محمد ارشد کے پاس ان کھیتوں کو چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا، جن پر ان کے کنبے نے نسل در نسل کاشت کی ہے- جنگلی سؤروں کی وجہ سے فصلوں کی مسلسل تباہی نے انہیں پہاڑوں سے شہر ہجرت کرنے ، اور ایک بنگلے میں نجی سیکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے ملازمت کرنے پر مجبور کردیا-
اداسی ان کے چہرے سے عیاں ہے- “میں موسمی فصلوں اور سبزیوں کی کاشت کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی سے کافی خوش تھا۔ اس سے میں اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال سکتا تھا” ، ارشد نے بتایا، جو اب پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا ہزارہ کے ضلع ایبٹ آباد میں رہتے ہیں-
پاکستان کے پہاڑی ، معتدل ہزارہ پٹی میں، جنگلی سؤروں کے زرعی زمین میں گھس جانے سے کسان اور مقامی لوگ حیران اور خوفزدہ ہیں- بہت سوں نے پہلے کبھی جنگلی سؤر نہیں دیکھا تھا وہ ابتداء میں انہیں ریچھ سمجھ بیٹھے- اب جبکہ خطرے کا اچھی طرح ادراک ہوچکا ہے کسان ایسی فصلوں کی طرف منتقل ہورہے ہیں جو ان جانوروں کو کم مرغوب ہو اس امید پر کہ شاید اسطرح نقصان کم ہو- مقامی انتظامیہ سؤروں سے لڑنے کے لئے رہائشیوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر بھی غور کررہی ہے، باوجود اس کے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی بندوق استعمال نہیں کی-
یہ خطہ دریاۓ سندھ کے مشرق میں واقع ہے اور اس میں سات اضلاع شامل ہیں: ایبٹ آباد ، بٹگرام ، ہری پور ، مانسہرہ ، بالائی کوہستان ، نشیبی کوہستان اور تورغر۔ ان میں سے بیشتر علاقوں کے مقامی لوگوں نے سؤر دیکھنے کی اطلاعات رپورٹ کی ہیں-
ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ جنگلی سؤر (سوس سکروفا) کی پہاڑی علاقوں میں نقل مکانی کے پیچھے بنیادی وجہ آب و ہوا میں تبدیلی ہے جس نے خطّے کو ان جانوروں کے لئے آرام دہ گھر بنادیا جوکہ عموماً گرم مرطوب یا نیم گرم مرطوب علاقوں میں پاۓ جاتے ہیں-
گرم درجہء حرارت جنگلی سؤروں کو ورغلاتا ہے
محمد آفتاب ، ایک ایم فل سکالر ہیں جنہوں نے جنگلی سؤروں سے ہونے والے نقصانات کے واقعات پر تحقیقی مقالہ لکھا ہے- وہ کہتے ہیں کہ سؤر 2013 میں گلیات میں دیکھا گیا تھا- آفتاب بتاتے ہیں ،” پہلی بار انہیں ضلع ایبٹ آباد کی پہاڑی پٹری پر دیکھا گیا جہاں ایک جانور کی لاش ملی تھی- ان کی تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کھیتوں اور فصلوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ جنگلی سؤر پودوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیتے تاکہ انکی جڑیں کھا سکیں یہ گلیات کی زرخیز ماحولیات کے لئے خطرناک ہے-
“یہ جانور جڑ تک پہنچنے کے لئے مٹی کو اپنے مضبوط کھروں سے کھودتا ہے اور پورے پودے کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے کٹاؤ کا سبب بھی رہا ہے”۔
ان علاقوں میں گرمیوں کے مہینوں میں پہلے سے کہیں زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا جارہا ہے ، کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گرمی سے وہ پنکھےخریدنے پر مجبور ہوگئے ہیں — ایسی چیز جسکی ٹھنڈے پہاڑی علاقے میں ضرورت کا کبھی تصور بھی نہ تھا-
ہری پور یونیورسٹی خیبر پختونخواہ میں محکمہ ماحولیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ، ساجدہ نورین کہتی ہیں، “تحقیق اس بات طرف اشارہ کرتی ہے کہ جنگلی سؤروں کا اپنا ٹھکانہ گرم مرطوب سے پہاڑی علاقوں میں منتقل کرنے کے پیچھے ایک وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔”
جیسا کہ عالمی گرمی کے نتیجے میں پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے ، جنگلی سؤر اس خطے کو ایک آرام دہ ٹھکانے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو ان کے قدرتی گرم مرطوب خطّے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
نورین ، جنھوں نے جنگلی سؤر کی ہجرت کو دستاویز کرنے والے طلباء کی تحقیق کی نگرانی کی ہے ، بتاتی ہیں کہ جنگلی جانور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کس طرح سفر کرتے ہیں-
وہ کہتی ہیں، “یہ اسلام آباد کے نواحی علاقوں اور پنجاب کے متصل علاقے پوٹھوہار سے مری پہاڑیوں کی طرف ہجرت کرتے گۓ اور پھر مناسب ماحول کی وجہ سے جلد ہی ہزارہ کے پورے پہاڑی علاقے میں پھیل گۓ۔”
آفتاب احمد، نورین سے اتفاق کرتے ہیں، اوربتاتے ہیں کہ بدلتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گرم خطے کے گل دیودار کے درختوں سمیت کچھ پودوں کی نسلیں ، گلیات میں اگنے لگی ہیں-
یہ درخت ، جو تبت اور افغانستان سے لے کر پاکستان کے راستے ، پورے شمالی ہندوستان ، نیپال اور بھوٹان میں اگتا ہے ، عام طور پر ہمالیہ میں دیگر پائنوں سے کم اونچائی پر پایا جاتا ہے۔
نورین کا کہنا ہے کہ اربنائزیشن ، پہاڑی علاقوں میں کچرے کے ڈھیر اور سڑکوں کے نیٹ ورک کی تعمیر بھی جانوروں کی ہجرت کی وجہ ہے۔
“جنگلی سؤر نہ صرف گلیات ، مارگلہ پہاڑیوں اور ہزارہ تک محدود ہے ، بلکہ آبادی میں خطرناک حد تک اضافے کے ساتھ پورے پہاڑی خطے میں تیزی سے پھیل رہے ہیں”۔
ایسی فصلیں اگائیں جو جنگلی سؤروں کو ناپسند ہو
ایبٹ آباد میں زراعت کے افسر ساجد صدیق نے کہا کہ ہزارہ بیلٹ ، مارگلہ پہاڑیوں اور اس سے ملحقہ کشمیر کے کسان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ہجرت کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
ساجد صدیق مزید بتاتے ہیں ” اپنے علاقوں میں جنگلی سؤروں کی آمد اور اس کے نتیجے میں فصلوں کو پہنچنے والے نقصان سے ہزارہ میں کاشتکاری طبقہ پریشان ہے اور شدید مالی بحران کا شکار ہے “۔
مانسہرہ کے ضلعی زراعت کے افسر اورنگزیب تنولی نے چونکا دینے والے اعدادوشمار بتاۓ ہیں: یونین کونسل (یوسی) لسان نواب میں ، تمام کسانوں نے کاشت ترک کردی ہے ، جبکہ یوسی دربان میں ، 80% زمینداروں نے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اپنی زمین کاشتکاری کے لئے استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔
” جب میں کاشتکاروں کو اپنے علاقے میں گندم کی کاشت بڑھانے کی ترغیب دیتا ہوں تو ان کا حیران کن ردعمل ہوتا ہے ، وہ کہتے ہیں ، ‘ہماری کوششیں اور سرمایہ کاری ضائع ہوچکی ہے اور آپ مزید پیداوار کا کہہ رہے ہیں؟‘”
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ، بھمبر ضلع کے دیوا بٹالہ علاقے کے ایک زمیندار ، سکندر احمد نے کہا کہ وہ 62 ایکڑ اراضی کا مالک ہے ، لیکن خنزیر کے ریوڑوں کے حملوں کی وجہ سے وہ اپنی زمین مکئی اور آلو کی کاشت کے لئے استعمال نہیں کرسکتے –
“میں نے اس کے بجائے سرسوں کی بوائی کی ہے کیونکہ جنگلی سؤر اس فصل کو اتنا پسند نہیں کرتے جتنا وہ آلو اور مکئی کرتے ہیں۔ پھر بھی ، مجھے اندیشہ ہےکہ اس کھیت کو نقصان پہنچے گا”، سکندر احمد کہتے ہیں-
“سرسوں اور آلو کی کاشت کے منافع میں، ہر موسم میں 1 ملین روپے (6،300 امریکی ڈالر) کا فرق ہے ، جسکا نقصان میں اس جنگلی جانور کی وجہ سے اٹھا رہا”، سکندر احمد مزید بتاتے ہیں۔
اسکا ایک حل شکار ہے
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی سیاستدان اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی سابق ممبر ، آمنہ سردار نے کہا کہ جنگلی سؤروں کی وجہ سے فصلوں کی تباہی کا معاملہ بہت سنگین ہے اور اس نے پہاڑی خطے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔
“میرے ہی حلقے میں تقریبا 50٪ کسانوں نے مسلسل نقصان کی وجہ سے کاشتکاری بند کردی ہے ، “انہوں نے کہا ، مزید یہ کہ اس سے مویشیوں اور انسانوں کو بھی خطرہ لاحق ہے-
کسانوں کے مالی نقصانات کے خاتمے کی امید میں، آمنہ سردار نے یہ معاملہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اٹھایا ، جس کے نتیجے میں مارچ کے اوائل میں ضلعی ڈائریکٹر زراعت کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔
اس کا اختتام مندرجہ ذیل سفارشات کے ساتھ ہوا: جانوروں کے شکار کے لئے ٹریکنگ کتوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے ؛ تجربہ کار نشانچیوں کو اسلحہ دیا جاۓ اور انھیں جنگلی سؤروں کے خاتمے پر مامور کیا جاۓ اور اور کسانوں کو مالی امداد فراہم کی جائے۔
“ہم شمالی علاقہ میں متاثرہ کاشتکاروں کو اپنی فصلوں کے تحفظ کے لئے لائسنس کے بغیر بندوقیں استعمال کرنے کی اجازت دینے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ کیونکہ لائسنس کی فیس ہزاروں میں ہے” ، صوبے میں محکمہ وائلڈ لائف آفیسر محمد نیاز نے کہا۔
“وائلڈ لائف اینڈ بائیوڈائیورائٹی ایکٹ 2015 میں بھی ایک شق موجود ہے جس کے تحت ایک مجاز افسر کے ذریعہ ‘ نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ‘(NOC ) حاصل کیے جانے کے بعد ، ‘ناپسندیدہ مخلوق’ کے خاتمے کی اجازت دی جاسکتی ہے” ، انہوں نے مزید بتایا-
مشاورتی عمل کے دوران ، جنگلی حیات ، لائیو اسٹاک اور بلدیہ کے محکموں کے حکام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنگلی سؤر کے خاتمے کے لئے کیمیکل کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے اور اس جانور کو گولی مار کے ہلاک کیا جائے گا ، جس کی لاش ٹھکانے لگانے کی ذمہ دار میونسپل اتھارٹیز ہونگی۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ’سور کنٹرول کمیٹیاں‘ قائم کی جائیں گی ، جہاں مقامی افراد کو جانوروں کے خاتمے میں شامل جاۓگا-
“ہم جنگلی سؤروں کو مارنے اور اس کے شواہد پیش کرنے والے مقامی لوگوں کے لئے انعامات کا سوچ رہے ہیں”، زراعت کے ضلعی ڈائریکٹر نوید اقبال نے کہا-
تاہم ، آمنہ سردار نے کہا کہ مقامی لوگوں کو سؤر کے شکار میں شامل کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ “شمالی بیلٹ کے لوگ ہتھیار رکھنے یا استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں” ، انہوں نے کہا-
گلیات میں جنگلی سؤروں کے شکار کے لئے رجسٹرڈ شکاریوں کے لئے اسی طرح کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، جہاں محکمہ وائلڈ لائف کے پروپوزل میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 500 شکار اور 2 ملین روپے (12،500 امریکی ڈالر) کا بجٹ کاشتکاری طبقہ کو ریلیف فراہم کرے گا-
چونکہ حکام اور مقامی لوگ سوار سے لڑنے کے لئے تیار ہیں ، ساجد صدیق نے کہا کہ یہ سمجھنے کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ جنگلی سؤر کس طرح کھیتوں میں گھس آتے ہیں۔
“ہزارہ بیلٹ میں فصلوں ، ماحولیات اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ، اب وقت کی ضرورت ہے کہ جنگلی سؤر کو معتدل علاقوں میں ہجرت کرنے کے اسباب تلاش کرنے کے لئے ایک تفصیلی سروے کیا جاۓ۔ کسانوں کو بہتر تحفظ اور ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدامات کیے جانا ضروری ہیں” ساجد صدیق نے کہا-