آلودگی

 کیا پنجاب کا نیا ااسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لئے ایک پرعزم روڈ میپ کا آغاز کیا گیا ہے، لیکن ماہرین اس پہ قائل نہیں ہیں
اردو
<p>نومبر 2024 کے اوائل میں پاکستان کے دارالحکومت لاہور میں ایک موٹر سائیکل سوار اسموگ سے گزر رہا ہے (تصویر بشکریہ کے ایم چوہدری/ایسوسی ایٹڈ پریس/الامی)</p>

نومبر 2024 کے اوائل میں پاکستان کے دارالحکومت لاہور میں ایک موٹر سائیکل سوار اسموگ سے گزر رہا ہے (تصویر بشکریہ کے ایم چوہدری/ایسوسی ایٹڈ پریس/الامی)

محمد مشتاق نے حال ہی میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اپنے رکشا سے دھوئیں کے اخراج پر روکے جانے کے بعد 2,000 روپے  ( 7.20 امریکی ڈالر) کا جرمانہ ادا کیا۔ پیٹرول پہ چلنے والے اس رکشے کی مرمت پر  12,000 روپے ( 43 امریکی ڈالر) لاگت آئے گی، اس لئے مشتاق نے جرمانے سے بچنے کا ایک اور طریقہ تلاش کیا، وہ کہتے ہیں، ” دھواں صرف اس وقت خارج ہوتا ہے  جب میں رفتار تیز کرتا ہوں اور اسطرح  پولیس کے ہاتھوں پکڑا جا سکتا ہوں، لہذا، میں کم رفتار پر رکشہ چلاتا ہوں۔”

سچ کہا جاۓ تو پاکستان کے سب سے امیر اور گنجان آباد صوبے پنجاب میں آٹورکشے اسموگ کے مسئلے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔  پنجاب کی صوبائی حکومت کی ملکیت میں ایک نجی شعبے کی کمپنی، دی اربن یونٹ کی 2023 کی سیکٹرل ایمیشن انوینٹری آف لاہور کے مطابق، آٹورکشہ کا حصّہ شہر میں 153 گیگا گرام (جی جی) اخراج میں سے صرف 4.24 جی جی ہے، جو کہ 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ریگولیشن کے نفاذ میں سستی ہے، جو لاہور کے اخراج میں 127.22 جی جی یعنی 83 فیصد کی ذمہ دار ہے۔

ٹیک کمپنی آئی کیو ایئر نے 2017 اور 2023 کے درمیان دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور کو پانچویں نمبر پر رکھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، مریم نواز نے ان بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اکتوبر کے اوائل میں ااسموگ کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ کا آغاز کیا۔ یہ اعلان اسموگ سیزن کے آغاز پر ہوا، جو فروری تک جاری رہتا ہے۔

اس سال آلودگی مزید بدتر رہی ہے۔ نومبر کے اوائل میں، جب اسکولوں کو مجبوراً  بند کرنا پڑا اور ہنگامی اقدامات نافذ کیے گئے، آئی کیو ایئر نے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا۔

اسموگ پلان کاغذ کی حد تک اچھا ہے

نئے روڈ میپ میں فصلوں کی باقیات کو جلانے سمیت صوبے کے ٹرانسپورٹ، صنعت، توانائی اور زراعت جیسے  آلودگی کے بڑے ذمہ داروں سے نمٹنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ماہانہ اہداف متعین کئے گۓ ہیں جو اسموگ کے پورے موسم  کے دوران مکمّل کئے جائیں گے۔ ماحولیاتی تحفظ، ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعت اور صحت کے محکموں کے ساتھ ساتھ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی، مقامی حکومتیں اور ضلعی کمشنر ان اہداف پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ 

منصوبے میں، فیکٹری مالکان کو صنعتی اخراج سے نمٹنے کے لئے آلودگی پر قابو پانے والے آلات نصب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ افراد، کمپنیوں، کارپوریٹ اداروں اور صنعتوں کے خلاف اسموگ سے متعلق شکایات کے لئے ایک وقف ہیلپ لائن بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ اسموگ سے متعلقہ صحت کے مسائل جیسے کہ فالج، پھیپھڑوں کے کینسر اور دائمی پھیپھڑوں کی بیماریوں کے لیے مخصوص وارڈز، اسموگ کاؤنٹرز اور موبائل ہیلتھ یونٹس قائم کئے جائیں گے۔

اس منصوبے میں کسانوں کے لئے 5,000 ماحول دوست سپر سیڈرز کو سبسڈی دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جس کی لاگت کا 60 فیصد حکومت برداشت کرے گی۔  سپر سیڈر ایک مشین ہے جو گندم اور کھاد کو چاول کی فصل کی باقیات سے ڈھکے ہوئے کھیتوں میں ڈرل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ایسا کرنے سے اس باقیات کو صاف کرنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، جس کو جلانے سے موسم سرما میں فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔

ٹرانسپورٹ سے متعلق آلودگی سے نمٹنے کے لئے، روڈ میپ میں گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق سخت چیکس شامل ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی بھی گاڑی کو اب پنجاب کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔

ملے جلے تاثرات

ڈائیلاگ ارتھ نے ملک امین اسلم سے رابطہ کیا، جو 2002-2007 تک وزیر برائے ماحولیات رہے، اور 2018-2022 تک وزیر اعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا زیادہ تر منصوبہ صرف “پچھلے منصوبوں کا اعادہ” ہے جو ان سمیت مختلف حکومتوں نے تجویز کیا تھا۔

اس حوالے سے پنجاب میں منصوبہ بندی و ترقی، ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کی وزیر مریم اورنگزیب ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتی ہیں، “پچھلی حکومتوں نے اسموگ پر صرف اس وقت توجہ دی جب اس میں شدت آتی تھی۔ ہم سردیاں شروع ہونے سے پہلے اسموگ کو کم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔”

“ہم انوائرنمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی (ای پی اے )  کی اصلاح کر رہے ہیں، 500 اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط ماحولیاتی تحفظ کا دستہ قائم کر رہے ہیں اور لاہور میں 8 مانیٹرنگ یونٹ شامل کر رہے ہیں، اور  اس منصوبے کی حمایت ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ کرے گا۔”



اس وقت پنجاب میں پانچ یا چھ ریفرنس مانیٹر ہیں جو کہ لاہور کے حجم کے  شہر کے لئے کافی نہیں،
صوبے کو تو چھوڑ ہی دیں۔
ماحولیات کے وکیل اور موسمیاتی ماہر، احمد رافع عالم 

اسلم کہتے ہیں کہ ماضی میں سب سے بڑا چیلنج “فنڈنگ ​​کی کمی” تھا۔ تاہم اس بار، مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں 10.23 بلین روپے (36.76 ملین امریکی ڈالر) کا نمایاں طور پر بڑا اور مہدف بجٹ ہے۔

“یہ ایک بہت بڑی رقم ہے،” اسلم نے اعتراف کیا۔ “میں امید کرتا ہوں کہ یہ ٹھوس اقدامات پر خرچ کیا جائے گا جن کی ضرورت ہے، جیسے ہوا کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانا، جو ہاٹ سپاٹ کی نشاندہی کرنے اور اس کے مطابق ٹریفک کو منظم کرنے کے لئے ضروری ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔”

ہوا کے معیار کی نگرانی

آب و ہوا کے ماہر اور پاکستان کے معروف ماحولیاتی وکیلوں میں سے ایک احمد رافع عالم کا کہنا ہے کہ ایکشن پلان کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لئے پنجاب کو ہوا کے معیار کا مناسب مطالعہ کرنے اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے زیادہ تعداد میں فضائی مانیٹر کی ضرورت ہے۔

وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں، ’’اس وقت پنجاب میں پانچ یا چھ ریفرنس مانیٹر ہیں، جو لاہور کے حجم کے شہر کے لیے کافی نہیں ہیں، صوبے کو تو چھوڑ دیں۔”

a man stands in front of multiple monitors in a room


پنجاب کے محکمہ تحفظ ماحولیات کے ڈائریکٹر سید نسیم الرحمان شاہ لاہور میں ایئر کوالٹی مانیٹرنگ روم دکھا  رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے کو ہوا کے معیار کا صحیح طریقے سے مطالعہ کرنے کے لئے زیادہ فضائی مانیٹرز کی ضرورت ہے (تصویر بشکریہ  کے ایم چوہدری/ایسوسی ایٹڈ پریس/الامی)

  پنجاب حکومت نے اس بات پر غور کیا ہے اور اس نے صوبے بھر میں مزید 30 “ایڈوانس” ایئر کوالٹی مانیٹر لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ کے عثمان حق اور عبداللہ محمود بتاتے ہیں کہ ایئر مانیٹر کا معیار اہم ہے۔ وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ کنزیومر گریڈ مانیٹر کی حد عام طور پر صرف 20-30 میٹر ہوتی ہے، جبکہ انڈسٹریل گریڈ کے سینسر وسیع اور زیادہ درست ریڈنگ فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوریج کے درست اعداد و شمار صوبے کو چھوٹے جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس سے مزید ہدفی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ 

ناقص عمل درآمد

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں عمرانیات پڑھانے والے عمیر جاوید کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا کو بہتر کرنے کے باوجود اس منصوبے کو ” ناقص عمل درآمد ” سے نقصان  گا۔

جاوید نے مشورہ دیا کہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے، حکومتی اداروں نے صارفین کو نشانہ بنانے کے لئے “تعزیتی” اقدامات کئے ہیں، جن کا سیاسی اثر بہت کم ہے اور جو ااسموگ کا اصل شکار ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ” اس سے پتا چلتا ہے کہ کیوں اسکولوں اور ریستورانٹس کو بند کرنا آسان ہے،  لیکن آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو نہیں” ۔

جاوید کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں صوبے کی ناکامی اس کی پالیسیوں کے نفاذ میں کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کم معیار کے ایندھن پر پابندی جیسے اسٹریٹجک اقدامات بھی ایکشن پلان سے غائب ہیں۔ جب فضائی آلودگی کی سطح ایک “تباہ کن” ہو گئی تب نومبر کے آغاز میں کم معیار کے ایندھن کے استعمال پر پابندی کے لئے اقدامات کئے گئے۔

کم معیار کا ایندھن، زیادہ تر یورو 2 اور اسمگل شدہ، ہائی سلفر ہائی سپیڈ ڈیزل، ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی نے مزید کہا، “ہم کم معیار کا ایندھن استعمال کر رہے ہیں جس پر بہت سے ممالک میں پابندی ہے۔”

حکمت عملی اور عمل درآمد سے مطلق  چیلنجوں پر بات  کرتے ہوئے، ایک توانائی ماہر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیاں اچھے معیار کے ایندھن کو خاطر میں نہیں لاتیں، “پاکستان ایندھن کا تیل درآمد کرتا ہے جو [ای یو  کے] یورو 5 معیار پر پورا اترتا ہے، لیکن یہ تجارتی گاڑیوں کے لئے فٹنس سرٹیفکیٹ کے سخت نفاذ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔” 

ناقص عمل درآمد اور پیچیدہ انفراسٹرکچر کی ایک اور مثال، پنجاب میں گاڑیوں کے معائنہ کے صرف 32 اسٹیشن ہیں، جس کی آبادی 127.7 ملین افراد پر مشتمل ہے اور 24 ملین سے زیادہ گاڑیاں ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک نمائندے (جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے ) کے مطابق، “پچھلے سال، تقریباً 1.2 ملین پبلک سروس گاڑیوں میں سے تقریباً 160,000 گاڑیوں جیسے کہ بسیں، وین، آٹورکشہ اور ٹرک جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں کا معائنہ کیا گیا۔” 

ملک امین اسلم کے مطابق، گاڑیوں کے معائنے کے بارے میں یہ سخت موقف اس وقت تک ” محض مؤقف ہی رہے گا ” جب تک کہ بڑے پیمانے پر، “قابل اعتماد اور شفاف” چیکس میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ 

مریم اورنگزیب، تاہم، اس بات پر ثابت قدم ہیں، “اگر بیجنگ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے، تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔” تاہم، وہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوگا، اور یہ کہ یہ ایک طویل لڑائی ہے۔ “اس میں 8-10 سال لگ سکتے ہیں۔”