“ایک اچھے بحران کو کبھی ضایع نہ ہونے دیں” ونسٹن چرچل-
اگرچہ وبائی مرض کووڈ- 19 کی لپیٹ میں آئی دنیا اس کے لئے تیار نہیں تھی لیکن بہرحال اس سارےبحران کے بیچ کچھ امید بھی ہے-
جیساکہ لاک ڈاؤن نے اانسانوں کو جبراً محدود کردیا ہے قدرت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ تیزی کے ساتھ پیشقدمی کی ہے اورایک نئی توانائی اور تقویت کے ساتھ اپناکھویا ہوا مقام حاصل کررہی ہے ساتھ ہی ہمیں اس بات کا احساس کرنے پر مجبور کررہی ہے کہ ہم جس حیاتی نظام میں رہ رہے ہیں اس کے لئے بذات خود کتنا بڑا خطرہ ہیں-
اس تباہ کن صورتحال سے پیدا ہونے والے دو حیرت انگیز سبق ہمیں یہ ملے ہیں کہ اگر موقع محل میسر ہو تو ، قدرت میں جلد از جلد صحت یاب ہونے کی فطری صلاحیت ہوتی ہے ،اور دوسرا یہ کہ قدرت کے ساتھ تجدید اور پائیدار توازن کی نہ صرف ضرورت ہے ، بلکہ اگر سیاسی وابستگی اور اجتماعی اقدام کی حمایت ہو تو ممکن بھی ہے۔
یہ سبق نۓ نہیں ، لیکن یوں لگتا ہے کہ دنیا انہیں بھول گئی ہے۔ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں ، امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ 1932 میں برسر اقتدار آئے جب امریکی معیشت بدترین کساد بازاری کی زد میں تھی- انہوں نے فوراً اس بات کا اندازہ لگا لیا کہ دو بڑے وسائل ہیں جوکہ ضایع ہورہے ہیں ،سب سے پہلے ایک بے روزگار نوجوان جنہیں زبردستی بیکاری اورڈپریشن میں ڈال دیا گیا ہے اور دوسرا ماحول ، جولکڑی کی تجارت اور وسائل کی غیر منظم حصول کی وجہ سے متاثر ہے- اس صورتحال سے متعلق نیو ڈیل کے نام سے پیش کیا جانے والا انکا حل اس وقت کی کامیابی کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے جسے سویلین کونزرویشن کورپس کے مرکزی ستون پر تشکیل دیا گیا-
اقتصادی بحالی منصوبے کے نوجوان پیادے .جنہیں ایف ڈی آر ٹری آرمی کہا جاتا تھا درخت لگانے ، قومی پارکوں میں کام کرنے ، جھیلوں میں مچھلیاں لانے، ندیوں کی صفائی کرنے اور ہنگامی امدادی کاموں کے لئے ذمہ دار تھے۔ فطرت کے تحفظ کے لئے نوجوان جذبوں سے بھرپور اس منصوبے کے باکمال نتائج نکلے- تقریبا 10 سالوں میں ، 30 لاکھ سے زیادہ نوجوان چھ ماہ کی مدّتوں کے لئے ملازم رکھے جاتے، اس دوران ساڑھے تین ارب درخت لگائے گۓ ، ایکو ٹورزم کے مخصوص مقامات کے حامل 700 قومی پارکس بناۓ گۓ اور موجودہ فارسٹ سروسز کو بہتر بناتے ہوۓ نیشنل پارکس سروس کی بنیاد رکھی گئی۔ معاشی کساد بازاری ختم ہوگئی لیکن اس تحریک نے ملک پر ایک انمٹ نشان چھوڑ دیا اور فطرت اور ماحول کی قدردانی کے
لئے قومی نفسیات پر گہرا اثرات مرتب کرگیا- سب سے اہم بات اس تحریک نے امداد پر گزربسر کرنے والے ڈپریشن میں گھرے افراد کو معزز روزگار فراہم کیا-
تنزلی کے شکار ماحول بیروزگاری اور معاشی بدحالی اوپر سے وبائی مرض کووڈ-19 کی شکل میں، آج پاکستان کو بھی ویسے ہی بحران کا سامنا ہے- 1930 کی دہائی میں امریکہ کی طرح ، خوش قسمتی سے ایسی قیادت موجود ہے جو ممکنہ استعداد کو جانتی اور فطرت میں سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت کو پوری طرح سمجھتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی کےکامیاب نفاذ ،500،000 گرین روزگار پیدا کرکے پہلے ہی ثابت کیا چکا ہے کہ فطرت اور معیشت کی بحالی ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں-
مزید یہ کہ ، حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی جی ڈی پی کا تقریبا 50% براہ راست فطرت پر منحصر ہے اور اب ثبوت موجود ہیں کہ فطرت میں لگائے گئے ہر ڈالر کے نتیجے میں معاشی منافع نو گنا زیادہ ہے۔ کوویڈ ۔19وبا سے متعلق تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تباہ شدہ ماحولیاتی نظام اور متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے درمیان اسباب و نتائج کا تعلق ہے- لہذا ، 10 ارب درخت سونامی ، کلین گرین انیشیٹو ، پلاسٹک پر پابندی ، برقی گاڑیوں کی پالیسی اور ریچارج پاکستان انیشیٹو کے ساتھ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ پاکستان کا موجودہ پانچ نکاتی گرین ایجنڈا فطرت پر بھروسے اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے۔ ان سب نے ہماری معیشت اور مستقبل کی پائیدار نمو میں سمتی منتقلی کے لئے بنیاد رکھی ہے- اس پس منظر میں ، کووڈ 19 کا بحران تجدید نو کے لئے ایک موقع فراہم کر رہا ہے اور ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں-
وزیر اعظم عمران خان نے اس ہفتے ایک “گرین محرک” کی منظوری دے دی ہے جس میں دو مقصدوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے – ملازمت کی فراہمی اور قدرتی ماحولیاتی نظام کی بحالی۔ تحریک کے مرکزی کاموں میں درخت لگانا ، ہمارے محفوظ علاقوں کی بحالی اور صفائی میں بہتری شامل ہیں۔ ہدف سے مستفید ہونے والے افراد میں بے روزگار نوجوان خواتین اور اجرت پر کام کرنے والے مزدور شامل ہیں جو اچانک ملازمت سے فارغ ہو نے کے بعد دیہی علاقوں میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔ تحریک میں تین علاقوں کو ترجیح دی جائیگی کیونکہ وہ تمام وفاقی / صوبائی سطح پراونرشپ کے ساتھ “کمربستہ” ہیں- سب کو باسانی کووڈ ۔19 سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے ، سبھی آب و ہوا کے موافق ترقی کرسکتے ہیں اور سبھی ‘نگاہ بان’ یعنی ماحول کے نگہبان کی ملازمتوں کے مواقع فراہم کرسکتے ہیں-
نفاذ کی صورت میں، ہم تین ہم آہنگ مراحل میں انیشیٹو کے مالی استحکام کو دیکھ رہے ہیں- پہلے جاری مرحلے میں بجٹ کی فراہمی مکمل طور پر مالی اعانت کے ذریعے کی جارہی ہے اور ابھی توجہ کارکردگی کو بڑھانے اور گرین جابز کے مواقع پیدا کرنے کی ترجیح پر ہے- اس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے ، وزیر اعظم نے کھلی ہوا کے گردونواح میں ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلے جیسی ضروری احتیاطی تدابیرکےساتھ 10بلین ٹری سونامی کے تحت سرگرمیوں کو لاک ڈاؤن سے استثنا کی منظوری دے دی ہے- اس کے نتیجے میں ، نگہداشت کی نرسریوں، پودوں کی دیکھ بھال ، قدرتی جنگلات کے تحفظ ، شہد کی مکھیوں کی کاشتکاری اور آگ بجھانے کی سرگرمیوں کی شکل میں پورے ملک میں 65،000 یومیہ اجرت پر نگہبان ملازمتوں کی فراہمی ممکن ہوئی ہے- صوبوں کے توسط سے ، ہم نے اگلے چند مہینوں میں اسے 200،000 ملازمتوں تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔
دوسرا مرحلہ کووڈ 19 کے بعد بحالی کا مرحلہ ہے ، جس کے لئے کثیرالجہتی عطیہ دہندگان کے ذریعہ خاطر خواہ امدادی فنڈز (تقریبا 60-100 ملین ڈالر) حاصل کیے جارہے ہیں۔ اس سے ایسی سرگرمیوں میں اضافہ اورمزید وسعت ہوگی جو قومی پارکس سروس کے قیام اور صفائی ستھرائی کی سرگرمیوں میں مددگار ہوں ساتھ ہی طوفان کےپانی کا نظم و نسق ، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی, ٹھوس اور مائع کچرے سے متعلق انتظام اور اسپتال کے فضلہ کو ٹھکانے لگانا بھی ان میں شامل ہیں- اس کام کو ملک کے کم از کم 20 اہم شہروں میں انجام دیا جائے گا جو سیکڑوں ہزاروں میں روزگار پیدا کریں گے جسکا اندازہ کم ازکم 600،000 یومیہ اجرت پرملازمتیں ہیں-
ماحول موافق سرگرمیوں جیسے عمارتوں میں مؤثر توانائی کی ریٹروفتٹنگ، صاف بجلی کے انتخاب والا نقل و حمل کا نظام، صاف قابل تجدید توانائی کےفروغ کے ساتھ بجلی کے ذریعہ اس کام کے دائرہ کار کو وسعت دی جاسکتی ہے- اس کے ساتھ ، موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے شروع کی گئی سرگرمیوں کی فول پروف شفافیت اور ساکھ کو یقینی بنانے پر کام شروع کردیا ہے مزید یہ کہ مکمل ڈیجیٹلآئزڈ پورٹل کےذریعہ گرین جابز دی جائیں گی جوکہ پورے ملک کا احاطہ کررہا ہوگا-
پہلے دو مراحل میں حاصل ہونے والی رفتار کےساتھ ،تیسرا مرحلہ، قابل اعتبار جاری سرگرمیوں کی بنیاد پرعالمی معیشت کی گرین حیات نو کے حامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی تجدید پر مبنی “فطرت کے لئے قرض” کے تبادلوں پر مشتمل ہے۔ ماحولیاتی نظام کی بحالی اور ملازمت کی تخلیق کی طرف اس سمتی تبدیلی کی حمایت میں عالمی رجحان کے قوی اشارے دیکھنے میں آرہے ہیں-
معیشت کی تعمیرنو اور پائیدار ترقی اور نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی کے ساتھ یہ قدرت موافق گرین محرک وقت کی اہم ضرورت ہے-یہ پاکستان کو نہ صرف معاشی کساد بازاری سے نکلنے میں مددگار ہوگا بلکہ اس سے بھی بہتر تعمیر اور اہم بات یہ ہے کہ سبز کی تعمیر نو کرے گا۔ پاکستان نۓ راستے پر چلنے کے لئے ثابت قدم اور پرعزم ہے صرف واپس اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے نہیں بلکہ نوجوانوں کی پرعزم شمولیت اور کمیونٹی کی حمایت اور شراکت سے پائیدار قدرتی تحفظ اور موسمیاتی ٹھہراؤ کے ساتھ اس نئی دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے-
ملک امین اسلم خان موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر ، اور آئی یو سی این کے عالمی نائب صدر ہیں۔ ان سے [email protected] پررابطہ کیا جاسکتا ہے اوریہ@aminattock پرٹویٹ کرتے ہیں-