امین بیگ شمالی پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں واقع گاؤں اشکاروارز میں یاکوں سے روزی کماتے ہیں۔ ان کے پاس لمبے بالوں والے 20 سے 40 مویشی تھے لیکن تقریباً 10 سال پہلے انہیں ایک ہی وقت میں 12 مویشی بیچنے پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں پیٹ لینڈ اتنا زیادہ تباہ ہو چکا تھا کہ جانوروں کو پالنے کے لئے مناسب چراگاہیں نہیں بچی تھیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی ترین ضلع پہاڑی چترال میں، پیٹ لینڈز کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پچاسی سال پہلے، لوگوں نے دلدلی کوئلے کو بڑی مقدار میں کھودنا شروع کیا، اسے خشک کیا، اور بریکٹس میں باندھ کر اسے گرم کرنے اور کھانا پکانے کے لئے ایندھن کے طور پر جلانا شروع کیا۔
بیگ کا کہنا ہے کہ انہیں 12 یاک فروخت کرنے کا افسوس ہے۔ ” یاک کی تعداد کم ہونے کا مطلب ہے ضروری اشیاء خریدنے کے لئے کم رقم ۔ یہ وہ پیسے تھے جو میں گلگت یا چترال کے بازاروں میں یاک بیچ کر کمایا کرتا تھا۔ لیکن یہ حالت زار وادی کے تمام دیہاتوں کے تقریباً ہر باشندے کی ہے جہاں پیٹ لینڈ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔‘‘
پیٹ لینڈز، ویٹ لینڈ کی وہ قسم ہے جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں، یہ صرف اونچائی والے چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ دلدلی کوئلہ کیچڑ میں اگنے والے پودوں سے پیدا ہوتا ہے: جب پودے مر جاتے ہیں تو وہ مکمل طور پر گل نہیں پاتے اور صدیوں تک جزوی طور پر پانی میں محفوظ رہتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این ) کے مطابق پیٹ لینڈز شدید گرمی کو کم کرتے ہیں کیونکہ وہ محیطی درجہ حرارت کو کم کرتے ہیں، اور ہوا اور پانی کے معیار کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ دنیا کی دیگر تمام اقسام کے پودوں سے زیادہ کاربن ذخیرہ کرتے ہیں۔ جو اس وقت خارج ہوتی ہے جب وہ خشک یا کم ہو جاتے ہیں۔
حامد احمد میر نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 2008 اور 2012 کے درمیان پاکستان ویٹ لینڈز پروگرام (پی ڈبلیو پی) کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ بروغل پہاڑی درہ میں 2,800 ہیکٹر پیٹ لینڈ موجود ہے۔ (میر اس وقت پی ڈبلیو پی میں کام کر رہے تھے، اور اب اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام میں پروجیکٹ مینیجر ہیں۔) بروغل پہاڑی درہ، چترال کی شمالی ترین وادی ہے اور ہندوکش پہاڑی سلسلے سے گزرتی ہے۔ دس سال بعد، محققین نے اندازہ لگایا کہ وادی بروغل میں پیٹ لینڈز تقریباً 1,190 ہیکٹر پر محیط ہیں۔
میر نے کہا کہ چترال میں پیٹ لینڈز کی حالت کے بارے میں کوئی حالیہ، جامع تجزیہ نہیں ہے۔ پی ڈبلیو پی نے 2008-12 کے سروے سے اندازہ لگایا ہے کہ ضلع میں پیٹ لینڈ 5,000 ہیکٹر پر محیط ہے۔
بروغل کے ساتھ ساتھ، شا جونالی، گوبور، کریم آباد، لسپور، گولین، میلپ، مدک لشٹ اور گولن کی وادیوں میں پیٹ لینڈز موجود ہیں۔
بروغل نیشنل پارک چترال کے پیٹ لینڈ کی وسیع تصویر پیش کرتا ہے
بروغل نیشنل پارک کے ایک سابق ملازم شفیق اللہ خان نے کہا کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ اس علاقے سے کتنا پیٹ لینڈ غائب ہو چکا ہے، لیکن اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ بطور بروغل کے باقاعدہ مسافر، خان نے وادی کے اس پار دیہاتوں میں پیٹ لینڈ کے بہت سے ٹکڑوں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔
میر نے کہا، “بروغل میں پیٹ لینڈز کی اہمیت کو مقامی لوگوں نے ابھی تک نہیں سمجھا ہے، اور حکومت کی طرف سے ابھی اسے ترجیح دینا باقی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “بروغل میں پیٹ لینڈز کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی، لیکن ان کے تحفظ کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔”
میر نے متنبہ کیا کہ اگر پیٹ لینڈ ختم ہو گئے تو لوگ وادی سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
میر کے ساتھ بروغل نیشنل پارک کے پیٹ لینڈز پر 2010 کے مطالعے میں شریک مصنف، خورشید علی شاہ جو اب اسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن میں کام کرتے ہیں، نے کہا کہ تحفظ کے کسی بھی منصوبے کی کامیابی کےلئے مقامی لوگوں کو ایندھن کا متبادل ذریعہ فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کہا، “ڈیٹا کی کمی بروغل اور چترال کے دیگر مقامات پر پیٹ لینڈ مینجمنٹ کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔”
2020 کے مطالعے کے مصنفین نے بتایا کہ پاکستانی ہمالیہ میں اونچائی پر واقع پیٹ لینڈز کی تقسیم کا ابھی تک تفصیل سے مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ وادی بروغل میں اونچائی پر واقع پیٹ لینڈز کا زمینی مطالعہ سخت موسمی حالات کی وجہ سے مہنگا اور مشکل ہے۔
تاہم، جامع اعداد و شمار کے بغیر بھی ماحولیاتی اثرات کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کلائمیٹ کے ڈسٹرکٹ میٹرولوجسٹ منظور احمد نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ پیٹ لینڈ کی مسلسل کمی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹ لینڈ اور اس کی ٹھنڈک کا نقصان چترال کے نازک ماحولیاتی نظام میں موسمیاتی تبدیلیوں کو براہ راست تیز کرے گا، جہاں 500 سے زیادہ گلیشیئر ہیں۔
بروغل نیشنل پارک کے سابق ملازم خان نے کہا کہ جنگلی حیات متاثر ہو رہی ہے اور اس علاقے میں پرندوں کی متعدد اقسام جن میں کرلیو، اسنائپ، پلور اور واربلر شامل ہیں، تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ برفانی چیتے، بھورے ریچھ، نیلی بھیڑ اور لنکس وادی میں برسوں سے نہیں دیکھے گئے۔
بروغل کے سابق گاؤں ناظم امین جان تاجک نے کہا، ” قدرتی ماحول کے نقصان کی وجہ سے یاک کی آبادی میں کافی کمی آئی ہے۔ یاک فارمنگ مقامی لوگوں کے لئے آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی۔‘‘
زراعت اور انفراسٹرکچر مسائل میں اضافہ کرتے ہیں
بروغل اور وسیع علاقے میں پیٹ لینڈ کی تباہی کی بنیادی وجوہات گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے لئے اس کا نکالنا اور زمین کو زراعت اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے تیار کرنا ہے۔
تاجک نے کہا، “گزشتہ دو سے تین سالوں کے دوران وادی میں زرعی سرگرمیوں نے مقامی لوگوں کو اپنے پیٹ لینڈز خالی کرنے کی ترغیب دی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ وادی میں زراعت نسبتاً نئی ہے اور اس کی جانب ایک بین الاقوامی این جی او نے مقامی آبادی کی توجہ دلائی ہے۔ اس نے علاقے کو پھلیاں، مٹر، آلو، ٹماٹر اور دیگر سبزیاں اگانے کے لئے موزوں قرار دیا ہے تاکہ لوگ اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔ چترال کی 12.45فیصد آبادی 2019-20 میں غذائی عدم تحفظ کا شکار تھی، جس پر تاجک نے کہا کہ غربت میں رہنے والے بہت سے لوگوں نے اس خیال کا خیر مقدم کیا۔
تاجک نے مزید کہا کہ 10 سال پہلے ایک ٹریک، جو 4×4 کے لئے قابل رسائی تھا، وادی بروغل میں پیٹ لینڈ سے گزار کے تعمیر کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا زمین کی ساخت پر خاصا اثر پڑا ہے، کیونکہ سڑک کی تعمیر کے لئے یہاں سے پانی نکالا گیا تھا۔
نتیجتاً، “پیٹ لینڈز کو پانی کی فراہمی یکسر بند ہو گئی۔ پیٹ لینڈز کو برقرار رہنے کے لئے بارہ ماہ پانی کی فراہمی ضروری ہے۔ تاجک نے مزید کہا کہ چترال کو افغانستان میں واخان بارڈر سے ملانے کے لئے وادی سے تقریباً 30 کلومیٹر سڑک تعمیر کی جانی ہے جس سے پیٹ لینڈز کو مزید نقصان پہنچے گا۔
متبادل ایندھن کی ضرورت
2010 میں، وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی اور یو این ڈی پی کے مطالعے میں کہا گیا تھا کہ جنگلی حیات کی پناہ گاہ میں کمی واقع ہوئی ہے، جو تنبیہ ہے کہ پیٹ لینڈز 20-30 سالوں میں ایک “بنجر زمین” بن جائیں گے۔ وادی بروغل کے کچھ دیہات، بشمول اشکاروارز جہاں امین بیگ اپنے یاک پالتے ہیں، پہلے ہی ” کمیونٹی کے مشترکہ پیٹ لینڈز سے اپنے حصّے کا تقریباً 90 فیصد ” نکال چکے تھے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومتی پیٹ لینڈ کا رخ کر رہے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے مقامی لوگوں کو دلدلی کوئلے کے دھوئیں سے سانس کی بیماریاں لاحق ہو گئی تھیں۔
چترال وائلڈ لائف ڈویژن کے ایک فارسٹ آفیسر، فاروق نبی نے کہا کہ اس سال بروغل کے علاقے کے سات دیہاتوں میں خاندانوں میں پریشر ککر تقسیم کئے گئے، جس کا مقصد دلدلی کوئلے کی طلب کو کم کرنا تھا کیونکہ پریشر ککر کو کم گرمائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام وادی میں تین مائیکرو ہائیڈرو پاور اسٹیشنوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ متبادل توانائی کے ذریعہ لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکے۔