: ٧٩79 سال کی عمر میں ، یاسمین لاری 30 سال پرانے خواب کو بالآخر حقیقت بنتے دیکھ رہی ہیں وہ یہ کہ وہ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے اندرون شہر تک کا دو کلومیٹر کافاصلہ پیدل طے کر سکیں- وہ آج کے کراچی کو ایک جدید شہر دیکھنا چاہتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ماضی کے کراچی کو بھی تجاوزات سے پاک اپنے تاریخی ورثوں، پارکوں، پبلک مقامات کے ساتھ دیکھنا چاہتی ہیں-
کراچی میں جس علاقے کا وہ ذکر کررہی ہیں وہ خوبصورت تاریخی عمارتوں سے مزین ہے- آج یہ عمارتیں ناقابل استعمال سامان سے بھرے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں- اضافی سامان باہر فٹ پاتھ پر پھینک دیا جاتا ہے ، جس سے پیدل چلنے والوں کے لئے بغیر کسی رکاوٹ کے چلنا ناممکن ہوجاتا ہے- اکثر وہ ریڑھیوں اور سامان سے لدی گدھا گاڑیوں سے بھری سڑک پر چلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں-
یاسمین لاری کا کیریئر اعزازات کی طویل فہرست اور ممتاز ایوارڈز سے مزین ہے- انہوں نے انٹرنیشنل نیٹ ورک آف ٹریڈیشنل بلڈنگ آرکیٹکچر اینڈ اربن ازم (INTABU)کا پاکستانی باب ترتیب دیا- 2019 میں، ان کا نام ان 60 خواتین میں شامل تھا جنہوں 60 سال کے دوران یونیسکو کے لئے سب سے اہم کردار ادا کیا ؛2018 میں، انہوں نے پاکستان چولھا ( کم لاگت کے دھوئیں کے بغیر چولہے جو دیہی خواتین کے لئے ایک انٹرپرائز بن گئے) کے لئے عالمی ہیبی ٹیٹ ایوارڈ جیتا, اور 2016 میں انہوں نے جاپان سے ایشین آرٹ اینڈ کلچر کے لئے فوکوکا پرائز حاصل کیا- پاکستان میں بھی انہیں سراہا گیا اور سال 2006 میں اعلیٰ سویلین ایوارڈ ستارہ امتیاز اور سال 2014 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا-
لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کی پہلی خاتون آرکٹیکٹ شہر کے “کاربن فٹ پرنٹس کو کم کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات” کو کم کرنے میں مدد کرنا چاہتی ہے۔ اس عزم کے ساتھ یاسمین یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ وہ جس صنعت سے وابستہ ہیں وہ آب وہوا کے عالمی اخراج کے % 40 کی ذمہ دار ہے-
یاسمین لاری اب حالات سدھارنا چاہتی ہیں-
ماحول-شہریات
آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی کے اسکول آف آرکیٹیکچر سے فارغ التحصیل یاسمین 1960 کی دہائی واپس نہیں لانا چاہتیں- لیکن شہری ماحولیات کی کٹر حامی ہونے کے ناطے جو ان کے مطابق روایتی شہریات کے مساوی ہے اور جہاں “ماضی کے مثبت عناصر کو آج بھی اپنایا اور برقرار رکھا جا سکتا ہے ” وہ کہتی ہیں کہ عمارتیں نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے “صرف کاربن فٹ پرنٹ بنتا ہے “۔
ان کی نگاہیں پہلے سے دستیاب کم بالا اور کثیف عمارتوں کی بحالی پر مرکوز ہیں جو ماحول دوست بھی ہیں اور کثیر منزلہ ٹاورز کا متبادل بھی-
“کثیر منزلہ [عمارتوں] کی کم تعمیر کا مطلب کاربن کے اخراج میں کمی- ہم خوش قسمت ہیں کہ اندرون شہر میں پہلے ہی ایسی بہت سی عمارتیں ہیں”، یاسمین لاری نے دی تھرڈپول.نیٹ کو بتایا-
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح گاڑیوں کے لئے کم اور انسانوں کے لئے زیادہ جگہ ہوگی- ” اسکا مطلب لوگ ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کردیں گے”، یاسمین لاری نے بتایا ،جنہوں نے حال ہی میں 2020 کے جین ڈریو پرائز کا اعزاز حاصل کیا ، جو کہ خواتین آرکٹیکٹ کے کردار کو تسلیم کرتی ہے-
1970 کی دہائی میں ، انہوں نے انہی خطوط پر لاہور کے انگوری باغ ہاؤسنگ منصوبے کا ماڈل بنایا تھا- ہم نے یہ یقینی بنادیا کہ ہر اپارٹمنٹ میں خواتین کے لئے صحن ہو جہاں وہ مرغی پال سکیں اور سبزیاں اگا سکیں، اس کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا ساتھ ہی وہ نیچے سڑک پر کھیلتے اپنے بچوں پر بھی نظر رکھ سکیں-
عمارتوں اور تعمیرات میں عالمی توانائی کا 36٪ استعمال کیا جاتا ہے۔ سیمنٹ عالمی اخراج کے 8 % کی وجہ ہے۔ ان اعدادوشمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، لاری نے کہا کہآرکٹیکٹس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جو بھی کرتے ہیں اس میں “کاربن فٹ پرنٹ کو کم کریں”-
لاری 1980 میں قائم ہونے والا ادارہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان کی سربراہ ہیں، جس نے کراچی میں 600 سے زیادہ تاریخی عمارتوں کو ڈاکومنٹ کیا ہے ، اور یہ میریٹ روڈ کا ایک حصہ ہے۔
گذشتہ سال سپریم کورٹ کی جانب سے غیرقانونی تجاوزات کو ہٹانے کے احکامات کے بعد ، وہ پرامید ہیں کہ کراچی شہر کی پرانی شان میں واپس لانے کا موقع ملے گا-
کیماڑی سے کراچی کے قلب تک:
فی الوقت کاغذات پر انہوں نے تقریبا 2 کلومیٹر کے رقبہ کو 13 مقامات میں تقسیم کیا ہے۔ معاملات کو ترتیب میں لانے کے لئے پہلے (450 فٹ لمبا / 137 میٹر) ٹریل پر کام شروع ہوچکا ہے- “ہم اسے سبز رہگزر کہہ رہے ہیں جہاں فرش ٹیراکوٹا ٹائل کی بنی ہوں گی”، یاسمین کہتی ہیں- انہوں نے ہمیں مکلی ( جہاں کراچی سے 105 کلومیٹر کے فاصلے پر ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان موجود ہے) کی غریب خواتین کے ہاتھ سے بنی ٹائلیں دکھائیں- یہ غریب خواتین سرامک ٹائلز بنانے کا ہنر جانتی ہیں-
“ڈینسو ہال سمیت 12 تاریخی عمارتوں کے چہروں کی صفائی کا کام پہلے ہی عمل میں لایا جاچکا ہے- ایک بار تجاوزات ختم ہوجانے کے بعد ، ہم گلی کے وسط میں میاواکی طرز کے چار شہری جنگلات لگائیں گے” انہوں نے دی تھرڈپول.نیٹ کو بتایا-
ریٹرو فٹنگ
وہ عمارات جہاں گودام بنا دیے گۓ ہیں وہ اب بھی ماحول دوست ہیں اور ، یاسمین لاری کہتی ہیں کہ اگر انھیں موقع ملا تو وہ انہیں واپس رہائش گاہوں تبدیل کردیں گی- ” میں اس محلے میں زمین کے استعمال کو تبدیل کرنا چاہتی ہوں” ، یاسمین کہتی ہیں- اگرچہ زیادہ تر عمارتیں “مضبوطی سے تعمیر” کی گئی ہیں ، لیکن جو ساختی طور پر غیر محفوظ ہوچکی ہیں ان کو ریٹرو فٹنگ سے مضبوط کیا جاسکتا ہے- اور اگر مقصد یہاں سے منافع کمانا ہے تو ان عمارتوں کو سراۓ بھی بنایا جا سکتا ہے-
اگر یاسمین لاری ان عمارتوں کا ماضی واپس نا بھی لاسکیں تب بھی وہ یہ امید رکھتی ہیں کہ اتوار کے دن جب کاروبار بند ہوتا ہے تب اسٹریٹ کو دیگر سرگرمیوں جیسے اسٹریٹ تھیٹر، موسیقی اور فوڈ اسٹال کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے-
یاسمین پہلی شخصیت نہیں جو ان پرانی عمارتوں کو کھانے اور دیگرسرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں انکا اختلاف میٹریل کے استعمال پر ہے- ” میں وہ واحد فرد ہوں جو کہ قدرتی اور صحت افزاء میٹریل اور بہت سے درخت کا استعمال کررہی ہوں- میرے کام میں کاربن فٹ پرنٹ نہ ہونے کےبرابر ہے” ، یاسمین نے بتایا-
وہ لوگوں کو بےگھر اور انکا ذریعہ معاش میں خلل نہیں ڈالنا چاہتیں ان کے منصوبے میں یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ریڑھی والوں کے لئے ایک علیحدہ متبادل حصّہ مختص کیا جاۓ جس کے لئے رجسٹریشن درکار ہوگی تاکہ ٹھیلوں کوکراۓ پر دینے والے استحصالی عناصر کا خاتمہ ہو-
ماحول دوست عمارتیں
بلند عمارتوں کی تعمیر پر سپریم کورٹ کے 2017 کی پابندی واپس لینے سے یاسمین “کافی پریشان” ہیں۔ یہ پابندی کراچی میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور صفائی کے بگڑتے نظام پر ایک کیس کی سماعت کے بعد عائد کی گئی تھی- لیکن 2018 میں ، سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے کہا ، “سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے قوانین کے مطابق ، بلند عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں”-
یاسمین لاری کے لئے کثیر منزلہ عمارتیں ایک بری خبر ہیں- سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آب و ہوا کی خرابی اورشہری ماحول کی تباہی کا باعث بنے گا”، یاسمین نے اپنی تحفظات کا اظہار کیا- انہوں نے حکومت کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت نادار افراد کے لئے پچاس لاکھ سستے مکانات تعمیر کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا- اس منصوبے کے لئے 1.98 ملین سے زیادہ افراد نے درخواست دی ہے-
یاسمین لاری نے کہا کہ نئی رہائش یقینی طور پر ایک ضرورت ہے لیکن ہر مکان کی تعمیر لاگت کو بھی دیکھیں ایک گھر کی قیمت 1.5 ملین روپے (9،712 امریکی ڈالر) سے کم نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا ، “یہ کسی طور بھی غریبوں کے لئے نہیں ہے۔” پاکستان میں فی کس جی ڈی پی سالانہ 1،400 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے- اس کے علاوہ ، اس پروگرام میں بھاری مقدار میں کنکریٹ ، اسٹیل ، ایلومینیم اور شیشے کی ضرورت ہوگی۔ وہ تمام عناصر جو عالمی اخراج میں اضافہ کرتے ہیں-
وہ ہائبرڈ تعمیراتی طریقے تجویز کرتی ہیں جنکا اطمینان بخش تجربہ اور عملدرامد انہوں نے پاکستان بھر میں دیہی برداریوں کے لئے کیا ہے- ان کے مطابق کاربن سے بنے میٹریل کے بجاۓ چونے، مٹی اور بانس کا استعمال کیا جاۓ-
مٹی ہر جگہ ، کافی مقدار میں دستیاب ہے ، اور اسے ری سائیکل بھی کیا جاسکتا ہے۔ بانس ہر دو سال بعد اُگایا اور کاٹا جاسکتا ہے “، انہوں نے کہا- چونے کے لئے البتہ ایندھن کی ضرورت ہوگی- ” لیکن اس کے لئے آپکو درخت کاٹنے یا فوسل فیول جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی”-
انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 7.8 شدت کے زلزلے اور 2010 کے شدید سیلاب کے 40،000 متاثرین کے لئے پائیدار مکانات اور اجتماعی پناہ گاہیں تعمیر کیں- ان علاقوں میں انکا کام طویل عرصہ تک سراہا گیا-
ہم 27،000 روپے(17 ڈالر) میں ایک گاؤں میں ایک گھر (ایک بیڈ روم ، ایک باتھ روم ، چھوٹا باورچی خانہ اور ایک ہینڈپمپ کے لئے جگہ کے ساتھ) بنا سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہمیں شہر میں مکان بنانے میں تھوڑا سرمایہ زیادہ لگے لیکن 1.5 ملین روپےلاگت کا مکان بہت زیادہ ہے.!
مزید ،انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کم قیمت والی رہائش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر محفوظ ہے۔ در حقیقت ، آج استعمال ہونے والا سیمنٹ اتنا خراب معیار کا ہے کہ وہ شدید زلزلوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا- انہوں نے مزید کہا-
یاسمین لاری کی کاوشیں
یاسمین لاری نے سال 2000 میں انسانیت پر مبنی فن تعمیر ، ثقافت کے تحفظ ، اور پاکستان میں کم لاگت صفر توانائی اور صفر کچرے کو بروۓکار لاتے ہوۓ “سماجی اور ماحولیاتی انصاف” کے تصور کو متعارف کرانے میں وقت وقف کرنے کے لئے اپنا کام ترک کردیا-
انہوں مزاحًا کہا کہ وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہیں- کیونکہ یاسمین نے کراچی کی کچھ بڑی عمارتیں ڈیزائن کی ہیں جنکی تعمیر میں سیمنٹ ، شیشے اور گرینائٹ استعمال ہوۓ ہیں- آرکٹیکٹس کو کاربن اور آب و ہوا کی تبدیلی کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور انہیں اپنا سوچنے کا انداز تبدیل کرنا ہوگا-
“وہ ماحول دوست عمارتوں کی ڈیزائننگ بطور چیلنج ااپنائیں اور ان لوگوں کو ہم خیال بنائیں جن کے لئے عمارتیں ڈیزائن کی جارہی ہیں نیز مصنوعات بنانے والی برادری کو بھی” یاسمین کہتی ہیں جو آرکیٹکچر کے طالب علموں کو کم کاربن والے ہائبرڈ عمارتوں کی قدر سے آگاہ کرنے کے لئے ایک کورس تیار کررہی ہیں-