پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے۔ اور اگر تبدیلی نہ آئی تو اس میں اضافہ متوقع ہے۔ ملک میں پانی کے بحران کے بیچ، دی تھرڈ پول نے اس موضوع پر ترقیاتی شعبے کے پیشہ ور عمر کریم کے ساتھ گفتگو کی۔
کریم 20 سال سے زائد عرصے سے آبپاشی اور پانی کے انتظام کے شعبے میں کام کر رہے ہیں اور سرکاری اور نجی شعبے کی تنظیموں کے لئے بطور مشیر خدمات انجام دیتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ میڈیا پر باقائدگی سے بطور مہمان مقرر اور مبصر بھی آتے ہیں۔
انہوں نے ڈیموں، پاکستان کے پانی اور توانائی کے بحران اور ڈیٹا اور پانی کے انتظام سے متعلق چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔ انٹرویو میں طوالت اور وضاحت کے لئے ترمیم کی گئی ہے۔
کیا آپ پاکستان میں ڈیموں کے حوالے سے بحث کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
تمام صوبوں نے 2010 میں، دیامر بھاشا ڈیم پر اتفاق رائے کیا تھا (ایک ڈیم جو شمال مغربی پاکستان میں بنایا جا رہا ہے، جو مکمل ہونے پر دنیا کے بلند ترین ڈیموں میں سے ایک ہو گا)۔ تاہم اب اس پراجیکٹ پر کافی تنقید ہو رہی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ انہوں نے معاہدے پر دستخط کیوں کئے، اگر اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کا نتیجہ ہم بھگتیں گے اور ہماری زمینیں خشک ہو جائیں گی۔
کچھ لوگ تجویز کرتے ہیں کہ صوبوں میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ براہ کرم انہیں چوٹیاری ریزروائر کا دورہ کرنے کی دعوت دیں، جو کہ سندھ میں نارا کینال پر 1996 میں بنایا گیا ایک چھوٹا ڈیم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت مددگار ہے اور جب بھی پانی کی کمی ہوتی ہے عمرکوٹ اور تھرپارکر کے نشیبی علاقوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اس ڈیم کے قریب رہنے والے لوگ سیم، کھارا پن اور زمین کی کٹائی سے بری طرح متاثر ہیں۔ چھوٹے ڈیم کمیونٹیز کو برقرار رکھنے میں کارآمد ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں مناسب آپریشن اور دیکھ بھال کے علاوہ آبی ذخائر اور رساؤ کے تدارک کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
عموماً، ڈیم ان علاقوں میں بنائے جاتے ہیں جہاں سیم اور کھارے پن کے مسائل کے کم اثرات ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر تربیلا ڈیم علاقے کے زیر زمین پانی کی سطح کو ری چارج کرتا ہے اور انہیں تازہ رکھتا ہے۔
عمر کریم
ڈیموں کا ایک نقصان یہ ہے کہ زیادہ تر پانی زراعت کی جانب موڑ دیا جاتا ہے
ہائیڈرو پاور کے ماحولیاتی فوائد اور نقصانات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے درمیان کافی بحثیں ہیں، لیکن اس میں تکنیکی یا سائنسی تحقیق یا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔ لہٰذا، ہائیڈروپاور کے حوالے سے بیانیہ سطحی ہے۔
اس سال ہمارے پاس ڈیموں میں پانی ذخیرہ نہیں ہے۔ تربیلا ڈیم کو خشک موسم سرما کے دوران اس کی سرنگوں کی مرمت کے لئے خالی کر دیا گیا تھا اور منگلا کو پاکستان کے بالائی علاقوں کے لئے پانی فراہم کرنا تھا۔ بنیادی طور پر ہم دریا کے براہ راست قدرتی بہاؤ پر ہیں، جو گلیشیئرز پر کم درجہ حرارت کی وجہ سے اوسط سے کم رہتا ہے، اور اس نے خاص طور پر دریا کے نچلے علاقوں کے لئے متعدد مسائل پیدا کئے ہیں۔
ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ نہ صرف مستقل فراہمی کے لئے ہے بلکہ ایک بفر بھی فراہم کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس سارا سال پانی کا بیک اپ موجود ہے۔ ڈیموں کا وہی مصرف ہوتا ہے جو گھروں میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ٹینکوں کا ہوتا ہے۔
پاکستان میں توانائی اور بجلی کے موجودہ بحران کے پیش نظر، آپ کے خیال میں توانائی پیدا کرنے کا ایک پائیدار طریقہ کیا ہے؟
اس ملک کی ترقی کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ سستی، پائیدار توانائی سب سے پہلے ہے، اس کے بعد کم لاگت افرادی قوت اور سستا خام مال ہے۔
آج ہم بحیثیت قوم ایک سنگین معاشی عدم توازن پیدا کر چکے ہیں اور اب سنگین معاشی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان پر اس وقت تیل اور گیس کے شعبوں میں 1.6 ٹریلین پاکستانی روپے (7.7 بلین امریکی ڈالر) کا سرکیولر ڈیٹ گردشی قرضہ ہے؛ صرف پاور سیکٹر کے لئے یہ 2.5 ٹریلین پاکستانی روپے ( 12 بلین امریکی ڈالر) کے قریب ہے۔ سال 2013 میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے گردشی قرضہ ختم کردیا تھا اور اسے صفر پر لے آئی تھی لیکن 2017 تک یہ دوبارہ 480 ارب روپے تک پہنچ گیا اور آج اس میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیامر بھاشا کی تعمیر کی کل لاگت تقریباً 1.5 ٹریلین روپے ہے۔ ملک کے معاشی بحران میں اصل مسئلہ ہمارا گردشی قرضہ ہے۔
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے سے مراد حکومت، صارفین، سپلائرز اور تقسیم کار کمپنیوں کی لیکویڈیٹی منظم کرنے میں ناکامی ہے، جہاں ہر ایک اسٹیک ہولڈر دوسرے کا مقروض ہے۔ اس سے مالیاتی نظام کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سال 1975 سے تقریباً 20 سال تک ہم نے کوئی ڈیم نہیں بنایا۔ مزید یہ کہ ہم تھرمل پاور جنریشن کے چکّر میں پڑ گۓ، ایندھن اور کوئلے کو پن بجلی سے زیادہ ماحولیاتی لاگت پر درآمد کرنے لگے۔
شمسی یا بادی توانائی مکمل طور پر ضرورت کا متبادل نہیں بن سکتیں، اور ان کی اپنی ماحولیاتی لاگت بھی ہے۔ ونڈ ٹربائن، فائبر گلاس سے بنتی ہیں۔ جب وہ 20 سال کے بعد اپنے اختتام کو پہنچیں گی تو ہم انہیں کہاں تلف کریں گے؟ بیرون ملک سے ایسی ٹیکنالوجی خریدنے کے اضافی اخراجات اور بھاری سود بھی ہے جو ہم اٹھاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر، ہوا یا روشنی کی کمی کی وجہ سےاگر یہ قابل تجدید ذرائع بجلی فراہم کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو کیا ہمیں فوری طور پر تھرمل پلانٹس کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا؟
کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ چاہے توانائی جیسے بھی پیدا کی جاۓ ، کچھ ماحولیاتی نقصان ضرور ہوگا؟
جی ہاں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہائیڈرو پاور توانائی کا ایک مستحکم، سستا اور مقامی ذریعہ فراہم کرے گا اور اس سے سرکیولر ڈیٹ سے نمٹنے میں مدد ملے گی؟
گردشی قرضے یعنی سرکیولر ڈیٹ کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ہم نے سستی پن بجلی کی مخالفت کی اور مہنگے ایندھن سے تھرمل جنریشن کی طرف رخ کیا۔ مزید یہ کہ یہ بجلی اتنی مہنگی ہے اور ہم نے اس پر سبسڈی دینے کی کوشش کی۔ جس کے باوجود اصل لاگت وصول نہیں ہوئی اور گردشی قرضہ بڑھنے لگا۔
فصلوں کےلئے آبپاشی اور ہائیڈرو پاور ڈیموں کے درمیان تعلق کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پانی اور زراعت آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ شہری اور صنعتی پانی کی فراہمی کی طرح، ایسے مخصوص اوقات ہوتے ہیں جب ہمیں فصلوں کےلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیموں کی وجہ سے، پانی کے بہاؤ کی سقاحت بڑھ تو جاتی ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔ خاص کر ہمارا زرعی استعمال بڑھ گیا ہے۔ یہ مسلسل بڑھ رہا ہے، اور ہم زرعی رقبے کی صحیح پیمائش نہیں کر رہے ہیں، اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ 30 سالوں میں ملک میں شوگر ملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب ہم فی سیکٹر میں استعمال ہونے والے پانی کی فیصد کا اندازہ لگاتے ہیں تو 90 فیصد سے زیادہ زرعی شعبے اور باقی پاکستان میں شہری اور صنعتی صارف استعمال کرتے ہیں۔
اس سے پہلے، فی سال فصل لگانے، فصل کے پیٹرن اور پانی کی معینہ مقدار کے لئے اصول تھے۔ یہ پانی کی منصفانہ تقسیم کےلئے ایک نعمت ہوا کرتا تھا، خاص طور پر جب اس سال کی طرح وسائل محدود اور غیر یقینی تھے۔ ڈیموں کی تعمیر نے غیر منظم توسیع میں مدد کی اور اب ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ہمارے دریا سوکھ گئے ہیں اور پانی سے سیراب زمینیں فرسودگی کا شکار ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ڈیموں کا ایک نقصان یہ ہے کہ زیادہ تر پانی زرعی مصرف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
میں آپکو ایک مثال دیتا ہوں۔پنجاب اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پنجاب کا کمانڈ ڈیزائن کردہ کاشت شدہ رقبہ 21.71 ملین ایکڑ ہے لیکن 2015 میں بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ 26.48 ملین ایکڑ رقبہ پر کاشت کر رہا ہے اور اس کے آبی ذخائر کو شدید کمی کے مسائل کا سامنا ہے۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا ہے لیکن بلوچستان اس کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ اس کا کمانڈ ایریا 2.69 ملین ایکڑ تھا لیکن ریموٹ سینسنگ کے ذریعے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صرف 2.01 ملین ایکڑ پر کاشت کر رہا ہے۔ پورے ملک کے لئے، ہمارا ڈیزائن کردہ کاشت شدہ رقبہ 38.68 ملین ایکڑ ہے۔ 2015 میں ہم نے 38.43 ملین ایکڑ اراضی رپورٹ کی تھی، لیکن اس سال کے لئے زمینی احاطے کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اصل میں 46.58 ملین ایکڑ پر کاشت کی تھی۔
کتنی کاشت اور پیداوار ہوتی ہے، ملکی ضروریات کیا ہیں اور کتنی برآمد کی جا سکتی ہیں ان سب پر غیر دستیاب ڈیٹا اور اسکا انتظام، اصل مسئلہ ہے۔
اس سال ہمیں معمول سے زیادہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر چولستان میں۔ وہاں کیا ہو رہا ہے؟
پاکستان اب سرکاری طور پر قحط زدہ ملک ہے۔ چولستان، پنجاب کا ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ میرا تعلق سندھ کے اسی طرح کے ہمسایہ ضلع تھرپارکر سے ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن شہرکاری اور دیگر وجوہات نے انہیں مزید مشکل بنا دیا ہے۔
ماضی میں، مون سون کے بعد، ریگستان میں لوگ بارش سے اگنے والی فصلیں لگاتے تھے، اور بعد میں خشک ادوار میں وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ آباد علاقوں کی طرف ہجرت کرتے تھے۔ ان کے بہن بھائی آبپاشی والے علاقوں میں مویشیوں کے چرنے کی دیکھ بھال کرتے تھے، جبکہ مرد زمینداروں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اگلے سال، جب مون سون کا موسم شروع ہوتا تو وہ صحت مند مویشیوں اور کمائی کے ساتھ اپنے اصل علاقوں میں واپس چلے جاتے۔ ان دنوں نئی پیشرفتوں اور بہتر رسائی کے بعد، مرد شہری علاقوں میں کام کے لئے چلے جاتے ہیں جبکہ خواتین اور بچے تھر میں ہی رہ جاتے ہیں۔
چولستان کو پانی فراہم کرنے والی کوئی نہر یا دریا نہیں ہیں۔ یہ خشک رہتا ہے جب تک کہ بارش نہ ہو۔ ان مسائل پر سیاست کرنے اور پانی کی قلت کے حوالے سے صوبوں میں مقابلہ کرنے کی بجائے ہماری توجہ مقامی کمیونٹیز کے مسائل کے خاتمے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ میرے پاس ہمارے علاقے کی ایک کامیاب کہانی ہے، جہاں سندھ اریگیشن ڈیپارٹمنٹ نے نارا کینال سے، پائپ لائنوں اور پمپنگ اسٹیشنوں کے ذریعے صحرائی آبادیوں کو پینے کا پانی فراہم کر کے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں جان آگئی ہے۔ اسی قسم کے اقدامات سے چولستان اور تھرپارکر کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔