آلودگی

پاکستان اخراج پر قابو رکھتے ہوۓ کس طرح خود کو ٹھنڈا رکھ سکتا ہے؟

اپنے تازہ ترین این ڈی سی میں، پاکستان نے ظاہر کیا ہے کہ وہ 'کولنگ ایکشن پلان' پر کام کر رہا ہے۔ جیسے جیسے ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت بڑھتی ہے، پالیسی ساز اس شعبے کو موسمیاتی تقاضوں کے مطابق کیسے رکھیں گے؟
اردو
<p> جون 2015 میں کراچی کی شدید گرمی کی لہر کے دوران مرد  سائے میں بیٹھ کر اپنے سروں پر پانی سے بھیگے تولیوں رکھے  خود ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں گرمی کی لہر کی تعدد اور شدت میں اضافہ ہورہا ہے، ٹھنڈک کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں ماحولیاتی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ (تصویر بشکریہ الامی )</p>

جون 2015 میں کراچی کی شدید گرمی کی لہر کے دوران مرد سائے میں بیٹھ کر اپنے سروں پر پانی سے بھیگے تولیوں رکھے خود ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں گرمی کی لہر کی تعدد اور شدت میں اضافہ ہورہا ہے، ٹھنڈک کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں ماحولیاتی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ (تصویر بشکریہ الامی )

ثاقب علی کراچی کے ڈیفنس کمرشل ایریا میں دکانوں کے ایک سلسلے میں سے ایک دکان، ہائی ٹیک الیکٹرانکس میں اپرنٹس ہیں، جو گھریلو آلات جیسے ایئر کنڈیشنر اور ریفریجریٹرز کی مرمت میں مہارت رکھتی ہے۔ علی نے کہا، “میرا زیادہ تر کام آلات میں گیس بھرنے پر مشتمل ہے۔

انہوں نے جس “گیس” کا حوالہ دیا وہ عام طور پر ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) کی ایک قسم ہوتی ہے، جسے فریج، ڈیپ فریزر اور اے سی میں ریفریجرینٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے پاکستان میں موسم گرما قریب آرہا ہے، ان کے دن مصروف ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ 

man works on electronic equipment, Zofeen T Ebrahim
ثاقب علی ایئر کنڈیشننگ یونٹ کے کولنگ کوائل سے گیس کے اخراج کو چیک کرنے کے لیے صابن کے ساتھ ملا ہوا پانی استعمال کر رہے ہیں- (تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم)

ان کے پریشان کن پیشرو کلورو فلورو کاربن کے برعکس، ایچ ایف سیز زمین کی حفاظتی اوزون تہہ کو ختم نہیں کرتے۔ لیکن یہ طاقتور گرین ہاؤس گیسیں ہیں جو زمین کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 140 سے 11,700 گنا زیادہ گرم کرتی ہیں۔  ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشنگ اخراج گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 10% ہے – جو ہوا بازی اور جہاز رانی کا اخراج ملا کر بھی تین گنا زیادہ ہے۔ 

اس کے جواب میں، ترقی یافتہ ممالک نے 2019 میں ایچ ایف سیز کو مرحلہ وار ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک 2024 اور 2028 کے درمیان اس کی پیروی کریں گے۔ حال ہی میں پاکستان نے انکشاف کیا کہ وہ اس جانب پہلا قدم اٹھا رہا ہے۔ اکتوبر 2021 میں، اپنی تازہ ترین نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن میں، اس نے اعلان کیا کہ وہ 2026 تک پاکستان کولنگ ایکشن پلان (پی سی اے پی) کو اپنائے گا۔ یہ “کولنگ کی کلیدی ضروریات کی نشاندہی کرے گا اور ماحول پر کم سے کم ممکنہ اثرات کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کےکولنگ کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے اقدامات کو ترجیح دے گا”۔

وضاحت: ریفریجرینٹس پر بین الاقوامی معاہدے

1987 میں، مونٹریال پروٹوکول آن سبسٹنس جو اوزون کی تہہ کو ختم کرتے ہیں (مونٹریال پروٹوکول) معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ دنیا کی سب سے بڑی ماحولیاتی کامیابیوں  میں سے ایک سمجھے جانے والے، اس معاہدے نے حکومتوں اور صنعتوں کو اکٹھا کیا تاکہ اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے کیمیکلز کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کیا جا سکے۔ 

2016 میں کیگالی ترمیم کو اپنایا گیا۔ نیا معاہدہ جنوری 2019 میں نافذ ہوا، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لئے ایچ ایف سیز (ایئر کنڈیشننگ اور ریفریجرینٹ انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی 19 گیسیں) سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور سمجھی جاتی ہیں۔ 2050 تک 90 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی کو ختم کردیا جاۓ گا اور اسطرح عالمی درجہ حرارت میں 0.5C تک اضافے سے بچا  جا سکے گا۔

منصوبے کے بارے میں سرکاری معلومات بہت کم ہیں۔ بہرحال یہ خبر پاکستان کی موسمیاتی پالیسی کے ایک اہم لمحے پہ آئی ہے- شدید گرمی مسلسل اور زیادہ جان لیوا ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال جون میں، گرمی کی لہر اور ٹھنڈک کے لیے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں سپلائی میں خلل پڑا۔

جیسے جیسے ملک ترقی کرے گا اور اس کی آبادی بڑھے گی، ٹھنڈک کی ضرورت بڑھتی جائے گی۔ انسانی صحت اور بہبود کے لیے اہم ہونے کے علاوہ، کولنگ ٹیکنالوجیز اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہیں، صنعتی پیداوار اور خوراک اور ادویات کے تحفظ کے لیے ریفریجریشن ضروری ہے۔

پاکستان کے کولنگ کے مسائل 

کولیبریٹو لیبلنگ اینڈ اپلائنس اسٹینڈرڈز پروگرام (سی ایل اے ایس پی) میں کولنگ پلان کی پروجیکٹ مینیجر آمنہ شہاب کہتی ہیں، “دنیا جتنی زیادہ گرم ہوتی ہے، اتنا ہی ہم خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایئر کنڈیشنگ کا استعمال کرتے ہیں۔” سی ایل اے ایس پی ایک بین الاقوامی این جی او ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی تخفیف  پر مرکوز ہے، اور پاکستان کے کولنگ ایکشن پلان کے مسودے میں مدد کرنے والی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ شہاب نے مزید کہا کہ زیادہ تر لوگوں کو یہ اندازہ  نہیں ہے کہ “ان کولنگ آلات سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں ہماری دنیا کو گرم کر رہی ہیں”۔

، پاکستان کا حصّہ 2018میں ایئر کنڈیشننگ کی کل عالمی طلب کا 0.7 فیصد تھا، ایک تخمینے کے مطابق یہ طلب عالمی سطح پر 111 ملین میں سے 824,000 یونٹس تھی۔ محققین کا اندازہ  ہے کہ ملک میں ایئر کنڈیشنگ کی پانچویں بڑی ممکنہ مانگ ہے۔

پاکستان کے مسائل میں سے ایک پرانی ٹیکنالوجی ہے۔ 2010 سے پہلے، آرٹوٹو ، یا آرٹوٹوفریون  نامی ریفریجرینٹ، دنیا بھر میں کولنگ ٹیکنالوجیز میں استعمال ہوتا تھا، لیکن یہ اوزون کی تہہ کے لیے انتہائی نقصان دہ پایا گیا۔ اسے تبدیل کرنے کے لئے میں امریکہ جیسے ممالک نے منصوبے شروع کئے۔

نتیجے کے طور پر، “چین نے پاکستان کو اپنے ڈمپنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا اور ہمیں جلد ہی ضائع ہونے والے اور متروک اے سیز سستے نرخوں پر فروخت کیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ، جو دوسری صورت میں ایئر کنڈیشنر کی استطاعت نہیں رکھتے، خریدنے کے قابل ہوگئے،” پاکستان ایچ وی اے سی آر سوسائٹی کے سابق صدر خرم ملک نے کہا، جو ہیٹنگ، وینٹیلیشن، اے سی اور ریفریجریشن (ایچ وی اے سی آر) انجینئرنگ سائنسز اور ٹیکنالوجیز کو فروغ دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں پرانی ٹیکنالوجی کے انتظام کے لیے بہت کمزور ریگولیٹری میکانزم ہے۔ “اب ملک الجھاوے میں پھنس گیا ہے۔”  

پی سی اے پی اس سمت میں پہلا قدم ہے اور 2023 تک تیار ہو جائے گا۔ پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نیشنل اوزون یونٹ کے نیشنل پروگرام مینیجر  نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ، دیگر یہ کہ، “مستقبل میں استعمال ہونے والے برقی آلات کو منیمم انرجی پرفارمنس اسٹینڈرڈز (ایم ای پیز) پر عمل کرنا ہوگا اور عمارتوں کی موصلیت پر  توجہ  کی جائے گی۔” انہوں نے مزید کہا کہ کولڈ چینز (جو ترسیل کے دوران خراب ہونے والی کھانوں کی تازگی کو برقرار رکھتی ہیں) اور درجہ حرارت پر قابو پانے والی سہولیات(کولڈ اسٹوریج اور ریفریجریٹڈ ٹرانسپورٹیشن کے لیے) منصوبے کا حصہ ہوں گی۔

ضیاء الاسلام نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کولنگ ایکشن پلان ایک پابند دستاویز نہیں ہوگا، لیکن کولنگ پلان کا ہونا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی سی اے پی  کو بطور حکمت عملی  پالیسی کے متعارف کرایا جائے گا۔ پابند کرنے والے حصّے مشاورت کے بعد، تیار کیے گئے قواعد ہوں گے۔ اس سے، مثال کے طور پر، تعمیل کے مسائل کو وزارت تجارت کے ذریعے درآمدی پالیسیوں میں شامل کیا جائے گا۔

ان  کے بجائے کون سے ریفریجرینٹ استعمال کیے جائیں گے؟

آمنہ شہاب کے مطابق، مصنوعی ریفریجرینٹس کو “قدرتی” ہائیڈرو کاربن اور ہائیڈرو فلوورولفائنز (ایچ ایف اوز) سے تبدیل کیا جائے گا۔ ایچ ایف اوز مصنوعی ریفریجرینٹ ہیں، لیکن اس وقت استعمال ہونے والے کیمیکلز سے کم گلوبل وارمنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لیکن، خرّم ملک نے کہا، چونکہ یہ ایک بتدریج خاتمے کا مرحلہ ہے، “پاکستان 2040 تک ایچ سی ایف سیز کا استعمال جاری رکھ سکتا ہے”۔

چونکہ اکثریت کولنگ آلات کی زیادہ سے زیادہ عمر تقریباً 15 سال ہوتی ہے، اس وقت تک ملک کے زیادہ تر پرانے آلات تبدیل ہوچکے ہوں گے۔ خرّم ملک نے کہا کہ “لیکن جو چل رہے ہونگے ان کو نئی گیسوں کو استعمال کرنے کے موافق دوبارہ تیار کیا جا سکے گا۔”

بین الاقوامی دباؤ اور ذمہ داریاں پاکستان کے کولنگ پلان کو تشکیل دے رہے ہیں

منصوبہ بندی کا وقت بھی اہم ہے۔ چین کا اپنا کولنگ پلان اس سال نافذ العمل ہے۔ اسلام نے کہا کہ جیساکہ پاکستان، چینی ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشنرز کا سب سے بڑا خریدار ہے، یہ ” ہمارے کولنگ پلان تیار کرنے کے لئے صحیح  وجہ ہے”۔

کیا آپ جانتے ہیں

اس سال کے بیجنگ ونٹر اولمپکس نے صرف کی برف کے رنکس کو منجمد رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز کو تبدیل کر کے 26 ملین کلو گرام گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکا۔ اسکیٹرز، ہاکی پلیئرز اور کرلر مصنوعی کیمیکلز ( ایچ ایف سیز) کے بجائے قدرتی کاربن ڈائی آکسائیڈ (آر-744) سے بنی برف پر گلائیڈ کرتے ہیں۔ قدرتی ریفریجریٹس کے استعمال سے مبینہ طور پر کاربن ڈائی آکسائڈ کے مساوی مقدار کو بچا لیا گیا جو 1,200,000 سے زائد درخت لگا کر جذب ہو پاتا ہے۔


اور بھی دیگر بین الاقوامی عوامل ہیں۔ ریگولیٹری فریم ورک کی مضبوطی، پاکستان کی اپنی تازہ ترین  نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن میں 2030 تک اپنے جی ایچ جی کے اخراج کا 50% کم کرنے کے عزائم کا ایک اہم حصہ ہے۔ ضیاءالاسلام نے کہا کہ یہ مونٹریال پروٹوکول میں کیگالی ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے 2047 تک ایچ ایف سیز کو 80 فیصد تک کم کرنے کے لیے ہے، جس کی پاکستان جلد ہی توثیق کرے گا۔

سی ایل اے ایس پی  کی آمنہ شہاب نے کہا کہ ابھی کے لیے، موجودہ کولنگ ایپلائینسز سے ہونے والے اخراج کی جی ایچ جیز کے لیے ایک بیس لائن تیار کی جا رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں، ہندوستان نے اپنا کولنگ ایکشن پلان 2019 میں شروع کیا، جب کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا اپنا منصوبہ تیار کرنے کے عمل میں ہیں۔ ابھی تک، ہندوستان کے منصوبے اور پاکستان کی جانب سے پروپوزل میں ان ممالک ں کی آبادی کے وسیع حصوں جو فی الحال ان ٹیکنالوجیز تک رسائی کے متحمل نہیں ہیں، کے لیے کسی تیاری کے بارے میں بہت کم عندیے  ملے ہیں۔ .

پاکستان میں کولنگ  کا مستقبل

فی الحال، پاکستان اپنے استعمال کردہ تمام ریفریجرینٹ درآمد کرتا ہے۔ اسلام کہتے ہیں کہ معاشی پیمانے کی وجہ سے، انہیں مقامی طور پر تیار کرنا ناقابل عمل ہے۔  کسی بھی صورت میں، “دنیا میں صرف مٹھی بھر کمپنیاں ہیں [ شیمورس، ژھونگ ہو 3ایف، ہنی ویل، نوین فلورین ] جو انہیں تیار کر رہی ہیں۔”

ملک نے کہا، نئے ریفریجرینٹس کی طرف تبدیلی، “ان گیسوں کو مقامی طور پر پیدا کرنے کے امکانات پر غور  کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے”۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پی سی اے پی  میں ایک مضبوط تحقیق اور ترقی کا عنصر شامل ہو گا، تاکہ ملکی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کی حوصلہ افزائی ہو، اور ایسی پالیسیاں جو بلڈرز اور ڈویلپرز کو مقامی طور پر مینوفیکچرنگ استعمال کرنے کی ترغیب دیں۔ اسلام نے کہا، “یہاں تک کہ پرائیویٹ سیکٹر کے لئے بھی یہ ایک منافع بخش کاروبار ہو سکتا ہے،” اسلام نے کہا، کیونکہ وہاں “ملکی کھپت کے ساتھ ساتھ برآمد دونوں کے لیے بھی امکانات موجود ہیں”۔

لیکن ان سب میں، بہتر ہوگا کہ حکومت ثاقب علی جیسے مکینکس کی بڑی  تعداد  کو مستقبل سے آگاہ کرے کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔

علی کے ساتھ والی مرمت کی دکان کے مالک محمد وقار نے کہا، “نئے آلات کی مرمت کے لیے ہم سب کو نئی مہارتوں سے لیس ہونے کی ضرورت ہوگی۔”

 احمر اسلام، جو ریفریجرینٹ درآمد کرنے والی کمپنی اتی اینڈ کو  کے ساتھ کام کرتے ہیں ، نے کہا: “نئی گیسیں حاصل کرتے وقت ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ یہ نوجوان لڑکے ان خطرات سے آگاہ نہیں ہیں جن میں وہ خود کو اور دوسروں کو ڈال رہیں ہونگے ان گیسوں کے ساتھ کام کرتے وقت۔” انہوں نے کہا کہ گیسیں انتہائی آتش گیر ہیں، اور “ہینڈل کرنا آسان نہیں”، انہوں نے مزید کہا کہ مکینکس کو ان کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔