توانائی

گول میز کانفرنس: شنگھائی تعاون تنظیم ، حالیہ سربراہی اجلاس توانائی کے عالمی منظرنامے پر کس طرح اثر انداز ہوا؟

ماہرین کے مطابق چین کی توانائی سے متعلق پہل کاریوں نے روس، بھارت اور وسطی ایشیا کے ساتھ اتحاد اور توانائی سفارت کاری کو مضبوط کیا ہے۔
<p>چین، روس اور بھارت کے رہنما یکم ستمبر کو تیانجن میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے (تصویر: الامے)</p>

چین، روس اور بھارت کے رہنما یکم ستمبر کو تیانجن میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے (تصویر: الامے)

چین نے حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس جو کہ تیانجن میں منعقد ہوئے، ان میں توانائی کے حوالے سے تعاون کو مرکزی اہمیت اور حیثیت دی۔ صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا کہ چین اگلے پانچ برسوں میں ایس سی او کے رکن ممالک میں 10 گیگا واٹ (GW) شمسی توانائی اور 10 گیگا واٹ ہوائی توانائی کے منصوبے لگائے گا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے ؟

)شنگھائی تعاون تنظیم یا SCO ایک یوریشیائی سیاسی اور اقتصادی اتحاد ہے جو 2001 میں شنگھائی میں قائم ہوا۔ اس وقت اس میں چین، قازقستان، کرغزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ بعد ازاں اس میں بھارت، پاکستان، ایران اور بیلاروس بھی شامل ہو گئے۔

ابتدائی طور پر اس اتحادکا مقصد علاقائی سلامتی تھا، لیکن وقت کے ساتھ ایس سی او نے اپنے دائرہ ءکار کو ترقیاتی تعاون تک وسیع کر لیا۔ حالیہ ایس سی او اجلاس میں، جو تیانجن میں منعقد ہوئے، توانائی کو تنظیم کی اولین ترجیحات میں رکھا گیا۔

رکن ممالک کے علاوہ، ایس سی او میں دو مبصر ممالک (منگولیا اور افغانستان) اور 14 ”مکالماتی شراکت دار“ بھی شامل ہیں، جن میں آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، مصر، لاوس، کویت، مالدیپ، میانمار، نیپال، قطر، سعودی عرب، سری لنکا، ترکی اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔)

یہ سرمایہ کاری 2019 کے بعد سے ایس سی او ممالک میں چین کی طرف سے ا ب تک کیے گئے 1 گیگاواٹ سولر اور 0.3 گیگاواٹ ونڈ منصوبوں کے مقابلے میں ایک بڑا اضافہ ہے۔ اسی دوران سائبیریا-2 گیس پائپ لائن کے لیے بالواسطہ حمایت بھی ظاہر کی گئی، جو اگر تعمیر ہوئی تو 2030 کی دہائی تک چین کی گیس درآمدات میں روس کا حصہ کم ہوکر ایک تہائی تک پہنچ سکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کی توانائی میں سرمایہ کاری ایس سی او کے رکن ممالک کی توانائی منتقلی پر کس طرح اثر انداز ہوگی؟ اور کیا وسطی ایشیائی ممالک اور توانائی کی بڑی طاقت روس کے ساتھ چین کا تعاون توانائی کے عالمی منظرنامے میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ ہوسکتا ہے؟

ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے ڈائیلاگ ارتھ نے چین، بھارت، پاکستان اور فن لینڈ کے ماہرین سے گفتگو کی جس کی تفصیل دی جارہی ہے۔

لاری ملّی ورٹا (Lauri Myllyvirta)

سینئر فیلو، ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ اور چیف تجزیہ کار، سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر

چین کا وعدہ کہ وہ ایس سی او ممالک میں 10 گیگا واٹ ہوائی اور 10 گیگا واٹ شمسی منصوبے لگائے گا، اس کے بیرون ملک توانائی تعاون میں ایک اہم قدم ہے۔

Lauri Myllyvirta headshot
تصویر بشکریہ :  لاری ملّی ورٹا

چینی مینوفیکچررز طویل عرصے سے عالمی سطح پر سولر پاور کے آلات کی فراہمی کی تجارت پر حاوی رہے ہیں، لیکن ان آلات کی بڑی اکثریت ان منصوبوں میں استعمال ہوتی ہے جن کی تیاری یا مالی معاونت میں چین کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ چین کا توانائی کے حوالے سے حالیہ عہد چینی پاور کمپنیوں اوران منصوبہ سازوں کے لیے ایک موقع فراہم کر سکتا ہے کہ وہ صرف آلات کی برآمدات سے آگے بڑھ کر اپنی موجودگی کو ثابت کریں۔ یہ عمل انہیں بیرونِ ملک قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کی رفتار تیز کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جس کے لیے وہ اپنے ملک میں صاف توانائی کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کے دوران حاصل کردہ مہارت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

فی الحال، بیرونِ ملک صاف توانائی میں چین کی شمولیت زیادہ تر ان ہی منصوبوں پر بولی دینے تک محدود ہے جو پہلے ہی میزبان ممالک کے توانائی منصوبوں میں شامل ہوتے ہیں۔ نیا عہد چین کے لیے یہ موقع پیدا کر سکتا ہے کہ وہ انفرادی منصوبوں سے آگے بڑھ کر شراکت دار حکومتوں کے ساتھ مزید آگے بڑھ کر توانائی کے حوالے سے اپنی پوزیشن کو مضبوط کرے ۔

چین نے 2019 سے بیرونِ ملک 10.4 گیگا واٹ شمسی اور 7.6 گیگا واٹ ہوائی توانائی میں سرمایہ لگایا ہے۔ ایس سی او ممالک میں یہ سرمایہ کاری صرف 1.0 گیگا واٹ شمسی اور 0.3 گیگا واٹ ہوائی رہی ہے، جو اس شعبے میں بڑی گنجائش کو ظاہر کرتی ہے۔

 تاہم شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے ممالک میں یہ سرمایہ کاری کہیں زیادہ محدود رہی ہے،اسی مدت میں صرف 1.0 گیگاواٹ سولر اور 0.3 گیگاواٹ ونڈ توانائی پر کام کیا گیا۔ یہ صورت حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اب تک سرمایہ کاری کا پیمانہ نسبتاً چھوٹا ہے، لیکن ان منڈیوں میں چینی سرمایہ کاروں کے لیے صاف توانائی کو فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

 پاکستان نے2024 میں 17 گیگاواٹ کے سولر پینل درآمد کیے۔ بھارت نے تقریباً 28 گیگاواٹ کے ونڈ اور سولر منصوبے شامل کیے، اور یہاں تک کہ ازبکستان نے بھی لگ بھگ 1.8 گیگاواٹ کا سولر آن لائن شامل کیا۔ ان ممالک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے، تمام SCO ممالک میں پانچ سال کے دوران سولر اور ونڈ کے لیے بالترتیب 10-10 گیگاواٹ کا اجتماعی ہدف ان کی مجموعی طلب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ظاہر کرتا ہے۔

ایک اہم توجہ طلب مسئلہ یہ بھی ہے کہ روس، جو SCO کا رکن ہے، یوکرین کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحانہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، لہذا روس کے ساتھ تجارت کرنا چین کی ساکھ اور سفارتی واخلاقی سطح پر نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس، دیگر SCO رکن ممالک میں صاف توانائی پر تعاون کو آگے بڑھانا،جہاں کئی ممالک کو اپنی توانائی کے ذرائع کو متنوع بنانے، توانائی کے تحفظ کو بہتر کرنے اور گیسی اخراج کم کرنے کی فوری ضرورت ہے ، یہ نہ صرف توانائی کے حوالے سے عالمی منظر نامے میں چین کی قیادت کو مضبوط کرے گا بلکہ عالمی ماحولیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگی بھی ظاہر کرے گا۔

مختصرا یہ کہ 10+10 گیگاواٹ کا یہ اقدام چین کی بیرونِ ملک شمولیت کو صرف آلات کی برآمد اور منصوبوں پر بولی دینے سے نکال کر تعاون اور توانائی کی جامع منصوبہ بندی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ اقدام SCO ممالک میں صاف توانائی کی منتقلی کو بامعنی طور پر آگے بڑھا سکتا ہے اور ساتھ ہی چین کے کردار کو صاف توانائی کے ایک عالمی شراکت دار کے طور پر مضبوط کرے گا۔

زی چنگ کائی   (Xie Cheng Kai)

شوارزمن اکیڈمی ایسوسی ایٹ، چیٹم ہاوس

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں نئے “توانائی اور سبز صنعت” پلیٹ فارمز کا اعلان کیا گیا اور ایک نئے ترقیاتی بینک کا آغاز کیا گیا۔ اگرچہ یہ اقدامات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، مگر زیادہ نمایاں پیش رفت گیس پائپ لائن منصوبوں اور مالیاتی انضمام میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ سب چین کی طویل المدتی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں، جو اس کی عالمی توانائی اور مالیاتی میدان میں پوزیشن کو متنوع اور مضبوط بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

Xie Cheng Kai headshot
تصویر بشکریہ  : زی چنگ کائی   

“پاور آف سائبیریا-2” پائپ لائن کی بحالی اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ گیز پروم کے سی ای او نے کہا ہے کہ ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط ہو گئے ہیں، اگرچہ چین نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ چینی وزارتِ خارجہ نے صرف اتنا کہا کہ روس اور منگولیا کے ساتھ “سرحد پار انفراسٹرکچر اور توانائی منصوبوں کو فعال طور پر فروغ دینے” پر کام کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک نہ تو معاہدے کی قیمت، نہ وقت کا تعین اور نہ ہی درست حجم ظاہر کیا گیا ہے۔ لہذااس کی علامتی اہمیت ہے۔ بالکل پاور آف سائبیریا-1 کی طرح، جس نے شرائط طے ہونے سے کئی سال پہلے سیاسی رفتار حاصل کی تھی، اس کا دوسرا مرحلہ بھی جمود سے نکل کر حرکت میں آ گیا ہے۔

اگر یہ منصوبہ حقیقت بن گیا تو یہ سالانہ 50 ارب کیوبک میٹر گیس فراہم کر سکتا ہے اور 2030 کی دہائی تک چین کی گیس درآمدات میں روس کا حصہ ایک تہائی تک کم سکتا ہے۔ فی الحال، اس پائپ لائن کو تجارتی یقینی منصوبے کے بجائے زیادہ تر ایک جغرافیائی ،سیاسی اشارہ سمجھنا بہتر ہوگا۔ یہ مفاہمتی یادداشت (MoU) سے حقیقت کے مراحل تک پہنچے گا یا نہیں، اس کا انحصار زیادہ تر ان شرائط پر ہے جو چین حاصل کر سکتا ہے اور ماسکو قبول کر سکتا ہے۔.

تیل کے معاملے کے برعکس، جہاں چین نے کسی ایک سپلائر پر زیادہ انحصار سے گریز کیا ہے، گیس کے شعبے میں وہ بظاہر ارتکاز قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے، کیونکہ یہ اسے ایسے وقت میں مزید اختیارات فراہم کرتا ہے جب امریکہ دنیا کا سب سے بڑا مائع قدرتی گیس (LNG) برآمد کنندہ ہے۔ روس سے زمینی راستے کے ذریعے گیس کی فراہمی چین کے لیے ایک موثر حفاظتی متبادل ثابت ہو سکتی ہے تاکہ وہ امریکی LNG اور اس مغربی مالیاتی ڈھانچے پر ضرورت سے زیادہ انحصار سے بچ سکے جو اسے سہارا دیتا ہے

بھارت بھی، نئے امریکی محصولات کے باوجود، رعایتی نرخوں پر روسی خام تیل خریدتا جا رہا ہے، جیسا کہ چین میں مودی اور پیوٹن کی حالیہ ملاقات کے خوشگوار مناظر سے ظاہر ہوا۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ چین تنہا نہیں ہے، بلکہ ایشیا کے دیگر ممالک بھی امریکی دباو کی مزاحمت کر رہے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مالیات ایک متوازی محاذ ہے۔ فائنینشل ٹائمز کے مطابق، چینی ریگولیٹرز نے روسی توانائی کمپنیوں کو اجازت دی ہے کہ وہ چین کی مقامی منڈی میں رینمنبی پر مبنی “پانڈا بانڈز” جاری کریں ، یہ 2017 کے بعد پہلا اجرا ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ کہ دوطرفہ تجارت کا 90 فیصد سے زیادہ پہلے ہی روبل اور رینمنبی میں طے پاتا ہے، یہ اقدام ماسکو کا انحصار چین کے مالیاتی نظام پر مزیدبڑھاتاہے اور پائپ لائنز اور ایل این جی لاجسٹکس کے لیے پابندیوں سے محفوظ مالی وسائل فراہم کرتا ہے۔ یہ بیجنگ کے اس اسٹریٹجک ہدف کو بھی آگے بڑھاتا ہے کہ رینمنبی کو بین الاقوامی سطح پر فروغ دیا جائے، تاکہ توانائی کے تحفظ کو مالی خودمختاری کے ساتھ جوڑا جا سکے۔

پائپ لائنز،پانڈا بانڈز اور ایل این جی پر اصرار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ چین توانائی کے تحفظ اور مالی خودمختاری کو ماسکو کے ساتھ قریبی ہم آہنگی میں جوڑ رہا ہے، جبکہ بھارت کی مسلسل خریداری یہ دکھاتی ہے کہ وہ اکیلا ایسا نہیں کر رہا۔ اس کے مارکیٹ پر اثرات فوری نہیں ہو سکتے، لیکن سیاسی پیغام نظرانداز کرنا مشکل ہے

لی یو شیاو (Li Yuxiao)

پراجیکٹ لیڈ، گرین پیس ایسٹ ایشیا، بیجنگ

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں بیان کیے گئے ہوا اور شمسی توانائی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پورے تجارتی شعبے میں بھرپور عملی تعاون درکار ہوگا۔ اس میں ہوا اور شمسی فوٹو وولٹائک ٹیکنالوجی کی تیاری کے ساتھ ساتھ چینی سرمایہ کاروں کی جانب سے مالی معاونت بھی شامل ہے۔

 Li Yuxiao
تصویر بشکریہ :  لی یو شیاو.

اگرچہ چین میں ملکی سطح پر ہوا اور شمسی توانائی کی صلاحیت تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن چینی سرمایہ کار اب بھی بیرونِ ملک ہوا اور شمسی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے سنگین رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان منصوبوں کے نفاذ اور انشورنس کے لیے انہیں زیادہ مضبوط پالیسی سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔

بیجنگ میں ہمارے کام کے دوران، ہم کئی برسوں سے چینی سرمایہ کاروں، اداروں اور بینکوں سے بات کرتے آئے ہیں جو ہوا اور شمسی توانائی میں گہری دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، لیکن انہیں موثر مالیاتی میکانزم کی کمی اور محدود رسک کوریج کا سامنا ہے۔ بیرونِ ملک ہوا اور شمسی منصوبوں پر نظر رکھنے والے چینی سرمایہ کاروں کو محدود فنانسنگ اسٹرکچرز، غیر لچک دار انشورنس گارنٹیز، طویل منظوری کے عمل اور بکھرے ہوئے ریگولیٹری نظام جیسے مسائل درپیش ہیں جو بین الاقوامی تکنیکی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہ تمام عوامل سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

گیگاواٹ 10+10 کے اہداف ہوا اور فوٹو وولٹائک کی پورے صنعتی شعبے کو شامل کریں گے۔ اس معاہدے کے پیچھے موجود صنعتی حکمت عملی نے بلاشبہ بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ لیکن زیادہ تر توجہ ایسے معاہدوں کے اسٹریٹجک “آف لوڈنگ” فنکشن پر دی گئی ہے، جو چین کی کلین ٹیک انڈسٹریز کے لیے اہم ہے، وہاں اس خاص معاہدے میں “ٹیکنالوجی ٹرانسفر” اور “تجربات کے تبادلے” کی شمولیت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔

یہ شعبہ رکن ممالک کے لیے انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے، اور ان کے بیانات میں بھی ان پہلووں پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ اگر چین اور گلوبل ساوتھ کے شراکت داروں کے درمیان موثر ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تجربات کا تبادلہ ممکن ہو جائے تو یہ مقامی صنعتوں کو بنیاد سے مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف خطے کے توانائی ڈھانچے کو فائدہ ہوگا بلکہ مقامی اور عالمی سطح پر توانائی کی منتقلی کے عمل کو بھی تیز کیا جا سکے گا۔

روچتا شاہ  (Ruchita Shah)

 توانائی تجزیہ کار،ایشیا ایمبر

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں بھارت کی شمولیت توانائی کے تعاون میں دلچسپی کی عکاسی کرتی ہے، جبکہ چین اس فورم کو سبز ٹیکنالوجی کے اشتراک کے ایک پلیٹ فارم میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نئی دہلی کے لیے یہ شمولیت بلاشبہ سبز ٹیکنالوجیز پر تجارت اور علم کے تبادلے کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ تاہم، بھارت محتاط رویہ اپنائے گا تاکہ اپنی مقامی سپلائی چین اصلاحات کا تحفظ کر سکے۔ وہ نئی انحصاریوں میں پھنسنے سے بچنے کے لیے تنوع کو آگے بڑھاتا رہے گا اور اس بات پر زور دیتا رہے گا کہ تعاون محض درآمدات کے بہاو کو بڑھانے کے بجائے بھارت کے اندر ٹیکنالوجی ٹرانسفر، مالی معاونت اور مشترکہ تحقیق و ترقی کے ذریعے حقیقی قدر پیدا کرے۔

Ruchita Shah headshot
تصویر بشکریہ : روچتا شا.

بھارت کی نصب شدہ شمسی توانائی کی صلاحیت کو موجودہ 120 گیگاواٹ تک پہنچانے میں چینی سولر فوٹو وولٹائک ماڈیولز نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی دوران، بھارت میں سولر پینلز کی مقامی پیداوار تیزی سے بڑھی ہے، جو 2014 میں 2.3 گیگاواٹ سے بڑھ کر 2025 تک 100 گیگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ تاہم بھارت اب بھی سولر سیلز،جو سولر پینلز کے بنیادی اجزاءہیںاور بیٹری کے پرزہ جات کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ گھریلو بیٹری سازی کی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے پروڈکشن لنکڈ انسینٹو (PLI) اسکیم متعارف کروائی گئی ہے۔.

اسی دوران، بھارت کی بڑھتی ہوئی فوسل فیول درآمدات کو اس کی وسیع تر توانائی کی منتقلی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی بڑی معیشت ہونے کے ناتے، اسے ترقی سے جڑی بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب اور سپلائی سکیورٹی کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ درمیانی مدت میں تیل کی طلب بڑھتی رہے گی، چاہے برقیانے (electrification) کی رفتار تیز ہی کیوں نہ ہو۔ تیل کے استعمال میں کمی سے متعلق کوئی سرکاری ماحولیاتی ہدف یا ضابطہ موجود نہیں ہے۔ اس کے بجائے بھارت کی ماحولیاتی وابستگیاں قابلِ تجدید توانائی میں توسیع، اخراج کی شدت میں کمی، اور 2070 تک نیٹ زیرو تک پہنچنے پر مرکوز ہیں۔ آج زیادہ تیل درآمد کرنا بھارت کے ماحولیاتی اہداف کے منافی نہیں ہے، کیونکہ یہ اہداف بنیادی طور پر توانائی کے مکس کو دوبارہ ترتیب دینے اور کارکردگی بہتر بنانے پر مبنی ہیں، خاص طور پر کوئلے پر انحصار کم کرنے کے ذریعے۔

بھارت کا توانائی اور ماحولیاتی مباحثوں میں اثر صرف درآمدات پر انحصار تک محدود نہیں ہے۔ قابلِ تجدید توانائی پہلے ہی اس کی نصب شدہ بجلی کی گنجائش کا نصف حصہ بن چکی ہے اور وہ 2032 تک 365 گیگاواٹ شمسی اور 140 گیگاواٹ ہوائی توانائی کے ہدف پر کام کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، زراعت اور گھریلو توانائی کے استعمال میں برق کاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسی وقت، منظور شدہ ماڈلز اور مینوفیکچررز کی فہرست اور پیداوار سے منسلک ترغیبی اسکیمیں جیسی پالیسیاں شمسی توانائی، بیٹریوں اور سبز ہائیڈروجن کے لیے سپلائی چین کو مقامی بنانے اور درآمدی انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

سالہا سال میں بھارت نے توانائی کی منتقلی کے لیے ایک معاون پالیسی ماحول تشکیل دیا ہے۔ قابلِ تجدید توانائی کی مسابقتی نیلامیوں نے دنیا کی مسلسل اور سب سے کم شرح ٹیرف فراہم کیا ہے، جس نے بین الاقوامی قیمتوں کے معیار اور دیگر ابھرتی معیشتوں میں خریداری کے ماڈلز کو تشکیل دینے میں مدد دی۔ بھارت نے انٹرنیشنل سولر الائنس کی بنیاد بھی رکھی اور اس کی قیادت کر رہا ہے، جس میں اب 120 سے زائد ممالک شامل ہو چکے ہیں، جو عالمی صاف توانائی کی حکمرانی میں اس کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کی وکالت کثیرالجہتی فورمز میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے منصفانہ اور پائیدار توانائی منتقلی پر زور دیتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے 2025 کے اعلامیے نے بھی بھارت کے عالمی وژن “ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل” کو تسلیم کیا، جو جامع اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں اس کی قیادت کی توثیق کرتا ہے

عمیس عبد الرحمان  (Omais Abdur Rehman)

سینئر ایسوسی ایٹ، رینیوایبل فرسٹ، اور لیڈ کوآرڈینیٹر، پاکستان رینیویبل انرجی کولیشن

اس سال کی ایس سی او (SCO) سربراہی اجلاس نے بدلتی ہوئی عالمی صورت حال کے باعث غیر معمولی توجہ حاصل کی۔

Omais Abdur Rehman
تصویر بشکریہ  : عمیس عبد الرحمان  .

امریکہ نے چین اور بھارت پر بھاری محصولات عائد کیے ہیں اور وہ روس پر یوکرین میں جنگ ختم کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے، ساتھ ہی بھارت پر یہ دباو بھی ہے کہ وہ روس سے تیل نہ خریدے۔ اسی لیے ایس سی او (SCO) کے رکن ممالک نے ایک متوازی عالمی نظام میں دلچسپی کا اشارہ دینا شروع کیا۔ خاص طور پر چین نے کسی متبادل کی ضرورت محسوس کی ہے۔ یہ وہ پہلا اجلاس بھی تھا جس میں بھارت اور پاکستان کے دونوں سربراہانِ مملکت حالیہ عسکری تنازعے کے بعد موجود تھے۔

بھارت، جو بیرونی مداخلت سے نالاں تھا، بشمول ٹرمپ کے پاکستان بھارت کشیدگی پر ثالثی کے دعوے، اپنی پالیسی پر ازسرِ نو غور کرتا نظر آیا اور اس نے چینی انفراسٹرکچر کی معاونت کے لیے لچک دکھانے کے اشارے دیے۔ چین نے اس موقع کو فوراً غنیمت جانا اور تاریخ کا سب سے بڑا ایس سی او (SCO) اجلاس منعقد کیا، جس میں 24 سربراہانِ مملکت شریک ہوئے، اور تنظیم کے لیے محض علامتی سفارتکاری سے آگے بڑھ کر وسیع تر عزائم کا خاکہ پیش کیا۔

اجلاس کی ان نشستوں میں ماحولیاتی تعاون ایک اہم موضوع کے طور پر سامنے آیا۔ چین نے ایک نئے ایس سی او (SCO) ڈویلپمنٹ بینک کی تجویز دی اور 2 ارب یوآن کے گرانٹس اور 10 ارب یوآن کے قرضوں کا اعلان کیا۔ روس نے بھی ان اقدامات کی حمایت کی، جس سے طاقت کے غلبے کے خلاف مشترکہ موقف کو تقویت ملی۔ تاہم، ہنگامی صورت حال کے باوجود، خاص طور پر پاکستان اور بھارت کو شدید ماحولیاتی آفات کا سامنا ہونے کے باوجود، اجلاس میں مشترکہ ماحولیاتی اقدامات یا فوری امداد کے لیے کوئی ٹھوس طریقہ ءکار سامنے نہیں آیا۔

پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک ممکنہ تبدیلی کی علامت ہے۔ ایس سی او (SCO) ڈویلپمنٹ اسٹریٹجی 2035 کی منظوری اور مجوزہ ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کا قیام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ورلڈ بینک کی فنانسنگ کا متبادل بن سکتا ہے۔

ایس سی او (SCO) کے وسیع تر ترقیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے، چین اور پاکستان کے رہنماوں نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت صنعتی، زرعی، توانائی اور ڈیجیٹل تعاون کے نئے مواقع کھولنے پر زور دیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے باضابطہ طور پر سی پیک 2.0 کے آغاز کا اعلان کیا۔ مزید برآں، دوسری پاک۔چین بی ٹو بی (B2B) انویسٹمنٹ کانفرنس میں نہ صرف برقی گاڑیوں، پیٹرو کیمیکلز اور لوہا و فولاد پر توجہ دی گئی بلکہ صحت اور زراعت کو بھی مرکز بنایا گیا۔.

امکان ہے کہ پاکستان توانائی کی منتقلی کو آگے بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ اپنے روابط کو مزید گہرا کرے گا، تاکہ فوسل فیول اثاثوں پر انحصار کم کیا جا سکے۔ یہ وقت ہے کہ چین پاکستان سمیت دیگر ممالک میں کوئلے کے مرحلہ وار خاتمے اور قبل از وقت کمی کی جانب بڑھے۔ ایس سی او (SCO) چین کو ان اہداف پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ تنظیم بھارت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات کے باوجود، موسمیاتی تبدیلیوں کے سدباب کے حوالے سے تعاون کے لیے ایک نایاب موقع فراہم کرتی ہے۔ دونوں ممالک میں حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ کوئی انتخاب نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔

بھارت اور پاکستان کے جاری کشیدہ تعلقات، اور اجلاس میں مشترکہ ماحولیاتی ایکشن پلان پیش کرنے میں ناکامی، اہم چیلنجز کے طور پر باقی ہیں۔ تاہم، ایس سی او (SCO) نے دونوں ممالک کو ممکنہ سرحد پار تعاون پر بات کرنے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔

ترجمہ : شبینہ فراز

Privacy Overview

This website uses cookies so that we can provide you with the best user experience possible. Cookie information is stored in your browser and performs functions such as recognising you when you return to our website and helping our team to understand which sections of the website you find most interesting and useful.

Strictly Necessary Cookies

Strictly Necessary Cookie should be enabled at all times so that we can save your preferences for cookie settings.

Analytics

This website uses Google Analytics to collect anonymous information such as the number of visitors to the site, and the most popular pages.

Keeping this cookie enabled helps us to improve our website.

Marketing

This website uses the following additional cookies:

(List the cookies that you are using on the website here.)