یکم فروری کو بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے طاقت، توانائی اور معدنی وسائل نصر الحامد نے اپنی تقریر میں بڑے پیمانے پر کوئلے سے توانائی کی پیداوار کو بڑھانے کے حکومتی منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے چین، جاپان اور بھارت کے تعاون سے تعمیر کیے جانے والے میگا پروجیکٹس کے بارے میں بات کی۔ مگرقابل تجدید توانائی کے شعبے کو وسعت دینے میں بنگلہ دیش کی ناکامی کے بارے میں بہت کم بات کی۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے بنگلہ دیش کوئلے پر بے حد انحصار کر رہا ہے۔ اگرچہ ایشیا کے دیگر ممالک شدید آلودگی کے بحران کے باعث اس گندے ایندھن کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔حکومت کو امید ہے کہ 2022 تک بنگلہ دیش میں بجلی کی فراہمی کے لیےکوئلے کا استعمال 2 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو جائے گا کیونکہ 23000 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے نئے پاور پلانٹس پائپ لائن میں ہیں۔
حامد نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ خلیج بنگال میں کاکس بازار کے ایک جزیرے موہش کھلی میں کوئلے سے 10،000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک مرکز تعمیر کیا جا رہا ہے۔کوئلے سے چلنے والے 1200 میگاواٹ کے 6 ارب یو ایس ڈالر کے پاور پلانٹ کی تعمیر مٹر باری خلیج بنگال کے قریب اسی ضلع میں جاپان کے تعاون سے شروع ہوچکی ہے۔ 2022 سے ہمیں مٹرباری پلانٹ سے بجلی ملنے لگے گی۔
وزیر نے کہا کہ چین کے تعاون سے کوئلے سے چلنے والا ایک 1320 میگاواٹ کا پلانٹ نئی تعمیر شدہ پائرا بندرگاہ میں زیر تعمیر ہے۔ ایک اور پاور پلانٹ، سندربن میں 1320 میگا واٹ کا رامپال منصوبہ ہے جس کے لیے فنڈ بھارت نے فراہم کیا ہے جو 2020 تک بجلی کی فراہمی شروع کر دے گا۔ اس پاور پلانٹ کے خلاف احتجاج جاری ہے کہ اس کی قیمت زندگی سے بڑھ کر ہے۔ اس کے لیے گزشتہ ماہ کے آخر میں بھی کئی احتجاج ہوئے۔
بنگلہ دیش متنازعہ سندربن کول منصوبے کو فنڈ دینے کے لیے کوشاں
Read: Bangladesh struggles to fund controversial Sundarbans coal project
حامد نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ بجلی کی یہ مقدار بنگلہ دیش کی موجودہ مجموعی پیداواری صلاحیت کے مقابلے میں تھوڑی زیادہ ہے۔بنگلہ دیش میں بجلی کا استعمال تیزی سے بڑھتا ہوا دیکھا گیا ہے۔
بجلی کی روزانہ پیداواری صلاحیت بڑھ گئی ہے جو 2009 میں 3000 میگا واٹ تھی اب 2017 میں 15،500 میگا واٹ ہوچکی ہے۔ اب بنگلہ دیش کے 80 فیصد یعنی 160 ملین افراد کو بجلی تک رسائی حاصل ہے جو 2009 کے مقابلے میں 45 فیصد ذیادہ ہے۔
پائیدار اور قابل تجدید توانائی کے ترقیاتی ادارے Sustainable & Renewable Energy Development Authority (SREDA)کی ویب سائٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی بجلی کا نصف سے زیادہ (54 فیصد) فی الحال قدرتی گیس سے پیدا کیا جاتا ہے لیکن گیس کے ذخائراب کم ہو رہے ہیں اسی وجہ سے کوئلے پر غور کیا جارہا ہے۔قابل تجدید توانائی سے صرف 2.7 فیصد بجلی شامل ہو رہی ہے اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے 1.6فیصد۔ لیکن اگر وزیر کا بیان کردہ منصوبہ روبہ عمل ہوگیا تو 2022 تک بنگلہ دیش کی نصف سے زائد بجلی کی فراہمی کوئلے کے ذریعے ہوگی۔
قابل تجدید ذرائع کے ناکام وعدے
جون 2014 میں بنگلہ دیشی وزیر خزانہ ابو المال عبدالمحیط نے پارلیمنٹ میں توانائی کے شعبے سے متعلق قومی حکمت عملی پیش کی۔ دستاویز کے مطابق 2015 تک قابل تجدید ذرائع سے منصوبوں کو 800 میگاواٹ بجلی پیدا کرنی تھی جو کہ کل قومی بجلی کی پیداواری صلاحیت کا 5 فیصد ہوتی۔ابتدائی 2017 میں 800 میگا واٹ پیدا کرنے کی دو سال کی ڈیڈ لائن کے بعد صرف 419 میگا واٹ پیداوار دے کر بنگلہ دیش اپنے قابل تجدید اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
SREDA کے صدیق زبیر نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ جی ہاں 2015 تک قابل تجدید ذرائع سےبجلی کی طلب کا 5 فیصد پیدا کرنے کی ہماری منصوبہ بندی تھی مگر یہ ہدف پورا نہ ہوسکا۔ اگرچہ ہم کامیابی کے ساتھ چار لاکھ سے زائد گھریلو سولر نظام نصب کر چکے ہیں۔پھر بھی ہم قابل تجدید ذرائع کو وسعت دینے کی راہ میں کھڑے مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں شمسی توانائی کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس سے قابل تجدید ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کا تقریباً 44 فیصد پیدا کیا جاسکتاہے۔
زبیر نے کہا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوٹو وولیٹک سیل لگانے کے لیے زمین کا بڑا رقبہ درکار ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے گنجان آباد ملک میں غیر استعمال شدہ زمین کے بڑے ٹکڑے ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔
بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی Bangladesh University of Engineering and Technology (BUET)کے الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر شاہد الاسلام خان نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کےبہت سے فوائد ہیں جنہیں ہم نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔
اگرچہ زمین کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن قابل تجدید توانائی کے ذرائع ناقابل رسائی علاقوں تک بجلی پہنچا سکتے ہیں۔ خان نے کہا کہ ہمیں دیہی علاقوں میں گھریلو سولر نظام کومقبول کرانے میں کچھ شاندار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت کوئلے کو دور دراز گھرانوں کے بجائے بجلی کی قومی فراہمی کے لیے استعمال کرے۔
ونڈ پاور کا پھیلاؤ
اگرچہ ونڈ پاور سے قابل تجدید توانائی کا صرف 0.7 فیصد حصہ حاصل ہوتا ہے مگر امید موجود ہے کہ یہ بڑھ سکتا ہے۔ بنگلہ دیش پاور ڈویلپمنٹ بورڈBangladesh Power Development Board (BPDB) نے انوارہ چٹاگانگ کے پارکی ساحل پر ایک 50-200 میگاواٹ ساحلی ہوا سےبجلی بنانے کےمنصوبے پر عمل درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ حکومت اور BPDB بنگلہ دیش نے ہوا کی موجودگی کے لئے 22 ممکنہ جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔ بورڈ نے بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ کناروں پر ونڈ پاور پلانٹس کو وسیع کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔
شاہد الاسلام خان نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ گزشتہ 20 سال کے دوران سمندری بھنوروں اور طوفانوں کی بدلتی ہوئی سمتوں کے باعث نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
بیس سال پہلے سمندری طوفانی بھنور (بنگلہ دیش کے جنوب مشرق) میں چٹاگانگ اور کاکس بازار کا رخ کرتے تھے مگر اب یہ بھنور اوڈیشہ انڈیا کی طرف ظاہر ہوتے ہیں۔ تو ہم بجلی کی پیداوار کے لئے اس ہوا کو استعمال کر سکتے ہیں ، خان نے کہا۔
قابل تجدید توانائی کو ممکنہ حد تک بڑھانے کے لئے بنگلہ دیش ہائبرڈ منصوبوں کی تعمیر کر سکتا ہے جہاں ہوا اورشمسی توانائی کو یکجا کیا جاسکے۔
سینٹ مارٹن کے جزیرے پر ایک ہائبرڈ پائلٹ منصوبہ اتنا کامیاب رہا ہے کہ سالانہ 400 میگا واٹ توانائی کی فراہمی کے لیے کافی ہے۔ کوواکاٹا کا سمندری ساحل بھی ہوا اور ہائبرڈ منصوبوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چٹاگانگ ہل جیسے پہاڑی علاقوں میں چھوٹا پن بجلی کا منصوبہ بھی ایک اور آپشن ہو سکتا ہے۔ پانی کے چھوٹے ٹربائن پن بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں، خان نے مزید کہا۔
سچ کی تلاش اور سینے کی جلن
اس دوران میں توانائی کے ذریعے کے طور پر کوئلے کا پھیلاؤ سچ کی تلاش کی طرف بھی لے جاتا ہے مگر اس کے قابل دسترس ہونے کے باعث حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لاگت کا اندازہ لگانے میں کوئلے کی پیداوار میں بہت بڑے اضافہ کے باعث ہونے والے ماحولیاتی اثرات اور صحت کے معاملات کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔
بنگلہ دیش کی موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کا مزید اضافہ پوشیدہ اخراجات میں اضافے کی جانب لے جائے گا۔
مزید برآں چین کے سابق بنگلہ دیشی سفیراشفاق الرحمن نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی میں آگے ممالک نےکوئلے سے چلنے والے پلانٹس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی پالیسی کو اپنایا ہے لیکن ہم کوئلے جیسےگندے ذریعے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم ایک عالمی ثقافتی ورثہ کی سائٹ کے قریب کوئلے کے پلانٹ کی تعمیر کر رہے۔
چین، جاپان اور دیگر ممالک ترقی پذیر ممالک کو کوئلے کی ٹیکنالوجی اور اس کی مہارت فروخت کر رہے ہیں اگرچہ وہ خود اپنے ملکوں میں کوئلے کے پلانٹوں سے چھٹکارہ حاصل کر چکے ہیں۔
چین کوئلے کی عالمی پیداوار کو ایندھن بنا رہا ہے۔
See: China stokes global coal growth
یہ ممالک بنیادی طور پر بنگلہ دیش سمیت ترقی پذیر ممالک میں آلودگی کی صنعت کو وسعت دے رہے ہیں۔ حکومت کو اس کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیئے کیونکہ عوامی صحت اور ماحولیاتی خطرات کا مسئلہ ہے۔ توانائی لوگوں کے لئے ہے لوگ توانائی کے لئے نہیں ہیں”انہوں نے کہا۔
سفیر رحمان نے کہا کہ حکومت کو چین، جاپان اور دیگرٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیئے
تازہ ترین اور جدیدٹیکنالوجی supercriticalکے ساتھ کوئلے کے منصوبوں پر عمل درآمد کریں تاکہ آلودگی میں واضح کمی آئے۔
وزیر مملکت نصرالحامد نے پارلیمنٹ میں اپنے حالیہ خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ سندربن کے قریب رامپال پاور پلانٹ جدید ترین ٹیکنالوجی سے تعمیر کیا جائے گا۔ جو کوئلہ جلانے سے پھیلنے والی آلودگی کو کم کرے گا۔ اس پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔
انو محمدجو رامپال کول فائر پلانٹ کے خلاف سول سوسائٹی کی تحریک کی نمائندگی کر رہے ہیں نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ حکومت رامپال پاور پلانٹ میں سب سے بہترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی بات کر رہی ہے مگر درحقیقت یہ سچ نہیں ہے۔ حکام نے پلانٹ میں سب سے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن بنگلہ دیش کے پریس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق معاہدہ صرف کم مؤثر ٹیکنالوجی کے استعمال کو ظاہر کرتا ہے۔ جو کوئلے کے استعمال اور پیدا ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اگرچہ اس سے بجلی کی خاصی مقدار پیدا کی جا سکتی ہے۔
کامران رضا چوہدری ڈھاکا سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔
مصنف : کامران رضا چوہدری