کرن عاکف کہتی ہیں، ” میں اپنے دشمنوں کے لئے بھی کبھی ڈینگی کی خواہش نہ کروں”۔ اس ماہ کے شروع میں ڈینگی پھیلنے کی خبر نے ان کے ذہن میں گزشتہ سال اکتوبر میں مچھروں سے پھیلنے والی ممکنہ مہلک بیماری سے انکی علالت کی یاد تازہ کردی۔ لاہور کے ایک پرائیویٹ سکول کی 43 سالہ ایڈمنسٹریٹر نے تشویش کا اظہار کیا کیونکہ ان کے خیال میں ڈینگی پاکستان کے ان حصوں میں تباہی مچا سکتا ہے جو اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
عاکف نے کہا کہ “یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں لاکھوں بے گھر لوگ کھلے آسمان کے نیچے، ٹھہرے ہوئے پانی کے بڑے تالابوں کے قریب سو رہے ہیں۔”
ایک دہائی کے دوران آنے والے بدترین سیلاب نے پاکستان میں جون کے وسط سے اب تک 33 ملین سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، 1500 سے زیادہ افراد ہلاک اور 12,800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
جنوبی صوبے سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ دونوں نے ریکارڈ کے لحاظ سے اگست میں بالترتیب اپنی معمول کی ماہانہ بارش سے سات اور آٹھ گنا زیادہ بارش دیکھی۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین بارشوں میں 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
سیلاب اپنے پیچھے کھڑے پانی کے بڑے رقبے چھوڑ گیا ہے: اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق اگست میں سندھ میں 37 فیصد فصل زیرآب آگئی۔ خیبرپختونخوا میں 16فیصد فصلیں متاثر ہوئیں۔ بلوچستان میں 15% اور پنجاب میں 9 فیصد۔
یہ کھڑا سیلابی پانی مچھروں کی افزائش کے لئے ایک بڑا علاقہ فراہم کرتا ہے جس سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ایک خیراتی اسپتال، دی انڈس اسپتال میں کام کرنے والی ایک متعدی امراض کی ماہر نسیم صلاح الدین نے کہا کہ وہ ڈینگی کے ساتھ اسپتال میں آنے والے “مریضوں کی بڑی تعداد” سے “پریشان” ہیں۔ انہوں نے کہا ، “سرکاری اور یہاں تک کہ نجی ہسپتالوں میں میرے ساتھی مریضوں کو باہر بھیج رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کافی بستر نہیں ہیں۔” “ایسا لگتا ہے کہ ڈینگی نے کوویڈ 19 کی جگہ لے لی ہے۔”
علامات واضح ہیں لیکن ٹیسٹ اور علاج کی فراہمی کم ہے
زیادہ تر لوگوں میں، ڈینگی وائرس ایک شدید فلو جیسی بیماری کا سبب بنتا ہے، لیکن یہ ممکنہ مہلک پیچیدگیوں کے ساتھ شدید ڈینگی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
صلاح الدین نے کہا کہ وہ خاص طور پر پاکستان بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 650,000 سے زیادہ حاملہ خواتین کے بارے میں فکر مند ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ کے مطابق، ان میں سے تقریباً 73,000 ستمبر میں جنم دیں گی۔ انہوں نے کہا،”یہ ایک ہاری ہوئی جنگ ہوگی”۔ صلاح الدین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “ماں اور بچہ دونوں کی موت ہو سکتی ہے اگر انکی ڈینگی یا ملیریا کی تشخیص نہ ہو اور اس وجہ سے، انکا علاج نہ کیا جائے،” صلاح الدین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیماریاں خواتین کے اسقاط حمل یا قبل از وقت پیدائش کا سبب بن سکتی ہیں۔
تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے فلاحی ادارے روشن پاکستان اکیڈمی کی بانی حمیرا بچل سیلاب شروع ہونے کے بعد سے فرنٹ لائن ریلیف فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی ٹیم نے کراچی کے مضافات میں ایک کیمپ میں بے گھر افراد کے ٹیسٹ کئے اور وہاں “ڈینگی کے کیسز کی تصدیق ” ہوئی ہے۔
لگتا ہے ڈینگی نے کووِیڈ 19 کی جگہ لے لی ہےکراچی کے ایک ہسپتال کی ایک ڈاکٹر نسیم صلاح الدین
لیکن، انہوں نے مزید کہا، دیہی علاقوں میں، خاص طور پر سندھ میں، بچوں کو جلد کے اتنے خراب انفیکشن ہیں کہ ان کے سروں اور پیروں کی جلد ” اتر رہی ہے” اور “گیسٹرو اینٹرائٹس اموات کا باعث بن رہی ہے”۔ صحت سے متعلق ان متعدد بحرانوں کا مطلب ہے کہ ہیلتھ ورکرز کے پاس لوگوں میں ڈینگی کی جانچ کرنے کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی ذرائع۔
بچل نے کہا، “ہم ان کی جان بچانے کے لئے انہیں بنیادی علاج فراہم کرتے ہیں۔”
بچل نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد میں بخار عام ہے، لیکن اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آیا لوگوں کو ڈینگی ہے۔ بچل کا جن تنظیموں سے ملنا ہوا ہے ان کے پاس ڈینگی ٹیسٹ کٹس نہیں ہیں۔
In
ستمبر کے اوائل میں، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کی ماہر اطفال، زونیرا ذوالفقار، بلوچستان کے ساحلی ضلع لسبیلہ (کراچی کے قریب) میں سیلاب متاثرین کے لئے ایس آئی یو ٹی کے میڈیکل کیمپ میں کام کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈینگی ٹیسٹ کٹس استعمال ہوتے دیکھی ہیں، ” بہت سارے مریض ڈینگی کی واضح علامات والے تھے، جنہیں ‘ہڈی توڑ بخار’ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں جسم میں عام شدید درد، سر درد، بخار اور الٹی ہوتی ہے۔
اب یہ ماہر امراض اطفال ایس آئی یو ٹی کے وارڈز میں واپس کام کر رہی ہیں، جہاں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کی بھرمار ہے۔
75%
ایک ڈاکٹر کے اندازے کے مطابق، کراچی کے ایک اسپتال میں 75 فیصد ایسے مریضوں کا تناسب ہے جنہیں ڈینگی ہو سکتا ہے۔
ذوالفقار نے کہا، “داخل کردہ مریضوں میں، ہر 20 میں سے، تقریباً چھ سے آٹھ ڈینگی کے ٹیسٹ میں مثبت آۓ ہیں۔ ہمارا ہسپتال بنیادی طور پر نیفرالوجی سے متعلق ہے لہذا یہ وہ مریض ہیں جن کے گردے ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں”، انہوں نے مزید کہا کہ سول اسپتال کراچی میں تعداد ہر 20 میں سے 15 مریض ہو سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں بھی ڈینگی کے کیسز بڑھ رہے ہیں، 17 ستمبر کو جاری ہونے والی سیلاب کی حکومتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے۔ دی تھرڈ پول نے حکام سے بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں پوچھا لیکن اشاعت کے وقت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حکام ڈینگی کی وباء سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں
اگرچہ مون سون کی بارشوں کے بعد پاکستان بھر میں ڈینگی عام ہوتا ہے، تاہم ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت ہر سال حیرانی کا شکار نظر آتی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل قیصر سجاد نے کہا کہ “وہ کبھی تیار نہیں ہوتے اور جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو اس سے لڑنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔”
لیکن ہیلتھ سروسز سندھ کے ڈائریکٹر جنرل محمد جمن باہوتو نے ڈینگی کے پھیلنے کی خبروں کو “مبالغہ آرائی” قرار دیا۔
باہوتو نے کہا ، “ڈینگی زیادہ تر کراچی سے رپورٹ ہو رہا ہے، کچھ حیدرآباد سے اور کچھ سکھر سے”، انہوں نے مزید کہا کہ بیماری کی نگرانی کا صوبائی رسپانس یونٹ چوکس تھا اور بے گھر افراد میں ڈینگی کے بجائے صرف ملیریا کے کیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔
باہوتو نے بتایا کہ مچھروں کی نسل جو ڈینگی پھیلاتی ہے وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں افزائش کرتی ہے جو عام طور پر برتنوں یا متروک شدہ ٹائروں میں جمع ہوتی ہے نہ کہ سیلابی پانی کے بڑے ذخیروں میں۔
ڈینگی کا کوئی علاج نہیں، سوائے علامتی علاج کےزنیرہ ذوالفقار، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں ماہر اطفال
ذوالفقار نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملیریا کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد زیادہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ کم از کم ملیریا کے خلاف ادویات موجود ہیں۔ “ڈینگی کا کوئی علاج نہیں ہے، سوائے علامتی علاج جیسے ہائیڈریشن، بخار پر قابو پانے اور خون میں پلیٹلیٹس گرنے یا اعضاء متاثر ہونے کی صورت میں مریضوں کو زندہ رہنے میں مدد کرنا۔”
امدادی کارکن بچل نے سندھ میں صورتحال کی سنگینی کو بیان کیا: “اگر آپ کسی سیلاب سے متاثرہ علاقے میں رات کو مچھر دانی لگاتے ہیں تو صبح تک آپ کو مچھروں سے ڈھکا جال نظر آئے گا۔” انہوں نے کہا کہ مچھر دانی کی کمی کی وجہ سے، بہت سے لوگ انہیں اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لئے استعمال کرتے ہیں جو سیلاب سے بچ گئے اور اس کے بجائے اپنے آپ کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے ہیں۔
پی ایم اے کے کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور شورو نے بتایا کہ پی ایم اے کی ٹیموں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو مچھر دانی کے بغیر کھلے میں سوتے پایا۔ “حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں مچھر دانیاں امداد میں حاصل کی ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟”
ٹیسٹنگ کٹس کی عدم موجودگی میں، ہیلتھ سروسز سندھ کے باہوتو کا اصرار ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکرز ” مریضوں کے گزشتہ احوال کی بنیاد پر ان کی کافی اچھی تشخیص کر سکتے ہیں” اور یہ کہ اکثر لوگ ڈینگی کا شکار نہیں ہوتے۔ گزشتہ ہفتے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ڈینگی اور ملیریا کے لئے بالترتیب 42,000 اور 13,500 ریپڈ ٹیسٹ کٹس دیے۔ باہوتو نے دی تھرڈ پول کو یقین دلایا کہ اب، جانچ درست طریقے سے کی جا سکتی ہے۔
شورو غیر مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے بیماری سے نمٹنے میں “کم سنجیدگی” دیکھی۔ “یہ حکومت نت نۓ الفاظ استعمال کرتی ہے لیکن حقیقت میں کارروائی بہت کم ہے۔”
سرکاری رپورٹس کے مطابق 21 ستمبر تک سندھ میں ڈینگی کی وجہ سے 27 اموات ہوئی ہیں۔ صحت کے آزاد ماہرین نے ڈان اخبارکو بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جانچ کی کمی کے پیش نظر حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
‘اس سائیکل کو توڑنے کی ضرورت ہے
اسلام آباد میں کامسیٹس یونیورسٹی کے شعبہ بائیو سائنس کے ماہر وائرولوجسٹ اعجاز علی نے بتایا کہ اسلام آباد میں کراچی کے شمال میں ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کی دو اقسام، ایڈیس ایجپٹی اور ایڈیس البوپکٹس کافی عرصے سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن ایک تیسری قسم، ایڈیس ویٹیٹس، یہاں رپورٹ ہوئی “اس سال پہلی بار، جو پاکستان کے کسی بھی اور حصے سے رپورٹ نہیں ہوئی،” انہوں نے کہا۔
کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے شعبہ پیتھالوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن کی سربراہ ارم خان نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات “گرمیوں میں درجہ حرارت اور نمی میں اضافہ اور سردیوں کے سخت دنوں میں کمی” کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ایسے حالات ہیں جن میں بیماری کے ویکٹر، جیسے مچھر، پنپتے ہیں۔
علی نے کہا کہ اس وباء کو روکنے کے لئے حکام کو “ابتدائی مرحلے میں ہی چند دن لاروا کشی کی سرگرمیاں باقاعدگی سے کر کے سائیکل کو توڑنے کی ضرورت ہے”۔
شورو نے مشورہ دیا کہ اس سال مچھروں کی افزائش کے لئے کھڑے پانی کے اتنے بڑے رقبے کے ساتھ، تیز ترین آپشن ہوائی اسپرے کرنا ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں ٹڈی دل کے جواب میں کیا گیا ہے۔
“یا، جھیلوں میں لاروا کھانے والی مچھلیوں ڈال دیں، جیسا کہ ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک میں کیا جاتا ہے،” ارم خان نے کہا۔
ذوالفقار نے خبردار کیا کہ اس سال کی وبا مہلک ہوسکتی ہے۔ فوری طور پر سپرے کرنے کے علاوہ، انہوں نے کہا، “حکومت کو آگاہی مہم شروع کرنے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور مچھر دانی، مچھر بھگانے والی ادویات اور زندگی بچانے والی ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے”۔
مترجم: ناہید اسرار