آب و ہوا

جنوبی اور وسطی ایشیا قبل ازوقت گرمی کی لہرکی زدمیں ہے 

ہندوستان اور پاکستان میں، پندرہ دن سے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت مسلسل 40 ڈگری سیلسیس سے اوپر ہے، جو اوائل اپریل کچھ علاقوں میں اوسط 10 ڈگری سیلسیس بڑھ گیا ہے-
<p><span style="font-weight: 400;">گرمی کی قبل ازوقت غیر معمولی لہر نے بھارت، پاکستان اور وسطی ایشیا کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت  بڑھا دیا ہے (تصویر بشکریہ : اختر سومرو/الامی )</span></p>

گرمی کی قبل ازوقت غیر معمولی لہر نے بھارت، پاکستان اور وسطی ایشیا کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت  بڑھا دیا ہے (تصویر بشکریہ : اختر سومرو/الامی )

اپریل کےاوائل میں لگاتار کئی دنوں تک، ہندوستان اور پاکستان کے بڑے حصوں میں انسان اور چرند پرند  گرمی سے بےحال  ہوکر ساۓ کی تلاش میں نظر آۓ کیونکہ درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا تھا اور صحرا سے آنے والی خشک ہوا نے دریاۓ سندھ اور گنگا کے طاس کے میدانی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب  دہلی میں 11 اپریل کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت  42.6  ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا جو اس دن کے حوالے سے  سال کے اوسط سے 7 ڈگری زیادہ تھا، شام کے بعد گھروں سے باہر لوگوں کے درمیان گفتگو کا بس ایک ہی موضوع تھا : کسی کو آج سے پہلے قبل ازوقت گرمی کی ایسی لہر یاد نہیں تھی۔ بہت کم لوگوں کو مئی یا جون سے پہلے چالیس سے اوپر درجہ حرارت یاد ہے، تب اس حد تک درجہ حرارت کی توقع کی جاتی تھی۔ 

دریں اثنا، پورے وسطی ایشیا میں، ٹھنڈے موسم کے عادی لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ درجہ حرارت  30 سے اوپر چلا گیا۔

قبل ازوقت  گرمی کی لہر مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران روزہ داروں کے لئے خاص طور پر سخت رہی کیونکہ  مومن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے درمیان پانی بھی نہیں پیتے اسی طرح ہندووں کی  مقدس نوراتری کا زمانہ بھی متاثر ہوا- شہری کچی آبادیوں کے مکینوں نے ٹن یا ایسبیسٹس کی چھتوں کے نیچے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ شہری کچی آبادیوں کے مکینوں نے ٹن یا ایسبیسٹس کی چھتوں کے نیچے بدترین حالات کا سامنا کیا۔

موسم کی پیشین گوئیوں کے مطابق گرمی سے تھوڑی راحت کی توقع ہے، بہرحال، ہندوستان-پاکستان سرحد کے دونوں اطراف  پنجاب، سندھ اور راجستھان میں اور پھر مشرق کی طرف ہریانہ، دہلی، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور اس سے آگے گرمی کی مزید لہر کے انتباہات دیے گۓ ہیں- بحیرہ کیسپین سے آنے والے چند بارش کے بادل جب ہمالیہ کے دامن تک پہنچے تو بخارات بن گئے۔ 

کراچی میں سمندری ہوا ناپید 

گرمی کی بےوقت  لہر نے کراچی سمیت پاکستان کے میدانی علاقوں کو جھلسا کے رکھ دیا ہے۔ اس نے رہائشیوں کو 2015 کی یاد دلا دی ہے جب صوبہ سندھ میں شدید گرمی کی وجہ سے کم از کم 1,200 افراد ہلاک ہوئے۔ کراچی سندھ کا دارلحکومت ہے- صحرا سے گرم ہواؤں نے سمندری ہواؤں کو ساحل سے دور دھکیل دیا۔ 

 سال2022 کو بہت سے لوگ بہار سے مبرّا سال کہتے ہیں، مذکورہ سال موسم سرما اچانک جھلسا دینے والے موسم گرما میں تبدیل ہوگیا جب پاکستان نے مارچ میں گرمی کی غیرمتوقع لہر کا سامنا کیا- پاکستان میٹیورولوجیکل ڈیپارٹمنٹ   (پی ایم ڈی) کی جانب سے 15 مارچ کو جاری کردہ ایڈوائزری میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس عرصے کے دوران ملک کے بیشتر حصوں میں دن کا درجہ حرارت غیر معمولی طور پر زیادہ رہے گا۔ پیشین گوئی کے مطابق کچھ شہروں میں ریکارڈ توڑ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ سندھ کے شہید بینظیر آباد میں 27 اور 28 مارچ کو درجہ حرارت 45.5 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

اپریل کے پہلے ہفتے کے لئے جاری کی گئی دوسری پی ایم ڈی وارننگ کے مطابق، سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں دن کے وقت کا درجہ حرارت معمول سے 9–11سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کی توقع ہے، اور شمالی پنجاب، اسلام آباد اور یہاں تک کہ پہاڑوں میں معمول سے 8–10 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کی توقع ہے

مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ گرمی کی قبل ازوقت  لہر سے  پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی کھیتوں میں مزید آگ لگی ہے- ٹھیک اس وقت جب  موسم سرما کی گندم کی فصل کٹائی کے لئے تیار تھی۔ پاکستان میں حکام بھی آبی ذخائر سے بخارات میں اضافے سے پریشان ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جسے پہلے ہی پانی کے شدید تناؤ کا سامنا ہے۔

Mynas rest on a window ledge during a heatwave in Dellhi in April 2022, Joydeep Gupta
جیسے جیسے دہلی میں دن کے وقت درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، میناؤں کی یہ جوڑی مصنف کی مطالعہ گاہ  کی کھڑکی کے کنارے پر پورا دن  گزارتی ہے۔ (تصویر بشکریہ : جوائے دیپ گپتا )

اگر گرمی کی لہر کا نقشہ بنایا جائے تو جیکب آباد، بہاولنگر، بہاولپور، حیدرآباد اور کراچی سرخ نقطوں کی طرح نظر آئیں گے۔ اس سال کے شروع میں،  انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج  (آئی پی سی سی) نے خبردار کیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان کو طویل اور زیادہ شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے عالمی درجہ حرارت میں صرف 1.5 یا 2 سینٹی گریڈ ہی اضافہ ہو۔

اس صورتحال میں حکومتی محکموں کی طرف سے کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آتا-  کبھی کبھار عوامی خدمت کے پیغامات کے علاوہ، مقامی کمیونٹیز کو گرمی کی لہروں کے اثرات سے بچانے کے لئے بہت کم پیش بندی  یا بنیادی کام ہوا ہے۔

وسطی ایشیاء میں ایک گرم موسم بہار

وسطی ایشیا میں یہ وقت موسم بہار کا ہوتا ہے، لیکن ازبکستان میں درجہ حرارت 30–33 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے، جو اوائل اپریل کے لئے اوسط سے 8–10 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے- دارالحکومت بشکیک سمیت شمالی کرغزستان میں اپریل کے پہلے ہفتے میں درجہ حرارت 26-28 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جو ایک بار پھر اوسط سے زیادہ ہے-

ترکمانستان کے دارالحکومت اشگابت  میں گرمی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے جب پارہ  36.6 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو 1991 میں اس تاریخ کے پچھلے ریکارڈ سے 6 سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔

گرمی کی لہروں کے ان علاقوں میں زیادہ شدید اثرات ہوتے ہیں جو ان کے عادی نہیں ہوتے ہیں۔  2021 میں قازقستان کے منگیسٹاؤ کے علاقے میں گرمی کی لہر نے 1,000 سے زیادہ مویشی ہلاک کر دیے تھے، جب کسان مویشیوں کے چارے کی ناکافی فراہمی کے  لئے آپس میں جھڑپ رہے تھے۔ غیر معمولی طور پر زیادہ گرمی کے مسلسل ادوار علاقائی پانی کی فراہمی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ 2021 میں طویل خشک سالی کا سامنا کرنے والے، کوہ ہندوکش ہمالیہ سے بہنے والے دریاؤں کے زیریں بہاؤ ممالک، ازبکستان اور قازقستان  نے مبینہ طور پر بالائی بہاؤ والے ممالک کرغزستان اور تاجکستان سے پانی کی بلا تعطل فراہمی کی ‘گارنٹی’ مانگی

موسمیاتی تبدیلی کے واضح اثرات

سائنسدانوں نے گرمی کی لہروں کو موسمیاتی تبدیلی کے ابتدائی اور واضح اثرات میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اس سال قبل ازوقت گرمی کی لہر اس وقت آئی ہے جب اوسط عالمی درجہ حرارت, صنعتی دور کے آغاز سال 1850 کے مقابلے میں 1.17 سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ حکومتوں نے 2015 کے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ کے تحت  درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ کے اندر رکھنے اور 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد کی طرف کوششوں کا عہد کیا ہے، حالانکہ ان کے موجودہ اقدامات دنیا کو 2100 تک کم از کم 2.7C کے اضافے کی طرف لے جا رہے ہیں۔

 

ایک کی2021 تحقیق کے مطابق، 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر بھی مہلک گرمی کے تناؤ کے حالات جنوبی ایشیا میں عام ہو سکتے ہیں۔ مصنفین نے نشاندہی کی کہ 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ‘گیلے بلب کا درجہ حرارت’ انسانی پیداوریت کو متاثر کرتا ہے، جب کہ 35 ڈگری سینٹی گریڈ کو انسانی بقا کی حد سمجھا جاتا ہے، اور جنوبی ایشیا کے کچھ حصے پہلے ہی ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

۔

ویٹ بلب ٹمپریچر کیا ہے؟

ویٹ بلب ٹمپریچر گرمی اور نمی کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ جو کہ اکیلے حرارت ناپنے کے مقابلے میں انسانوں پہ گرمی کے اثرات کا بہتر پیمانہ ہے۔ بہرحال، ویٹ بلب ٹمپریچر جنوبی ایشیاء کے موسمیاتی اداروں میں استمعال نہیں ہوتا۔

وسطی ایشیا میں، تاجکستان میں عالمی اوسط سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافہ متوقع ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے 2021 کے مطالعے کے مطابق، “سب سے زیادہ اخراج کے راستے (آر سی پی  8.5 ) کے تحت، 1986–2005 بیس لائن کے مقابلے، 2090 کی دہائی تک گرمی 5.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتی ہے”۔ سب سے زیادہ اخراج کا راستہ وہ ہے جس میں حکومتیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لئے بہت کم یا کوئی اقدام نہیں کرتی ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔

ابتدائی انتباہ کی اہمیت

 اپریل 6 کوگرمی کی لہروں  کے دوران استقامت کے بارے میں منعقدہ ایک ویبینار میں، ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ابتدائی وارننگ اور ہیٹ ایکشن پلان قبل ازوقت  گرمی کی لہروں کے انسانی اثرات کو محدود کرنے کے لئے کس طرح اہم ہیں۔ انڈیا میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (آئی ایم ڈی ) کے سربراہ، مرتیونجے مہاپترا نے کہا: “”موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید گرمی کا ایکسپوژر بڑھ رہا ہے اور ہندوستان کے لوگوں کے لئے صحت اور ماحولیات کی ہنگامی صورتحال بنتی جا رہی ہے۔ آئی ایم ڈی  بہتر اور اپ گریڈ شدہ گرمی کے قبل ازوقت وارننگ  فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے جس سے سینکڑوں شہروں کو حفاظتی اقدامات کرنے اور شدید گرمی کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے مقامی طور پر موزوں اقدامات کرنے میں مدد ملتی ہے۔”

گرمی مار دیتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے… ابتدائی انتباہی نظام اور غیرمحفوظ آبادی کے تحفظ کے لیے مربوط ردعمل جانیں بچاتے ہیں
منیش بپنا، نیچرل ریسورسز ڈیفینس کونسل 

تھنک ٹینک نیچرل ریسورس زڈیفنس کونسل (این آر ڈی سی) کے سربراہ منیش بپنا نے اسی ویبینار میں کہا: ” گرمی مار دیتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے… ابتدائی انتباہی نظام اور غیرمحفوظ آبادی کے تحفظ کےلئے مربوط ردعمل جانیں بچاتے ہیں۔” این آر ڈی سی  اس ٹیم کا ایک حصہ تھا جس نے احمد آباد، مغربی ہندوستان کے لیے ایک ہیٹ ایکشن پلان تیار کیا تھا، جسے اب ہندوستان کے کئی شہروں اور کراچی میں اپنایا گیا ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ – گاندھی نگر (آئی آئی پی ایچ – جی ) کے ڈائریکٹر دلیپ موالنکر نے زور دیا کہ ایک مضبوط ردعمل پالیسی میں قبل از وقت وارننگ سسٹم، کمیونٹی کی آگاہی کو بہتر بنانے کے لئے آؤٹ ریچ کی حکمت عملی، اور غیرمحفوظ آبادیوں تک پہنچنے کے لئے  ہدفی اقدامات شامل ہونے چاہیے۔ “مقامی درجہ حرارت کے ایکشن پلان ان حکمت عملیوں کو یکجا کرتے ہیں اور یہ شدید گرمی کے  دوران لوگوں کی حفاظت کے لئے موثر حل ثابت ہوۓ ہیں۔ چونکہ موسمیاتی تبدیلی بھارت میں شدید گرمی کے خطرات کو مزید بگاڑ رہی ہے، ان منصوبوں کو مزید مضبوط بنانے اور انہیں مقامی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے،” انہوں نے اسی ویبینار میں کہا- 

کولمبیا یونیورسٹی کے میلمین سکول آف پبلک ہیلتھ میں این آر ڈی سی کے سینئر سائنسدان اور اسسٹنٹ پروفیسر کم نولٹن نے مزید کہا کہ بھارت میں جاری کوششیں گرمی سے صحت کی موافقت کی “عالمی تحریک” کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا “آب و ہوا کی استقامت، جزوی طور پر، لوگوں کو مختلف طریقے سے سوچنے اور شدید گرمی اور دیگر آب و ہوا کے چیلنجوں کو صحت عامہ کے قابل حل  مسائل کے طور پر دیکھنے کے بارے میں ہے” ۔