدیلی پاکستان کے توانائی کے مستقبل اور آب و ہوا کے لئے بہت اہم ہو سکتی ہے۔
کوئلے سے منتقلی ؟
سی پیک کے 2015 میں آغاز سے پہلے، پاکستان اپنی بجلی کی طویل، اپاہج کردینے والی قلت کو ختم کرنے کے لئے بے چین تھا۔ ملک تھر کے صحرا میں اپنا غیر استعمال شدہ دیسی کوئلہ استعمال کرنے کا خواہاں تھا، لیکن کثیر جہتی مالیاتی اداروں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ چین 2013 میں، بنیادی ڈھانچے کی ڈویلپمنٹ اور کوئلے کی کان کنی کے لئے بڑے قرضے دینے کی پیشکش لے کر آیا۔
مالیاتی سودوں کی تفصیلات ایک خفیہ راز ہیں، لیکن چینی فنڈ سے چلنے والے کوئلے کے متعدد منصوبوں چلاۓ گۓ۔ کوئلے کے آٹھ مکمل یا زیرتعمیر منصوبے سی پیک کے حصے کے طور پر درج ہیں، جن کی مجموعی پیداوار 6,900 میگاواٹ ہے، جس میں تھر کے کوئلے کے چار منصوبے شامل ہیں۔
پھر 2021 میں، اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آلودگی پھیلانے والے ملک، چین پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد، اپنی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لئے، بیجنگ نے اعلان کیا کہ وہ بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے نئے پاور پلانٹس نہیں بنائے گا، اور کم کاربن توانائی کی سپورٹ میں اضافہ کرے گا۔
دسمبر 2020 میں، پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ کوئی نیا پاور پروجیکٹ نہیں بنائے گا جس کا انحصار درآمدی کوئلے پر ہو، اور عہد کیا کہ 2030 تک اس کی 60 فیصد توانائی صاف اور قابل تجدید ذرائع سے آئے گی۔ اس کے بعد حکومت نے کوئلے کے متعدد ممکنہ منصوبے ختم کردئے، جن میں بلوچستان میں چین کے زیر کنٹرول سمندری بندرگاہ گوادر پر 300 میگاواٹ کا پلانٹ بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسے سولر پلانٹ سے تبدیل کیا جانا ہے۔
سی پیک ‘گرین’ ہورہا ہے
جیسا کہ بیجنگ بی آر آئی کو ایک ماحول دوست اقدام کے طور پر دوبارہ برانڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، چینی حکام نے ‘گرین’ سی پیک کے آئیڈیا کوبڑھاوا دیا ہے۔ لیکن اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کی ریسرچ فیلو حنا اسلم بتاتی ہیں کہ “توانائی کے شعبے میں، اس کا مطلب ہوا اور شمسی توانائی کے بجائے ہائیڈرو پر زیادہ توجہ دینا ہے”۔
جھمپیر میں ونڈ انرجی کے علاوہ، چائنا تھری گورجز کارپوریشن ہائیڈرو پاور میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہے، جس کے لئے اسے عالمی سطح پر جانا جاتا ہے (کمپنی چین میں دنیا کے سب سے بڑے پاور سٹیشن تھری گورجز ڈیم کی تعمیر کے پیچھے کارفرما ہے)۔ جون 2022 میں، اس نے شمالی پاکستان میں کروٹ میں 720 میگاواٹ کا منصوبہ مکمل کیا۔ مظفرآباد کے قریب 1,124 میگاواٹ کے ہائیڈرو پاور پلانٹ پر کام آگے بڑھ رہا ہے، اور حال ہی میں محل میں 640 میگاواٹ کے تیسرے منصوبے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہی کمپنی دونوں پروجیکٹس کے پیچھے کارفرما ہے۔
پالیسی میں مستقل مزاجی کا فقدان سب سے بڑا مسئلہ رہا ہےنعمان سہیل، چائنا تھری گورجز ساؤتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ
چائنا تھری گورجز کا مقصد پاکستان میں زیادہ تر ہائیڈرو کے ذریعے، 2,500 میگاواٹ قابل تجدید توانائی پیدا کرنا ہے۔ بہت سے دوسرے کی طرح پاکستانی حکومت، پن بجلی کو بھی قابل تجدید توانائی کے تحت شامل کرتی ہے، لیکن اس بات پر بہت سے ماہرین ماحولیات اکثر ہائیڈرو پاور کے ماحولیاتی، سماجی اور مالیاتی اخراجات بشمول دریا اہم کے ماحولیاتی نظام میں خلل کی وجہ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ پاکستان میں، ڈیم سیاسی طور پر بھی متنازعہ ہیں اور اپ اسٹریم اور ڈاون اسٹریم صوبوں کے درمیان اختلاف کی ایک وجہ ہیں۔ اس کے باوجود، بیجنگ اور اسلام آباد دونوں ہائیڈرو پاور کے حصول کے خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن قابل تجدید توانائی کی طرف پاکستان کی منتقلی کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ چائنا تھری گورجز ساؤتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے سینئر بزنس مینیجر نعمان سہیل کہتے ہیں، “پالیسی میں مستقل مزاجی کا فقدان سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے”۔ “قابل تجدید منصوبوں کے لیے قرض دہندگان اور فنانس کا بندوبست کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن جب پالیسیوں کو واپس تبدیل کر دیا جاتا ہے، ٹیرف پر دوبارہ مذاکرات کئے جاتے ہیں اور صلاحیت کی غیر اداشدہ ادائیگیوں کا ڈھیر لگنے لگتا ہے تو یہ پریشان کن ہے۔”
شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت
شمسی توانائی، قابل تجدید توانائی کی ایک شکل ہے جو پاکستان کے لیے خاص طور پر بے پناہ استعداد رکھتی ہے، لیکن جس میں آج تک بہت کم سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔ 2020 میں ورلڈ بینک کی ایک تحقیق نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو” 2030 تک کم از کم 30 فیصد تک بڑھاۓ، جو تقریباً 24,000 میگاواٹ کے برابر ہے”۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی اسٹیٹ آف انڈسٹری 2022 کی رپورٹ کے مطابق 2022 تک، تناسب 5.6 فیصد ہے۔
پاکستان کا سولر انرجی کے استعمال میں سست روی اس حقیقت سے عیاں ہے کہ سی پیک کے تحت توانائی کے 21 منصوبوں میں سے صرف ایک شمسی توانائی کا منصوبہ ہے۔ پنجاب کے صحرائے چولستان میں 1,000 میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک جسے چینی کمپنی زونرجی نے بنایا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے سولر پارکس میں سے ایک کے طور پر مقبول ہونے والے اس منصوبے کو 2017 تک مکمل ہونا تھا۔ لیکن اب تک اس صلاحیت کا صرف 40 فیصد ہی تیار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں قابل تجدید توانائی پر مرکوز دبئی کی سرمایہ کار کمپنی برج کیپٹل کے چیف ایگزیکٹو سلیمان رحمان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے توجہ نہ دینے کے باوجود سستی شمسی توانائی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ رحمان کہتے ہیں، “مقابلہ شدید ہو رہا ہے۔ ہر ماہ مزید مقامی کھلاڑی سامنے آ رہے ہیں۔ 4 میگاواٹ کے سولر پراجیکٹ کی تنصیب اب ہمارے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے”۔
رحمان کے مطابق، نجی شعبہ توانائی کی منتقلی میں سہولت فراہم کرنے کے لئے پالیسی سازوں کا انتظار نہیں کر رہا ہے۔ جو لوگ کر سکتے ہیں وہ سولر آپشن کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ یہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے آف گرڈ دیہاتوں میں چھتوں پر فوٹو وولٹک پینلز کے حالیہ پھیلاؤ کی وضاحت کرتا ہے۔
شمسی توانائی کا مستقبل
مہنگی ایندھن کی درآمدات نے پہلے ہی پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس سال توانائی کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، روس کے یوکرین پر حملے سے بڑھا، جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو نقصان پہنچا۔ ملک ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر تھا جب انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ نے اسکی معیشت کو برقرار رکھنے کے لئے مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کی کوشش میں، 1 ستمبر 2022 کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں 10,000 میگاواٹ شمسی توانائی کی جلد تنصیب کا اعلان کیا۔ لیکن یہ کیسے ہوگا، اور کب تک، اس کی تفصیلات سرسری ہیں۔ مبینہ طور پر اس منصوبے میں پبلک سیکٹر کی تمام عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنا شامل ہے۔ یہ تجویز کوئلے، تیل اور گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس کو جزوی طور پر شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی بھی ترغیب دیتی ہے۔
رحمان کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کی طرف یہ تبدیلی ہوتی ہے تو چین کا ایک اہم کردار ہو گا، یہ سی پیک کے تحت نظر آنے والے میگا پراجیکٹس سے مختلف شکل میں ہوسکتا ہے۔
رحمان کہتے ہیں،”چین کا اب بھی ایک بڑا کردار ہوگا کیونکہ وہ دنیا بھر میں سب سے سستے سولر آلات تیار کر رہا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ حکومت اسے سی پیک کے تحت نہیں لے کر آۓ گی کیونکہ اس سے مقامی کھلاڑیوں کو نقصان پہنچے گا”۔
ان کا خیال ہے کہ کچھ چینی کمپنیاں اب بھی شمسی توانائی میں سرمایہ کاری میں شامل ہوں گی، لیکن زیادہ تر چھوٹے مقامی منصوبوں میں دلچسپی نہیں لیں گی۔ “میرے تجربے کے مطابق، گاہک ہمارے چینی ساختہ ٹیکنالوجی یا ان کا خام مال درآمد کرنے پر خوش ہیں، لیکن وہ مقامی ٹھیکیداروں اور انجینئروں کو اس پہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔”
رحمان کا کہنا ہے کہ اب تک، چین سے درآمدات پر پاکستان کے انحصار نے مقامی سپلائی چینز بننے سے روکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ملک اپنی شمسی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے میں سنجیدہ ہے تو اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ رحمان کا کہنا ہے کہ “حکومت مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرکے اس منتقلی کو آسان بنا سکتی ہے۔”