ایڈیٹر نوٹ: دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان کے وجود کے لئے ضروری ہیں۔ برطانوی انجینئروں نے 1840 کی دہائی میں زیریں سندھ میں دنیا کا سب سے بڑا نہری آبپاشی کا نظام بنایا۔ بہت سے مزید ڈیم، بیراج، ویرز اور نہریں، 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد تعمیر کی گئیں۔ نتیجتاً، دریا کا بہاؤ اس قدر منقطع ہو گیا کہ دریائے سندھ کئی سالوں تک سمندر تک نہ پہنچ سکا۔
اس کے بعد 2010 کا تباہ کن سیلاب آیا، جس میں تقریباً 2000 اموات ہوئیں اور ساتھ یہ بھی پتا چل گیا کہ دریائے سندھ کے ساتھ چلنے والا ترقیاتی ماڈل کتنا غیر پائیدار تھا۔ سیلاب کے مہینوں بعد، معروف جغرافیہ دان دانش مصطفی اور ممکنہ خطروں اور نقصانات کے نامور تجزیہ کار ڈیوڈ ریتھل نے پاکستان میں مروجہ ترقیاتی ماڈل اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو اس ماڈل نے کس طرح بڑھایا اس پر تفصیلی تنقید کی۔ دی تھرڈ پول میں شائع ہونے والی ان کی تین حصوں کی سیریز یہاں، یہاں اور یہاں پڑھیں۔
مصطفیٰ اب پاکستان کے تباہ کن 2022 کے سیلاب کے تناظر میں ایک نئی دو حصوں کی سیریز کے ساتھ اس موضوع پر نظرثانی کررہے ہیں، اور پالیسی سازوں سے پانی پر نوآبادیاتی ذہنیت سے دور ہونےکی شدّت سے درخواست کررہے ہیں۔
پاکستان میں 2022 کے عظیم سیلاب سے ہونے والا نقصان اتنا ہی زیادہ ہے کہ ہم پانی کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں جتنا موسمیاتی تبدیلی اور موسمیات کے بارے میں۔ خطرات کی تحقیق میں یہ ایک قائم شدہ اصول ہے کہ ایک طبعی واقعہ صرف اس وقت خطرہ بنتا ہے جب وہ غیر محفوظ آبادیوں کو متاثر کرتا ہے۔ غیرمحفوظیت ترقیاتی انتخابات میں اتنی ہی سرایت شدہ ہے جتنی یہ روزمرہ زندگی کی سیاسی معیشت میں ہوتی ہے۔
پاکستان میں 2022 کے سیلاب نے اب تک تقریباً برطانیہ کے برابر رقبے کو غرق کر دیا ہے۔ 30-50 ملین افراد متاثر ہوئے؛ اور 1,100 سے زیادہ لوگوں کی موت واقع ہوئی۔ اب تک ہونے والے نقصانات صرف غیر معمولی مون سون کے طبعی واقعات کا کام نہیں ہیں۔ وہ یکساں طور پر بنیادی ڈھانچے اور انجینئرنگ کے انتخابات کا نتیجہ ہیں جو کچھ مخصوص ترقیاتی تخیلات کے ذریعہ کارفرما ہیں، اور یقینی طور پر پاکستان کے لئے مقامی نہیں ہیں۔ پانی کے حوالے سے پاکستانی پالیسی اور عوامی تصور میں ترک نوآبادیات کی اشد ضرورت ہے۔
ترک نوآبادیات سے کیا مراد ہے؟ میرے خیال میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو جاننے کے غالب مغربی طریقے کے علاوہ بہت سے طریقے ہیں۔ بجاۓ ایک مخصوص جانکاری سے جڑے رہنے کے، اگر ماضی اور مستقبل کو جاننے، عمل کرنے، تصور کرنے کے ان مختلف طریقوں اپنایا جاۓ تو انسانی زندگی کو تقویت ملے گی اور مخصوص غالب طریقہ سے چھٹکارہ ملے گا۔ یہ سائنس کی جگہ نہیں لیتا بلکہ انسانی تجربے کے تنوع کو اس میں ضم کر کے مزید تقویت بخشتا ہے۔
سوچ کے ہزار دھارے
تو پانی کی ترک استعماریت سے کیا مراد ہے؟ پاکستان میں 2022 کے سیلاب کے تناظر میں اس کا کیا مطلب ہے؟ 150 سال پہلے نوآبادیاتی ہندوستان میں، جس کا پاکستان ایک حصہ تھا، پانی کے بارے میں نظریات کو جدیدیت کے نام پر محض “وسائل ” قرار دے کے اس حد تک محدود کر دیا تھا کہ مقامی ثقافتوں میں اسکی متعدد اقدار مفقود ہو گئیں۔ جدید نظریہ نے پانی کو صرف آبپاشی، پانی کی فراہمی اور صفائی کا ایک ذریعہ سمجھا۔ جمالیاتی، ثقافتی، روحانی اور ماحولیاتی اقدار جنہیں مقامی معاشروں نے پانی سے منسوب کیا تھا، اس سوچ کے تحت نظرانداز کردئیے گۓ۔
جدیدیت کے تحت، دریا کیوبک میٹرز پانی لے جانے والا ایک بڑا پلمبنگ سسٹم تھا، اور توقع کی جاتی تھی کہ وہ اوسط بہاؤ کی مسلط کردہ بے لوچ حدود کے اندر رہیں گے۔
موسمیاتی تبدیلی ہو رہی ہے اور اس کے تحت، اوسط اور معمول کے حوالے سے ماضی کی توقعات برقرار نہیں رہیں گی
لیکن تجرباتی طور پر پاکستان/ہندوستان میں مقامی سوسائٹیوں کے لئے، اوسط بہاؤ بے معنی تھے، جیسا کہ کیوبک میٹر تھے۔ ان کے نزدیک دریا اپنے مزاج اور نظام کے ساتھ زندہ ہستی تھے، جس میں کوئی دو دن یکساں نہیں تھے۔ لوگ دریاؤں کے ساتھ ایسے ہی رہتے اور رابطہ کرتے جیسے وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے اور بات چیت کرتے تھے۔ تاہم، مقامی علم میں، تجرباتی مشاہدات اور ہائیڈرولوجی، جیومورفولوجی اور موسمیات کا اتنا ہی عمل دخل تھا جتنا اس کے جدید ہم منصبوں میں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مقامی علم نے اس کو ایک زندہ، جذباتی نوعیت کے لحاظ سے بیان کیا ہے بجائے اس کے کہ ایک بے جان طبعی ہستی جو انسانی تعمیرات اور اس پر عائد اصولوں کے تابع ہو۔
غیر یقینیت کو اپنانا سیکھیں
سیلاب ایک دریا کے قدرتی تال میل کا حصہ ہیں، جیسا کہ شدید بارش کے واقعات ہیں۔ وہ اوسط بہاؤ اور بارش کی اعدادوشمار سے اخذ کردہ حدود کے اندر رہنے کی پرواہ نہیں کرتے جس کی جدید انسان ان سے توقع کرتے ہیں۔
پانی کی ترک استعماریت کا مطلب دریاؤں اور سینٹی میٹر بارش کے لئے اوسط حجمی بہاؤ کی جدید توقعات کو ختم کرنا اور پانی کے بارے میں سوچ، پالیسی اور عمل میں غیر یقینی صورتحال، حرکیات اور مؤثریت کے مقامی تجربے کو دوبارہ مرکوز کرنا ہے۔
کوئی بھی قابل سائنسدان کبھی بھی کسی خاص واقعہ کو صرف موسمیاتی تبدیلی سے منسوب نہیں کرے گا۔ موسمیاتی ماڈل بہت سی مختلف کہانیاں سنائیں گے کہ مستقبل کیسا ہو گا۔ لیکن ایک چیز جس پر ہر موسمیاتی سائنسدان متفق ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی ہو رہی ہے اور اس کے تحت، اوسط اور معمول کی ماضی کی توقعات برقرار نہیں رہیں گی۔
ایسے حالات میں، پانی کو استعماریت سے آزاد کرنا دوگنا ضروری ہو جاتا ہے، تاکہ ذہن اور عمل کی عادات کو واپس لایا جا سکے جنہوں نے انسانوں کو کرہ ارض پر سب سے کامیاب نسل بننے میں مدد فراہم کی ہے۔ سائنس اور پانی کی ترک آبادیت کا ایجنڈا موسمیاتی تبدیلی کے تحت ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور سے، یہ توقع کہ دریاؤں میں اوسط سالانہ بہاؤ ہوگا، یا بارشیں ماہانہ معمول کے مطابق ہوں گی، نے سندھ طاس میں انجینئرنگ کے بہت مہنگے اور غیر پائیدار طریقوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس سال جب پہاڑی ندی نالوں میں طغیانی آئی تو وہ ہوٹلوں اور رہائشی عمارتوں کو بہا لے گئے جو پاکستان کے پہاڑی سیاحتی مقامات پر بنائے گئے تھے۔ جنوب میں بلوچستان اور سندھ میں شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ 30 سے زائد ڈیموں کو بہا لے گیا اور ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آ گئی۔
جیسے ہی پانی دریائے سندھ میں اپنے قدرتی نکاسی کی طرف بہتا ہوا آیا، اس کے بہاؤ میں دریا کے ساتھ ساتھ پٹیوں کی صورت میں مصنوعی پشتوں اور سندھ کے میدانی علاقوں کے نشیبی فلیٹ ریلیف میں سڑک، ریلوے اور نہر کے برموں کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوئی۔ ستمبر 2022 کے اوائل تک، لاکھوں لوگ اب بھی سندھ اور بلوچستان میں اونچی سڑکوں اور نہروں کے کنارے، انہی بندوں پر پھنسے ہوئے ہیں جو اس پانی کو روکے ہوئے ہیں جو ان کے گھروں اور زمینوں کو غرق کر رہا ہے۔ استعماریت سے آزاد پانی، جدید پانی کی ایک مؤثر تنقید پیش کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو ریلیف اور مستقبل کے تحفظ کا کوئی یقین دہانی پیش کرتا ہے؟ یہ اس دو حصوں کی سیریز میں میرے اگلے مضمون کا موضوع ہوگا۔
یہ سلسلہ ڈیکولونایزنگ جیوگرافی کے ماہرین تعلیم کے ساتھ بات چیت سے شروع کیا گیا تھا اور پہلے ویب سائٹ decolonisegeography.com پر شائع کیا گیا تھا۔
مترجم: ناہید اسرار