شمالی پاکستان میں تخت نصر۱تی کبھی اپنی سرسبز و شادابی کے لیے جانا جاتا تھا۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے اس علاقے میں زندگی بہت مختلف ہو گئی ہے۔ ٹیوب ویل سوکھ گئے ہیں جس سے مکین میٹھے پانی کی تلاش میں گہرائی تک زمین کھودنے پر مجبور ہیں۔ ایک مقامی رہائشی سرمد خٹک نے کہا اس سال ہمیں 225 میٹر گہری بورنگ (پانی نکالنے کے لیے زمین میں ڈرل کرنے کا عمل) کرنے کے بعد پانی ملا۔ اس کی 1.6 ہیکٹر اراضی 2013 سے بنجر ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں بےترتیب اور ناکافی ہوگئ ہیں جبکہ کنویں خشک ہو چکے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں زیر زمین پانی غیر تحفظ پسندانہ شرح سے استعمال ہو رہا ہے۔
صوبائی حکومت کے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینئر عرفان رشید نے کہا کے پورے خیبرپختونخواہ میں زیر زمین پانی کی مقدار میں کمی ہو رہی ہے۔ تاہم، یہ جنوبی اضلاع میں یہ مسئلہ شدید ہے”۔
خیبر پختونخواہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (ای پی اے) میں موسمیاتی تبدیلی کے یونٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر افسر خان نے رشید بات سے متّفق ہوتے ہوئے کہا کہ زمین کی سطح کے نیچے پایا جانے والا پانی اکثر پینے کے لیے بہت زیادہ کھارا ہوتا ہے، میٹھا پانی نکالنے کے لیے بہت گہرائی میں بورنگ کرنی پڑتی ہے۔ خان نے کہا کہ 2014 میں، صوبائی حکومت نے چونتیس میں سے پانچ اضلاع – دیر لوئر، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، لکی مروت اور ٹانک کو ان نازک ترین علاقوں میں شمار کیا ہے جہاں پینے کا پانی مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں سے چار علاقےصوبے کے جنوب میں واقع ہیں۔
خیبرپختونخوا کے زیر زمین پانی کے تمام پہلوؤں کا مکمل احاطہ کرنے والا آخری مطالعہ 1988 میں ہوا تھا، اور اس مطالعے میں اس علاقے کو شامل نہیں کیا گیا تھا جسے پہلے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (FATA) کہا جاتا تھا اس کے بعد سے مزید کوئی جامع مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔
دی تھرڈ پول نے خیبرپختونخواہ کے نو سرکاری محکموں سے, جوکہ زمینی پانی کی سطح، مقامات اور نکالنے کی شرح کے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں، صوبائی سے لے کر ضلعی سطح تک، معلومات کے حصول کے لیے درخواست کی۔ ان سب نے فنڈز اور آلات کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اعداد و شمار کی کمی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ واٹر ٹیبل (زیر زمین پانی کی سطح) کتنی تیزی سے گر رہاہے۔
بے قائدہ شہرکاری (یعنی دیہاتوں کو شہروں میں تبدیل کرنے کا عمل), صدیوں پرانے آبپاشی کے طریقے اور پالیسیوں پر عمل درآمد نہ ہونا زیر زمین پانی کی سطح پر اثر انداز ہو رہا ہے۔خیبرپختونخوا میں مٹی اور پانی کے تحفظ کے ڈائریکٹر جنرل یاسین وزیر
جامع اعداد و شمار کی کمی کے باوجود، حالیہ ضلعی سطح کے اعلانات اس مسئلے کے درجات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
. رواں سال جون میں سوات کے لوگوں سے پانی کا استعمال کم کرنے کی گذارش کی گئی تھی۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی سوات (ایک پبلک سیکٹر کمپنی جو سوات میں پانی کا انتظام کرتی ہے) کے سربراہ شیدا محمد خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ضلع کو خشک سالی اور زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کے مسئلے کا سامنا ہے۔
اسی طرح کی اپیل باجوڑ ضلع کے واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے جون میں بھی جاری کی تھی۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے 2019 کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ پچھلے چار سے پانچ سالوں میں، مہمند اور خیبر کے اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح 60 میٹر سے زیادہ گر گئی ہے۔
چونکہ خیبر پختونخواہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (ای پی اے) کے پاس موسم کی نگرانی کرنے والے اسٹیشنز اور اس کا اپنا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، اس لیے خان نے محکمہ موسمیات پاکستان (پی ایم ڈی) کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شدید گرمی کی لہروں اور خشک سالی نے پانی کے اخراج میں اضافہ کیا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو اور بھی کم کر دیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پانی کی فراوانی ہے
دستاویز پر، خیبر پختونخوا کے بارے میں عمومی نقطہء نظر یہی ہے کہ یہاں زمینی پانی کے ساتھ ساتھ سطحی پانی کے بھی وافر وسائل موجود ہیں ۔ 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت، صوبے کو دریائے سندھ کے پانی کا 8.78 ملین ایکڑ فٹ مختص کیا گیا تھا۔ لیکن صوبائی حکومت کے مطابق، جہاں پانی کی ضرورت ہے وہاں تک پانی پہنچانے کے لیے انفراسٹرکچر کی کمی کا مطلب ہے کہ خیبرپختونخوا اپنی مختص رقم کو 6 ملین ایکڑ فٹ سے کم استعمال کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، لوگ ٹیوب ویلوں سے پانی تک رسائی حاصل کرتے ہیں، زمینی پانی کو باہر نکالتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے محکمہ منصوبہ بندی اور ترقی کے مطابق، صوبہ آبپاشی اور گھریلو مقاصد کے لیے سالانہ 4.2 ملین ایکڑ فٹ زمینی پانی نکالتا ہے۔
محبوب عالم جو کہ ایک ہائیڈرو لوجسٹ ہیں اور پشاور جو کہ خیبر پختونخواہ کا دارالحکومت ہے وہاں پانی اور صفائی کی خدمات کے جنرل مینیجر پروجیکٹس ہیں، نے کہا کہ دنیا بھر میں آبپاشی کے لیے زمینی پانی نکالا جاتا ہے، لیکن وہ وسائل کی صلاحیت کو جانتے ہیں اور ان کے پاس پانی کو ریچارج ( یعنی بارش اور سیلاب کے پانی کو زمین میں جمع کرنے کے مختلف طریقے) کرنے کی حکمت عملی ہے جس کی ہمارے پاس کمی ہے۔ عالم نےکہا کہ زمینی پانی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے سیٹلائٹ اور زمینی ڈیٹا دونوں کا استعمال کرتے ہوئے سائنسی نقشہ سازی کی فوری ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا میں برائے تحفظ مٹی اور پانی کے ڈائریکٹر جنرل یاسین وزیر نے کہا کہ ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ زمینی پانی نکالتے ہیں۔ اور اس طرح یہ بے قائدہ شہرکاری (یعنی دیہاتوں کو شہروں میں تبدیل کرنے کا عمل), صدیوں پرانے آبپاشی کے طریقے اور پالیسیوں پر عمل درآمد نہ ہونا زیر زمین پانی کی سطح پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلز زمینی پانی کے اخراج کو تیز کرتے ہیں
قومی غذائی تحفظ اور تحقیق کی وزارت نے 2019 میں 700 ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے چلانے اور اس کے ساتھ ساتھ تالابوں کی تعمیر اور واٹر شیڈ بنانے جیسے دیگر اقدامات کی منظوری دی۔ جبکہ مؤخر الذکر زمینی پانی کو ری چارج کرنے میں مدد کر سکتا ہے، شمسی توانائی سے چلنے والے پمپوں نے مزید زمینی پانی نکالنا سستا کر دیا ہے۔
اب، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے جواب میں، شمسی توانائی سے چلنے والے پمپوں کی تعداد بڑھنے کا امکان ہے۔ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ملک بھر میں گرڈ سے منسلک 30,000 ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے چلانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ زیر زمین پانی کی کمی اور دیگر ماحولیاتی خدشات کے پیش نظر نئے ٹیوب ویلوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
غیر منافع بخش تحقیقی ادارے انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں واٹر ماڈلنگ کے ایک علاقائی محقق ڈاکٹر شاہد اقبال نے کہا کہ 12.5 ہارس پاور کا شمسی ٹیوب ویل روزانہ 35,000 گیلن پانی نکالتا ہے، جو کہ ماہانہ 1.5 کیوسک ہے۔ ریچارج کی شرح کے مقابلے میں یہ کافی تشویشناک ہے۔
پشاور کی زرعی یونیورسٹی کے ایگرونومسٹ (زرعی معاشیات کے ماہر) محمد اکمل نے نشاندہی کی کہ شمسی توانائی سے چلنے والی ٹیوب ویلوں کے بارے میں اصل تشویش ریگولیشن کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا، “پالیسی اور آبپاشی کی جدید تکنیکوں کی عدم موجودگی میں یہ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل دن بھر پانی نکالیں گے، جیسا کہ موجودہ والے کر رہے ہیں، اور پہلے سے دباؤ کے شکار وسائل پر مزید بوجھ بڑھا رہے ہیں۔
غیر منصوبہ بند نقل مکانی نے پشاور کے زیر زمین پانی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، میونسپلٹیز، اور پانی اور صفائی کی کمپنیوں کے ماہرین نے دی تھرڈ پول پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا کی طرح خیبر پختونخواہ میں زراعت پانی کا سب سے بڑا صارف ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ صوبے کی بڑھتی ہوئی آبادی اور شہرکاری بھی شہروں میں زیر زمین پانی کی کمی کی اہم وجوہات ہیں۔
خیبرپختونخوا میں مجموعی شرح پیدائش بہت زیادہ ہے۔ 2017 میں یہ شرح 4.0 پر تھی جو کہ 2.1 کی تبدیلی کی شرح سے بہت زیادہ ہے، اور پاکستان کی مجموعی شرح پیدائش 3.4 سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ حکومت نے نشاندہی کی ہے کہ اس کا مطلب پانی کی طلب میں اضافہ ہے۔
15 میٹر
ضلع پشاور میں 30 سالوں میں پانی کی سطح میں کمی
شہری علاقوں میں زیادہ مواقع کے ساتھ، خیبر پختونخواہ نے دیہی سے شہری نقل مکانی کی اعلی سطح دیکھی ہے۔ دارالحکومت پشاور 1998 میں صرف 1 ملین آبادی سے بڑھ کر 2017 میں 2.3 ملین ہو گئ، آبادی میں 1972 اور 2017 کے درمیان سات گنا اضافہ ہوا – تقریباً 218 افراد فی مربع کلومیٹر سے تقریباً 1,566 افراد فی مربع کلومیٹر بڑھ گئے۔
خیبرپختونخواہ واٹر ایکٹ 2020 میں واٹر ٹیبل کی حفاظت کے لیے نجی کنوؤں پر پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن پشاور کے زیر زمین پانی پر انحصار اور قانون نافذ نہ ہونے کی وجہ سے وہ عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ پشاور ضلع کے 1,400 ٹیوب ویل عوامی استعمال میں ہیں۔ محققین نے پتا لگایا ہے کہ پشاور کے پورے ضلع میں 30 سالوں میں پانی کی سطح 15 میٹر تک گر گئی ہے۔
وزیر جوکہ تحفظ برائے مٹی اور پانی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، نے کہا کہ ہمارے پاس موسمیاتی لچک کی منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر کا فقدان ہے۔
خیبرپختونخوا حکام حالات سے آگاہ ہو گئے
اپریل 2018 میں پاکستان نے اپنی پہلی قومی آبی پالیسی منظور کی۔ وفاقی حکومت نے پانی کے بحران کو ایک “آسمانی آفت” قرار دیا اور صوبوں سے کہا کہ وہ اپنے وسائل کے مناسب انتظام کے لیے اقدامات کریں۔ خیبرپختونخوا نے 2020 میں اس کے جواب میں حکومت کو پانی اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیاں معتارف کروائیں اور واٹر ایکٹ پاس کیا۔
ایکٹ کے تحت صوبائی حکومت نے آبی وسائل کمیشن قائم کیا۔ واٹر ریسورسز ریگولیٹری اتھارٹی 6 ماہ کے اندر تشکیل دی جانی تھی لیکن ابھی تک اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں اور اس میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ صوبائی حکومت نے زمینی پانی کے بہتر انتظام کے لیے 2021 میں ایک مربوط واٹر ریسورس مینجمنٹ حکمت عملی بھی وضع کی تھی۔
پھر اس سال 22 جولائی میں ڈائریکٹوریٹ آف سوائل کنزرویشن نے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد یہ تھا کہ زیر زمین پانی کے بحران کو قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے۔
محمد عرفان جو کے ڈائریکٹوریٹ آف سوئیل کنزرویشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں نے کہا کہ پی سی آر ڈبلیو آر ان جگہوں کی نشاندہی کرے گا جہاں پانی کی سطح گر رہی ہے اور تالاب بنائے گی جہاں ٹیبل کو بہتر بنانے کے لیے بارش کے پانی کو پائپ لائنوں کے ذریعے موڑ دیا جائے گا،” آئی ڈبلیو آر ایم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبپاشی اور گھریلو مقاصد کے لیے ایک سال میں نکالا جانے والا تقریباً تمام زمینی پانی بارش کے پانی کے ذخیرہ کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز زیر زمین پانی کی آلودگی کو روکنے اور نمکیات کو کنٹرول کرنے کے بارے میں ڈائریکٹوریٹ آف سوائل کنزرویشن کے عملے کو تربیت بھی فراہم کرے گا۔