پاکستان کے جنوبی ساحلی شہر گوادر کے لیے بڑے منصوبے سوچے گۓ ہیں۔ پاکستان اور چین قابل ذکر کوششیں کر رہے ہیں اور 700 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر رہے ہیں، جوکہ ایک وقت کے غیر فعال ماہیگیر شہر کو بندرگاہ ، ہوائی اڈے ، بڑے روڈ کنکشن اور تجارتی زون کے ساتھ ایک مکمّل اور متحرک تجارتی مرکز میں تبدیل کرنا تھا۔ لیکن ترقی کی رفتار سست ، اور کاروبار اس سے بھی سست ہے۔
بندرگاہی شہر کی کھلگری وارڈ بستی کے ایک ماہی گیر عبدالرشید عیسیٰ کہتے ہیں “یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ انہوں [ڈویلپرز] نے گوادر کے لوگوں کی دعائیں نہیں لیں-“
اس سال اپریل میں ہونے والے ایک دورے سے یہ بات سامنے آئی کہ گوادر بندرگاہ پر حقیقی سرگرمی دو چھوٹے کیکڑوں کی سننے میں آئی، جو بحیرہ عرب کے شفاف پانیوں سے گودی پر چڑھنے کی کوشش کررہے تھے- بھاری نیلی اور سرخ کرینیں ، جو جہازوں کے کنٹینرز لوڈ اور ان لوڈ کرنے کے لیے وہاں لائی گئی تھیں ، وہ خاموش ہیں۔
یہ بندرگاہ 62 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے سر کا تاج ہے جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو بحیرہ عرب سے جوڑتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دونوں ممالک کو امید ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے آنے اور جانے والے کارگو کی رسد سنبھالی جائے گی۔
مغربی چین کے کاشغر سے بحیرہ عرب پر پاکستان کے گوادر تک 3 ہزار کلومیٹر طویل راہداری۔ یہ ہمالیہ ، متنازعہ علاقوں ، میدانی علاقوں اور ریگستانوں میں سے گزر کر گوادر کی قدیم ماہی گیری بندرگاہ تک پہنچتی ہے۔ راستے میں سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورکس کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس سمیت چین کی مالی اعانت سے چلنے والے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اصل میں 46 بلین امریکی ڈالر مالیت کی اس راہداری کا تخمینہ آج 62 بلین امریکی ڈالر ہے۔
سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہے ، ایک وسیع علاقائی تجارت اور سفارتی منصوبہ جو چین اور بقیہ ایشیا اور یورپ کو جوڑنے والے زمینی اور سمندری راستوں کا احاطہ کرتا ہے۔ سی پی ای سی، بی آر آئی کے جاہ طلب اجزاء میں سے ایک ہے۔
گوادر بندرگاہ کا خواب 2013 میں شروع ہوا ، جب ایک غیر معروف سرکاری کمپنی چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی ( سی او پی ایچ سی) نے پاکستان کی جانب سے 40 سالوں کے لیے بندرگاہ حاصل کی۔ بندرگاہ کی آمدنی کا تقریبا 90 فیصد چینی کمپنی کو جاتا ہے۔
کاغذات پر ، بندرگاہ کی صلاحیت امید افزا ہے۔ اس وقت یہاں 50،000 ڈیڈ ویٹ ٹنیج کی گنجائش والے دو یا تین بڑے بحری جہازوں کی جگہ ہے۔ 2045 تک ، یہاں 150 جہازوں کو برتھ کرنے اور 400 ملین ٹن کارگو رکھنے کی توقع ہے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق ، ایک فعال گوادر بندرگاہ ، جو ملک کی تیسری گہری سمندری بندرگاہ ہے ، “تجارت کی بڑھتی ہوئی طلب” کو پورا کرے گی جو کہ موجودہ کراچی اور قاسم بندرگاہوں کے لئے اپنے طور پر ” پورا کرنا مشکل ہورہا ” ہے۔
اگرچہ گوادر کے کچھ حصوں کو ایک نئی شکل دی گئی ہے ، لیکن اس کے 265،000 باشندوں کی زندگی ، جن میں اکثریت غریب ماہی گیروں کی ہے ، بمشکل بہتر ہوئی ہے۔ کچھ معاملات میں ان منصوبوں کی تعمیر نے رہائشیوں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ بیشتر بنیادی ضروریات جیسے بجلی تک رسائی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور تعلیم کے لیے محدود اختیارات رکھتے ہیں۔
سست کاروبار کے ساتھ ساتھ گوادر میں سی پی ای سی کے بڑے منصوبوں جیسے مین ایکسپریس وے روڈ ، کول پاور اسٹیشن اور نیا ہوائی اڈہ میں تاخیر کا مطلب ہے کہ ان کی زندگی میں عنقریب بہتری آنے کا امکان نہیں ہے۔
ایک ساکن بندرگاہ
تعمیر اور دیکھ بھال کی نگرانی کرنے والے گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کے چیئر مین نصیر خان کاشانی نے کھل کر اس مسئلے کی وضاحت کی۔
“ہر سال عالمی تیل کا ایک تہائی حصہ” کی ترسیل کے لئے راستہ فراہم کرنے والے خلیج فارس کے دہانے پر “بہترین گہری سمندری بندرگاہوں” میں سے ایک گوادر کی “اسٹریٹجک پوزیشننگ” کے باوجود ، انہوں نے کہا کہ بندرگاہ کاروبار لانے میں ناکام رہی ہے۔
“یہ استعمال کے لیے تیار ہے۔ یہ سرمایہ کاروں اور تاجروں پر منحصر ہے کہ وہ اسے منافع بخش کاروبار کے لیے استعمال کریں۔ ہم ان کے لیے تجارت نہیں کر سکتے،” کاشانی نے کہا ، مزید کہا کہ مانگ پیدا کرنا “مارکیٹ کی قوتوں پر منحصر ہے”۔ مسابقتی ہینڈلنگ چارجز ، بندرگاہ پر اور ٹرانسپورٹ کے دوران کارگو کی بہتر سیکورٹی اور حفاظت، تیز رفتار کسٹم کلیئرنس اور تین ماہ تک مفت اسٹوریج جیسی مراعات تاجروں کو ترغیب دینے میں ناکام رہی ہیں۔
جی ایف زیڈ، ایسی اشیاء (جیسے کاریں اور ٹیکسٹائل مصنوعات) کے لیے کنڈویٹ مینوفیکچرنگ سائٹ کا کام کرتا ہے جنکی مانگ ایک ملک دوسرے ملک سے کرتا ہے۔
سی او پی ایچ سی کے مطابق ، سائٹ پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ ہے اور اسے مینوفیکچرنگ ، ٹریڈنگ اور سروس انڈسٹری کے کاروبار کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
کاشانی نے کہا کہ فیصل آباد اور لاہور میں فیکٹری مالکان اور تاجروں نے جی ایف زیڈ میں دلچسپی ظاہر کی ہے ، اور یہ کہ ستمبر 2019 میں متعارف کرائی گئی ٹیکس چھوٹ اور مراعات “معاشی سرگرمیوں کو متحرک کریں گی”۔
بہرحال دی تھرڈ پول کی ملاقات کے دوران یہ ظاہر ہوا کہ سرگرمیاں کم ہیں-
کاشانی کے مطابق 9،200 ہیکٹر کے صرف 24 ہیکٹر رقبے کو “آپریشنل” قرار دیا گیا۔ کاشانی کے مطابق 9،200 ہیکٹر کے صرف 24 ہیکٹر رقبے کو “آپریشنل” قرار دیا گیا۔ زمین پر عمارتیں ، شیڈ اور گودام تھے ، لیکن لوگ نظر نہیں آئے۔
“آپ کا تاثر غلط ہے ،” تھرڈ پول کی سرگرمی میں کمی کے بارے میں پوچھے جانے پر سی او پی ایچ سی کی چیئر اور چیف ایگزیکٹو ژانگ باؤزونگ نے اصرار کیا۔ ” کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ بندرگاہ کے ساتھ ساتھ گوادر فری زون میں ایک ہزار سے زائد مقامی لوگ کام کر رہے ہیں۔”
ژانگ نے کہا کہ پچھلے سال سے ، ہر ماہ قطر اور عمان سے 5000 ٹن مائع پٹرولیم گیس گوادر پہنچتی ہے اور اسے اندرون ملک پہنچایا جاتا ہے۔ ژانگ نے کہا ، “بندرگاہ افغانستان سے ٹرانزٹ تجارت کے لئے بھی فعال ہے،” مزید یہ کہ “ہر ماہ 30-50 کنٹینر بندرگاہ پر بھیجے جا رہے ہیں۔”
یہ استعمال کے لیے تیار ہے۔ یہ سرمایہ کاروں اور تاجروں پر منحصر ہے کہ وہ اسے منافع بخش کاروبار کے لیے استعمال کریں۔ ہم ان کے لیے تجارت نہیں کر سکتے،”گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کے چیئر مین نصیر خان کاشانی
لیکن جی پی اے کوریڈورز میں ، چینی کمپنی جو کاروبار لانے کی ذمہ دار ہے، کے بارے میں مایوس کن باتیں سننے کو ملی ہیں-
“جی پی اے کے ساتھ معاہدے کے مطابق ، مارکیٹنگ سی او پی ایچ سی کی ذمہ داری تھی ،” ایک ملازم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا۔ انہوں نے کہا ، “وہ بہت سی کارپوریٹ سماجی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ، یہاں ایک اسکول کھول رہے ہیں ، وہاں ایک ہسپتال ، لیکن ہمیں وہ حقیقی کام نظر نہیں آرہا جس کے لیے وہ یہاں ہیں۔” ان کے لہجے میں جھنجھلاہٹ نمایاں تھی-
انفراسٹرکچر ابھی بھی غائب ہے
تجارت میں سست رفتار کی وجہ صرف ناقص مارکیٹنگ نہیں ہے۔ گوادر میں اب بھی بجلی ، پانی ، سڑک کے درمیان رابطہ ، انٹرنیٹ اور سیلولر نیٹ ورک یا گیس نہیں ہے۔
جولائی کے اوائل میں بندرگاہ کا دورہ کرتے وقت ، وزیر اعظم عمران خان نے “عام مسائل جیسے پانی ، بجلی اور گیس کی فراہمی ، اور دیگر علاقوں کے ساتھ رابطہ” کو ترقی کی کمی کے ذمہ دار قرار دیا-
(کراچی کی) کراچی اور قاسم بندرگاہوں کے برعکس ، جن کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع ہوئی کیونکہ وہ بڑے عالمی مال بردار مرکز بن گئے ، 2013 میں سی پیک منصوبے کے آغاز سے قبل گوادر میں بہت کم ترقی ہوئی تھی۔
ژانگ اور کاشانی نے تسلیم کیا کہ بنیادی ڈھانچہ ایک مسئلہ تھا۔
سی او پی ایچ سی کے چیئرمین نے کہا ، “اس سے بندرگاہ اورجی ایف زیڈ پر ہمارا کام متاثرہو رہا ہے۔”
سیلولر رابطے کے مسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے ، تاکہ سرمایہ کار یہاں آئیں اور عمان یا دبئی کا رخ نہ کریںگوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کے چیئر مین نصیر خان کاشانی
کاشانی نے کہا ، “سیلولر رابطے کے مسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے ، تاکہ سرمایہ کار یہاں آئیں اور عمان یا دبئی کا رخ نہ کریں ۔”
لیکن اگر بندرگاہ اپنی حدود میں سیلولر رابطوں کے چیلنجز پر قابو پا لیتی ہے ، تب بھی یہ تجارت میں اضافہ نہیں کر سکے گی جب تک کہ گوادر سے آگے مزید سڑکیں نہیں بنی ہیں۔ مزید یہ کہ ہوائی رابطہ 2022 سے پہلے ممکن نہیں ہوگا۔
یہ مسئلہ بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے ، جو کہ ژانگ کے مطابق جی ایف زیڈ کے اندر صنعتوں کے قیام کے لیے سب سے اہم جز ہے۔
فی الحال ، جی ایف زیڈ کافی مہنگے ڈیزل فیول جنریٹرز پر چل رہا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ پاوراسٹیشن کی بروقت تکمیل سے “غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا”۔
کوئلہ ایک بار پھر
ژانگ گوادر سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر کاروٹ میں 150 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے دو پاور پلانٹس کی تعمیر کا ذکر کر رہے تھے۔
540 ملین امریکی ڈالر کی لاگت والے، کوئلے کے اس منصوبے کو سابقہ حکومت کے دوران منظور کیا گیا جس پر کام چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی نے کرنا ہے، اور جو پاکستان کی اعلیٰ اقتصادی فیصلہ ساز باڈی سے منظوری کی منتظر ہے۔
صوبائی حکومت کے پاور پلانٹس سے متعلق تحفظات کے باوجود ، جو درآمد شدہ کوئلہ جلائیں گے ، بلوچستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے نو آبجیکشن(کوئی اعتراض نہیں ) کا سرٹیفکیٹ کسی نہ کسی طرح حاصل کرلیا گیا اور صارفین بجلی کے لئے متفقہ ٹیرف ادا کریں گے-
اگرچہ کول پلانٹس کا سنگ بنیاد 2019 میں رکھا گیا تھا ، لیکن حکام اس بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس کی کچھ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دسمبر 2020 میں عمران خان کی حکومت نے دنیا کے سامنے اعلان کیا تھا کہ ملک کسی بھی نئے کول پاور پلانٹس کو ختم کر دے گا ، خاص طور پر جو درآمد شدہ ایندھن پر چلتے ہیں۔
درحقیقت ، موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم نے عالمی برادری کو امریکی زیرقیادت ارتھ ڈے ورچوئل سمٹ کے دوران یقین دلایا کہ پاکستان 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
کاشانی الزام کا رخ بدلتے ہوۓ کہتے ہیں ، “”کاروٹ پاور اسٹیشن پر اتفاق پچھلی حکومت نے کیا تھا۔” تاہم ، سی پیک ویب سائٹ کے مطابق، جی پی اے اس منصوبے کی نگرانی کرنے والی ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔
مشرقی خلیج اور گوادر زیر زمین
شاہی بازار سے آگے، مشرقی خلیج پر جہاں بندرگاہ واقع ہے ، ماہی گیروں کی بستی ہے جسے کھلگری وارڈ کہا جاتا ہے۔ یہ وارڈ سمندر کی وسعت کی جانب کھلتی ہے- بندرگاہ دائیں جانب دیکھی جاسکتی ہے-
تھرڈ پول کی ملاقات سے مہینوں پہلے، گوادر کو مرکزی شاہراہ سے ملانے والی ایک بڑی سڑک ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر اس بستی کی دہلیز پر تھی۔ اس سے ملحقہ دو رہائشی کالونیاں ، بلوچ اور گزاروان وارڈ بھی متاثر ہوئی ہیں۔ ایکسپریس وے نے مشرقی خلیج کے کنارے سمندر تک ان کمیونٹیز کی رسائی کو روک دیا ہے۔
کھلگری بستی ایک انتہائی خستہ حال منظر پیش کرتی ہے۔ آوارہ کتے کچرے کے ڈھیر میں کھوجتے نظر آتے ہیں اور کھلے گٹروں پر مچھروں کے جھنڈ منڈلا رہے ہوتے ہیں-
کھلگری وارڈ کے رہائشی حاجی انور عمر نے بتایا کہ سڑک کی تعمیر نے تین سیپٹک ٹینکوں کو نقصان پہنچایا ہے اور اب پورا علاقہ ٹینکوں سے رسنے والے سیوریج سے بھر گیا ہے۔ انہوں نے کچرے کے ڈھیروں اور سیوریج کے تالابوں کی طرف اشارہ کیا۔ “اس سے پہلے کالونی کا کچرا سیدھا سمندر میں جاتا تھا-“
حکام سڑک کو گوادر کی رسائی کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھتے ہیں ، کیونکہ یہ بندرگاہ اور اس کے فری زون کو قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک سے سامان کی نقل و حمل کے لئے جوڑتا ہے۔ کاشانی کے مطابق ، 168 ملین امریکی ڈالر ، 19 کلومیٹر، چار لین سڑک ، “جسے چھ لین تک بڑھایا جا سکتا ہے” کئی سالوں تک بندرگاہ کی سرگرمیاں برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوگی۔
کاشانی تاخیر کی وضاحت کرتے ہیں- “ہمیں ماہی گیروں کی شکایات کا ازالہ کرنے کی خاطر تین پلوں اور ایک جیٹی کے لیے ڈیزائن تبدیل کرنا پڑا۔” انہوں نے کہا کہ 85 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا اور سڑک ایک سال سے بھی کم عرصے میں تیار ہو جانی چاہیے۔
جب ایکسپریس وے مقامی لوگوں کے لیے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو ، جی پی اے چیئر کے پرائیویٹ سیکرٹری شبیر احمد نے کہا کہ اس نے ان کے لیے 500 سے زائد ملازمتیں بھی “براہ راست یا بالواسطہ” پیدا کی ہیں۔ وہ بندرگاہ پر سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے ملازمین میں سے ایک ہیں، جو 2004 سے وہاں کام کر رہے ہیں-
2017 میں شروع ہونے والی، ایکسپریس وے کواکتوبر 2020 تک مکمل ہونا تھا ، لیکن تاخیر کا شکار ہوگئی۔
یہ تبدیلیاں آخری وقت میں کی گئیں حالانکہ ماہی گیر 2018 سے احتجاج کر رہے تھے۔ پچھلے چھ مہینوں میں احتجاج نے زور پکڑ لیا ، جس پر سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ گوادر کے ڈپٹی کمشنر کو بھی نوٹس لینا پڑا۔ ” ہمیں غلط مت سمجھیں، ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں ہم انہیں پچھلے تین سال سے کہہ رہے تھے کہ ہماری بات سنو ، ہمیں منصوبے میں شامل کرو،” عمر نے کہا جوکھلگری کے رہائشی اور گوادر میں ماہی گیروں کے حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیم متحدہ مہاجر گوادر کا صدر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہی گیر ضلع کے 80 فیصد آبادی ہیں ، لیکن انہیں بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
کاشانی نے کہا ، “خوش قسمتی سے پرانا قصبہ محفوظ رہا اور ہمیں کسی کو بے گھر نہیں کرنا پڑا۔” پاکستان میں ، ترقیاتی منصوبے کی قیمت اکثر غریبوں کو بے گھر ہوکر ادا کرنی پڑتی ہے، بطور معاوضہ بہت کم پیشکش کی جاتی ہے۔
ماہیگیروں کی رسائی سمندر تک روک دی گئی ہے
حالاںکہ عمر نے تسلیم کیا کہ کوئی بے دخل نہیں کیا گیا، انہوں نے ایک اور مسئلہ کی طرف اشارہ کیا: کہ ایکسپریس وے نے کمیونٹی کی 2 کلومیٹر سمندر تک آزاد رسائی چھین لی۔ اس نے ان کی سماجی اور معاشی بہبود دونوں پر بڑا اثر ڈالا۔
اس کے علاوہ ، انہوں نے کہا کہ ایکسپریس وے کی تعمیر نے تینوں بستیوں میں بہت سے گھروں کو ساختی نقصان پہنچایا ہے۔ نقصان کو “معمولی دراڑیں” قرار دیتے ہوئے ، کاشانی نے کہا کہ جی پی اے نے بلڈنگ اور روڈ ڈیپارٹمنٹ اور ڈپٹی کمشنر آفیسر کے اشتراک سے ایک تفصیلی سروے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “48 لاکھ روپے [تقریبا 300,000 امریکی ڈالر] کے معاوضے کا تخمینہ لگایا گیا ہے” اور “جلد ہی متاثرین کو ادائیگی کی جائے گی”۔
عمر نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں معاوضہ دیا جائے گا لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب۔
یڈیٹر کا نوٹ
اگست 2021 کے اوائل میں ، ماہی گیروں کو بتایا گیا کہ آنے والے ہفتے میں انہیں نصف رقم بطور معاوضہ دی جائے گی۔ جی پی اے کے چیئرمین کاشانی نےتھرڈ پول کو بتایا کہ اگلے مہینے تک تمام معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیونٹی کو بجلی کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جسے برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے جب “مچھر صبح سویرے تک ہر ایک کو بیدار رکھتے ہیں”۔
“ایک رات ٹھہریں اور خود اس کا تجربہ کریں!” ایک اور ماہی گیر عطاء اللہ بلوچ نے کہا۔
بلوچ نے کہا کہ اس سڑک نے کمیونٹی کے سماجی تانے بانے کو بھی نقصان پہنچایا ہے ، جس کے نتیجے میں “مصائب اور بیماریاں” پیدا ہو رہی ہیں۔
انہوں نے یاد کرتے ہوۓ بتایا، “ہم ہر شام نوجوانوں کو کرکٹ اور فٹ بال کے میچ کھیلتے دیکھنے کے لیے ساحل پر بیٹھتے تھے ،” تین سال قبل ایکسپریس وے نے یہ تفریح ختم کردی-
اسی وجہ سے ، عمر نے کہا ، ماہی گیر ایکسپریس وے کے متوازی چلنے والی لنک روڈ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاکہ وہ پہلے کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں۔
سب سے زیادہ ، ایکسپریس وے نے ان کی روزی روٹی کو تباہ کر دیا ہے۔
ماہی گیر عبدالرشید عیسیٰ نے بستی کے سامنے ٹارمک پٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ، “سمندر پانچ منٹ کی دوری پر ہوتا تھا-” “سمندر تک ہماری رسائی مکمل طور پر رک گئی ہے۔”
“کیا ہم محض کیڑے مکوڑے ہیں جو وہ اپنے پیروں تلے روند سکتے ہیں؟” انہوں نے پوچھا.
“ہم اپنی کشتیاں ساحل پر نہیں لا سکتے اور اگر ہم انہیں سمندر میں چھوڑ دیں تو وہ چٹانوں سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔” انہوں نے مزید بتایا کہ ، جنوری اور اپریل کے درمیان ، 40 کشتیوں کو نقصان پہنچا۔
مشرقی خلیج کا پتھریلا سمندری کنارا، جھینگوں اور ان کی افزائش گاہوں کے ساتھ ، ان ماہی گیروں کی آمدنی کا مستحکم ذریعہ ہوا کرتا تھا ، لیکن گوادر بندرگاہ نے ان کی روزی روٹی کو متاثر کیا ہے۔ یہ ماہی گیروں کے لیے حد ممنوع ہے کیونکہ اس علاقے کی ہائی سیکورٹی زون کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔
“ہم یہاں سارا سال مچھلی پکڑ سکتے تھے،” عیسیٰ نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن کی مشقت سے 5000-10،000 روپے (32-65 امریکی ڈالر) حاصل ہوجاتے تھے۔
کئی ماہی گیروں نے شکایت کی کہ میری ٹائم سکیورٹی گارڈز کا رویہ ’’ سراسر توہین آمیز ‘‘ ہے، اور وہ ’’ غلط زبان استعمال کرتے ہیں ‘‘ اور اگر بحث کی جاۓ تو اکثر مچھیروں کو لاٹھیوں سے ’’ مارتے ہیں ‘‘۔
بہت سوں نے ذلّت محسوس کی کہ انہیں اس پانی تک رسائی سے محروم رکھا جارہا ہے جو “تاریخی طور پر ہمارے ہیں”۔
اس تکلیف کو جیٹی کی تعمیر سے کسی حد تک دور کیا جا رہا ہے تاکہ ماہی گیر اپنا شکار وہاں اتار سکیں۔
گوادر شہر میں ماہی گیروں کا مستقبل
سی او پی ایچ سی نے تسلیم کیا کہ گوادر کے لوگ مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔
سی او پی ایچ سی کے چیئرمین ژانگ نے کہا ، “یہ ایک انتہائی نظرانداز شدہ علاقہ ہے جس میں نہ صرف صحت اور تعلیم کے محاذوں پر بہت زیادہ چیلنجز ہیں بلکہ یہاں بجلی اور پانی کے بھی مسائل ہیں۔”
گوادر کے نوجوانوں کے لیے مستقبل تاریک ہے-
پچھلے 15 سالوں سے ، زیر تعمیر ڈگری کالج پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ یونیورسٹی آف تربت سے وابستہ یونیورسٹی کیمپس کالج کے کیمپس میں واقع ہے ، لیکن اس کی فیکلٹی بہت محدود ہے۔ مقامی صحافی بہرام بلوچ کے مطابق ، گوادر یونیورسٹی پر، جسے چین ایک چینی یونیورسٹی کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے، فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے سنگ بنیاد کے بعد سے کوئی کام نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا ، “جو لوگ اس کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے کراچی بھیج دیتے ہیں یا بطور خاندان منتقل ہو جاتے ہیں۔” ان کے تین بچے پنجاب کے شہر بہاولپور میں ایک بورڈنگ سکول میں پڑھتے ہیں۔
سی او پی ایچ سی مقامی لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے چھوٹی تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان میں ایک ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا قیام ، 100 بستروں پر مشتمل جدید ہسپتال کی تعمیر شامل ہے جو سال کے آخر تک فعال ہو جائے گا ، مقامی لوگوں کو روزانہ ایک ملین لیٹر میٹھا پانی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ درخت لگانا بھی شامل ہے۔ سی او پی ایچ سی نے ایک چینی این جی او کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے گوادر کی ایک غریب آبادی میں ایک نیا مڈل سکول بنانے کا انتظام بھی کیا ہے۔
“گوادر خاص ہے ،” ژانگ نے کہا مزید یہ کہ انہوں نے لوگوں کو “محنتی ، دوستانہ اور امن پسند” پایا۔