آب و ہوا

رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

عائشہ خان لکھتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود یہ دنیا کا سب سے کم باہمی تعلق والا خطہ ہے۔
اردو
<p>اگست 2023 میں امدادی کارکن سیلاب زدہ علاقے سے گاؤں کے لوگوں کو نکالنے میں مدد کر رہے ہیں۔ امدادی کارکنوں نے تباہ کن سیلاب کے بعد تین ہفتوں میں پاکستان کے مشرقی صوبہ پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو نکالا۔ (تصویر: الامی)</p>

اگست 2023 میں امدادی کارکن سیلاب زدہ علاقے سے گاؤں کے لوگوں کو نکالنے میں مدد کر رہے ہیں۔ امدادی کارکنوں نے تباہ کن سیلاب کے بعد تین ہفتوں میں پاکستان کے مشرقی صوبہ پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو نکالا۔ (تصویر: الامی)

اس سال ماحولیات کا عالمی دن ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب گزشتہ چھ ماہ کے دوران جنوبی ایشیا میں قومی انتخابات اس خطے کے تین اہم ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں ہوئے۔

قیادت کی گرما گرمی اور الیکشن مہم کی بیان بازی میں جنوبی ایشیا کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور ماحولیات کو نظر انداز کیا گیا۔ خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی کمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے- یہ سادہ سی حقیقت اس قدر اہم ہے کہ اگر ہم نے مل کر کام نہ کیا تو اس خطے میں رہنے والے تمام لوگوں کا مستقبل آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کی  وجہ سے خطرے میں پڑ جائے گا۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے اِن ممالک کو زیادہ مؤثر طریقے سے مل کر تعاون کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی قومی حدود سے قطع نظر عالمی سطح پر ہر کسی کو متاثر کرتی ہے۔ جب ایک مسئلہ دوسرے کی طرف لے جاتا ہے اور صورت حال کو مزید خراب کرتا ہے۔ اور یہ کیفیت ڈومینو اثر کو پیدا کرتی ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کے نتائج مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں خطرات کا سلسلہ پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور سمندر کی طرف جاتا ہے، جس کے درمیان کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ یہ خطہ اچانک رونما ہونے والے جغرافیائی تغیرات، مختلف آب و ہوا کے علاقوں اور ماحولیاتی نظام کی ایک متنوع رینج سے بھی نشان زد ہے، جو مل کر برصغیر کی پیچیدہ جیوفزیکل اکائی تشکیل دیتے ہیں۔

شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد تیسرا قطب منجمد پانی کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ یہ نو ممالک میں 4.2 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور تبتی سطح مرتفع، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، پامیر اور تیان شان پہاڑوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس علاقے تک محدود نہیں رہے گا۔ اِن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا یہ سلسلہ مقامی اور عالمی موسمیاتی نظام کو متاثر کرے گا۔ انسانی ٹائم اسکیل پر وہ لمحہ جب کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) نمایاں طور پر تبدیل ہوتا ہے (ٹپنگ پوائنٹ) آہستہ آہستہ ہوتا نظر آتا ہے۔  لیکن ایک بار جب یہ ایک خاص حد کو عبور کر لیتا ہے تو اس کے اثرات رک نہیں سکتے اور یہ زمین کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ پھیلنے والی ایسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معدومیت ہوسکتی ہے۔آج کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ کرہ ارض اپنی چھٹی معدومیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

جنوبی ایشیا بار بار آنے والی اِن شدید آفات سے نمٹنے کے لئے کس حد تک تیار ہے؟ کیا معمول کے مطابق کام کرنا اب بھی ایک قابل عمل آپشن ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ کوئی بھی مکالمہ شروع کیا جائے تاکہ تعاون پر بات چیت کے لئے راہ نکالی جا سکے۔ اب سے پہلے ماضی میں صورتحال کو برقرار رکھنا ممکن تھا کیونکہ علاقائی ممالک، اگرچہ بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود، ماحولیاتی خدمات میں خلل اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے مسائل کو سنبھالنے کے قابل تھے۔ لیکن اب صورتِ حال واضح نہیں ہے کہ آیا وہ یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

تاہم، موجودہ عالمی اخراج اور ضروری تخفیف کی کوششوں کے درمیان بڑھتا ہوا گیپ جو کہ کرہ زمین کو 1.5 سینٹی گریڈ کی محفوظ حد کے اندر رہنے کے لئےچاہیے وہ پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔  خطے میں صورتحال غیر یقینی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ دو ارب آبادی والے اِس خطے میں عدم استحکام کے دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انفرادی ممالک کی اِس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیتیں ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔

زمین کی غیر خطی آب و ہوا کے رد عمل کی تاریخ غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتی ہے، جس سے معمول کے مطابق موسمیاتی اِقدامات کے بجائے نئے حل تلاش کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو خطرات کو کم کرتے ہیں۔

نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گلوبل وارمنگ نے جنوبی ایشیا کے بلند و بالا پہاڑوں میں برف کے پگھلنے کی شرح کو تیز کردیا ہے۔ اگر ہم زمین کے درجہ حرارت کو تبدیل کرتے رہیں (جیسے تھرموسٹیٹ کے درجہ حرارت کو اوپر نیچے کرتے رہنا) تو یہ بالآخر بہت تیزی سے بہت زیادہ برف پگھلنے کا سبب بنے گا۔ اس سے سمندر کی سطح میں ایک بڑا اضافہ ہوسکتا ہے جسے ہم روکنے یا پلٹنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

لہذا، جغرافیائی سیاسی فالٹ لائنوں کے باوجود، پانی تعاون کے لئے ایک زبردست کیس فراہم کرتا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں (ایچ کے ایچ) کی برف اور گلیشیئرز زندگی کے وسیلے کے طور پر کام کرتے ہیں جو 10 دریاؤں کے بیسن کو برقرار رکھتے ہیں اور 1.9 ارب لوگوں کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک مربوط نقطہ نظر کی عدم موجودگی خطے کو اُن خطرات کا سامنا کرنے کے لئے ہوشیار اور تیار نہیں کرتی ہے جو مستقبل میں آہستہ ، اچانک اور انتہائی موسمیاتی واقعات سے جنم لے سکتے ہیں۔

یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس علاقے تک محدود نہیں رہے گا۔ اِن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا یہ سلسلہ مقامی اور عالمی موسمیاتی نظام کو متاثر کرے گا۔

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کی حالیہ رپورٹ، ایلیوٹنگ ریور بیسن گورننس اینڈ کوآپریشن ان ایچ کے ایچ ریجن، مشکلات کے ساتھ ساتھ بیسن کے حوالے سے تعاون کو مضبوط کرنے کے لئے درکار اقدامات کی یاد دہانی ہے۔ یہ کامیاب پالیسیاں بنانے اور اس کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ رپورٹ کے کچھ کلیدی مسائل واٹر گورننس فریم ورک تیار کرنے، خواتین واٹر پروفیشنلز کے لئے مواقع پیدا کرنے، موجودہ علم کو دستاویزی شکل دینے، مشترکہ نقطہ نظر اور اوزاروں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے اور عوام پر مرکوز نقطہ نظر کی حمایت کرنے سے متعلق ہیں جو جامع اور وسیع بنیاد ہوں۔

پہاڑی ماحولیاتی نظام اور برادریوں کے بغیر منجمد پانی اور برف کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ہے۔ تبدیلیوں، مشکلات اور آفتوں کے محاذ پر زندگی بسر کرنے والی پہاڑی برادریوں میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جو سرحدوں کو کاٹتی ہیں اور مشترکہ مشکلات پیش کرتی ہیں۔ زراعت کے لئے پگھلے ہوئے پانی پر زیادہ انحصار برادریوں کو زیادہ غیر محفوظ بنادیتا ہے۔ زیادہ اونچائی اور فصلوں کا مختصر موسم زراعت کے لئے استعمال ہونے والے پگھلے ہوئے پانی کے وقت اور مقدار میں تغیر کو جذب کرنے کے لئے بہت کم گنجائش چھوڑتا ہے۔ ہائیڈرولوجی پیٹرن میں تبدیلیوں کے پہاڑی برادریوں کی زندگیوں پر بے شمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غذائی قلت، نقل مکانی، قابل کاشت زمین کا نقصان اور غربت میں اضافہ پانی کے بہاؤ کے انداز میں تبدیلی سے جڑے کچھ موروثی خطرات ہیں۔

علاقے کی زیادہ تر آبادی پیشہ کے  اعتبار سے زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی طرح کی اچانک موسمی رکاوٹیں کمیونٹیز کو چاہے وہ اوپری طرف رہتی ہوں یا نیچے کی طرف دونوں کو متاثر کرتی ہیں جس سے ایک رد عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سماجی توازن کو بگاڑتا ہے، مفاد پرست گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتا ہے اور اختلافات اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں اوسطاً 25 سالہ نوجوان ایک اہم ڈیموگرافک (مطالعہ جمہور)کا حصہ ہے جو معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِن نوجوانوں کے نئے نقطہ نظر اور عزائم سماجی ترقی کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم، اگر دولت کی غیر مساوی تقسیم اور وسائل اور مواقع تک محدود رسائی جیسے اِن کے خدشات پر توجہ نہیں دی گئی تو بدامنی کا خطرہ بھی ہے۔

اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، جنوبی ایشیا کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے ماضی پر نظرثانی کرے، حال کا تجزیہ کرے اور محفوظ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرے۔

جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی حرکیات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود باہمی تعاون کے فقدان کے باعث یہ دنیا کا سب سے کم مربوط خطہ ہے، جو اپنے لوگوں کو بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار کرتا ہے۔

سماجی اصول اس بات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ لوگ مشکل وقت کا کیسے سامنا کریں گے۔خوراک کی بڑھتی ہوئی قلّت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، جنوبی ایشیا کے لئے ہمدردی، افہام و تفہیم اور احترام کی ثقافت کو فروغ  دینا ضروری ہے جو اس کی مشترکہ تاریخ کے ثقافتی اقدار کی علامت ہو۔

نومبر میں آذربائیجان میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس جنوبی ایشیا کو عالمی ماحولیاتی تشخیص میں کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے)کی شمولیت کی وکالت کرنے کے لئے متحد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہماری پہاڑی برف کی حفاظت کے لئے تعاون کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ خطے کی ماحولیاتی سالمیت کے تحفظ کے لئے سول سوسائٹی کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ اگر تیسرا قطب بربادی کا شکار ہوتا ہے تو یہ پورے خطے کے لئے تباہی کا باعث بنے گا۔