“میرے سر پر آنے والے مالی نقصانات کا خوف تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔”، امین اللہ نے کہا- امین اللہ ، جو شمالی پاکستان کے سوات میں ٹراؤٹ فارم کے مالک ہیں ، کہتے ہیں کہ ان کا مچھلیوں کا سارا ذخیرہ جلد ہی ضائع ہوجائے گا اس پریشانی میں انکی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے-
خیبر پختونخوا میں سوات کی حسین وادی میں امین اللہ کے فارم میں 15،000 کلو گرام ٹراؤٹ ہے۔ عام طور پر ، اس مقدار میں مچھلی تقریبا 15 ملین روپے (90،000 امریکی ڈالر) میں فروخت ہوگی۔ تاہم ، وہ سیکٹر ، جس کا سب سے زیادہ انحصار سیاحت کی طلب پر ہے، کورونا وائرس وبائی بیماری کے نتیجے میں عائد پابندیوں کا شکار ہے۔ 24 مارچ کو ، پاکستانی حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ، جس میں کوویڈ 19 کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوشش میں سیاحت کے لئے سفر پر پابندی عائد کردی گئی۔
مین اللہ نے تھرڈ پول کو بتایا ، “ہوٹلوں اور ریستورانوں کی بندش کی وجہ سے مارکیٹ میں ٹراؤٹ کی طلب صفر ہوگئی ہیں نتیجتاً میری مچھلیاں تالاب میں پڑی ہوئی ہیں۔” آمدنی کا ذریعہ کھونے کے ساتھ ساتھ ، مچھلیوں کے فارموں کے مالکان بڑی مچھلیوں کو کھانا کھلانے میں زیادہ رقم خرچ کرنی پڑرہی ہے۔
امین اللہ کا تخمینہ ہے کہ اس کے اضافی ماہانہ اخراجات 750،000 روپے (4،450 امریکی ڈالر) میں مچھلی کو کھانا کھلانے اور پانچ مزدوروں اور ایک چوکیدار کے لئے ادائیگی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی آمدنی میں کمی کا مطلب ہے کہ وہ فیڈ کی حالیہ فراہمی کے لئے ادائیگی نہیں کرسکے ہیں۔
امین اللہ کے مطابق اپریل میں ، مچھلیاں پوری طرح سے تیار تھیں اور فروخت کے قابل تھیں- فارمز اپنا کاروبار چلاتے رہتے ہیں تاکہ ٹراؤٹ اپریل اور اگست کے درمیان دستیاب ہو جوکہ سیاحت کے عروج کا وقت ہے۔
سیاحت خطّے کے لئے اہم ہے
خیبرپختونخوا کی وزارت سیاحت کا اندازہ ہے کہ سنہ 2019 میں تقریبا 20 لاکھ افراد نے شمالی صوبے کے پہاڑی اضلاع کا دورہ کیا۔ صرف سوات ، جو خیبر پختونخوا میں ملاکنڈ ڈویژن میں ہے ، نے لگ بھگ 10 لاکھ سیاحوں کو راغب کیا۔ گلگت بلتستان سے متصل علاقے میں ، محکمہ سیاحت نے بتایا کہ 2017 میں تقریبا 1.72 ملین افراد تفریح کی غرض سے آۓ۔
گلگت بلتستان میں 180 کے قریب اور خیبر پختونخوا میں 200 ٹراؤٹ فش فارم ہیں۔ ان میں سوات کی تعداد 150 سے زیادہ ہے۔ عثمان علی سوات ٹراؤٹ فش فارمنگ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ہیں اور اپنا فارم چلاتے ہیں۔ علی نے تھرڈپول کو بتایا کہ ہر مچھلی کے فارم میں 10،000 کلو اور 15،000 کلوگرام کے درمیان ذخیرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف سوات میں 300 ٹن تک کا کھانا ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ علی نے بتایا کہ 300 ٹن ٹراؤٹ کی تخمینی قیمت 300 ملین روپے(1.8 ملین امریکی ڈالر) کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سوات میں تقریبا 1500 افراد روزگار کے لئے ٹراؤٹ فارموں پر براہ راست انحصار کرتے ہیں، جبکہ ہزاروں دیگر ہوٹلوں، کھانے پینے کی جگہوں اور دکانوں میں ملازم افراد متاثر ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے دور دراز ضلع چترال میں ، حافظ الاسد کو اپنے 2،000 کلو ذخیرے کی قسمت کی فکر ہے۔
چترال میں سات ٹراؤٹ فارم ہیں جن میں ایک حکومت کی ملکیت ہے۔ اسد بتاتے ہیں کہ ڈیلرز بھی اس بارے میں بے یقین ہیں کہ وبائی امراض سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں کیا کرنا ہے۔
گلگت بلتستان میں، غیزر ٹراؤٹ فش فارم ایسوسی ایشن کے صدر قاری مجاہد نے بتایا کہ طلب میں کمی کے جواب میں ، زیادہ تر کاشت کاروں نے اپنی مچھلی کی سرکاری قیمت 1000 روپے (6.06 امریکی ڈالر) فی ٹراؤٹ سے کم کر کے 800 روپے (4.84 USD) کردی ہے۔
گلگت بلتستان کے محکمہ فشریز سے تعلق رکھنے والے غلام محی الدین کے مطابق مچھلی کی قیمتوں میں کمی سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور وہ ٹراؤٹ کی کھپت میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ تاہم ، نجی فش فارم مالکان نےتھرڈ پول کو بتایا کہ مقامی لوگ سارا اسٹاک استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔
وقت کے خلاف جنگ
جاہد نے کہا ، “ہمارے لئے [لاک ڈاؤن] پورے نظام کومنجمد کر رہا ہے کیونکہ فروخت نہ ہونے کی وجہ سے ہم کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے اور روزانہ کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے ہیں۔” علی نے بتایا کہ انکی 20،000 مچھلیوں کو روزانہ 200-250 کلو فیڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ، انھیں یہ کم کرکے 100 کلوگرام کرنا پڑی ہے۔ اس کے نتیجے میں ، روزانہ ان کی 250 سے 300 مچھلییں مر رہی ہیں کیونکہ انہیں مناسب کھانا نہیں مل رہا ہے۔
علی نے بتایا کہ نقد رقم کی عدم ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ ڈیلر فارموں کو قرض کی بنیاد پر مچھلی کا کھانا فراہم کررہے ہیں۔ لیکن ڈیلر بھی فیڈ کے لئے زیادہ قیمت وصول کررہے ہیں۔
معاملات کو مزید خراب کرنے کیلئے، جیسے جیسے مچھلی کی عمر اور وزن بڑھتا ہے ان میں بیماری کا زیادہ خطرہ ہوتا جاتا ہے- تالابوں میں زیادہ تعداد میں مچھلیاں بھی مسائل میں معاون ہیں-
علی نے کہا کہ کاشتکار نہیں جانتے کہ اگر صورتحال بدستور جاری رہی تو اسٹاک کا کیا ہوگا-=- کاشتکار قرض لے کر اپنی مچھلیوں کو کھانا نہیں کھلا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹراؤٹ کی طلب جلد نہ شروع ہوئی ، کسانوں میں اپنی مچھلیاں فروخت کرنے کی امید ختم ہوجاۓ گی اور وہ سوات ندی میں مچھلیاں چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
علی نے زور دے کر کہا کہ اگرچہ ابھی تک کاشت کاروں نے اسٹاک کو ختم کرنے کا براہ راست فیصلہ نہیں کیا ہے ، لیکن فیڈ کی مقدار کو کم کرنا مؤثر طور پر ختم کرنے جیسا ہی ہے۔
انہوں نے سوات اور گلگت بلتستان میں کولڈ اسٹوریج کی سہولیات قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسطرح فارم مالکان اپنا اسٹاک منجمد کرسکیں گے اور بعد طلب بحال ہونے پر ان کو فروخت کرسکیں گے۔ فارموں میں فی الحال ذخیرہ کرنے کی ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جغرافیہ اور حیاتی قسم پریشانیوں میں اضافہ ہیں
براؤن اور رینبو ٹراؤٹ کو 1900 کی دہائی کے اوائل میں انگریزوں نے پاکستان میں متعارف کرایا تھا، یہ مقامی جنس نہیں ہے۔ “دریائے سوات کے صاف شفاف ٹھنڈے پانی کی وجہ سے ، ضلع کے بالائی خطے ، خاص طور پر مدیان ، کالام ، اتر ور ، جبرال ، ماتیلتن اور اسوش ، ٹراؤٹ مچھلی کی کاشت اور افزائش کا مرکز بن گئے جب حکومت کو انکی صلاحیتوں کا ادراک ہوا اور اس کے بعد اقدامات اٹھائے گۓ۔ جس نے 1984 میں تجارتی پیداوار میں مدد کی ،” یونیورسٹی آف پشاور کے محکمہ زیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر زیغم حسن نے کہا۔
ایک گوشت خور مچھلی ہونے کی وجہ سے ، ٹراؤٹ کی خوراک مہنگی ہوتی ہے ، خاص کر جب یہ بڑی ہوجائے۔
اس کو زندہ رہنے کے لئے بھی مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ صرف ملک کے ٹھنڈے اور معتدل حصوں میں پروان چڑھتی ہے۔ مصنوع کو ٹھنڈا اور تازہ رکھنے کی کسی ٹیکنالوجی کےبغیر، اسے پاکستان کے دیگر حصوں تک پہنچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
حکومت کی مدد
محکمہ ماہی گیری گلگت بلتستان کے محی الدین نے بتایا کہ علاقائی حکومت ٹراؤٹ کاشتکاروں کی مشکلات سے واقف ہے اور انہوں نے 4.2 ملین روپے(25،00 امریکی ڈالر) مالیت کی مفت خوراک مہیا کرنے کا انتظام کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ کے پاس مالی مدد فراہم کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں ، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اگر صورتحال برقرار رہی تو وہ حکومت کو تجاویز پیش کریں گے۔ محی الدین نے کولڈ اسٹوریج کے قیام کی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
سوات میں سرکاری آرگنائزیشن مدین ٹراؤٹ ٹریننگ سینٹر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جعفر یحییٰ نے بتایا کہ انہوں نے حکومت خیبر پختونخوا کو کچھ تجاویز ارسال کیں۔ نیز حکومت سے یہ درخواست کرنے کے ساتھ کہ کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کا قیام عمل میں آئے ، جس کے لئے کسان ماہانہ کرایہ ادا کریں گے ، ان کی تجاویز میں کچھ عرصہ کے لئے مفت فیڈ فراہم کرنا ، یا کم سے کم رعایتی نرخوں پر بھی شامل ہے۔
یحییٰ نے انتہائی نرم شرائط پر مائیکرو قرضوں کا بندوبست کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے تاکہ کاشتکار فارم اور فیڈ اسٹاک کو چلاتے رہیں۔ انہوں نے دونوں مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر زور دیا کہ وہ کاشت کاروں کی مدد کریں اور اس طرح ہزاروں افراد کے روزگار میں مدد کریں۔
آئندہ سال کا کاروبار بھی متاثر
سوات ٹراؤٹ فش فارمنگ ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے علی نے کہا کہ اس لاک ڈاؤن کا اثر اگلے سال کے کاروباری دور پر بھی پڑے گا۔
سوات اور گلگت بلتستان میں ، سرکاری شعبے کےفارم مچھلی کے انڈے لگانے اور نجی شعبے کو مچھلی کے بچے فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح سرکاری شعبے کے فارم نجی شعبے میں مچھلی کی کاشت کو فروغ دیتے ہیں اور پبلک فنڈز تیار کرتے ہیں۔
تاہم ، علی نے کہا ، نجی شعبے کے فارمز میں اب بچہ مچھلی خریدنے کے لئے نہ فنڈز ہیں نہ ہی جگہ ہے۔ انہوں نے کہا ، “اگر ہم موجودہ اسٹاک سے محروم ہوجاتے ہیں تو ، اس سے اگلے سال کی آمدنی پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ نیا اسٹاک خریدنے کی ہماری اہلیت نہیں ہے۔”
پچھلے سال گلگت بلتستان میں ، محکمہ فشریز نے تقریبا 13 لاکھ بچہ مچھلی فروخت کی۔ یہ اب پوری طرح تیار ہوچکے ہیں لیکن کاشتکار انہیں فروخت نہیں کرسکتے۔
کسی بچہ مچھلی کو بالغ ٹراؤٹ بننےمیں 12-14 ماہ لگتے ہیں ،اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا اسٹاک اگلے سال سیاحوں کے سیزن کے لئے تیار ہوگا یا نہیں۔
اس سے قبل ، گلگت بلتستان میں اس شعبے کو ترقی دینے کے منصوبے تھے ، جس میں متعدد فارم زیر تعمیر ہیں اور ان کی مجموعی تعداد 200 ہوجائے گی۔ اس سے مقامی لوگوں کے لئے پہلے سے منافع بخش کاروبار کو مزید بڑھانے کے منصوبے کو دھچکا لگے گا-
پابندی کا خاتمہ
مدیان ٹراؤٹ ٹریننگ سنٹر سے تعلق رکھنے والے یحییٰ نے کہا کہ سیکڑوں ٹن پوری طرح سے تیار مچھلی کو سنبھالنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کا واحد حل ہوٹلوں اور ریستورانوں پر عائد پابندی ختم کرنا ہے اور کوویڈ ۔19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل کرتے ہوئے سیاحوں کو واپس لانے کی اجازت دینا ہے۔
آل سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان نے کہا ، “سوات میں ہوٹل انڈسٹری کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے پچھلے تین ماہ کے دوران 3.5 ارب روپے(20.2 ملین ڈالر) کا زبردست نقصان پہنچا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اگر پابندی ختم ہوجاتی ہے تو ہوٹل انڈسٹری کاروبار کرنے کے لئے حکومت کے مقرر کردہ تمام ایس او پیز کی پیروی کرے گی۔
31 جولائی تک ، پاکستان میں 903 کوویڈ 19 نئے کیسز تھے۔
15 جولائی کو ، وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان میں دیامر باشا ڈیم منصوبے کا آغاز کرنے پر ملک میں سیاحت کی دوبارہ واپسی کا عندیہ دیا-
“سیاحت سست روی کے ساتھ دوبارہ شروع ہورہا ہے۔ یہ ویسا ہی نہیں ہوگا جیسے وبائی امراض سے پہلے تھا ، لیکن ہم اسے آہستہ آہستہ کھولنا شروع کر سکتے ہیں اور اس کے لئے ایس او پیز تیار کرنا شروع کر سکتے ہیں” ،خان نے کہا-
عدیل سعید پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور @adeelsaeedapp پہ ٹویٹ کرتے ہیں-