“چہچہاتی جیجیل کی آواز ہمارے دلوں کو خوشی سے بھر دیتی ہے۔ یہ اس خطے کے مقامی لوگوں کو اتنی ہی عزیز ہیں جتنی کہ ہمیں اپنے بچے،” پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے کوہستان میں ایک استاد اور ماحولیاتی کارکن مستان خان کہتے ہیں۔ خان صرف مغربی ہمالیہ میں پاۓ جانے والے ایک نایاب اور خوبصورت تیتر کی نسل جیجیل، یا مغربی ٹریگوپان کے تحفظ کے لیے وادی پالاس میں مقامی اقدامات میں شامل ہے۔
وادی پالاس قدیم جنگلات رکھتی ہے اور وادی کے کچھ علاقے کم انسانی مداخلت کی وجہ سے جنگلی حیات کی بہت سی نایاب نسلوں کا گھر ہے- ورلڈ فیزنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق، خیال کیا جاتا ہے کہ وادی مغربی ٹریگوپان کے کم از کم 300 جوڑوں کا گھر ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک ہے۔
اپنے برقی نیلے گلے، سرخ رنگ کی چھاتی اور چمکدار سفید دھبوں سے مزین، یہ نسل اس خطّے میں رہنے والے اور باہر سے آنے والے پرندوں کے شوقین افراد کی خواہش میں سرفہرست ہے، لیکن انہیں بھی یہ شاذونادر ہی نظر آتے ہیں اور فوٹوگراف کۓ جاتے ہیں۔ یہ شرمیلی اور غافل انواع عام طور پر انسانوں سے دور رہتی ہے، اور عموماً صبح سویرے اور شام ڈھلے نظر آتی ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کا اندازہ ہے کہ 3,300 بالغ مغربی ٹریگوپان کوہستان سے ہندوستان میں اتراکھنڈ تک بکھری ہوئی آبادیوں میں زندہ ہیں۔ یہ اعداد مسلسل گھٹ رہے ہیں، اور ان کی درجہ بندی معدومیت کے خطرے سے دوچار نسل کے طور پر کی گئی ہے-
ڈیم مغربی ٹریگوپان کے لۓ سوالیہ نشان ہیں
خان نے تھرڈ پول کو بتایا، “کوہستان میں ڈیموں کی تعمیر کے بعد سے، ہمیں اس پرندے کی بقا کے حوالے سے تشویش ہے۔”
مستان کے خدشات داسو اور دیامر بھاشا ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر کے مرہون ہیں، جن کے ذریعے ملک کوقدرتی ایندھن پر انحصار ختم کرنے اور توانائی کی صلاحیت میں اضافہ کی امید ہے۔ داسو پراجیکٹ کی مالی اعانت عالمی بنک نے کی ہے اور چینی تعمیراتی کمپنی گیزوبا گروپ اسکی تعمیر کر رہا ہے۔ یہ سائٹ ضلع کوہستان میں بالائی وادی سندھ کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے، اور اس منصوبے میں مرکزی ڈیم، ایک پاور ہاؤس اور ایک ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر شامل ہے۔
واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی 2014 کی داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر ماحولیاتی اور سماجی تشخیص کی رپورٹ کے مطابق، ابتدائی طور پر مجوزہ ٹرانسمیشن لائن وادی پالاس سے گزرے گی۔
کوہستان کے ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر (ڈی ایف او) فائق خان نے بھی تھرڈ پول کو بتایا کہ ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر سےٹریگوپان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، کیونکہ “کیبلز کے تصادم سے نتیجے میں اس خوبصورت اور نازک پرندے کی غیر فطری موت ہو سکتی ہے۔”
داسو سے نیشنل گرڈ تک مین ٹرانسمیشن لائن نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی ) تعمیر کر رہی ہے، جو پاکستان کی وزارت توانائی کے تحت ایک خود مختار پاور ٹرانسمیشن کمپنی ہے۔ دی تھرڈ پول کو دیے گئے ایک بیان میں، این ٹی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے قریب داسو سے پتھر گڑھ تک ٹرانسمیشن لائنوں کی عارضی ترتیب تجویز کی گئی تھی، جو وادی پالاس اور مغربی ٹریگوپان کے مسکن سے گزرے گی، لیکن بعد میں یہ ترتیب بدل دی گئی۔
این ٹی ڈی سی کے مطابق، نئے راستے کا انتخاب “معیاری بین الاقوامی ضروریات کے مطابق” کیا گیا ہے اور یہ وادی پالاس سے نہیں گزرتا ہے۔ “اگرچہ جدید ترین داسو ٹرانسمیشن لائن (ڈی ٹی ایل) کسی بھی ماحولیاتی حساس علاقے سے نہیں گزرتی، ڈی ٹی ایل کی انوائرنمنٹ اینڈ سوشل اسسمنٹ (ای ایس اے) رپورٹ میں پرندوں کے ہاٹ سپاٹ کے قریب برڈ مارکر [ڈیٹرنٹ] کی تنصیب سمیت متعدد تخفیف کے اقدامات فہرست کیے گۓ ہیں۔ اس سے پرندوں کو ٹرانسمیشن لائن کی موجودگی کی نشاندہی کرنے میں مدد ملے گی اور وہ تصادم سے بچ سکتے ہیں،” دی تھرڈ پول کو جواب میں این ٹی ڈی سی نے بتایا۔
اگر ڈیم کی تعمیر سے بستیوں میں خلل پڑتا ہے اور مقامی لوگ اپنے گھر بنانے کے لیے اونچی جگہ پر چلے جاتے ہیں، تو اس سے پرندوں کے مسکن کو خطرہ ہو سکتا ہے۔محمّد نعیم اعوان، نیشنل پارک مینجمنٹ آفس
محمد نعیم اعوان، نیشنل پارک مینجمنٹ آفس کے سپروائزر اور آزاد جموں و کشمیر میں آئی یو سی این کے ساتھ فیلڈ آفیسر بھی ہیں، دو دہائیوں سے تیتروں پر تحقیق کر رہے ہیں، اور حال ہی میں انہوں نے پاکستان میں ماحولیات اور مغربی ٹریگوپان کے تحفظ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی ہے۔ تھرڈ پول کے ساتھ ایک ای میل انٹرویو میں، اعوان نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر اب بھی کمزور پرندوں کے لیے بالواسطہ خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔
“یہ نسل اونچے پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہے اور ڈیم اس علاقے سے بہت دور ہے۔ لیکن اگر ڈیم کی تعمیر سے بستیوں میں خلل پڑتا ہے اور مقامی لوگ اپنے گھر بنانے کے لیے اونچی جگہ پر چلے جاتے ہیں، تو اس سے پرندوں کے مسکن کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ پہلے ہی جاگران وادی میں دیکھا جا چکا ہے، جہاں بڑی زرعی زمین ایک ڈیم کے زیر نظر ہوگئی اور لوگ مویشیوں کے ساتھ اپنے گھروں اور زراعت کی بحالی کے لیے اونچے علاقوں میں چلے گئے، جس سےمغربی ٹریگوپان کے مسکن کو نقصان پہنچا۔”
آئی یو سی این، مسکن کے انحطاط، خلل اور شکار کو پرندے کو درپیش بڑے خطرات کے طور پر درج کرتا ہے۔ اعوان نے کہا، “ان کے علاوہ پلاسٹک کی آلودگی جیسے کچھ اور ابھرتے ہوئے خطرات بھی ہیں۔” “خانہ بدوش اور مقامی لوگ الپائن چراگاہوں کی طرف جاتے ہیں اور زیادہ تر اپنا کھانا لے جانے کے لیے پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرتے ہیں … جو نہ صرف جنگل کو آلودہ کرتے ہیں بلکہ ٹریگوپان اور دیگر جنگلی جانوروں کے لیے بھی خطرہ بنتے ہیں۔”
ڈی ایف او فائق خان کے مطابق مغربی ٹریگوپان کا تحفظ محکمہ کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ” شکار پہ سختی سے پابندی ہے- مقامی کمیونٹی بھی ہماری حمایت کرتی ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ مغربی ٹریگوپان کو بڑھتی ہوئی آبادی، جنگلات کی کٹائی، ترقیاتی کاموں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے،” فائق کہتے ہیں۔
تحفظ کی راہ میں نامعلوم رکاوٹیں
ٹریگوپان کی آبادی اور اس کے زوال کے محرکات کی حقیقی تصویر اس کی آبادی اور رہائش کے بارے میں خصوصی تجزیے کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے۔
کوہستان کے ڈی ایف او فائق خان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس خطے میں مغربی ٹریگوپان کی آبادی کا کوئی حالیہ سائنسی سروے نہیں ہوا ہے، “لیکن ہمارے مشاہدے کے مطابق وادی میں مغربی ٹریگوپان کے پانچ سو سے زیادہ جوڑے موجود ہیں۔” .
1981 اور 1995 کے مطالعے کی بنیاد پر 3,300 بالغ پرندوں کے موجودہ آئی یو سی این اعداد و شمار کے علاوہ عالمی آبادی کی کوئی حالیہ اعداد بھی نہیں ہے۔ “آزاد جموں و کشمیر، پاکستان اور ہماچل پردیش میں اضافی آبادی کی حالیہ رپورٹس مستقبل میں متوقع عالمی آبادی کے حجم میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں، اگرچہ اس کے برعکس یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جنگلی آبادی 2,500-3,500 تک کم ہوگئی ہے، جس سے وسیع تر سروے کی ضرورت زیادہ ہوگئی ہے،” آئی یو سی این کا تجزیہ کہتا ہے-
مغربی ٹریگوپان پر اعوان کی تحقیق کے مطابق مغربی ٹریگوپان پاکستان کی وادی پالاس، وادی کاغان اور آزاد جموں و کشمیر میں پایا جاتا ہے۔ اپریل سے جون تک افزائش کے موسم کے دوران، وہ کہتے ہیں کہ ٹریگوپان اونچی، کھلی جنگلاتی ڈھلوانوں پر، تقریباً 2,400 سے 3,600 میٹر تک کم مضطرب مخلوط مخروطی پہاڑی جنگلات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اعوان نے کہا کہ جنگل میں، خاص طور پر افزائش کے موسم کے دوران، پرندے کو دیکھنا ایک ” معجزے” سے کم نہیں ہے۔ اس وجہ سے، سائنسدان انواع کا سروے کرنے کے لیے ‘کال کاؤنٹ’ کے طریقہ کار پر انحصار کرتے ہیں۔ افزائش کے موسم میں صرف نر پرندے کال کرتے ہیں، اس لیے آبادی کا اندازہ ریکارڈ کیے گئے کال کرنے والے پرندوں کی تعداد کو دوگنا کرکے لگایا جاتا ہے، یہ فرض کرتے ہوئے کہ ایک نر ٹریگوپان ایک مادہ کے ساتھ ہوگا۔
نئی تحقیق سے آگے کا راستہ
نئی تحقیق سے آگے کا راستہ
نومبر 2021 میں، اعوان اور دیگر محققین کی ایک ٹیم نے نئی تحقیق شائع کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ “پاکستان کے اندر مغربی ٹریگوپان کے دستیاب افزائش کے مساکن کا پہلا جامع جائزہ فراہم کرتی ہے” اور انتہائی موزوں رہائش گاہ کے نئے علاقوں کی نشاندہی کی جہاں انواع کے ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
ہمارا ماننا ہے کہ اس دنیا میں پالاس کی شناخت جیجیل سے جڑی ہوئی ہے۔ لیکن وادی پالاس کے لوگ اکیلے اس کی حفاظت نہیں کر سکتےمستان خان، استاد اور ماحولیاتی کارکن
اس مقالے میں ٹریگوپان کی جغرافیائی حد کے تعین کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ یہ نیا علم بہت زیادہ تحفظاتی اہمیت کا حامل ہے۔ اعوان نے کہا، “انواع کی رہائش، یا اس کی تقسیم کے بارے میں معلومات کے بغیر، کوئی بھی اس کے تحفظ کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہوگا۔”
انہوں نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے اہم ذرایع کے طور پر محفوظ علاقوں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ “موجودہ محفوظ علاقوں کا نظام اور ان کا انتظام ٹارگٹ نسلوں اور اس کے مسکن کے تحفظ میں موثر نہیں ہے۔ محفوظ علاقوں کے انتظامی منصوبوں پر نظرثانی کرنا خطرے سے دوچار جنگلی حیات بشمول ٹریگوپان، کے لیے مخصوص اہداف، اس عالمی سطح پر خطرے سے دوچار نسل کے تحفظ میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔”
فائق خان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات نے کئی سال پہلے حکومت کو سفارش بھیجی تھی کہ وادی پالاس کو محفوظ علاقہ قرار دیا جائے۔ ” ہمیں امید ہے کہ سرکاری نوٹس جلد ہی آجاۓ گا-” فائق نے کہا-
فی الحال، مقامی لوگوں نے معاملات سنبھالے ہوۓ ہیں۔ مستان نے کہا کہ اپنے پسندیدہ پرندے کی حفاظت کے لیے، پالاس قبائل نے 2009 میں اس مقصد کے لیے جرگوں (قبائلی کونسلوں) کا انعقاد شروع کیا اور ٹریگوپان کے شکار پر پابندی لگا دی۔ “اگر ہم کسی کو اس کے شکار میں ملوث پاتے ہیں، تو ہم ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس دنیا میں پالاس کی شناخت جیجیل سے جڑی ہوئی ہے۔ لیکن وادی پالاس کے لوگ اکیلے اس کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو بھی آگے بڑھنا ہوگا اور ہم ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔”