بنٹی کے لئے حالیہ موسم سرما مشکل ترین رہا ہے۔ بنٹی ایک ٹرانس جینڈر عورت ہیں یا خواجہ سراء ہیں (پاکستان میں ٹرانس افراد کو خواجہ سراء کہا جاتا ہے)۔ جب اگست 2022 میں شمالی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں ان کے گاؤں میں سیلاب آیا تو بنٹی کا گھر ڈوب گیا اور اس کا سارا سامان تباہ یا بہہ گیا۔ لیکن بنٹی سیلاب سے متاثرہ افراد کے لئے حکومت کی طرف سے دی گئی امداد تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔ اپنے بستر اور رضائیاں سیلاب میں کھو کر، انہوں نے پورے موسم میں سخت سردی کی راتیں ٹھٹھرتے ہوۓ گزاریں۔
“یہاں رہنے والے دوسرے لوگوں نے اپنے گھروں کو پہنچنے والے نقصان کے معاوضے کے طور پر 160,000 پاکستانی روپے [ 564 امریکی ڈالر] وصول کیے، لیکن ہم ٹرانس پرسنز کو اپنی شناخت ثابت کرنے میں تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا،” بنٹی نے دی تھرڈ پول کو بتایا۔
2022 کے تباہ کن سیلاب کے تناظر میں پورے پاکستان میں جھلکتا، بنٹی کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان کی ٹرانس کمیونٹی آفات کے اثرات سے منفرد طور پر غیر محفوظ ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید کثرت اور شدّت سے آئیں گی۔
امداد تک رسائی میں رکاوٹیں
خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں دریائے سوات کے کنارے ایک خستہ حال مکان میں رہنے والی ٹرانس خاتون نرگس گزشتہ سال کے سیلاب میں اپنی گائے اور بکری سے محروم ہوگئیں۔ نرگس کہتی ہیں، “سیلاب میرا سامان اور زندہ رہنے کی ہرامید بہا لے گیا، جس سے میرے پاس روزی کمانے کے لئے بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔”
خیبرپختونخوا میں ٹرانس رائٹس کی کارکن اور رائٹس گروپ ٹرانس-ایکشن کی صدر فرزانہ ریاض کہتی ہیں کہ بنٹی اور نرگس کی کہانیاں “سیکڑوں یا اور ہزاروں خواجہ سراء لوگوں کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہیں جو موسمیاتی آفات کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں اور امداد کی تقسیم اور بحالی کی خدمات میں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ریاض کا کہنا ہے کہ سماجی اخراج اور مستحکم کام تلاش کرنے میں درپیش چیلنجز کی وجہ سے، پاکستان میں بہت سے خواجہ سراء افراد دور دراز کے علاقوں اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، جو مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے شدید موسمی واقعات جیسے طوفانی بارش، گرمی کی لہر اور ژالہ باری سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس خطرے کو وہ رکاوٹیں مزید بڑھا رہی ہیں جن کا سامنا بہت سے خواجہ سراؤں کو آفات کے تناظر میں حکومتی مدد تک رسائی میں کرنا پڑتا ہے۔ ریاض اس کی وضاحت کرتی ہیں کہ امداد اور معاوضے تک رسائی کا انحصار سرکاری شناختی کارڈ فراہم کرنے پر ہے، جو پاکستان میں زیادہ تر خواجہ سراؤں کے پاس نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان ٹرانس خاتون مسکان، جو اپنے خاندان کی جانب سے مسترد ہونے کے بعد نوعمری میں پشاور منتقل ہوئیں، کہتی ہیں، “موجودہ حالات میں خواجہ سراؤں کے لئے شناختی کارڈ کا حصول تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ اس کے لئے نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی) کے ذریعے خاندانی شجرے کے رجسٹریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔” مسکان روزی روٹی کے لئے شادی کی تقریبات میں پرفارم کرتی ہیں لیکن انہیں اپنے گزارے کے لئے کافی تک و دو کرنا پڑتی ہے۔
مسکان کا کہنا ہے کہ وہ چند سال قبل اپنی بہن کی شادی میں، اپنے خاندان سے دوبارہ ملنے کے ارادے سے گھر گئی تھیں، لیکن وہاں ہونے والا سلوک دل دکھا دینے والا تھا۔ “مجھے یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ میری موجودگی خاندان کے لئے، خاص طور پر دلہن کے لئے اس کے سسرال کے سامنے توہین اور تذلیل کا باعث بن سکتی ہے، اور یہ بہتر ہوگا کہ میں پشاور میں خواجہ سراء کمیونٹی میں واپس چلی جاؤں”۔ آنسو پونچھتے ہوئے انہوں نے گھٹی ہوئی آواز میں بتایا۔
فرزانہ ریاض نے وضاحت کی، “تقریباً 90فیصد خواجہ سراؤں کو ان کے خاندانوں نے لاوارث کردیا ہے، وہ کمیونٹی کے افراد کے ساتھ گھر سے دور رہتے ہیں، اور ان کے لئے خاندانی شجرہ میں اپنے ناموں کو شامل کرنے کے حوالے سے نادرا کی بنیادی شرط کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال کے بعد امداد اور بحالی کا انحصار صرف درخواست دہندگان کی شناخت پر ہوتا ہے، اس سے 90 فیصد خواجہ سراء نااہل ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس خاندانوں سے اخراج اور معاشرے میں بدنامی سے بچنے کے لئے سرکاری ریکارڈ سے نام خارج ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ نہیں ہوتے۔”
ریاض نے مزید کہا کہ پاکستان میں ٹرانس لوگوں کی اکثریت اپنے شناختی کارڈز پر اپنی جنس کو ‘X’ کے طور پر نشان زد کرنے کی حکومت کی پیشکش کو قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ اس آپشن سے وہ خود کو ‘خواجہ سراؤں’ کہلانے پر مجبور ہو جائیں گے، یہ اصطلاح ممنوع سمجھی جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ کمیونٹی میں ایک خوف ہے کہ اس سے رشتہ داروں کی طرف سے مزید منفی ردعمل اور بے عزتی ہو گی۔
پاکستان میں ٹرانس رائٹس: کاغذات پر اور عملی طور پر
سطحی طور پر، حالیہ برسوں میں پاکستان میں ٹرانس رائٹس کے لیے اہم کامیابیاں دیکھی گئی ہیں۔ 2018 میں، پاکستان کی پارلیمنٹ نے ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ منظور کیا، جو نظریاتی طور پر کمیونٹی کو بنیادی تحفظات دیتا ہے۔ قانون ٹرانس پرسنز کے تحفظ، احترام، جائیداد اور وراثت کے حق کی ضمانت دیتا ہے، اور خواجہ سراؤں کے خلاف ہراسانی اور امتیازی سلوک کو مجرمانہ قرار دیتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ٹرانس پرسن ہونے کی حقیقت چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے۔ اپنے خاندانوں کی طرف سے مسترد کئے گئے اور معاشرے کے زیادہ تر حصے سے بے دخل کئے گئے، پاکستان میں بہت سے خواجہ سراء تشدد، ہراسانی اور انتہائی مشکل معاشی حالات کے خوف میں جیتے ہیں۔ بہت سے لوگ سڑکوں پر بھیک مانگنے یا جسم فروشی پر مجبور ہیں۔
پاکستان کی سکستھ پاپولیشن اینڈ ہاؤسنگ مردم شماری، جو 2017 میں کی گئی تھی، ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10,418 بتائی گئی تھی۔ لیکن آزادانہ اندازوں کے مطابق یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔
خیبر پختونخواہ میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی پر کوویڈ 19 کے اثرات پر ایک تحقیقی مقالہ دی تھرڈ پول نے دیکھا، جسے ٹرانس ایکشن پاکستان اور غیر منافع بخش تنظیم بلیو وینز نے شائع کیا ہے، اس میں کہا گیا ہے: “غیر حساس اور غیر شامل ڈیٹا اکٹھا کرنے کے طریقہ کار کی وجہ سے پاکستان بھر میں ٹرانس آبادی کی کم نمائندگی کے بارے میں اہم تشویش ہے۔ پاکستان بھر کی کمیونٹی مردم شماری کے اعداد و شمار کو مسترد کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ صرف کے پی کے (خیبر پختونخواہ) میں تقریباً 50,000 ٹرانس کمیونٹی کے لوگ رہتے ہیں۔ “
پشاور میں مقیم ایک کارکن کترینہ اور آر ای ایس ٹی کی سربراہ جو ٹرانس لوگوں کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتا ہے، کہتی ہیں” خواجہ سراء کمیونٹی کو آبادی کی مردم شماری میں اپنی کم نمائندگی پر تشویش ہے کیوں کہ اس سے اکثریت کمیونٹی کے لئے کسی بھی فلاحی پالیسی سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہے”۔
بندیا رانا، جینڈر انٹرایکٹو الائنس
تباہ کن سیلاب نے ہماری کمیونٹی کے افراد کو گھر گھر بھیک مانگنے پر مجبور کیا
نمائندگی کا یہ فقدان ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی منصوبہ بندی اور نقصان کے تخمینے میں نظر آتا ہے، جس میں پاکستان کی ٹرانس کمیونٹی کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں قائم پیس اینڈ جسٹس نیٹ ورک میں کام کرنے والے ٹرانس رائٹس کے ایک ممتاز کارکن، نایاب علی کہتے ہیں، “بڑی تعداد میں خواجہ سراؤں نے 2022 کے سیلاب میں اپنے گھروں کو کھو دیا، لیکن اس بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔”
پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) میں جینڈر اینڈ چائلڈ سیل کی سابقہ پروگرام مینیجر تانیہ ہمایوں نے اعتراف کیا کہ 2014 میں تیار کردہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ گائیڈ لائنز میں خواجہ سراؤں پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ہمایوں کہتے ہیں، “ہدایات میں بچوں، خواتین، بزرگوں اور خصوصی ضروریات یا معذوری والے افراد کو معاشرے کے کمزور طبقات کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے، اس فہرست میں خواجہ سراؤں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا”۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی شامل کیا کہ “ہم نے کبھی بھی خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا”، ہمایوں کا کہنا ہے کہ کمیونٹی “نظر انداز” ہے کیونکہ خواجہ سراؤں کو درپیش مخصوص خطرات کو بہت کم تسلیم کیا گیا جب 2014 این ڈی ایم اے کی آفات کے دوران غیرمحفوظ گروپوں کے بارے میں قومی پالیسی کے رہنما خطوط تیار کیے گئے تھے۔
آفات پاکستان میں ٹرانس لوگوں کے خطرے کو بڑھا دیتی ہیں
پاکستان میں خواجہ سراؤں کے لئے مساوات اور شہری حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم جینڈر انٹرایکٹو الائنس کی صدر، بندیا رانا اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کس طرح آفات اکثر خواجہ سراؤں کو خاص طور پر سخت متاثر کرتی ہیں، کیونکہ بہت سے لوگ پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
رانا کہتی ہیں، “صوبہ سندھ میں گزشتہ سال سیلاب کے زیر آب آنے والے اضلاع سے 250 سے زائد خواجہ سراؤں نے روزی روٹی کی تلاش میں کراچی ہجرت کی”۔ وہ مزید کہتی ہیں، “موسمیاتی آفات کی وجہ سے خواجہ سراؤں پر جو معاشی دباؤ آیا ہے وہ کاروبار میں کمی کی وجہ سے مادی نقصانات سے کہیں زیادہ ہے، تباہ کن سیلاب نے ہماری کمیونٹی کے افراد کو گھر گھر بھیک مانگنے پر مجبور کیا”۔
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں پر کوویڈ 19 کے اثرات کے بارے میں مذکورہ بالا تحقیقی مقالہ، جس میں 271 خواجہ سراؤں کا انٹرویو کیا گیا، پتہ چلا کہ جو لوگ پہلے جنسی کام میں ملوث نہیں تھے، ان میں سے 17 فیصد نے وبائی مرض کی وجہ سے معاشی دباؤ سے نمٹنے کے لئے اس طرف رجوع کیا۔
تبدیلی کے لئے تحریکیں
محکمہ سماجی بہبود خیبرپختونخوا کی صنفی ماہر مہناز بی بی کہتی ہیں کہ سرکاری محکمے، سرکاری اعدادوشمار اور زمینی حقیقت کے درمیان واضح فرق کو محسوس کرتے ہوئے، شناختی کارڈ جاری کرنے کے لئے خواجہ سراؤں کو رجسٹر کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ شیلٹر ہومز میں تحفظ یا خوراک کی تقسیم جیسے فلاحی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی کہتی ہیں، “ہمارے پاس 416 خواجہ سراء رجسٹرڈ ہیں جو حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی اقدام کے حقدار ہیں۔”
خواجہ سراؤں کو اپنے خاندانوں کی طرف سے مسترد کیے جانے کی وجہ سے شناختی کارڈ حاصل کرنے میں درپیش مسائل کے بارے میں پوچھے جانے پر، مہناز کا کہنا ہے کہ ٹرانس کمیونٹی میں اپنے ‘گروؤں’ یعنی سرپرستوں کی یقین دہانی پر شناختی کارڈ جاری کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ 2018 میں، ایک سابق چیف جسٹس نے ٹرانس کمیونٹی کو درپیش چیلنجز میں دلچسپی لی اور حکومتی اہلکاروں کو ان کی مدد کرنے کی ہدایت کی، لیکن کمیونٹی اب بھی رسمی دستاویزات کے حصول کے لئے جدوجہد کررہی ہے کیونکہ گرو کی یقین دہانی کو تسلیم کرنے کی تجویز پر ابھی تک رسمی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
ٹرانس ایکشن کی فرزانہ ریاض نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا۔ “یہ ایک مناسب حل ہے جو، اگر نافذ کیا جائے تو، کسی بھی آفت کے پیش نظر خواجہ سراؤں کو حکومت کی فلاح و بہبود پر مبنی اسکیموں کے لئے اہل بنانے میں بہت مدد مل سکتی ہے، اور ان کے وراثتی حقوق کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر سفر کرنے، خاص طور پر حج اور عمرہ کے مذہبی سفر کے لئے،” ریاض کہتے ہیں۔
این سی ایچ آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر رضوان اللہ شاہ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 2022 میں، پاکستان کے قومی کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جو خواجہ سراؤں کے حقوق کی تنظیموں، سرکاری محکموں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہے تاکہ خواجہ سراؤں کے لئے خاص طور پر سرکاری اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے تحت حکومتی مدد تک رسائی میں درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
دریں اثنا، پاکستان کی عام آبادی کی مردم شماری کے ڈپٹی ڈائریکٹر شوکت علی خان کے مطابق، ملک کی جاری ساتویں مردم شماری میں سرکاری اعداد و شمار میں اس کوتاہی کا ازالہ کرنے کے لئے خواجہ سراؤں پر ایک خصوصی سیکشن شامل ہے۔
قمر نسیم کہتے ہیں، “پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے سب سے زیادہ غیر محفوظ 10 ممالک میں شامل ہے۔” “آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ وقت ہے کہ لوگوں بشمول پاکستان کی نظر انداز خواجہ سراء کمیونٹی کی حفاظت کے لئے بہتر کام کیا جائے ۔”