خوراک

ٹڈی دل کے خطرے کو پاکستان نے مرغی کی خوراک میں تبدیل کردیا

پاکستانی سائنس دانوں نے کئی دہائیوں سے جاری بدترین ٹڈی دل کے طوفان کے بیچ کیڑوں کو پروٹین اور آمدنی میں تبدیل کرنے کے لئے ایک آسان حل کی کامیاب کوشش کی ہے-
اردو
<p>Desert locusts attack crops near Okara district, Pakistan. (Photo: Pacific Press Agency/Alamy)</p>

Desert locusts attack crops near Okara district, Pakistan. (Photo: Pacific Press Agency/Alamy)

جیسا کہ 25  سال سے  زائد عرصے سے انڈیا اور پاکستان کے زرعی خطے بڑے  ٹڈی دل حملوں کی زد میں ہیں ، پاکستان میں ایک پائلٹ پروجیکٹ نے فصلوں کو تباہ کرنے والے کیڑوں کو روکنے کے لئے لوگوں اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی کیڑے مار دوائیاں استعمال کیے بغیر،  ایک طریقہ پیش کیا ہے- 

حال ہی میں بھاری ٹڈی دل طوفان سے جے پور کاآسمان  تاریک ہوگیا۔ نیو یارک ٹائم کی خبر کے مطابق، راجستھان کے سب سے بڑے شہر کے ایک رہائشی نے کہا کہ یہ “جیسے ایلین نے حملہ کردیا ہو کے مترادف ہے”۔ تاہم ، سب سے بڑا خطرہ کسانوں اور غریب دیہی برادریوں کے لئے ہے جو پہلے ہی کوویڈ 19  سے معاشی طور پر سخت متاثر ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے پاکستان کے مشرقی صوبے سردیوں میں متاثر ہوۓ- ٹڈیوں کا تازہ جھنڈ فضا میں ظاہر ہونے لگا ہے اور توقع ہے کہ موسم گرما کے وسط تک اس میں اضافہ ہوگا۔   حکومت پاکستان نے  فروری  میں ٹڈیوں پر قابو پانے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دے دی اور تقریبا 300،000 لیٹر کیڑے مار دوا کا ہوائی چھڑکاؤ ہورہا ہے- 

سر پہ  منڈلاتا خطرہ

پاکستان کے صوبہ سندھ میں پلانٹ پروٹیکشن کے تکنیکی شعبہ کے ڈائریکٹر طارق خان نے خبردار کیا ، “مئی کے آخر اور جون اور جولائی میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی متوقع ہے”- کسان غلام سرور پنھور نے دیکھا کہ لاکھوں کیڑوں نے چند ہی گھنٹوں میں اس کی کپاس اور مورینگا کی فصلیں چٹ کر لیں۔ “اس ماہ یہ ان کا دوسرا حملہ تھا۔ دن کے وقت ہماری فصلوں پر ٹڈیوں کا حملہ ہوتا ہے ، چمگادڑ ہمارے آم کے باغات پر رات کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں اور گھروں میں کورونا وائرس دن رات ہم پر حملہ کررہاہے ، ہم کہاں جائیں  ؟” پنھور پوچھتے ہیں ، جو سندھ کے ضلع حیدرآباد میں 300 ایکڑ پرمشتمل دو فارموں کے مالک ہیں-

پشاور میں یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے ایک جانوروں کے ماہر حیاتیات سہیل احمد نے خبردار کیا کہ حکومت کی طرف سے استعمال ہونے والے کیڑے مار دوا انسانوں کے لئےکینسر کا باعث اور جنگلی حیات کے لئے زہریلی ہیں- اس وقت کوئی  حیاتیاتی محفوظ کیڑے مار دوا استعمال نہیں کی جا رہی۔ یہ کیمیائی اسپرے ماحول کے لئے زہریلے ہیں اور اس سے انسانوں ، جنگلی حیات اور مویشیوں پر بھی اثر پڑے گا۔ 

پاکستان کے صحرائی علاقوں کے قریب سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ حصوں میں کسانوں نے پہلے ہی تبدیلیاں محسوس کرلی ہیں۔ “پھلوں کے باغات میں استعمال ہونے والے کیڑے مار دوائیوں کی وجہ سے طوطے پہلے ہی دم توڑ چکے ہیں۔ میں نے یہ بھی  دیکھا ہے کہ ٹڈیوں کو کھا نے والے کووں کا آنا بند ہوگیا ہے”، پنہوار کہتے ہیں ، انھیں خدشہ ہےکہ اس سے پانی کی سپلائی ، مٹی اور فصلیں بھی اثرانداز ہونگے-  

آسان حل

ٹڈیوں کا مسئلہ بڑھنے کے ساتھ ، پاکستان کے ضلع اوکاڑہ میں ایک جدید پائلٹ پروجیکٹ نےایک پائیدار حل پیش کیا ہے جس میں کاشتکار  ٹڈیوں کو پھانس کرانھیں جانوروں کی خوراک کی چکیوں کے ذریعے ہائی پروٹین چکن فیڈ میں تبدیل  کرکے پیسہ کما سکتے ہیں۔

یہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ میں سول ملازم ، محمد خورشید اور پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے ایک بایوٹکنالوجسٹ ، جوہر علی کا آئیڈیا تھا۔ 

علی کا کہنا ہے، “ایسا کرنے پر ہمارا مذاق اڑایا گیا تھا – کسی نے نہیں سوچا تھا کہ لوگ واقعی ٹڈیوں کو پکڑ کر بیچ سکتے ہیں۔” 

خورشید کہتے ہیں کہ وہ مئی 2019 میں یمن  کی ایک مثال سے متاثر ہوئے تھے۔ اس جنگ زدہ  قحط  کا سامنا کرتےملک کا یہ موٹو تھا ، “ٹڈیوں کو فصل کھانے سے پہلے ہی کھا لو۔”

انہوں نے ضلع اوکاڑہ کا انتخاب کیا ، کیونکہ یہ پاکستان کے پنجاب کا ایک گنجان آباد دیہی علاقہ ہے۔ انہوں نے دیپالپور کے پیپلی پہاڑ جنگل میں تین روزہ آزمائشی پروجیکٹ قائم کیا ، جہاں فروری 2020 کے وسط میں بالغ ٹڈیوں کی ایک بڑے جھنڈ کی اطلاع ملی تھی۔ جنگلات کے علاقے کا انتخاب کیا گیا تھا کیونکہ اس میں کیڑے مار دوا سے آلودہ ہونے کا امکان کم تھا۔

پروجیکٹ کا موٹو ہے، ” “ٹڈیوں کو پکڑو۔ پیسہ کماؤ. فصلوں کو بچاؤ “، اس منصوبے کےتحت کاشتکاروں کو 20 روپے (0.12 امریکی ڈالر) فی کلوگرام  ٹڈی ملنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ ٹڈی صرف دن کی روشنی میں اڑتے ہیں- رات کے وقت ، وہ گھنے پودوں کے بغیر درختوں اور کھلے میدانوں پر جمگھٹے کی شکل میں رہتے ہیں اور اگلے دن طلوع آفتاب تک تقریبا بے حرکت رہتے ہیں۔ خورشید کا کہنا ہے کہ رات کے وقت ٹڈیاں پکڑنا آسان ہے۔

ٹڈیوں کےعذاب میں موسمیاتی تبدیلی کا اھم کردار ہے۔ اس کا آغاز 2019 میں ہوا جب غیر معمولی طوفانی بارش  نے سعودی عرب کے “خالی کوارٹر” ریگستانوں  کو نمی سے بھر دیا-  بڑےپیمانے پر ٹڈی دل کی پیداوار ہوئی اور  تب سے انکی افزائش جاری ہے- یہ جھنڈ مشرقی سمت ایران کے راستے موسمی ہواؤں کے ذریعہ پاکستان پہنچ گئیں- پاکستان کے مشرقی صحراؤں میں افزائش پزیر ہونے کے بعد ، پچھلی سردیوں میں ٹڈیوں نے دوبارہ اڑان بھری ہے-  

کمیونٹی نے اوسطاً سات ٹن ٹڈیاں پکڑیں- پروجیکٹ ٹیم نے ٹڈیوں کا وزن کیا اور انہیں قریبی پلانٹس کو فروخت کردیا جو چکن فیڈ بناتے ہیں- کسانوں نے ایک رات کے کام کے تقریباً 20،000 پاکستانی روپئے (125 امریکی ڈالر) فی بندہ کماۓ۔ 


اوکاڑہ ، پاکستان میں ٹڈیوں کو جمع کرنے کے لئے کمیونٹی ممبر نیٹ استعمال کرتے ہیں ( تصویر بشکریہ محمد خورشید)

علی کہتے ہیں ، “فیلڈ میں پہلے دن ہم نے اطراف میں خبر پھیلائی اور تقریبا 10-15 لوگوں آۓ”- لیکن پیسوں کی خبرجلد ہی پھیل گئی ، اور تیسرے دن تک سیکڑوں افراد آگے آۓ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کو تھیلے فراہم کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑی ، وہ اپنی موٹرسائیکلوں پر اپنا سامان لے کر آئے تھے۔ ہم نے بس یہ کیا کہ تھیلوں کا وزن کیا اور یہ چیک کیا کہ واقعی وہ ٹڈیوں سے بھرا ہوا ہے ، اور پھر انھیں انکی محنت کے عیوض ادائیگی کی- 

ہائی پروٹین

محمّد اطہر جنرل منیجر ہائی ٹیک فیڈ (ہائی ٹیک گروپ  میں ، پاکستان کے سب سے بڑے مرغی پالنے اور جانوروں کی خوراک بنانے والے) کا کہنا ہے کہ ان کی فرم نے پانچ ہفتوں کے مطالعے کے دوران برائلر مرغیوں کو کیڑوں پر مبنی خوراک کھلائی۔ “غذائیت کے تمام پہلو مثبت نکلے ہیں – ان ٹڈیوں سے تیار کردہ فیڈ میں کوئی مسئلہ نہیں تھا- اگر ہم ٹڈیوں کو بغیر اسپرے پکڑیں تو ان کی حیاتیاتی قدر زیادہ ہوگی اور ان میں مچھلی ، پولٹری اور یہاں تک کہ دودھ دینے والے جانوروں کی خوراک میں بھی استعمال کی صلاحیت ہے” ، اطہر نے مزید کہا-

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 1.5 بلین مرغیوں کی پرورش کی جا رہی ہے اسکے علاوہ مچھلی کے متعدد فارمز موجود ہیں۔ یہ سبھی ممکنہ طور پر  ٹڈیوں  سے بنی ہائی پروٹین خوراک خرید سکتے ہیں- ہم فی الحال 300،000 ٹن سویا بین کی درآمد کرتے ہیں اور فروخت کے لئے تیل نکالنے کے بعد ، ہم کچلا ہوا سویا بین جانوروں کی  خوراک میں استعمال کرتے ہیں۔ سویا بین میں 45٪ پروٹین ہے جبکہ ٹڈیوں میں 70٪ پروٹین ہے۔ سویا بین خوراک  90  روپے فی کلوگرام (0.5 امریکی ڈالر) ہے ، جبکہ ٹڈی مفت ہے– صرف قیمت انہیں پکڑنا اور خشک کرنا ہے تاکہ وہ قابل استعمال مصنوعات کے طور پر فروخت ہوسکیں” ، اطہر کہتے ہیں۔

تجارتی مفادات

ٹڈیوں کو خشک کرنے اور مل کرنے کی پروسیسنگ لاگت صرف 30 پاکستانی روپے فی کلو (0.19 امریکی ڈالر) ہے۔ چونکہ پاکستان سویا بین کی درآمد کرتا ہے ، اسے غیر ملکی زرمبادلہ کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ بچت نظر آتی ہے۔ پائلٹ اسٹڈی کے فورا  بعد، بڑے پیمانے پر تجارتی آپریٹرز کی دلچسپی کے باوجود، کورونا وائرس کی وبا نے خورشید اور علی کو اس منصوبے کے لئے مزید اقدامات  روکنےکرنے پر مجبورکردیا-  

اب جب کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن نرم کردیا گیا ہے ، علی کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار پھر شروعات کرسکتے ہیں- مقامی برادری کے لئے بس اتنی ضرورت ہے کہ وہ ٹڈیوں کو جمع کریں اور انھیں فروخت کریں۔ “وبائی مرض کی وجہ سے بہت سارے   افراد بے روزگار ہیں۔ ان سب کو ٹڈیوں کو جمع کرنے اور بیچنے کے کام پر لگایا جاسکتا ہے” ، وہ کہتے ہیں۔ مزید برآں ، چاولوں کی پسائی کرنے والی فرموں میں گرمیوں کی  اضافی  استعداد موجود ہے ، کیونکہ عام طور پر سردیوں میں چاول کی پسائی ہوتی ہے- 

” یہ ایک منفرد حل ہے – یہ ہمارے آبادی والے دیہی علاقوں میں آسانی سے پھیلایا جاسکتا ہے- ہاں ، ہمارے صحرا کے علاقوں میں جہاں ٹڈیوں کی افزائش ہوتی ہے وہاں کیمیائی اسپرے کا مطلب سمجھ آتا ہے- لیکن ان علاقوں میں نہیں جہاں کھیتوں کے ساتھ  فصلیں ، مویشیوں اور لوگوں ہے”، علی کا کہنا ہے۔  

خان جو کہ سندھ کے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں ، “یہ ایک بہت اچھا خیال ہے۔ صرف خریداری کا طریقہ کار اس میں موجود نہیں۔ مقامی برادری کو جمع کرنے والے ٹڈیوں کی قیمت کون ادا کرے گا؟ جانوروں کی خوراک  کی صنعت کو بھی اس میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔”

فوری در پیش مسئلہ

خان نے خبردار کیا ہے کہ ٹڈیوں کی کاشتکاری آبادی والے کاشتکاری علاقوں کے لئے تو مناسب ہے، “بڑے صحرائی علاقوں میں ہمیں کیمیائی سپرے پرہی انحصار کرنا ہوگا۔” ان کے مطابق ہے کہ نومبر تک ٹڈی دل میں اضافہ ہوتا رہےگا   ، اور ان کا خیال ہے کہ مربوط طریقہ کار ضروری ہے- 

نہوں نے کہا، ” 1993 سے جب ٹڈیوں کی آخری بڑا جھنڈ  پاکستان پہنچا تب سے ملک میں بڑے پیمانے پر خشک آب و ہوا  دیکھنے کو ملی ہے۔ ٹڈیوں کو  افزائش کے لئے زمینی نمی کو ضرورت ہوتی ہے” – 

یمن سے آنے کے بعد سے ، ٹڈیوں نے بغیر کسی وقفے کے تین نسلوں تک افزائش کی ہے۔ انہوں نے 2019 میں بلوچستان کی طرف اڑان بھری اور وہاں پر افزائش  شروع کردی۔ وہ موسم سرما / بہار کے آخری موسم میں سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں داخل ہوئے- خان کے مطابق ، افزائش نسل کا دوسرا موسم جو مئی سے نومبر تک جاری رہے گا شروع ہوچکا ہے۔

زرا یع FAO

پاکستان کے سرکاری لوکسٹ ایکشن پلان نے کیڑے مار دوا اور ہوائی جہاز کی خریداری کے لئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو مالی اعانت فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ایک مربوط کوشش ہے جس میں این ڈی ایم اے ، وزارت خوراک تحفظ اور صوبائی زراعت کے محکموں اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے صوبائی حکام شامل ہیں۔ ہم  صحراؤں میں ٹڈیوں کی افزائش  والے علاقوں میں بڑے پیمانے پر چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔ آپ ٹڈیوں کو ختم نہیں کرسکتے ہیں لیکن ان پر قابو پا سکتے ہیں”-

خورشید نے کہا کہ چونکہ مئی کے آخر سے بڑے پیمانے پر ٹڈی دل کی توقع کی جارہی ہے ، لہذا مقامی برادریوں کو جلد از جلد خریداری کی گارنٹی کے ساتھ ٹڈیاں  پکڑنے کی ترغیب دی جائے۔ انہوں نے نشاندہی کی ، حکومت کو پولٹری اور جانوروں کی خوراک  کے کاروباری اداروں کو ٹڈی خریدنے کے لئے  مدد اور حوصلہ افزائی دونوں کرنی چاہئے اور ان علاقوں میں اسپرے بند کرنا چاہئے جہاں برادری پر مبنی ٹڈی جمع کرنا ممکن ہے- 

احمد بڑے پیمانے پر جال استعمال  کرنے کی حکمت عملی کی حمایت کرتا ہے- وہ  کہتے ہیں  “نیٹ ، جو زمین کے کھمبے میں 50 فٹ تک اونچا ہوسکتا ہے ، ایک وقت کی لاگت ہے اور جب  ٹڈیوں کے متعدد جھنڈ  آتے ہیں تو وہ ان کو پکڑ سکتے ہیں”۔

اسلام آباد میں مقیم ایک تجربہ کار ماہر ماحولیات ہیلگا احمد کا کہنا ہے کہ نیم درخت کے تیل جیسی دیسی قدرتی کیڑے مار ادویات کی بڑے پیمانے پر تیاری بھی ایک کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ٹڈیاں ایسے پودوں کو نہیں چھوتے جن پر انکا چھڑکاؤ کیا گیا ہو-

مفید سبق

پاکستان کی مثال انڈیا کے لئے مفید ہوسکتی ہے-  زیادہ تر سال عام طور پر مغربی راجستھان اور گجرات میں  ٹڈیاں کی کچھ سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ،لیکن اس سال یہ پھیلاؤ مشرقی راجستھان تک پھیل گیا ہے ، اور مہاراشٹرا ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں ٹڈیوں کےجھنڈ دیکھے گۓ ہیں۔ موسم سرما کے غیر معمولی نم موسم نے ٹڈیوں کے پھیلنے کا راستہ ہموار کیا ، حالانکہ وسطی ہندوستان میں ہیٹ ویو سے کچھ  بہتری ممکن ہے۔

رینا سعید خان پاکستان میں مقیم ایک فری لانس ماحولیاتی صحافی ہیں