مشیر احمد کے لئے ، سال کا یہ وقت اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ “دن کب ختم اور رات کا آغاز” کب ہوتا ہے- دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے ، کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے ایک ممبر کی حیثیت سے ، ہر سال مون سون کی بارش سے قبل ، وہ تقریبا 60 افراد کی ٹیم کی قیادت کرتے ہیں، جو بارش سے پہلے ہی کارروائی کا آغاز کردیتے ہیں-
ٹیم بھاری مشینری یعنی کھدائی کرنے والے ڈمپرز ، ٹریکٹر ٹرالیوں اور یہاں تک کہ پہیڑیوں اور بیلچے تک نکال لاتی ہے تاکہ شہر کے چار درجن کچرے سے بوجھل سیلابی نالیوں اور نالوں کی صفائی کرسکیں۔
ہر سال جب بارش ہوتی ہے تو ، چینلز اضافی پانی کو بحیرہ عرب میں تصرف کرتے ہیں۔ تاہم ، اس سال ، احمد نے تسلیم کیا کہ میونسپلٹی کو اس کام شروع کرنے میں تقریبا تین ماہ کی تاخیر ہوئی ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لئے ، بارش بھی جلدی ہوگئی۔
احمد جو میونسپل سروسز کے ڈائریکٹر ہیں ، نے بتایا ، “44 میں سے گجر ، اورنگی اور محمود آباد کے تین نالے جو بالترتیب 12 کلومیٹر ، 10 کلومیٹر اور 8 کلومیٹر لمبی ہیں ، سب سے زیادہ مشکل پیدا کرتے ہیں۔” “ہر نالہ کو صاف کرنے میں ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔”
یہ قدرتی نالے 550 بڑی اور چھوٹی سیلابی نالیوں کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں جنکا جال اس وسیع و عریض شہر میں پھیلا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ، صرف چند ملی میٹر بارش فوراً شہر کو تالاب میں تبدیل کردیتی ہے-
اس سال ، بارش پیر ، 7 جولائی کو شروع ہوئی اور ایک دو گھنٹے تک جاری رہی۔ شہر کے دو مختلف حصوں، صدر میں زیادہ سے زیادہ 43 ملی میٹر جبکہ سرجانی ٹاؤن میں 1.2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ لیکن اس سے جو تباہی پھیلی اس
میں شہر کی سڑکیں زیر آب آنے گندہ پانی اگلتےمین ہولز اور کراچی کے کچھ علاقوں میں بجلی کی بندش سے لے کر لوگوں کے ٹریفک جام میں گھنٹوں پھنسے رہنے تک شامل تھے نتیجتاً سوشل میڈیا پر عوام کا غصّہ عروج پر تھا-
ٹیلی ویژن اسکرینوں پر جانے پہچانے مناظر دیکھنے کو ملے- جب مسافر انچ انچ اپنی منزل کی طرف کھسک رہے تھے اور کمر تک گہرے پانیوں میں موٹرسائیکل والے اپنی بیجان بائیکس گھسیٹ رہے تھے وہیں ان سب کے بیچ جھاڑو ،بالٹیوں اور بانس کے کھمبے سے لیس صفائی کے کارکنوں کی ایک غیر منظّم فوج نالیوں اور مین ہولوں کے دہانے کھولنے کی کوشش کررہی تھی-
بارشیں اپنے ساتھ سانحے بھی لاتی ہے- 2014 اور 2019 کے درمیان ، صرف کراچی میں بارش سے وابستہ 70 اموات ہوئیں۔ 2018 ذرا مختلف رہا لیکن اسکی وجہ اس سال بارش بہت کم ہوئی تھی-
پیر کے دن کراچی میں چھ اموات کی اطلاع ملی ہے۔ پاکستان محکمہ موسمیات کے کراچی کے سربراہ ، سردار سرفراز نے تھرڈ پول کو بتایا ، “یہاں تک کہ ایک گھنٹہ کے دوران 50 ملی میٹر سے 70 ملی میٹر تک بارش شہری سیلاب کا باعث بن جاتی ہے۔”
نالوں کی صفائی
مہینوں سے ، حکومت سندھ ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے بارے میں وہ پر امید ہے- حکام نے دعوی کیا ہے کہ اس سال شہری سیلاب سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لئے انہوں نے ایک حل تلاش کیا ہے-
محکمہ بلدیات ، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) ، کے ایم سی اور چھ ضلعی میونسپل کارپوریشنوں نے ایک سو ملین امریکی ڈالر کے ورلڈ بینک پروجیکٹ کے تحت افواج میں شمولیت اختیار کی ہے تاکہ وہ مختلف کام کرسکیں، یہ زبیر چنہ بتاتے ہیں ،جو ورلڈ بینک کے مالی تعاون سے چلنے والے کمپیٹیٹو اینڈ لِوایبل سٹی کراچی (سی ایل آئی سی کے) کے تحت سالڈ ویسٹ ایمرجنسی اینڈ ایفیشینسی پروجیکٹ (ایس ڈبلیو ای پی) پروجیکٹ کی نگرانی کرتا ہے جس میں وہ پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔
موجودہ انسانی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے جو ہر سال نالوں کی صفائی کرتے ہیں ، اس بار انہوں نے کہا ، حکومت گند نکاسی کو یقینی بنارہی ہے (عام طور پر نالیوں کے کنارے لگا ہوا ڈھیر) واپس نالے میں نہیں جائیگا بلکہ اپنے آخری مقام تک پہنچایا جائیگا، جوکہ کراچی کے شہر کے وسط سے تقریبا 30 کلومیٹر دور واقع ، 500 ایکڑ جام چکرو لینڈفل سائٹ پر 10 ایکڑ اراضی کا پلاٹ ہے۔
سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ (ایس آئی ٹی ای) میں ٹریٹمنٹ پلانٹ 1 میں چار ایکڑ پر ایک اور پلاٹ ہے ، جہاں کچھ گند منتقل کیا جائیگا اور چالیس سال پرانے قوی الجثہ کیچڑ کے سینکڑوں سلو میں رکھا جائیگا- چنہ نے کہا ، “ان کی صفائی اورمرمّت کی گئی ہے اور استعمال کے لئے تیار کیا گیا ہے۔”
کیچڑ ٹینکس کی تہہ میں موجود ایک کمپارٹمنٹ میں جمع ہوتی جائیگی اور اوپر کا خشک حصہ ٹریٹمنٹ کے بعد کھاد کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔”
“کام ابھی شروع ہوا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں ، ہم نے دونوں مقامات پر ایک لاکھ مکعب فٹ سے زیادہ کیچڑ منتقل کیا ہے۔ جیسے جیسے رفتار تیز ہوگی ہم ایک دن میں دس لاکھ مکعب فٹ تک کا ارادہ رکھتے ہیں”، چنہ نے مزید بتایا-
کیچڑ میں پلاسٹک کے کچرے سے لے کر فضلہ، جھاڑیاں اور تعمیراتی سامان تک ہوتا ہے۔ احمد کو نالوں کی صفائی کے دوران اکثر “صوفے ، گدوں ، یہاں تک کہ کموڈ اورسنک اور موٹرسائیکلوں کی چیسی” تک ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن ان سب سے بڑا مجرم ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا یہ نکاسی آب ہے کیونکہ یہ نالوں میں سلٹ جمع ہونے کا باعث بن رہا ہے۔
تھرڈ پول سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ، کے ڈبلیو ایس بی کے ایک سینئر افسر نے کے ایم سی کے احمد سے اتفاق کیا کہ واٹر اتھارٹی فضلہ نالیوں میں ڈال رہی ہے جو “تکنیکی طور پر” طوفان یا بارش کا پانی نکالنے کے لئے ہے۔
بہرحال، “نکاسی آب کے نئے نظام کی تشکیل کے لئے یا خراب ہونے والے سیوریج انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لئے کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی گئی” ، چناچہ واٹر اتھارٹی شہر کےفضلے کو ان نالیوں میں بہانے پر مجبور تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پانی کو گند نکاسی آب سے الگ کرنے کے لئے “اربوں روپے” کی ضرورت ہے ، ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی لینڈ کوریڈور نہیں ہے جہاں کے ڈبلیو ایس بی نیا انفراسٹرکچر رکھے یا انسٹال کرسکے۔
اور جہاں زمین موجود ہے وہاں پر مطلب سڑکیں کھودنا ہے۔ کے ڈبلیو ایس بی افسر نے بتایا ، “سیوریج لائنوں پر کام کرنے کے لئے کچھ شریانوں کا بند ہونا کسی درد سر سے کم نہیں ہوگا۔”
اپنی آخری حدوں کو چھوتا، 13 ملین کی آبادی والا میگا سٹی دنیا کے سب سے گنجان آباد شہری مراکز میں سے ایک ہے اور اس میں روزانہ تخمینہ 13،000 ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے – جسے ایس ایس ڈبلیو ایم بی جمع کرنے میں ناکام ہے۔
فضلہ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس میں سے 70 فیصد کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے دونوں لینڈ فلز تک لے جانے کے قابل ہے۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے مطابق ، یہ جام چکرو لینڈ فل پر 6000 سے 7000 ٹن کراچی کا کچرا اور حب ندی کے قریب گونڈ پاس کے دوسرے 500 ایکڑ زمینی حصے پر مزید 1،000 سے 2،000 ٹن پھینکنے کے قابل ہے۔ باقی ہمیں شہرمیں بکھرا نظر آتا ہے۔
شہری منصوبہ بندی کا کردار
گندگی اور کوڑے جو نالیوں کو بھر رہا ہے کے علاوہ نالیوں پر اور اس کے ساتھ ساتھ غیرقانونی تعمیرات بھی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جو شہری سیلاب کوبڑھاوا دے رہا۔
“رئیل اسٹیٹ اور دیگر تعمیراتی کاموں نے سطحی پانی کے قدرتی بہاؤ کے انداز میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں جو شہر میں شمال اور شمال مشرق سے جنوب (سمندری سمت) کی طرف بہتی ہے۔” کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی میں فن تعمیرات اور نظم و نسق کی فیکلٹی کے پروفیسر اور ڈین نعمان احمد نے اسکی نشاندہی کرتے ہوۓ بتایا۔
ماہر ماحولیات رفیع الحق نے کہا کہ لیاری ندی کے 26 کلومیٹر کے ساتھ ایک شہری جنگل اور ملیر ندی کے کنارے ایک اور جنگل قدرتی بہاؤ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ “اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر کو سبزے کی ضرورت ہے ، لیکن زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی ضرور کی جانی چاہئے تاکہ سمندر تک پانی کے آزادانہ بہاؤ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے۔” انہوں نے کہا-
مزید یہ کہ شہری منصوبہ ساز فرحان انور نے کہا ، زیادہ تر کھلی جگہیں بشمول پارکس اور گرین اسپیس جنہیں بطور “قدرتی فلٹریشن زون” اور “نکاسی آب کے بیسن” کے طور پر کام کرنا چاہیے تھا ، وہ “تجاوزات کا حصّہ بن گۓ ہموار کردیےگۓ یا پکے کنکریٹ کردیے گۓ” نتیجتاً شہری سیلاب مزید بڑھ گۓ-
لیکن کراچی نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر دوسرے شہروں سے بھی مختلف ہے- نعمان احمد نے کہا کہ اس غیر معمولی شہر کو “بھرپور” لیکن “غیر روایتی” شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کراچی ، جنوب مشرقی صوبہ سندھ کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے اور یہاں کے باشندوں کی کثیر الثقافتی آمیزش موجود ہے ، انہوں نے کہا کہ انتظامی سطح پر ان کی نمائندگی کبھی بھی نظر نہیں آتی-
انہوں نے مزید کہا ، “اگر کراچی کے بنیادی انتظامات اور ترقیاتی امور پر باخبر مباحثہ ہو تو کراچی کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔”
انور نے “سیلاب کے خطرے والے زونوں کی حد بندی” اور “خطرے کا پروفائل تیار کیا جس میں ان حدود میں آنے والے متاثرہ افراد اور اثاثوں کی تفصیلات” پیش کی گئیں- ابھی تک ، اس طرح کے صرف ایک مطالعے کیا گیا ہے- ملیر ندی کے لئے 1979 میں کورنگی صنعتی اسٹیٹ میں سیلاب آنے کے بعد ، جس کے بعد سیلاب سے بچاؤ کے لئےایک پشتی تعمیر کیا گیا تھا۔
لیکن کراچی 19 مختلف زمینوں کی مالک ایجنسیوں کے ساتھ ، جو حکومت کے تینوں درجوں میں پھیلی ہوئی ہے ، مقامی ، صوبائی اور وفاقی حکام کے مابین وسائل کے لئے مستقل جنگ لڑی جارہی ہے جو سمندر کے کنارے بسے اس شہر کا انتظام و انصرام سنبھالتے ہیں۔