غنڈا گردی پر مبنی فلم کی یاد دلانے والے ایک منظر میں سیاہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد گندم کے ایک کھیت کو برباد کر رہے ہیں اور نئے اگے ہوئے پودے جڑ سے اکھاڑ کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ قریب ہی کچھ کالے رنگ کی سامان اٹھانے والی گاڑیاں کھڑی ہیں جبکہ کھیت سے اڑنے والی دھول خزاں کی ہوا میں معلق ہے۔
یہ آدمی راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں، جو کہ 2020 میں دریائے راوی کے کنارے ایک نئے شہر کی ترقی کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا سرکاری ادارہ ہے۔ نومبر 2022 میں، وہ لاہور کے مضافات میں، پنجاب میں ضلع شیخوپورہ کے شہر فیروز والا میں منصوبے کے لیے زمین حاصل کرنے کے مشن پر ہیں۔
نئی میگا سٹی، جس کا افتتاح سابق وزیر اعظم عمران خان نے اگست 2020 میں کیا تھا، اس کا مقصد ایک کڑوڑ سے ایک کروڑ پچیس لاکھ افراد کی آبادی (لاہور کی موجودہ آبادی کے برابر) کے لیے دریا کے دونوں کناروں پر رہائشی، صنعتی، تجارتی اور تفریحی زون فراہم کرنا ہے۔
آج کل دریائے راوی انتہائی آلودہ ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اسے دواسازی سے ہونے والی آلودگی کے لحاظ سے دنیا میں بدترین قرار دیا گیا ہے۔ راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ بیراجوں اور جھیلوں کی تعمیر کے ذریعے آلودہ دریا کو میٹھے پانی کے ذریعہ بحال کرے گا۔
راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پہلے ہی متحدہ عرب امارات اور چین میں مقیم فرموں اور پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ بھی 1.4 ارب امریکی ڈالر کی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں تاکہ اس منصوبے کے کچھ ماڈل تیار کیے جا سکیں۔ اس منصوبے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں معلومات ملنا مشکل ہے ، لیکن راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پہلے پراجیکٹ پر پیش رفت واضح ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لاہور کے قریب چہار باغ میں راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے تعمیر کردہ ایک نئی گیٹڈ کمیونٹی میں پلاٹ خریداری کے لیے دستیاب ہیں۔
دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سی ای او عمران امین نے کہا کہ علاقے کی بڑھتی ہوئی آبادی کو بسانے کے لیے ترقی ضروری ہے، کیونکہ شہری پھیلاؤ لاہور کی حدود سے باہر پھیل گیا ہے اور شہر کے انفراسٹرکچر( سڑکوں، پلوں اور نکاسی آب کا نظام) کی صلاحیت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ امین نے کہا کہ “بیراجوں کے لیے کل 4,500 ایکڑ زمین حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ بیراجوں کے لیے زمین کے علاوہ ہمیں مزید زمین حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔”
انہوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا اس منصوبے کا تصور گرین کور (سیلابی پانی کو جمع کرنےاور زمین میں پانی کو جذب کروانےکےمختلف طریقے) کو بڑھا کر ماحولیات کو سہارا دینے کے لیے بنایا گیا ہے، اور آر یو ڈی اے کا کہنا ہےکہ وہ ماحولیاتی تا لاب، دلدلی زمینیں ، جنگلی حیات کی پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ دیگر منصوبے بھی تعمیر کریں گے۔
لیکن اس منصوبے کے لیے زمین کے حصول کے عمل کے دوران راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مقامی کسانوں کی غضب ناکی کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے صدیوں سے دریائے راوی کے کنارے زرعی اراضی کاشت کی ہے، جس سے ملکیت پر جھگڑے شروع ہو گئے ہیں۔
دریائے راوی کے کنارے زمین کس کی ملکیت ہے؟
ایک مقامی زمیندار سلیمان سجاد وڑائچ دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ وہ ایک سال میں تقریباً 125,000 پودے لگاتے ہیں، اور اگر وہ مجھے یقین دلا دیں کہ وہ ماحولیاتی انحطاط سے لڑنے کے لیے زیادہ سے زیادہ فضائی آلودگی کو روکنے والےاور پا نی کی صفائ کرنےوالے پلانٹس لگائیں گے تو میں خوشی سے انہیں اپنی زمین پیش کروں گا۔ میں نہیں چاہوں گا کہ میرے کھیتوں کو کنکریٹ کے شہری جنگل میں تبدیل کیا جائے۔
سلیمان وڑائچ کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان لاہور سے تقریباً 30 کلومیٹر دور مریدکے میں تقریباً 630 ایکڑ زرخیز زمین کا مالک ہے۔ وہ آلو، گندم اور مکئی کے ساتھ ساتھ پھل اور سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔
وڑائچ کا کہنا ہے کہ نومبر 2022 میں راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ٹیم نے گندم کا جو کھیت مسمار کیا تھا وہ ان کی بیٹ کا ہے۔ تاہم، راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی دعویٰ ہے کہ زمین ریاست کی ملکیت ہے، اس لیے وہ اسے میگا پروجیکٹ کے لیے حاصل کر سکتے ہیں۔ وڑائچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے چھ مہینوں میں اُن کی آلو اور کدو کی فصلیں دو بار تباہ کی جا چکی ہیں تاکہ وہ زمین میں کھیتی باڑی کرنے سے اُن کی حوصلہ شکنی کر سکیں جس کے بارے میں راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست کی ملکیت ہے۔
وڑائچ کہتے ہیں کہ “وہ ہمارے آدمیوں کو لے جاتے ہیں، پانی کے پمپ ضبط کر لیتے ہیں، اور ہمارے خلاف پولیس کیس درج کرتے ہیں۔ میری خاندانی زمین جس پر راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی غلط طور پر سرکاری زمین کا دعویٰ کرتا ہے، کاشت کرنے اور اس کی حفاظت کرنے پر میرے خلاف چار ایف آئی آرز [پہلی معلومات کی رپورٹس] درج کی گئی ہیں۔
سعد وڑائچ جن کا (سلیمان سے کوئی تعلق نہیں) اور جو کہ ایک وکیل اور کسانوں کے حقوق کے کارکن ہیں نے کہا کہ” راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ان کی مکئی، گندم، کدو اور آلو کی فصلوں کو بلڈوز کر دیا ہے”۔ وڑائچ کا خاندان لاہور سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موضع کچی کوٹلی میں تقریباً 63 ایکڑ زرعی اراضی کا مالک ہے۔
چالیس سالہ نسرین جو چار بچوں کی ماں ہے، سلیمان سجاد وڑائچ کے فارم پر کام کرتی ہے، آلو، لیموں اور دیگر موسمی فصلیں ایک دن میں 500 روپے (3 امریکی ڈالر سے کم) میں چنتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے بلڈوزر فصلوں کو تباہ کر دیتے ہیں تو ہمارے پاس کام نہیں ہوتا، کمانے کے لیے روزانہ مزدوری نہیں ہوتی اور اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کھانا نہیں ہوتا۔
نسرین کو خدشہ ہے کہ اگر نئے شہر کی ترقی کے لیے زرخیز زمین کو راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اپنے قبضے میں لے لیا تو اسے روزی کمانے کے لیے ایک نیا گھر اور دوسرا کھیت تلاش کرنا پڑے گا۔” ہم کہاں جائیں گے؟ ہم اپنے بچوں کی شادی کیسے کریں گے؟ اگر ڈویلپرز یہ کھیتی باڑی کی زمین حاصل کر لیتے ہیں تو ہم کیا کھائیں گے؟
قانونی مشکلات
2021میں ایک پاکستانی غیر منافع بخش ادارہ پبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان (پی ای ایل اے پی)، مفادعامہ کے لیے راوی سٹی کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں لے کر گیا تاکہ زمین کے حصول کے اس عمل کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکے۔ 25 جنوری 2022 کو لاہور ہائی کورٹ نے باضابطہ طور پر فیصلہ دیا کہ زمین کے حصول کا عمل ‘الٹرا وائرز’ (آر یو ڈی اے کے قانونی اختیار سے باہر) اور ماحولیاتی قوانین کے خلاف تھا۔
لیکن صرف چھ دن بعد 31 جنوری 2022 کو، پاکستان کی سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا، اور راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو تعمیراتی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی لیکن صرف اس زمین پر جو پہلے سے قانونی طور پر حاصل کی گئی تھی اور جس کے مالکان کو معاوضہ ادا کیا گیا تھا۔
سعد وڑائچ کہتے ہیں کہ راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ زمین سرکاری ملکیت ہے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ نے اراضی کے حصول کے عمل اور راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے دیے گئے ایوارڈ کو ختم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 31 جنوری 2022 سے پہلے جو اراضی راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے حاصل کی تھی صرف اُس پر ترقی کی اجازت دی تھی، جس کے لیے کسانوں کو معاوضہ ادا کر کے قبضہ حاصل کیا گیا تھا۔
11اکتوبر 2022 کو پی آئی ایل اے پی، جس کی نمائندگی ایڈووکیٹ رافع عالم نے کی، نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تاکہ یہ کیس بنایا جا سکے کہ راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی ابھی بھی مزید زمینیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جوکہ جنوری کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو سپریم کورٹ کے حکم کے باہر زمین کے حصول سے روک دیا۔
اکتوبر میں ہی، پی آئی ایل اے پی نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترمیمی بل 2022 کو چیلنج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن جمع کرائی، جسے پنجاب اسمبلی نے 7 ستمبر کو منظور کیا تھا۔ عالم کا کہنا ہے کہ یہ بل راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو زمین کے حصول کے لیے اضافی اختیارات دیتا ہے، کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لیے مزید زمینوں کے حصول کو عوامی مفاد میں سمجھا جائے گا۔ درخواست گزاروں نے ضابطہ قانون برائے حصول اراضی 1894 کے تحت تجارتی مقاصد کے لیے زمین کے زبردستی حصول کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کسانوں کو ان کی زمین سے محروم کرنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے پراجیکٹ کے ماحولیاتی اثرات کے جانچ کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا، جس پر ان کا الزام ہے کہ یہ غیر رجسٹرڈ مشاورین نے کیا تھا۔
دسمبر 2022 کی ایک ٹویٹ میں مزدوروں کے حقوق کے کارکن عمار علی جان، جو دریائے راوی کے علاقے میں کسانوں کے حقوق کی حمایت کے لیے کام کر رہے ہیں، نے الزام لگایا کہ پنجاب حکومت راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے علاقے میں صحافیوں کے لیے 700 کنال (87.5 ایکڑ) مکانات مختص کرنے کی پیشکش کر رہی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ یہ اب بھی ایک متنازعہ منصوبہ ہے جہاں کسان انہیں بے دخل کرنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ یہ راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بدعنوانی پر تنقید روکنے کے لیے رشوت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سی ای او امین نے کہا کہ ہم زمینداروں کو ڈپٹی کمشنر کے طے شدہ نرخ سے زیادہ ادائیگی کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ نئے راوی شہر میں ایک پلاٹ بھی دے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو سال بہ سال معاوضہ ادا کر کے ان کے نقصانات کی تلافی کر دی گئی ہے۔
ماحول کو نقصان پہنچانے کا ‘منصوبہ’؟
علاقے کو اس موسم گرما میں پاکستان کے بیشتر حصے میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بچایا گیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شدید سیلاب کبھی بھی اس علاقے کا رخ نہیں کریں گے جبکہ سائنسی طور پر یہ بات مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی موسم کے نمونوں کو زیادہ شدید اور غیر متوقع بناتی ہے۔
وقار زکریا، جو اسلام آباد میں قائم ماحولیاتی مشاورتی فرم، ہیگلر بیلی پاکستان کے سربراہ ہیں، اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے دریائے راوی کے بیسن (طاس) کی ماحولیات کو بحال کرنے کے لیے2013 میں ماسٹر پلان تیار کرنے والی ٹیم کے ماہرین میں شامل تھے۔ جس میں 2013 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں راوی ریور فرنٹ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے پیشگی امکانات پر غور کیا گیا۔” ہم نے تجویز پیش کی کہ اسے اس انداز میں تیار کیا جائے کہ اگر 25 سال کا سیلاب( کسی بھی سال میں آنے کا 4 فیصد امکان) آئے تو تباہی کم سے کم ہو۔”
زکریا کہتے ہیں کہ انہوں نے 50-سالوں کے سیلابی میدانوں (ایسا علاقہ جس کے سیلاب میں ڈوبنے کا امکان 50 سال میں ایک مرتبہ ہو) میں معمولی تعمیر کی سفارش اور 100-سال کے سیلابی میدانوں میں مضبوط تعمیرات کی سفارش کی تاکہ معاشی استعمال اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکے۔
تاہم پی ٹی آئی حکومت نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ زکریا کا کہنا ہے کہ دریائے راوی پر بیراجوں، ڈیموں اور جھیلوں کی تعمیر کے منصوبے جو پانی کے بہاؤ کو محدود کر دیں گے، پانی کی سطح کو اوپر کی طرف لے جا سکتے ہیں اور نہروں کو اوور فلو کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ “پانی ان رکاوٹوں پر بہہ سکتا ہے اور لاہور کے کچھ حصوں کو ڈبو سکتا ہے۔ اس سال سندھ میں ایسا ہی ہوا۔ ایک بار جب پانی اوور فلو ہو جائے تو اس کے لیے واٹر چینلز پر واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے منصوبے پر عمل کرنے کی صورت میں پیش آسکتا ہے۔”
دانش مصطفی جو کہ کنگز کالج لندن میں تنقیدی جغرافیہ کے پروفیسر ہیں، نے راوی شہر کے منصوبے کے حوالے سے مستقبل میں آنے والے سیلاب کے مضمرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ دیہات (کھیتی باڑی کی زمینوں) کو شہر میں تبدیل کرتے ہیں تو آپ شہر کے انفراسٹرکچر کو بنانے کے لیے مزید رقبے کو پختہ کر دیتے ہیں اور اس وجہ سے جو پانی جمع کیا جا سکتا تھا وہ ضائع ہو جاتا ہے اور بہت کم پانی زیر زمین ریچارج (یعنی بارش اور سیلاب کے پانی کو زمین میں جمع کرنے کے مختلف طریقے) ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جدید شہری ڈیزائن کی یہ سب سے بڑی خرابی ہے جس میں پانی کو جمع کرنے کے حوالے سے تھیوری اور پریکٹس دونوں پر ہی بہت کم زور دیا جاتا ہے۔”
مترجم: عشرت انصاری