آلودگی

غلیظ، خستہ حال دریاۓ کابل افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں افراد کے لئے خطرات کی وجہ ہے

افغانستان میں گزشتہ دو سردیوں میں کم برفباری نے بین السرحد دریا میں پانی کا بہاؤ کم کر دیا ہے، جبکہ دونوں ممالک سے بغیر صاف شدہ گندا پانی اس میں بہہ رہا ہے
اردو
<p>&nbsp;</p>
<p><span style="font-weight: 500;">ستمبر 2021 میں، کچھ لڑکے انتہائی آلودہ کچرے سے بھرے دریاۓ کابل سے پلاسٹک کی بوتل نکالنے کے لئے دوڑ لگا رہے ہیں- بوتلوں کو تھوڑے پیسوں میں ری سائیکلنگ کے لئے فروخ کیا جا سکتا ہے۔ (تصویربشکریہ  اولیور ویکن / الامی)</span></p>

 

ستمبر 2021 میں، کچھ لڑکے انتہائی آلودہ کچرے سے بھرے دریاۓ کابل سے پلاسٹک کی بوتل نکالنے کے لئے دوڑ لگا رہے ہیں- بوتلوں کو تھوڑے پیسوں میں ری سائیکلنگ کے لئے فروخ کیا جا سکتا ہے۔ (تصویربشکریہ  اولیور ویکن / الامی)

اپریل 2022 کے آخری دن تک، دریائے کابل براۓ نام حد تک افغانستان سے پاکستان کی طرف بہہ رہا تھا۔ اس دن، 30 اپریل کےلئے 10 سالہ اوسط 41,200 کیوسک کے مقابلے میں، سندھ کی بڑی معاون ندی نے دریائے سندھ کو 16,700 کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) پانی فراہم کیا۔ 

فصلوں پر ممکنہ نقصان دہ اثرات کے باوجود، پاکستان میں حکام نے آبپاشی کی نہروں میں چھوڑنے کے بجائے بجلی پیدا کرنے کے لئے ڈیموں میں پانی روک دیا۔

ایڈیٹرکا نوٹ

 

دریائے کابل پر دو حصوں پر مشتمل سیریز کی یہ دوسری قسط ہے۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ دریاۓ کابل پر معاہدے   کی کوششیں کیوں ناکام ہوئیں، اس بارے میں پہلا مضمون یہاں پڑھیں۔

گزشتہ دو سردیوں کے دوران، دریاۓ کابل کے طاس کے بالائی علاقوں میں اوسط سے کم برفباری، خشک سالی کا باعث بنی ہے اور پانی کی سطح گرنے کی رپورٹس ملی ہیں (دریائے کابل کے بہاؤ کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے)۔

افغانستان اور پاکستان میں تقریباً 20 ملین افراد پینے کے پانی، آبپاشی، پن بجلی، معاش اور تفریحی سرگرمیوں کےلئے دریائے کابل پر انحصار کرتے ہیں۔ ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ 1950 اور 2018 کے درمیان  دریاۓ کابل کے طاس میں پانی کے اوسط اخراج میں 4.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 

Sandbanks show along the Kabul River in April 2022, Khyber Pakhtunkhwa, Fawad Ali
 
اپریل 2022 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ کے قصبے حاجی زئی میں دریائے کابل کا ایک منظر۔ بجری کے کنارے پانی کی سطح سے اوپر دکھائی دے رہے ہیں، جو کم بہاؤ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ (تصویر بشکریہ فواد علی )
 
 

پانی کی سطح میں تبدیلی کے ساتھ، دریائے کابل کے معاہدے سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے؟

خیبرپختونخوا کی ریاستی حکومت میں محکمہ آبپاشی میں ترقیاتی کاموں کے چیف انجینئر ناصر غفور نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ دریاؤں پر ایک معاہدہ دونوں ممالک کے پانی کے حقوق کو محفوظ بنائے گا۔ (خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے دریائے کابل پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔)

ایک معاہدہ ہوجانے کا مطلب یہ ہوگا کہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی سطح بڑھنے یا کم ہونے کی وجہ سے پانی کی موجودہ تقسیم جاری رہے گی۔

غفور نے کہا، “اس سے پاکستان میں پانی کا بہاؤ متاثر یا کم نہیں ہوگا اور نہ ہی افغانستان کا حصہ کم ہوگا۔  پاکستان کو فی الوقت جتنا پانی مل رہا ہے وہ بھی ملے گا اور افغانستان اپنی استطاعت کے مطابق حاصل کر سکے گا”۔.

مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ دریا میں بہنے والے 100 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 60 فیصد پاکستان اور 40 فیصد افغانستان استعمال کر رہا ہے، چناچہ معاہدے کی صورت میں دونوں ممالک کو یکساں مقدار میں پانی ملے گا۔

تاہم، “اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے تو، افغانستان زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کر سکتا ہے اور پاکستان میں خریف اور ربیع کی فصلوں (موسم سرما اور برسات کے موسم میں بوئی گئی فصلوں) کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے جو کہ زرعی معیشت والے پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا”۔

دریاۓ کابل ایک گٹر بن گیا ہے

اپریل کے اواخر میں دریائے کابل میں جو تھوڑا سا پانی بہہ رہا تھا وہ گندا تھا۔ افغانستان کے دارالحکومت کا گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے دریائے کابل میں گرتا ہے۔ 

حکام نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ خیبرپختونخوا یا اس کے دارالحکومت پشاور میں گندے پانی کی صفائی کا کوئی پلانٹ کام نہیں کر رہا ہے۔ 

زیریں بہاؤ والے پاکستان میں بھی حالات بہتر نہیں ہیں۔ خیبرپختونخوا کے تقریباً 10 شہروں کا صنعتی گندا پانی اور گھریلو سیوریج دریا میں بہتا ہے۔ 

صوبے کے 2002 کے ریور پروٹیکشن آرڈیننس میں کہا گیا ہے، “کوئی بھی شخص براہ راست یا بالواسطہ، کوئی ٹھوس یا خطرناک فضلہ یا حکومت کی طرف سے متعین اور مطلع کردہ دیگر مادوں کو دریاؤں یا ان کے معاون دریاؤں میں ٹھکانے نہیں لگا سکتا”۔

Drain in Peshawar carries untreated wastewater to the Kabul River, Fawad Ali
 
اپریل 2022 میں پشاور کے مضافاتی علاقے حیات آباد میں ایک نالہ سے صنعتی گندا پانی اور گھریلو سیوریج دریائے کابل میں جا رہا ہے۔ (تصویر بشکریہ فواد علی )

سال 2018 میں، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) نے دریائے کابل کے کنارے پینے کے پانی کے ذرائع، بشمول گھریلو بورنگ کے کنووں، کھلے کنوں، ٹیوب ویل اور ہینڈ پمپ کے معیار کا جائزہ لیا۔

پی سی آر ڈبلیو آر نے دریائے کابل کے ساتھ پانی کے زیادہ تر ذرائع کو پینے کے لئے غیر محفوظ پایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریا کے پانی کا معیار نالی کے معیار جیسا ہے، جس میں کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈی) 170 ملی گرام فی لیٹر اور بائیولوجیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی او ڈی) 98 ملی گرام فی لیٹر ہے۔ یہ پاکستان کے نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز میں متعین کردہ حدوں سے باہر ہے حتیٰ کہ میونسپل اور مائع کے اخراج کے لئے بھی، جو اندرون ملک پانیوں کے سی او ڈی کے لئے 150 ملی گرام فی لیٹر اور بی او ڈی کے لئے 80 ملی گرام فی لیٹر ہے۔ پانی کے معیار پر حالیہ سرکاری تحقیق دستیاب نہیں ہے۔

پانی کے معیار کی پیمائش: سی او ڈی اور بی او ڈی کی وضاحت

nصاف جھیلیں اور ندیاں  پانی میں نامیاتی مادے کی مقدار بڑھنے سے آلودہ ہوتی ہیں، جسے بعد میں بیکٹیریا اور دیگرجرثومے تحلیل کرتے ہیں۔ اس عمل کے لئے بہت زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، جو پانی میں آکسیجن کی قدرتی موجودگی کو آہستہ آہستہ کم کرتی جاتی ہے۔ سائنس دان اس رجحان کی پیمائش کے لئے بائیولاجیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی او ڈی) یا آکسیجن کی اس مقدار کا استعمال کرتے ہیں جس کی بیکٹیریا کو آلودہ پانیوں میں موجود نامیاتی مادے کو تحلیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈی) کیمیکل طور پر نامیاتی مواد اور غیر نامیاتی غذائی اجزاء کو توڑنے کے لئے درکار آکسیجن کی مقدار کی پیمائش کرتا ہے

خیبر پختونخوا کے لوکل گوورنمنٹس الیکشنس اینڈ رورل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ  کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں پلانٹس لگانے کی کوشش بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی، فنڈز کی کمی اورسیوریج کے نظام کی دیکھ بھال پر زیادہ لاگت کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔

سال 2014 اور 2019 میں، موجودہ پلانٹس کو بحال کرنے اور نئے لگانے کے لئے ماسٹر پلان تیار کئے گئے۔  واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز، پشاور کے  ایک انجینئر اور پراجیکٹس مینیجر، جہانگیر خان نے کہا کہ زمین کی زیادہ قیمت، ٹریٹمنٹ مشینری اور آپریشن اور دیکھ بھال کے اخراجات پلانٹس کو عملی شکل دینے میں رکاوٹ ہیں۔ اس وقت گندے پانی کی صفائی کے ایک پلانٹ پر کام جاری ہے۔ 

خان نے مزید کہا کہ شہرکاری کی وجہ سے بارش اور گندے پانی کی نکاسی کا نظام پورے صوبے سے منسلک ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، “اس نظام نے حکومت کے لئے ایسے منصوبوں کو قائم کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے کیونکہ  پانی کو ٹریٹ کرنا خاص طور پر شدید بارش کی صورت میں بہت مشکل ہے۔”

صحت پر ہونے والے اثرات کی نگرانی نہیں کی جارہی 

“پشاور یونیورسٹی کی ماہر حیوانیات فرح زیدی نے کہا، “بے انتہا آلودگی نے دریا کو گٹر میں تبدیل کر دیا ہے جس سے صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔” آلودگی کی وجہ سے دریا کی ماحولیات اور فوڈ چین کے آلودہ ہونے کے ساتھ، انہوں نے خواتین کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کی، کیونکہ وہ کپڑے اور برتن دھونے کے لئے دریا کا استعمال کرتی ہیں، اور دریا کے قریب غیر محفوظ ذرائع سے پانی پیتی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ دریائے کابل کے پانی کے استعمال سے انسانی صحت پر ہونے والے اثرات کے بارے میں کسی ڈیٹا سے آگاہ نہیں ہیں۔ ماحولیاتی خطرات پر مکمل سروے اور تحقیق کا مطالبہ کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ “حکومت کو ایک جامع سروے یا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کے لئے مزید دیر نہیں کرنی چاہیے، ہیپاٹائٹس، گردے، جگر، سانس کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے، خاص طور پر وہ لوگ جو دریا کے کناروں پر رہتے ہیں اور اس پانی کو پیتے ہیں۔”

پشاور یونیورسٹی میں فشریز اور میٹھے پانی کی حیاتیات پر تحقیق کرنے والے ضیغم حسن نے کہا کہ آلودگی کی وجہ سے مقامی مچھلیوں کی آبادی شدید تناؤ کا شکار ہے اور تیزی سے کم ہو رہی ہے۔  “ہمیں لیبارٹری ٹیسٹنگ کے لئے مشکل سے کچھ روہو مچھلی (جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی کارپ کی ایک قسم) ملتی ہیں، جب کہ شیر ماہی  (ایک دیسی مچھلی) کا سائز کم ہوتا جا رہا ہے۔ دریں اثناء تلاپیا جیسی غیر مقامی مچھلی عروج پر ہے۔”

حسن نے مزید کہا کہ دریا کے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے گندے پانی کو صاف کرنا ضروری ہے۔