پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان مصر میں اس سال اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہی ہیں، ان کے ایجنڈے میں “لیونگ انڈس انیشی ایٹو” کا پراسپیکٹس پیش کرنا سرفہرست ہے۔
ستمبر میں، رحمان نے اس منصوبے کا اعلان کیا، جسے ایک دہائی کے بدترین سیلاب کے تناظر میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ دی لیونگ انڈس انیشی ایٹو، جسکا باضابطہ طور پر سی او پی27 کے دوران آغاز کیا جا رہا ہے، ایک سرپرست اقدام ہے جو نئے اور موجودہ منصوبوں کو آگے بڑھاۓ گا اور مستحکم کرے گا۔ ان میں سے کئی کا مقصد اسکی اچھی ماحولیاتی صحت بحال کرتے ہوۓ، پاکستان میں سندھ طاس میں سیلاب کی مزاحمت کو بڑھانا ہے۔
رحمان نے دی تھرڈ پول کو بتایا ہے کہ لیونگ انڈس انیشی ایٹو ایک “سرمایہ کاری کا پروجیکٹ” ہے، جس میں “موسمیاتی مزاحمتی تعمیر نو” پر توجہ دی گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان حالیہ گرمیوں کے سیلاب کے بعد تعمیر نو شروع کررہا ہے- جس کے بارے میں سائنسدانوں کے مطابق سیلاب کا امکان موسمیاتی تبدیلی وجہ سے زیادہ بڑھ گیا ہے-
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو پاکستان کے موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کی سب سے بڑی سیریز قرار دیتے ہوئے رحمان نے کہا، “یہ ایک لیونگ مینو ہے اور سرمایہ کار اپنی مرضی سے حصّوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ “رحمان نے کہا کہ مجموعی طور پر اس اقدام کے 25 منصوبوں پر 11-17 بلین امریکی ڈالر لاگت آئے گی، جن میں سے 15 سیلاب کے انتظام سے متعلق ہیں۔
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے کوائف 25 ترجیحی اقدامات کو متعین کرتا ہے، جس کے ذریعے یہ بتاتا ہے کہ وہ ایک منصفانہ تبدیلی، آب و ہوا کی لچک اور صنفی شمولیت کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بہت سے منصوبوں کا مقصد طاس کی صحت کو بہتر بنانا ہے، بشمول صنعتی فضلے اور دریا سے گندے پانی کو صاف کرنے، زمینی پانی کو ری چارج کرنے، شہروں سے پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے، نمکیات کو کنٹرول کرنے اور ایک شہری جنگل کی تشکیل کے منصوبے۔ لیکن وہ 100,000 کمیونٹی تالابوں، ایک ‘لیونگ انڈس نالج پلیٹ فارم’، ماحولیاتی سیاحت، آب و ہوا موافق زراعت اور ماہی گیری کے ساتھ ساتھ “سیلاب پر قابو پانے کے لیے گرین انفراسٹرکچر” کے ذریعے طاس کے رہائشی لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
500 محفوظ علاقوں کے قیام کی تجویز اور کلائمیٹ اینڈ نیچر پرفارمنس بانڈز آفر کر کے، وہ قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی کو تیز کرنے اور حیاتیاتی تنوع کو بحال کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے لیونگ انڈس انیشی ایٹو کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے “مستقبل کے سیلابوں کے لئے ملک میں موسمیاتی مزاحمت پیدا کرنے کا آلہ” قرار دیا۔ یہ پروجیکٹ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت کے دوران اسلم زیر نگرانی شروع کیا گیا تھا اور اب اسکی ذمہ داری حکمران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اتحاد نے اٹھائی ہے۔ اسلم نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ پچھلی حکومت کی جانب سے انتہائی توجہ کے ساتھ تیار کئے گئے “ماحولیاتی وژن” کو بغیر کسی ردوبدل کے لاگو کیا جائے گا۔
ماحولیات کے وکیل احمد رافع عالم نے پاکستان کی 2012 کی نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی اور اس کے نیشنل ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن کے بعد پراسپیکٹس کو “اگلی بڑی چیز” قرار دیا۔
آبی وسائل کے ماہر حسن عباس نے اسے “فیوچراسٹک ” قرار دیا ہے، جس میں “ماحولیاتی پائیداری پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز سے متعلقہ بہت سے لنکس شامل کئے گۓ ہیں”۔
آبی ماہر اور غیر منفعتی حصار فاؤنڈیشن کی سربراہ سیمی کمال، جو لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے لئے مشاورتی عمل کا حصہ تھیں، نے کہا کہ ابھی جبکہ سی او پی27 جاری ہے اور پاکستان کو موسمیاتی تباہی کا سامنا ہے ایسے وقت میں سندھ پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے یہ دستاویز بلکل صحیح موقع پر پیش کی گئی ہے۔
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کا خاکہ پیش کرنے والی دستاویز کے مطابق، پاکستان کی تقریباً 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمیاں طاس کے اندر واقع ہیں۔ ملک کی 80 فیصد سے زیادہ قابل کاشت زمین سندھ کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور ملک کے 10 میں سے 9 بڑے شہروں اس کے 50 کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔
اسلم کا اندازہ ہے کہ دریاۓ سندھ میں مزید “سیلاب” آئیں گے، جیسے جیسے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ آۓ گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش زیادہ غیر متوقع ہونگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریا کا ماحولیاتی نظام، جس میں پرندوں کی کم از کم 668 اقسام، مچھلی کی 150 سے زائد اقسام ہیں، اور دنیا کے نایاب ترین ممالیہ جانوروں میں سے ایک، انڈس ریور ڈولفن، پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور اس پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
دریاۓ سندھ کو “پاکستان کی لائف لائن” قرار دیتے ہوئے، اسلم نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ یہ اقدام “بہت بڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ یہ پورے ملک کا احاطہ کئے ہوئے ہے… اگر ہم بڑھتے ہوئے موسمیاتی تناؤ سے نمٹنا چاہتے ہیں تو اس کی مرتی ہوئی ماحولیات کو بحال کرنا بہت ضروری ہے۔”
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے نیشنل کوآرڈینیٹر سعد حیات تمان نے کہا کہ پبلک سیکٹر، پرائیویٹ سیکٹر، ماہرین اور سول سوسائٹی کے ساتھ مشاورت کا عمل جنوری 2022 میں دوبارہ شروع ہوا۔ رپورٹ اپریل تک تیار ہو چکی تھی۔
تاہم پھر حکومت بدل گئی جس سے یہ عمل سست ہو گیا۔ مئی کے کے مہینے میں، موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے صوبوں، متعلقہ وزارتوں اور متعلقہ آبی ماہرین سے رائے طلب کرتے ہوئے اس اقدام کی ذمہ داری لی۔
“صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک انتہائی سخت آزمائشی عمل” قرار دیتے ہوۓ، رحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ سے گرین سگنل ملنے کا عمل بہت محنت طلب تھا۔ صوبوں کے درمیان سیاسی اختلافات کے باوجود اتفاق رائے پیدا ہوا۔
بہت سے منصوبے جو پہلے سے چل رہے تھے وہ لیونگ انڈس انیشیٹو میں شامل ہیں۔
پروونشیل واٹر ایکٹ کے ذریعہ سسٹین ایبل گراؤنڈ واٹر گورننس | لیونگ انڈس دستاویز میں خراب حکمرانی کی وجوہات اور قانون سازی کی ضرورت پر غور کیا گیا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں کے پاس ایسے قوانین ہیں جن کے تحت انہیں صوبائی واٹر کمیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم عمل درآمد کا فقدان ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں واٹر ایکٹ بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں، جو وفاقی کنٹرول میں ہے، ایک قانون ہے لیکن ابھی تک کمیشن نہیں بنا۔ |
توسیع شدہ جی ایل او ایف -II | برفانی جھیل کے سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک منصوبہ پہلے ہی گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے 10 اضلاع میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ لیونگ انڈس دستاویز میں اسے آب گیر علاقے کے تمام کمزور اضلاع تک پھیلانے کی تجویز ہے۔ |
انڈس ہیریٹیج سائٹس | دی لیونگ انڈس انیشی ایٹو نے طاس میں 10 ہیریٹیج سائٹس کی حفاظت کی تجویز پیش کی ہے۔ |
فطرت پر مبنی واٹرشیڈ مینجمنٹ | رپورٹ میں پاکستان کے 1,091 ذیلی واٹرشیڈز کا تفصیلی تجزیہ تجویز کیا گیا ہے تاکہ موجودہ کوششوں میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی جا سکے اور مقامی کمیونٹی کی شرکت پر مشتمل حل کی نشاندہی کی جا سکے۔ |
انڈس پروٹیکٹڈ ایریا | پاکستان کے پاس 400 کے قریب محفوظ علاقے ہیں جنہیں آئی یو سی این نے تسلیم کیا ہے۔ دستاویز میں 500 نئے محفوظ علاقوں کے قیام کی تجویز ہے۔ |
دریاۓ سندھ کے ساتھ ساتھ شہری جنگلات | دس بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کو شہری جنگلات کے پروگرام کے ساتھ ملایا جائے گا۔ |
دریائے سندھ پر بڑے اسٹرکچر زیر بحث نہیں ہیں
کمال نے کہا کہ انگریزوں نے سب سے پہلے دریائے سندھ پر ڈیم، بیراج، ویرز اور نہریں بنائی تھیں تاکہ آبپاشی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے دریا کے اس سدھانے کو برطانوی سلطنت کا پیٹ بھرنے کے لئے “سراسر نوآبادیاتی” سوچ کا نتیجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ “ہمیں ایک نیا بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہم دریا، اس کے سیلابی میدانوں اور پاکستان کے پانی کے سلسلے میں اس کے کردار پر فخر کریں۔
دی لیونگ انڈس پراسپیکٹس فطرت پر مبنی سیلاب کے حل کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے جیسے کہ ویٹ لینڈ کی بحالی، ساتھ ہی اس بات کا ذکرکرتا ہے کہ “ریور بینک فلٹریشن، زیر زمین ڈیم، ریچارج ایریا پروٹیکشن اور انکلوژرز” ڈیموں کے مقابلے میں “زیادہ پائیدار اور پانی کا کم لاگتی ذخیرہ” پیش کرتے ہیں۔ درج کردہ دیگر فوائد میں پانی کی حفاظت اور زرعی پیداوار میں اضافہ شامل ہے۔
عباس نے زور دیا کہ دریائے سندھ کی تنزلی کی اصل وجوہات طاس کے پار تعمیر کیے گئے میگا اسٹرکچر ہیں تاکہ پانی کو ذخیرہ اور اسکا بہاؤ موڑا جاۓ۔ تاہم، انہوں نے کہا، “لیونگ انڈس دستاویز میں اس کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے، یا یہاں تک کہ پرانے میگا اسٹرکچر کو زیادہ پائیدار اور عصری حل کے ساتھ تبدیل کرنے کے لئے جامع حکمت عملی بھی نہیں ہے”۔
اگرچہ رپورٹ میں دریا کی خراب صحت کی علامات کو بیان کیا گیا ہے، عباس نے کہا کہ ڈیموں پر بحث نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ “جو کچھ بھی تجویز کیا گیا ہے وہ اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کرے گا”۔
کمال کی رائے میں ڈیموں، بیراجوں اور نہروں کو ختم کرنا کوئی سنجیدہ آپشن نہیں ہے۔ “اسکو عملی نظر سے دیکھتے ہیں، آگے بڑھیں اور جو کچھ ہمارے پاس ہے اسے بہتر بنائیں، اور اس کا انتظام کریں،” انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب کچھ مشکل انتخاب کرنا ہو سکتا ہے۔
“یقینی طور پر، ہمیں دریاۓ سندھ پر مزید انفراسٹرکچر نہ بنانے کا فیصلہ کرنا چاہیے،” کمال نے کہا، تاکہ “پانی کے نقصانات کو کم کیا جائے” اور “ہائیڈرو انجینئرنگ کے حوالے سے، سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا جاۓ کہ وہ اپنے سیاسی موقف کو تبدیل کریں تاکہ ڈیلٹا کو بحال کیا جا سکے”۔
لیونگ انڈس کو اب فنڈنگ اور سرحد پار تعاون کی ضرورت ہے
رحمان نے کہا کہ کم وسائل اور قرضوں میں جکڑے پاکستان نے “اپنے پاس موجود تمام فنڈز کو سیلاب سے نجات کی طرف موڑ دیا ہے”۔
انہوں نے کہا، “اب لیونگ انڈس جیسے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جائے گا جیسا کہ تمام فنڈز بحالی کے منصوبوں پر لگیں گے”۔ “ہم ان میں سے کچھ کو مزاحمتی اور مطابقتی ڈیزائن کے خطوط پر لانے کی کوشش کریں گے جو لیونگ انڈس مینو میں بنایا گیا ہے۔”
پاکستان کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو اس قابل ہو کہ اس منصوبے کی کوئی قابل دلیل دے سکیں اور یہ بتا سکیں کہ یہ کیوںمنفرد ہےاحمد رافع عالم، ماحولیاتی وکیل
رحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت کا مقصد 11-17 بلین امریکی ڈالر کے لئے “کثیر فریقین جن کے پاس طویل مدتی منصوبوں کے لیے فنڈز ہیں” کو راغب کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “جب ہم تعمیر نو کے لئے کام کرنا شروع کرتے ہیں، تو ہم ان کی توجہ کو موافقت کی طرف موڑ سکتے ہیں۔”
عباس نے نشاندہی کی کہ ” اقتصادی انجنوں کی تخلیق کے بغیر ادھر ادھر سے فنڈز مانگنا ہمیں زیادہ دور نہیں لے جاسکے گا۔”
تاہم، فنڈنگ کا مسئلہ اسلم کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہا۔ “ان میں سے کچھ منصوبوں کے لئے فنڈز دستیاب ہیں،” انہوں نے کہا، لیکن اسے “بڑھانے” کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ باقی کو “مقامی اور عالمی مالیاتی آپشنز” کے ذریعے پیدا کرنا ہوگا۔
اس پر عالم نے اس اقدام کے پہلو کی تعریف کی جس کا مقصد عالمی موسمیاتی فنانس تک رسائی کےلئے پاکستان کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔ “کچھ ممالک نے ان فنڈز تک رسائی حاصل کرنے میں نسبتا کامیابی حاصل کی ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو اس جانکاری کی تربیت رکھتے ہوں کہ اقوام متحدہ کے ریڈ ٹیپ کو کس طرح نیویگیٹ کرنا ہے یا اس قابل ہو کہ اس منصوبے کی کوئی قائل دلیل دے سکیں اور یہ کیوں منفرد ہے، یہ بتا سکیں۔”
یہاں تک کہ اگر ان منصوبوں کےلئے فنڈز حاصل کرلئے جاتے ہیں، تب بھی پاکستان کے پڑوسیوں خصوصاً بھارت کے تعاون کے بغیر دریائے سندھ کو ایک نئی زندگی دینا مشکل ہو گا۔ “یہ رپورٹ میں بیان کردہ نفاذ کے منظر نامے کا بہت بڑا حصہ ہے،” اسلم نے جواب دیا، اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے اور سندھ کی ماحولیات کو بحال کرنے کےلئے علاقائی تعاون اور ڈیٹا شیئرنگ کی ضرورت ہے۔
حد سے زیادہ وفاقی رسائی ‘لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو خطرے میں ڈال سکتی ہے
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے عملی نفاذ کے بارے میں، عالم نے کہا: “میں سب نیشنل گورننس کے بارے میں تھوڑی زیادہ وضاحت چاہوں گا۔”
دستاویز میں سفارش کی گئی ہے کہ ایک انڈس کونسل قائم کی جائے، لیکن عالم نے کہا کہ انہوں نے ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہے کیونکہ “18ویں آئینی ترمیم میں صوبائی گورننس کے واضح مینڈیٹ کے اندر بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں بات کی جا رہی ہے”۔ 2010 میں منظور کی گئی 18ویں ترمیم نے پاکستان کے صوبوں کو قانون سازی اور مالی خودمختاری دی۔
پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے، عالم نے کہا کہ وفاقی، صوبائی اور یہاں تک کہ میونسپل اتھارٹیز کے درمیان کچھ “کنیکٹنگ ٹشوز” کی ضرورت ہے جوکہ غائب ہیں۔ “یہ منصوبے اچھے لگ رہے ہیں، لیکن جب تک کوئی رابطہ کاری کا طریقہ کار نہیں ہوتا، مجھے خدشہ ہے کہ حد سے وفاقی تجاوز اور صوبائی اتھارٹی کو پامال کیا جائے گا۔ اس سے ایسے منصوبوں کے موثر نفاذ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔”
عالم نے لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو “بلند نظر” اور “تھوڑا سا احمقانہ” اور دیگر جگہوں پر تفصیلات میں مبہم قرار دیا۔ لیکن، انہوں نے تسلیم کیا، مجموعی طور پر، وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا تھے کہ یہ حکومت کی طرف سے “ماحولیاتی سوچ میں ارتقاء” کو ظاہر کرتا ہے۔