ہندوستان میں گجرات اور پاکستان میں سندھ دونوں جگہوں پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز ساحلی باشندوں کو نکال رہے ہیں، الرٹ جاری کئے جارہے ہیں، اور سائیکلون بِپرجوئے سے بچاؤ کے لئے پناہ گاہیں مختص کی جارہی ہیں، ایسے وقت میں، آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ان دو جنوب ایشیائی ممالک کے لئے ان مشترکہ خطرات کے سامنے مل کر کام کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے۔
سمندری طوفان بِپرجوئے (جس کا بنگالی میں مطلب ‘تباہی’ ہے) جون کے اوائل میں بحیرہ عرب میں بڑھا، اور امکان ہے کہ یہ 15 جون کو ہندوستان اور پاکستان کے ساحلوں سے ٹکراۓ گا۔ گزشتہ 48 گھنٹوں میں، دونوں ممالک نے تیز رفتار ہواؤں (155 کلومیٹر فی گھنٹہ تک) کی پیش گوئی کی ہے جو بھاری اشیاء کو حرکت دے سکتی ہیں۔ دونوں نے ماہی گیروں اور ان کی کشتیوں کو بحیرہ عرب میں گہرے سمندر کے پانیوں سے باہر نکلنے کی ہدایت کی ہے۔ اور دونوں اپنے شہریوں کو کھلے سمندر اور ساحلی پٹی سے گریز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
ماضی قریب میں، بھارت اور پاکستان کے بڑے شہر، جیسے ممبئی اور کراچی، غیرمعمولی مون سون بارشوں اور اس کے نتیجے میں شہری سیلاب کی وجہ سے سڑکیں ندیوں میں تبدیل ہونے کی وجہ سے مفلوج ہو چکے ہیں۔ لیکن آنے والے طوفان سے پیدا ہونے والے ان مشترکہ خطرات کے باوجود، جب موسمیاتی اعداد و شمار کا اشتراک کرنے کی بات آتی ہے تو پڑوسی ممالک کے بیچ تعاون کا فقدان ہے۔ دریں اثنا، آفات سے نجات اور تیاری سے متعلق ظاہر کوئی بات چیت ہوتی نظر نہیں آرہی۔
طوفان کی پیشن گوئی اور انتباہات
انڈیا میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (آئی ایم ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل، مرتینجوئے مہاپترا نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ آئی ایم ڈی نے سمندری طوفان بپرجوئے کے راستے سے متعلق پیشین گوئیاں اور مشورے پاکستانی حکام کے ساتھ شیئر کئے ہیں۔ “ڈیٹا شیئرنگ کے لئے ایک رسمی انتظام ہے ، اور رسمی انتظامات کے تحت، آئی ایم ڈی گرم علاقوں میں طوفانوں کے لئے ایک خصوصی علاقائی مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ خلیج بنگال کے 13 ممالک میں اور ان کے ساتھ، طوفان سے متعلق مشورے فراہم کرتا ہے، جن میں سے ایک پاکستان ہے۔
مہاپترا، خلیج بنگال اور بحیرہ عرب پر ساحلی پٹی والے ممالک کے لئے سمندری طوفان کی وارننگ سے متعلق ایک علاقائی مرکز کے طور پر ہندوستان کی حیثیت کا حوالہ دے رہے ہیں، جوکہ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے تجویز کی ہے۔ ایک علاقائی مرکز کے طور پر، آئی ایم ڈی پورے خطے میں انتباہی خدمات کو پھیلانے کے آپریشنل پلان پر عمل پیرا ہے۔
لیکن پاکستان کی وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے دی تھرڈ پول کو تصدیق کی کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہے۔ “ہم براہ راست رابطے میں نہیں ہیں، نہ ہی وہ ہیں،” انہوں نے ٹیکسٹ کے ذریعے کہا۔
مختصراً، ہندوستان اور پاکستان کے حکام جہاں انہیں لازم ہو رابطہ کرتے ہیں، اور یہ رابطہ بھی خودکار ای میلز اور ایک دوسرے کی ویب سائٹس کی نگرانی تک محدود ہے۔ طوفانوں سے باخبر رہنے کے علاوہ، یہ طریقہ کار، آب و ہوا سے متعلق دیگر آفات کے اعداد و شمار کے اشتراک پر بھی لاگو ہوتا ہے، جیسے کہ گلیشیل آؤٹ برسٹ فلڈز (جی ایل او ایفس)، ہمالیہ کے کمزور پہاڑوں میں برفانی تودے اور لینڈ سلائیڈنگ۔ ان صورتوں میں بھی، معلومات کا اشتراک بادل نخواستہ کیا جاتا ہے، اور مشترکہ منصوبہ بندی تب بھی مفقود رہتی ہے۔ کوئی خصوصی حقیقی رابطہ نہیں کیا جاتا۔
کیا دونوں ممالک ڈیزاسٹر ریلیف کو بہتر بنانے کے مقصد سے موسمیاتی آفات پر اصل وقتی رابطے سے فائدہ اٹھائیں گے؟ “ظاہر ہے،” شیری رحمان نے تھرڈ پول کو بتایا۔ ” یہ تو کہنے والی بات ہی نہیں۔”
مشاورت کی کمی نے شہریوں کو غیر محفوظ کردیا ہے
شدید موسمی واقعات اور آب و ہوا کی آفات پر بامعنی رابطے کی عدم موجودگی میں، دونوں جانب غیر محفوظ کمیونٹیز کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سمندری طوفان بِپرجوئے کے واضح اثرات میں سے ایک ممکنہ طور پر سر کریک میں ماہی گیروں اور ان کی کشتیوں پر پڑے گا، یہ متنازعہ آبی ٹکڑا بحیرہ عرب میں بہتا ہے اور ہندوستان کی ریاست گجرات کو پاکستان کے صوبہ سندھ سے الگ کرتا ہے۔ تیز ہوائیں اور بپھرا ہوا سمندر اکثر کریک میں ماہی گیروں کو ان کے مطلوبہ راستے سے باہر دھکیل دیتے ہیں۔ دونوں ممالک کے اخبارات اکثر ایسے واقعات رپورٹ کرتے ہیں کہ ساحلی حکام نے دوسری طرف سے آنے والے ماہی گیروں کو گرفتار کیا ہے جو بعض اوقات نادانستہ موسم کی وجہ سے سمندری حدود پار کرجاتے ہیں۔
کیا سمندری طوفان بپرجوئے کے نتیجے میں غلط علاقے میں دھکیلے والے ماہی گیروں کو سندھ اور گجرات میں جیل بھیج دیا جائے گا؟
دو ماہ قبل، ہندوستان اور پاکستان دونوں کی ماہی گیر انجمنوں نے ایک دوسرے کے متعلقہ وزرائے اعظم سے درخواست کی تھی کہ ان کے تقریباً 750 ساتھیوں کو رہا کیا جائے جو اس وقت دونوں ممالک کی جیلوں میں بند ہیں۔ قیدیوں پر ایک مشترکہ عدالتی کمیٹی 2008 میں تشکیل دی گئی تھی تاکہ ایک طریقہ کار کے تحت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ماہی گیروں کی رہائی اور منتقلی میں مدد کی جاسکے۔ بدقسمتی سے، دونوں ممالک کے درمیان سیاسی ماحول کی وجہ سے، وہ کمیٹی گزشتہ دہائی میں زیادہ تر غیر فعال رہی ہے۔
اس بات کے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ جیسے جیسے سیارہ گرم ہوگا، بحیرہ عرب میں طوفان کی سرگرمیاں زیادہ شدید ہوں گی، اور ہمالیہ میں برفانی تودے اور جی ایل او ایفس زیادہ کثرت سے آئیں گے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ گلوبل وارمنگ پاکستان اور ہندوستان مکے شترکہ دریاؤں اور پہاڑوں اور ساتھ ہی ساتھ مشترکہ ساحلی پٹی میں آب و ہوا کی تباہی کو جنم دے رہی ہے، دونوں ممالک کے پاس ڈیٹا شیئرنگ اور ڈیزاسٹر ریلیف پر بامعنی رابطے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، اگر وہ اپنے شہریوں کو موسمی تبدیلی کے بدترین اثرات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
چونکہ برصغیر میں لوگوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد شدید گرمی، بارش، خشک سالی اور دیگر آفات کا شکار ہے، ان کی حکومتوں کو اختلافات کو ایک طرف رکھ کر موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لئے مل بیٹھنا چاہیے کیونکہ یہ خطرات سیاست کا انتظار نہیں کریں گے۔
یقیناً سب سے بڑا چیلنج سیاست ہے۔ یہ ضروری رابطے کی راہ میں رکاوٹ ہےملک امین اسلم، وزیر اعظم پاکستان کے سابق مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی
تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے، ملک امین اسلم، وزیر اعظم کے پاکستان کے سابق مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی، نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی آفات مستقبل میں مزید بڑے خطرات کا باعث بنیں گی، اور یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہم آہنگی بہت اہم ہے۔
اسلم نے کہا، “موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندری طوفان کی سرگرمی، شدت اور تعدد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ پاکستان کو درپیش دیگر آفات کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ ہر دہائی میں تین گنا کی شدت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور یہ حقیقی تشویش کا باعث ہیں” ۔
انہوں نے مزید کہا: ” معلومات کے اشتراک کا کوئی باضابطہ نظام موجود نہیں ہے، جو کہ بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی انسان کی بنائی ہوئی حدود کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ اپنی حکومت میں، ہم نے سارک [ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن] کے ذریعے سیلاب اور طوفانوں کے لئے ایک پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی، جس کا مقصد ایک باضابطہ طریقہ کار بنانا تھا۔ لیکن سب سے بڑا چیلنج یقیناً سیاست ہے۔ یہ ضروری رابطے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔”