ہفتوں کی غیر یقینی صورتحال کے بعد عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور شہباز شریف نے ملک کے 23ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا خان کی زیر قیادت جو پالیسیاں، اقدامات اور تبدیلیاں شروع کی گئی تھیں، انہیں جاری رکھا جاۓگا یا انہیں مختصر کردیا جاۓ گا؟ خاص طور پر پاکستان کی توانائی کا مستقبل کیا ہوگا؟
موسمیاتی تبدیلی، پانی کے تحفظ اور ماحولیات کے مسائل کو سامنے لانے کا سہرا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو جاتا ہے۔ اس نے اپنے ٹین بلین ٹریز سونامی پروگرام (ٹی بی ٹی ٹی پی) کو کئی بار نمایاں کیا- اسی دوران، حکومت نے متنازعہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے تحت منصوبوں کو جاری رکھا، جن میں سے بہت سے منصوبے ماحول دوست نہیں ہیں۔
اپریل،12 2022 کو، نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ایک دن بعد، پاکستان میں توانائی کے مستقبل کے حوالے سے تھرڈ پول نے ایک پینل ڈسکشن کی میزبانی کی۔ یہاں اس گفتگو کے کچھ اقتباسات پیش ہیں
‘”مجھےکامل یقین ہے کہ اچھا کام جاری رہے گا”
جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے پاکستان بیچ طوفان کی زد میں ہے۔ ہم نے اپنی حکومت کے لئے جس سمت کا تعین کیا وہ اس صورتحال کے مطابق تھا۔ ہم نے کچھ پیرامیٹرز طے کئے تاکہ مستقبل میں پاکستان مسئلے کا حصہ نہ بنے بلکہ کوشش رہی ہے کہ عالمی حل کا حصہ بنے۔ اسکی ایک شاخ پاکستان کو صاف توانائی پر انحصار کی طرف منتقل کرنا تھا۔ اسکا دوسرا قدم فطرت کو پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے اتحادی بنانا تھا۔ ہم نے جو تیسرا قدم کیا ہے اسے “ریچارج پاکستان” کہا جاتا ہے جو سیلابی پانی کو ضائع ہونے کہ بجائے ہماری تباہ شدہ دلدلی زمینوں اور زیرزمین پانی کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ”
یہ تمام اقدامات پاکستان کے لئے ضروری ہیں، اور سست روی، یا سمت بدلنے سے پاکستان کےلئے نہ صرف ماحولیاتی بلکہ سماجی اور اقتصادی نتائج بھی مرتب ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اچھا کام جاری رہے گا-
اہم سوال پاکستان کی توانائی اور ماحولیات کے مستقبل کے لیے فنڈنگ کا ہے۔ ہماری حکومت کے پاس عالمی حمایت تھی۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (یو این ای پی) نے پاکستان کو عالمی ‘جنگلات کا چیمپئن’ قرار دیا، اور ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) نے پاکستان کو فطرت کا چیمپئن قرار دیا۔ ہم نے آب و ہوا سے ہم آہنگ ایک بہت ہی واضح وژن پیش کیا تھا، اور یہی فنڈز کے لئے کشش تھی۔ ورلڈ بینک نے ہمیں کوویڈ 19 کے دور میں 120 ملین امریکی ڈالر دیے جب ہم نے اپنے “گرین اسٹیمولس پروگرام” کا اعلان کیا جس سے لوگوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم اب اس فنڈ کے آخری مرحلے پر تھے۔ ایک اور مثال ورلڈ بینک کا دنیا کا پہلے نیچر پالیسی پر مبنی قرض دینے کا پروگرام ہے جسکا 90 فیصد کام ہو چکا ہے اور اگلے چار مہینوں کے اندر ہم پاکستان کے صاف توانائی کے مستقبل کے وژن کے مقرر کردہ اہداف کے لئے تقریباً ایک ارب ڈالر حاصل کر چکے ہوں گے۔
اب میری واحد تشویش کوئلے کے منصوبوں سے متعلق ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی پچھلی حکومت نے کوئلے کے درآمدی منصوبوں کو آگے بڑھایا جو ہم نے روک دئے اور اعلان کیا کہ ہم ان پر مزید کام نہیں کریں گے۔ ان منصوبوں میں سے2,400 میگا واٹ کے دو منصوبے جن پر تقریباً دستخط ہو چکے تھے، منسوخ کر دئے گئے اور ان کی جگہ ہائیڈرو پراجیکٹس نے لے لی۔ چین نے اس سے اتفاق کیا اور اسے فوری طور پر منسوخ کردیا کیونکہ ان کے اپنے ملک میں بھی انہوں نے یہ تبدیلی کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ کوئلے کے پلانٹس کو دوبارہ شروع نہیں کرایا جائے گا۔ یہ نہ صرف پاکستان کی اپنی ماحولیاتی اور آب و ہوا سے ہم آہنگ ترقی کے خلاف ہو گا بلکہ اس سمت کے خلاف بھی ہو گا جسکی جانب دنیا بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں چارٹر آف انوائرمنٹ کی ضرورت ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط ہوں۔ملک امین اسلم
ہم نے سی پیک کو کوئلے پر مرکوز منصوبے سے بدل کر اسے ہائیڈرو ڈویلپمنٹ کی طرف منتقل کیا۔ مجھے امید ہے کہ ہمارا رخ اسی سمت کی جانب رہے کیوں کہ ہم اسے گرین سی پیک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو سمت ہم نے متعین کی تھی اسکا پچاس فیصد ہائیڈرو پاور پر مشتمل تھا۔ حالاں کہ بڑے ہائیڈرو کے اپنے ماحولیاتی اثرات ہوتے ہیں، لیکن جب آپ کوئلے یا درآمد شدہ کوئلے کا مقابلہ مؤثرلاگت کے تجزیہ کے لحاظ سے کرتے ہیں، تو آخر میں ہائڈرو پاور واضح طور پر بہتر نظر آتا ہے۔لہذا، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم مستقبل کے لئے بڑے ہائیڈرو منصوبوں کی طرف جائیں گے جس میں پاکستان کاربن صفر توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔
بقیہ 50 فیصد دیگر قابل تجدید ذرائع جیسے ہوا، شمسی اور چھوٹے مائیکرو ہائیڈرو پروجیکٹس سے آنا تھا۔ تقریباً ایک سال قبل 1,200 میگاواٹ کے ونڈ پاور پراجیکٹس کی منظوری دی گئی تھی اور یہ سب جنوبی ساحلی پٹی پر تعمیر کے مختلف مراحل پرہیں۔ جہاں تک سولر کا تعلق ہے، نیٹ میٹرنگ کا عمل شروع ہو گیا ہے اور گھریلو سولر کا آغاز ہوگیا ہے۔ میں اس ٹیکس کے خلاف تھا جو آئی ایم ایف کی شرط کی وجہ سے سولر پر لگایا گیا تھا۔ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے بجٹ میں اسے ختم کر دیا جائے گا۔
دوسرا مسئلہ فنڈز کے فوری استعمال کرنے کی صلاحیت کا ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں میں دیکھ رہا ہوں کہ جب ہم اس نئی حکومت میں جائیں گے تو مسئلہ ہو گا، کیونکہ اگر فنڈز کو اسی رفتار اور شدومد کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو یہ عالمی سطح پر منفی تاثر بھیجے گا۔
تمام حکومتوں نے پاکستان کی توانائی کے لئے یکساں مستقبل کی کوشش کی ہے
عابد قیوم سلیری، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی)
اب سوال ہے نئی حکومت کا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی سے کیسے نمٹتی ہے۔ آیا یہ موجودہ اقدامات کو جاری رکھے گی یا ان میں ترمیم کرے گی؟ تجربہ اور تاریخ کہتی ہے کہ نام یا لفظیات میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن منصوبوں کی اصل روح وہی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، پچھلی حکومت کے معروف شجرکاری پروگرام (ٹی بی ٹی ٹی پی) کے لیے کوئی نیا نام ہو سکتا ہے، لیکن مجھے نئی حکومت کے ایجنڈے سے شجرکاری ختم ہوتے دکھائی نہیں دیا۔ اسی طرح، میں دیکھتا ہوں کہ پاکستان کے مکس توانائی کے مستقبل کا تقریباً 60 فیصد 2030 تک قابل تجدید ذرائع پر منتقل کرنے کا عہد جاری رہے گا۔ یہ صرف اس لئے نہیں حکومت کو گرین توانائی سے محبت ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ قدرتی ایندھن مہنگا ہوتا جا رہا ہے، اور روس اور یوکرین کے تنازعے کے تناظر میں ہم جانتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں تیل درآمد کرنے والی کسی بھی حکومت کےلئے مہنگا خام تیل درآمد کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے قابل تجدید ذرائع، شمسی اور آبی توانائی کی طرف منتقلی میں آسانی ہوگی۔
مجھےاندازہ ہے کہ نئی حکومت ڈیموں کی تعمیر کو بھی آگے بڑھائے گی جو پچھلی حکومت نے شروع کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت کے آخری سالوں میں جو منصوبے شروع کیے تھے ان میں سے کچھ کو پی ٹی آئی حکومت نے اپنایا تھا، اور اب جب پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت برسراقتدار ہے تو ممکن ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی کے مستقبل کے لیے اس راستے پر چلیں گے۔
کووڈ 19 سے پہلے، نہ صرف پاکستان میں بلکہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں سماجی سیکٹر کو نظر انداز کیا گیا تھا جو زیادہ تراینٹ اور مارٹر منصوبوں پر مرکوز تھے۔ صحت، تعلیم، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کو مناسب ترجیح نہیں دی گئی۔ کووڈ 19 کی وجہ سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو یہ احساس ہوا کہ ان شعبوں کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بری خبر یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں وفاقی حکومت ہے، ماحولیات، جنگلات اور زراعت صوبائی معاملات ہیں، جبکہ حکمرانی کی صلاحیت یکساں نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
مشترکہ نگرانی اور ڈیٹا کا اشتراک انتہائی اہم ہے۔عابد قیوم سلیری
صرف پاکستان ہی نہیں دیگر جنوبی ایشیائی ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہیں کیونکہ یہ گرم اور مرطوب خطے میں واقع ہیں جہاں کم اوسط بارش ہے۔ مون سون سکڑ رہا ہے، اور مون سون پر مبنی معیشتیں جو بارہ ماہی آبپاشی پر منحصر ہیں، متاثر ہو رہی ہیں۔ ہمارے پاس گلیشیئر کے پگھلنے جیسے مسائل پر علاقائی تعاون کے مواقع ہیں۔ ہمالیائی گلیشیئرز پاکستان، بھارت، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک کے لیے مشترکہ وسائل ہیں۔ مشترکہ نگرانی اور اعداد و شمار کا تبادلہ انتہائی اہم ہے، خاص طور پر سرحد پار سیلاب کے تناظر میں، اوراسموگ کی وجہ سے ہوا کے معیار کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ فصلوں کے جلنے کا ڈیٹا۔
قدرتی آفات کی روک تھام سے متعلق بہترین طریقوں کا تبادلہ بھی ضروری ہے۔ قابل تجدید توانائی بالخصوص شمسی اور ہوا کی توانائی اور پانی کے استعمال کی کارکردگی میں تعاون کی بہت گنجائش ہے۔ بین حکومتی تنظیم ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرنمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) جسے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ دی پیسیفک (ای ایس سی اے پی) نے قائم کیا تھا اس میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور شاید اسے بحال اور مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
“ہمیں چیزوں کو علاقائی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے”
عافیہ سلام، ماحولیاتی صحافی
ماحول ایک ایسی چیز ہے جسے ایک انتخابی دور یا یہاں تک کہ ممالک کی سرحدوں کے ٹکڑوں میں توڑا نہیں جا سکتا۔ ہم ان خطرات کو دیکھتے ہیں جو عالمی جنوب کی حیثیت سے ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے تناظر میں سماجی طور پر بھی درپیش ہیں۔ پاکستان کے بہت سے مسائل سرحد پار ہیں۔ پانی کا مسئلہ سرحد پار بھی ہے۔ اسموگ جس کا ہم سامنا کرتے ہیں، اور جس کا ہندوستان بھی سردیوں میں سامنا کرتا ہے، ایک مشترکہ مسئلہ ہے جس کے مشترکہ حل کی ضرورت ہوگی۔ آگے بڑھتے ہوۓ نۓ آنے والوں سے خیر خواہی میں، میں یہ امید کرتی ہوں کہ دونوں ممالک مشترکہ حل کے لئے کام کریں گے
جہاں تک نئی مقتدر حکومت اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں اور منصوبوں کے مستقبل کا تعلق ہے، میں کسی بڑے ہلچل کی توقع نہیں کرتی، اس میں معمولی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جو قابل قبول ہیں اگرچہ کہ ماضی میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اسے یکسر ختم نہ کردیا جاۓ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہونے والا ہے کیونکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کی قومی پالیسی 2012 میں حالیہ سبکدوش ہونے والی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے منظور کی گئی تھی۔ بنیادی طور پر، ہماری حکومتیں چیزوں کو بناتی، مضبوط کرتی اور تبدیل کرتی رہی ہیں کیونکہ مختلف حقائق ہمارے سامنے آتے رہے ہیں۔ مجھے پاکستان کی توانائی کے مستقبل کے حوالے سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ ہم اس بنیاد کی تعمیر دیکھیں گے جو سابقہ حکومتوں نے رکھی تھی جس پر پچھلی حکومت نے کام کیا۔ منصوبوں کو صرف اس لیے ختم نہیں کیا جا سکتا کہ اب وہ حکومت نہیں رہی ۔ یہ پاکستان کے منصوبے ہیں۔ چاہے کوئی بھی آئے، میں نہیں سمجھتی کہ پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی پروجیکٹ کو روک سکے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت ان وعدوں کو پورا کرے گی جنہیں ہم پورا نہیں کر سکے، جیسا کہ 2020 تک ہمارے ساحلی علاقے کے 10 فیصد حصے کو سمندری تحفظ کے طور پر مخصوص کرنے کا عزمعافیہ سلام
اگرچہ پاکستان میں ہمارے پاس ہائیڈرو پاور پلانٹ بنانے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ وہ بہت بڑے نہیں ہوں گے، کیونکہ بطور ایک ماہر ماحولیات جو ساحلی شہر میں رہتی ہے، میں نے بڑے ہائیڈرو پراجیکٹس کے سراسر منفی اثرات دیکھا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت ان وعدوں کو پورا کرے گی جنہیں ہم پورا نہیں کر سکے، جیسا کہ 2020 تک ہمارے ساحلی علاقے کے 10 فیصد حصے کو سمندری تحفظ کے طور پر مخصوص کرنے کا عزم۔ امید ہے کہ نئی حکومت اسکی پیش رفت کو تیز کرے گی۔
سی پیک کے بارے میں، سی پیک کے ذمہ دار ملک، چین نے خود ایک ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کا عزم کیا ہے کیونکہ وہ خود آلودگی پھیلانے والی یا یہاں تک کہ آلودگی پھیلانے والی ٹیکنالوجیز کو برآمد کرنے کی اس پہچان سے دور جانا چاہتا ہے۔