آب و ہوا

انڈیا اور پاکستان آپس میں چاہے جتنی تکرار کرلیں، لیکن موسمیاتی آفات کسی کا انتظار نہیں کریں گی

سابق پاکستانی رہنما نواز شریف کے پرامید پیغام پر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے نپا تلا جواب آیا ہے، لیکن یہ جان لیں کہ موسمیاتی اثرات سیاستدانوں کے مل بیٹھنے کا انتظار نہیں کریں گے
<p><span style="font-weight: 400;">ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، نواز شریف کے ساتھ، جو 2015 میں پاکستانی وزیر اعظم تھے۔ (تصویر بشکریہ الامی )</span></p>

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، نواز شریف کے ساتھ، جو 2015 میں پاکستانی وزیر اعظم تھے۔ (تصویر بشکریہ الامی )

پاکستان – ہندوستان تعلقات اکثر و بیشتر بداندیشی کا شکار رہے ہیں یہی وجہ ہے کے سیاسی منظر نامے میں کسی قسم کی تھوڑی بہت پیشرفت یکسر نظرانداز ہوجاتی ہے- یہ خاص طور پر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں دیکھا گیا ہے۔ پاکستان مخالف ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ہونے کے باوجود،  مودی نے 2014 میں اپنے ہم منصب، اور اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو اپنی پہلی سربراہی تقریب کے لئے مدعو کیا تھا۔ وہ رسائی، جو تقریباً ایک سال تک جاری رہی اور اس میں 2015 میں شریف کی پوتی کی شادی میں شرکت کے لئے نریندرا  مودی کا ایک غیر متوقع دورہ بھی شامل تھا، اب قصّہ پارینہ بن چکی ہے۔

پچھلی دہائی کے دوران، یہ تعلق ختم ہوچکا ہے۔ اس لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ نریندرا مودی کے تیسری سربراہی تقریب کے لئے کسی پاکستانی اہلکار کو مدعو نہیں کیا گیا۔ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیراعظم مودی کے لئے مبارکباد پر مبنی ٹویٹ پوسٹ کیا۔ وہ علاقائی ملک کے واحد رہنما تھے جنہیں ہندوستان کی وزارت خارجہ نے مدعو نہیں کیا۔

لہٰذا یہ حیران کن بات تھی کہ  شہباز کے بڑے بھائی اور گورننگ پارٹی کے رہنما نواز شریف نے سوشل میڈیا پر مودی کو مبارکباد کا پیغام دیا۔

تاہم، مودی کی طرف سے نواز کو ملنے والے ردعمل نے کسی بھی قسم کی پیشرفت کی توقع ختم کر دی ہے۔ مزید یہ کہ، کشمیر میں اس ہفتے ایک عسکریت پسند حملہ کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں نے معاملات مزید خراب کردئے ہیں۔ ماضی میں نئی ​​دہلی پاکستان پر عسکریت پسند گروپوں کی سرپرستی کا الزام لگاتا رہا ہے۔

جہاں نواز شریف نے جنوبی ایشیا کے اجتماعی مستقبل کے بارے میں بات کی وہیں نریندرا مودی کا جواب صرف ہندوستان پر مرکوز تھا۔ امید پر مبنی  پیغام کے جواب میں، بھارتی وزیر اعظم نے سیکورٹی سے متعلق بات کرنے کا عندیہ دیا.

ہندوستان کے ساتھ دوستی کے حوالے سے نواز شریف کا موقف نیا نہیں ہے۔ فروری 2024 کو ایک قبل از انتخابات  انٹرویو میں، شریف نے ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان “متحرک خارجہ پالیسی” رکھنے میں ناکام رہا ہے اور یہ کہ وہ “ایسے حالات میں رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا  جہاں وہ اپنے پڑوسیوں سے لاتعلق رہے”.

 لیکن آج نواز شریف اس پوزیشن میں نہیں کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے فیصلے کرسکیں. نہ صرف اس لئے  کہ وہ وزیر اعظم نہیں ہیں، بلکہ اس لئے بھی کہ ان کی حکومت فوج کے زیر کنٹرول متنازعہ انتخابات کے بعد برسراقتدار آئی۔ ملک میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے پاس حکومت کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نریندرا مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بی جے پی کے لئے انتخابی جھٹکے کے باوجود ،جس کے لئے اسے حکومت بنانے کے لئے اتحاد کی ضرورت پڑی، مودی نے اپنے پرانے وفاداروں کے لئے کابینہ کے اہم عہدوں کو برقرار رکھا ہے، اس بات کا اشارہ ہے کہ اگرچہ کچھ چیزیں بدلی ہیں، خارجہ پالیسی کے معاملات پر مودی کا ہی تسلط ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی برقرار ہے۔ ہندوستان پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگاتا رہتا ہے، جسکا تذکرہ  ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دوسری مدت کے لئے مرکزی کابینہ کے وزیر کے بطور حلف اٹھانے کے فوراً بعد کیا۔ پاکستان متنازعہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی جاری رکھے ہوئے ہے اور علاقے کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے پر احتجاج کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں، دی گارڈین کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے پاکستان میں دہشتگردی کا حکم دیا ہے، اس نے معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔

جہاں ان دیرینہ تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک کے بیچ تکرار جاری ہے، پچھلی چند دہائیوں کے دوران ایک نیا خطرہ پیدا ہوا ہے جو دونوں ممالک کو متاثر کررہا ہے اور وہ ہے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی آفات۔ دونوں ممالک کشمیر، دہشت گردی یا تجارت کے بارے میں بات کئے بغیر رہ سکتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو نظر انداز کرنے سے ان کی اپنی آبادیوں اور بڑے پیمانے پر برصغیر کی معیشت اور سلامتی پر پڑنے والے اثرات کی انہیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

شدید گرمی، تباہ کن سیلاب، اور خوراک اور پانی کے بڑھتے ہوئے بحران سے دوچار ایک خطے میں رہنے والے دو بلین لوگوں کی حکومتیں فیل ہوجائیں گی اور اسکا سب سے زیادہ اثر کم آمدنی والے، پسماندہ اور کمزور کمیونٹیز کو محسوس ہوگا۔

اس حقیقت کے باوجود کہ موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ آفات نے سرحدوں کے پار جانوں اور معاش کو نقصان پہنچایا ہے، اب تک دونوں ممالک نے آفات کے دوران رابطے اور اشتراک کے لئے نا ہونے کے برابر کام کیا ہے۔

شدید گرمی، سیلاب، اور خوراک اور پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کا سامنا کرنے والے دو ارب لوگ بے بس و لاچار ہوجائیں گے، اور اس کا سب سے زیادہ نقصان کمزور اور پسماندہ لوگوں کو اٹھانا پڑے گا
عاتکہ رحمان

جب 2022 میں سیلابوں نے پاکستان کے ایک تہائی صوبوں کو تباہ کیا، اسی موسمی نظام کی وجہ سے بھارت میں سیلاب آیا، کئی ریاستوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور جانی نقصان کی اطلاع ملی۔ مئی 2024 کے آخر میں آنے والی ہیٹ ویو جس نے بھارتی ریاست بہار میں درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا، اسی گرمی کی لہر کے نتیجے میں پاکستان کے کچھ حصوں میں بھی سینکڑوں افراد کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے لئے ذمہ دار اخراج کی ذمہ داری بہت کم عائد ہے۔ دونوں ہی، درجہ حرارت اور موسم کے نمونوں میں تبدیلی کے آگے کمزور اور خطرے سے دوچار ہیں۔

آب و ہوا کے تعاون کے راستے اور اثرات بہت وسیع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون آلودگی میں کمی اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کا باعث بن سکتا ہے تاکہ دونوں آبادیوں کی صحت اور بہبود کو بہتر بنایا جا سکے۔ انڈس واٹر ٹریٹی  کو فوری طور پر اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کی تقسیم سے ہٹ کر مشترکہ اور پائیدار انتظام نافذ ہو سکے۔

ہمالیہ کے ایک اعلیٰ گلیشیالوجسٹ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی سائنسدانوں کے درمیان تعاون کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے اونتی پورہ میں اسلامی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر، شکیل احمد رومشو کہتے ہیں، “یہ علاقے سائنسی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، بالائی علاقوں کی سرگرمیاں نچلے دھارے والے علاقوں کو متاثر کرتی ہیں۔ تاہم، جنوبی ایشیا میں پیچیدہ سیاسی تعلقات کی وجہ سے، بیسن  کے بعض حصوں تک رسائی، خاص طور پر جو قومی سرحدوں کے پار موجود ہیں، میرے جیسے سائنسدانوں کے لئے سخت پابندیاں ہیں”۔

آبی قانون کی ماہر ارم ستار نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “یہ دہائی جنوبی ایشیا کے آبی وسائل اور اس کے مجموعی آب و ہوا کے توازن کو محفوظ رکھنے کی  بنیادیں رکھنے میں مدد کے لئے اہم ہے۔ اگرچہ تاریخ ہمیں تقسیم کرتی ہے، خوف میں مبتلا  رہنے اور عدم تحفظ کو فروغ دینے سے اپنا ہی نقصان ہوگا۔

 ماہر سیاسی اقتصادیات عزیر یونس نے کہا، “برصغیر ایک اور ریکارڈ توڑ گرمی کی لہر کی زد میں ہے۔ اس کا نمبر اسموگ کے بعد آتا ہے، جو برسوں سے صحت عامہ کے لئے ایک اہم چیلنج رہا ہے۔ کم از کم ہندوستان اور پاکستان کو اپنے شہریوں کے لئے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے اور ہیٹ ویوز کی نقشہ سازی کے لئے روابط اور اشتراک کرنا چاہیے، تاکہ دونوں سرحدوں کے پار جانیں بچائی جاسکیں۔

جنوبی ایشیا میں، کل آبادی کا تقریباً 21 فیصد خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ پھر بھی، ایک جیسی اہم فصلیں (گندم، چاول، اور مکئی) ہونے اور زرعی معیشت ہونے کے باوجود، ہندوستان اور پاکستان اس بارے میں ماہرانہ معلومات  کا اشتراک نہیں کرتے کہ  بدلتے ہوئے اور بے ترتیب موسم اور گرمی کے پیٹرن کس طرح پیداوار کو متاثر کرتے ہیں ۔

ایکطرف پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے لڑ رہا ہے اور دوسری طرف ہندوستان کو معاشی تفاوت اور بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا ہے، ان کے رہنماؤں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ناقابل تبدیل گرم دنیا کے تباہ کن اثرات سفارتی رابطوں میں پہل کا انتظار نہیں کریں گے۔