آب و ہوا

سوال و جواب : ’پاکستان کو سیلاب ، اب ایک نیا معمول سمجھ کر اس کے مطابق ڈھلنا ہوگا‘

آبی وسائل کے انتظامی ماہر محمد احسن لغاری سے ڈائیلاگ ارتھ کی تفصیلی بات چیت کہ کس طرح شدید سیلاب کو بہتر طور پر سنبھالا جا سکتا ہے، باوجود اس کے کہ ملک اب بھی اس خطرے سے دوچار ہے۔
اردو
<p>لاسی گوٹھ (کراچی ، سندھ) میں سیلاب، ستمبر 2025</p>
<p>)تصویر بشکریہ ؛ پاکستان پریس انٹرنیشنلؕ/ الامے)</p>

لاسی گوٹھ (کراچی ، سندھ) میں سیلاب، ستمبر 2025

)تصویر بشکریہ ؛ پاکستان پریس انٹرنیشنلؕ/ الامے)

لاکھوں افراد بے گھر اور لگ بھگ ایک ہزار افراد جاں بحق ہونے کے بعد، جون سے جاری پاکستان کا حالیہ سیلاب خطرناک حد تک 2022 کے اس تباہ کن سیلاب کی یاد دلا رہا ہے جس نے ملک کے بڑے حصے کو غرقاب کردیا تھا۔ جیسے جیسے ملک بڑھتے ہوئے سیلابی پانی میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہے، کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

کیا ان نقصانات کو روکا جا سکتا تھا؟

موسمیاتی تبدیلی نے اس صورت حال میں کیا کردار ادا کیا ہے؟

کیا بھارت کی جانب سے سیلابی پانی کے اخراج (جس کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا ) نے ملک کے زیریں علاقوں کے نقصانات میں اضافہ کیا؟

کیا یہ سب ناقص حکمرانی یا تیاری کی کمی کا نتیجہ ہے ؟

ان تمام سولات کے جواب اور ان معاملات کو سمجھنے کے لیے ڈائیلاگ ارتھ نے آبی وسائل کے انتظامی ماہر اور پاکستان کے واٹر ریگولیٹر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) میں صوبہ ءسندھ کے رکن محمد احسن لغاری سے بات کی۔ انہوں نے ان عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالی جنہوں نے پاکستان میں ان تباہ کن سیلابوں کو جنم دیا، یہ بھی بتایا کہ سیلاب پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے کون سے اقدامات موثر ثابت ہوئے اور کون سے نہیں، اور یہ کہ مستقبل میں آنے والے سیلابوں کو کس طرح موثر انداز میں سنبھالا جا سکتا ہے۔ گفتگو کی روانی اور تاثر برقرار رکھنے کی غرض سے تحریر کو ایڈٹ کیا گیا ہے۔

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاﺅں میں بار بار آنے والے سیلاب کی بڑی وجہ قدرتی عوامل ہیں یا انسانی سرگرمیاں، خصوصاً پنجاب کے دریاوں میں آنے والے بڑے سیلابی ریلوں کی وجوہات ؟

 معروف جغرافیہ دان گیلبرٹ ایف وائٹ نے 1942 میں کہا تھا:

”سیلاب قدرت کے کام ہیں، لیکن سیلابی نقصانات زیادہ تر انسان کے اعمال ہیں۔“

انسانی فیصلے، مثلاً سیلابی میدانوں میں تعمیرات اور ان کے انتظام کے طریقے، قدرتی آفات کو تباہی میں بدل سکتے ہیں۔ دنیا، بشمول پاکستان، موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے معاملے میں سست روی کا شکار رہی ہے اور اکثر انجینئرنگ پر مبنی حل یا تو ناقص طریقے سے نافذ کیے جاتے ہیں یا پھر بلا ضرورت اختیار کیے گئے ہیں۔

عمومی طور پر کچھ اہم عوامل ایسے ہیں جو سیلاب کے اثرات کو بڑھا دیتے ہیں۔ کمزور حکم رانی ہنگامی حالات کو تباہی میں بدل دیتی ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں خیبر پختونخوا ہ اور پاکستان کے دیگر حصوں میں سیلاب سے ہونے والی اموات سے ظاہر ہے۔ معقول زمینی منصوبہ بندی کی کمی یا زمین کا غیر دانش مندانہ استعمال شہری اور دریا کے قریب آنے والے سیلاب کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ جبکہ کی جانے والی منصوبہ بندی زیادہ تر پاکستانیوں کے اصل مسائل اور تجربات کو نظرانداز کرتی ہے۔ سیاسی اور بیوروکریٹک اشرافیہ اینٹ اور سیمنٹ کے منصوبوں کو ترجیح دیتی ہے، جو سیلاب اور دیگر خطرات کے اثرات کو بڑھا دیتے ہیں۔

شدید مون سون، جن میں 200 سے 300 ملی میٹر بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی، گلیشیئر کے پگھلنے اور طوفان، جو شمالی علاقوں میں ہیٹ ویو کے دوران متوقع تھے، وہ قدرتی عوامل ہیں جنہوں نے سیلاب پیدا کیے۔ لیکن انسانی عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا: جنگلات کی کٹائی پانی کے بہاومیں اضافہ کرتی ہے، جبکہ شہری توسیع اور تجاوزات قدرتی راستوں کو بند کر دیتی ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دریائے راوی کے کنارے سیلابی میدانوں کو پختہ کر دینا، گویا ان علاقوں کو جو پانی جذب کرتے تھے کنکریٹ میں بدل دیا، اور یوں تباہی کو دعوت دی۔

مون سون پیش گوئی پاکستان 2025 کی رپورٹ، نیشنل ایڈاپٹیشن پلان اور اپ ڈیٹ شدہ کلائمیٹ چینج پالیسی جیسی رپورٹس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ پلوں اور تجاوزات کی وجہ سے دریاوں کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔ اس صورت حال میں بہتری کے لیے آب گاہوں اور قدرتی مساکن کی بحالی پر زور دیا گیا ہے، مگر ان سفارشات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

2025  کے سیلابی پانی کے ریلے بالائی علاقوں میں غیر معمولی بارشوں، ہمالیہ کے گلیشیئر پگھلنے اور بھارت کی جانب سے شدید بارشوں کے دوران ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے نتیجے میں وجود میں آئے، جنہوں نے پنجاب کے میدانی علاقوں کو ڈبو دیا۔ اس سے 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے اور 36 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے، جبکہ سندھ تک پانی پہنچنے سے مزید لاکھوں افراد خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ صورت حال انتظامی مسائل کو اجاگر کرتی ہے، تجاوزات زدہ میدان پانی کو براہِ راست بستیوں کی طرف دھکیلتے ہیں، جس سے اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اس چکر ویوکو توڑنے کے لیے سخت زوننگ قوانین ناگزیر ہیں۔

کیا گلیشیئرز کا پگھلاﺅ اور مون سون میں تغیرات پاکستان میں سیلاب کی وجہ بن رہے ہیں ؟

یہ عوامل غیر یقینی صور ت حال کو بڑھاتے ہیں۔ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کی پہاڑی سلسلوں میں درجہ ء حرارت میں اضافے کے باعث تیز رفتاری سے گلیشئرز کا پگھلاﺅ، ہیٹ ویوز کے دوران مزید شدت اختیار کر لیتا ہے، جو بے ترتیب اور مرکوز بارشوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر پنجاب میں دریائے چناب اور ستلج کو حد سے زیادہ بھر دیتے ہیں۔ پنجاب کو دریا کے طغیانی کا سامنا ہے، جبکہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں اچانک آنے والے اور شہری سیلاب رونما ہوتے ہیں۔

دنیا کے مجموعی گرین ہاﺅس گیسی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، ایسے میں جب ملک کو شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے اور دو ارب امریکی ڈالر کے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس کی بنیاد غیر منصفانہ ہے۔ پاکستان کو اس نئے معمول کے ساتھ خود کو تبدیل کرنا ہوگا، جس کے لیے دریائی طاس کی نگرانی اور اسے ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔

بیراج، بند اور نہریں سیلاب کو قابو میں رکھنے میں کتنی موثر ہیں؟ کیا یہ زیریں علاقوں میں سیلاب کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں؟

قابو میں لائے گئے نظام اکثر زیریں علاقوں میں سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ پنجاب نے عموماً اپنے ہیڈورکس (جہاں پانی کے دھاروں کو موڑا جاتا ہے) اور بیراجوں کو 2025 کے اونچے سیلابی ریلوں کے دوران بہتر طور پر سنبھالا، جس سے اضافی پانی کو محفوظ طریقے سے گزارا گیا۔ لیکن ہیڈ پنجند، جہاں پانچ دریا ملتے ہیں، کو شدید سیلابی لہروں کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کی پیش گوئیوں میں پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا۔ پنجاب نے اپنے بیشتر بیراجوں کی مرمت کر لی ہے، جبکہ سندھ اپنے گڈو اور سکھر بیراج کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔

تاہم، یہ ہائیڈرولک ڈھانچے بعض اوقات رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، دریاوں کے بہاوکو روک کر شگاف ڈالتے ہیں اور بغیرکسی مناسب انتباہ کے نقصان کو دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں۔ ہمارا انفراسٹرکچر پرانا اور ناکافی ہے، جو قریبی آبادیوں کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے ۔ حل یہ ہے کہ حکمت عملی بدلی جائے، سیلاب کے ساتھ جینا سیکھا جائے، رکاوٹیں دور کی جائیں، دریاوں کو بہنے دیا جائے اور سیلابی میدانوں کو سیراب ہونے دیا جائے۔ اس کے علاوہ، ہمیں فطرتی بنیادوں پر مبنی حل اپنانے چاہییں جیسے سیلابی میدانوں کی بحالی ، اور اضافی پانی کے بہاو کو قابو میں رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی، مثلاً خودکار بیراج گیٹس اور مصنوعی ذہانت پر مبنی پیش گوئی، کو یکجا کرنا ہوگا۔

دریاوں اور بیراجوں میں مٹی اور تلچھٹ (سلٹ اور سیڈیمنٹ) کے جمع ہونے کا سیلابی خطرات بڑھانے میں کیا کردار ہے؟

یہ عمل دریا کے پاٹ کو بلند کر دیتا ہے۔ دریائے سندھ میں تلچھٹ کے جمع ہونے سے دریا کا پاٹ بلند ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں دریا کی سیلاب برداشت کرنے کی صلاحیت 17.75 فیصد کم ہوچکی ہے۔ تحقیق سے علم ہوا کہ 24 سال کے عرصے میں یہ مسئلہ، پانی کے بہاو میں کمی کے ساتھ مل کر، دریا کی زیادہ پانی سنبھالنے کی صلاحیت کو تقریباً آدھا کر چکا ہے۔ اگر اس کا موثر انتظام نہ کیا جائے تو تلچھٹ کا جمع ہونا پانی کے چھلکنے، کٹاو، شگاف پڑنے اور زمین میں سیم و تھورجیسے مسائل پیدا کرتا ہے۔

یہ مسئلہ بھی ایک چکرویو جیسا ہی ہے، ماضی میں بالائی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی نے زیادہ مٹی کو دریاوں میں بہا دیا، اور اس تلچھٹ کو سنبھالنے میں مسلسل ناکامی نے حالیہ سیلابوں، مثلاً 2025 کے سیلاب، کو کہیں زیادہ تباہ کن بنا دیا، جس سے اربوں کا نقصان ہوا اور ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ ہمیں پورے طاس کی سطح پر تلچھٹ کے انتظام کی حکمت عملی درکار ہے، جیسے دریائے سندھ کے لیے مربوط واٹرشیڈ مینجمنٹ، جس میں بھارت اور افغانستان کو بھی شامل کیا جائے۔

آئندہ 20 سے 30 برسوں میں موسمیاتی تبدیلی دریائے سندھ کے طاس میں سیلاب کی شدت اور تسلسل میں کس طرح تبدیلی لا سکتی ہے؟

موسمیاتی تبدیلی اگلی چند دہائیوں میں انڈس بیسن میں سیلابوں کی شدت اور تسلسل میں اضافہ کرے گی۔ اس کی بنیادی وجوہات زیادہ شدید مون سون بارشیں، تیزی سے بڑھتا ہوا گلیشیئر پگھلاو، اور سمندر کی سطح میں اضافہ ہوگا جو سندھ میں نکاسی آب میں رکاوٹ بنتاہے۔ اس کے نتیجے میں زیادہ تباہ کن سیلاب ایک نیا معمول بن جائیں گے، جیسا کہ 2010، 2022 اور 2025 میں دیکھنے کو ملا۔ اس کا مطلب ہے بڑھتے ہوئے نقصانات اور تدارک کی صلاحیت میں کمی، جبکہ تمام موسمیاتی ماڈلز مزید بڑے معاشی اور انسانی نقصانات کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی تحقیق بھی سیلابی خطرات میں اضافے کے اس عمومی رجحان کی تائید کرتی ہے۔

ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قدرتی بنیادوں پر مبنی حل، جیسے آب گاہوں کی بحالی تاکہ وہ سیلابی پانی زیادہ سے زیادہ جذب کر سکیں، اور انجینئرنگ پر مبنی حل کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی پورے دریائی طاس میں بہتر حکمرانی بھی ناگزیر ہے۔

Rescue boats navigate floodwaters while people gather on the banks, amidst submerged buildings and trees in a flooded area.
ریسکیو اہلکار ستمبر 2025 کے اوائل میں پنجاب کے ضلع ملتان کے ایک زیرِ آب علاقے سے دیہاتیوں کو نکال رہے ہیں (تصویر: عاصم تنویر / ایسوسی ایٹڈ پریس / ایلامی)۔

پنجاب میں کون سے گروہ یا علاقے سیلاب کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرات کی زد میں رہے ہیں، اور مقامی سطح پر کون سی حکمت عملیاں ان کے خطرات کو کم کر سکتی ہیں؟

میری رائے میں، تقریباً چالیس لاکھ متاثرہ افراد کے ساتھ، ستلج، چناب، راوی اوردریائے سندھ کے کنارے واقع نشیبی اضلاع، خصوصاً ملتان، جھنگ، لیہ، ڈیرہ غازی خان اور بہاول نگر نے حالیہ سیلابوں کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے۔ شہری خطرے والے علاقوں میں سیالکوٹ، راولپنڈی، چکوال اور لاہور جیسے شہر شامل ہیں، یہ نکاسی آب اور منصوبہ بندی کے مسائل کے باعث سنگین سیلابی خطرات کا سامنا کرتے ہیں۔

اگر ہم واقعی ان علاقوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو کئی اقدامات کرنے ہوں گے، جیسے کہ  پشتوں کی دوبارہ تعمیر اور دیکھ بھال، مقامی آبادی کے لیے آفات کے دوران عارضی نقل مکانی کے لیے مراعات فراہم کرنا، موبائل اور ویٹرنری ہیلتھ یونٹس تعینات کرنا، اور بزرگوں کی رہنمائی پر مبنی انخلا کے منصوبے متحرک کرنا جو آباو اجداد کے لوک علم و دانش پر مبنی ہوں۔ اسی طرح، کمیونٹی کو بااختیار بنانا اورآفات کی تیاری میں مہارت کی کمی کو پورا کرنا خطرات کو نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے۔

کیا پاکستان میں سیلاب کی پیشگی وارننگ کے نظام مناسب حد تک موثر ہیں؟ اگر نہیں، تو انہیں کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

اگرچہ 2010 کے بعد سے سیلاب کی پیشگی وارننگ کے نظام میں بہتری آئی ہے، لیکن اب بھی انہیں مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑی کمی تیاری کی ہے۔ فی الحال ایک بنیادی مسئلہ ناقص رابطہ بھی ہے۔ وارننگ دیہی علاقوں تک ہمیشہ نہیں پہنچ پاتی، اور بعض اوقات یہ وارننگ مقامی زبانوں یا رابطے کے مناسب ذرائع میں نشر نہیں کی جاتیں۔ درستگی کا مسئلہ بھی موجود ہے، یہ معلومات ہمیشہ قابلِ اعتماد یا بر وقت فراہم نہیں کی جاتیں۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب ممالک کے درمیان ڈیٹا کا تبادلہ نہیں ہوتا، جیسا کہ 2025 کے واقعات میں بھارت کے حوالے سے دیکھنے کو ملا، خاص طور پر اپریل میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد۔

اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسے 24/7 نگرانی کا استعمال، کمیونٹی ریڈیو اور ٹیکسٹ پیغامات کے ذریعے اطلاعات کے نظام کو وسعت دینا، اور تمام متعلقہ فریقوں کے درمیان، خاص طور پر کمیونٹی سطح پر، بہتر رابطہ اور ہم آہنگی کو یقینی بنانا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اوپر سے نیچے تک کے ردِعمل پر مبنی طریقہ ءکار کے بجائے نیچے سے اوپر تک کے کمیونٹی پر مبنی طریقہ ءکار کی طرف جانا ہوگا، جو مقامی لوگوں کو، خاص طور پر سب سے زیادہ کمزور طبقات کو بااختیار بنائے۔

کیا بھارت کے پانی چھوڑنے سے پنجاب میں سیلاب آیا، اور اگر ہاں، تو کیا پاکستان کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی؟

یقینا بھارت نے اضافی پانی ڈیموں سے چھوڑا ، جن میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے بالائی علاقے میں واقع بھاکڑا ڈیم بھی شامل ہے ، جس سے مون سون کے ریلوں میں شدت آگئی۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو موثر رابطہ کاری کے طریقہ ءکار کو بحال کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کا خیال ہے کہ بھارت نے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا ، یہ ہوسکتا ہے؛ تاہم، اطلاع یا انتباہ سفارتی ذرائع کے ذریعے پہلے ہی دی جاچکی تھی اور ایسا سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پہلی بار ہوا اور یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معلومات دی گئیں۔

سیلاب سے بچاﺅ کے لیے پاکستان کی ترجیحات کیا ہونا چاہئیں؟

پاکستان کو چاہیے کہ وہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے، شہروں میں پانی کے دوبارہ استعمال، گرین بلڈنگ کوڈز کی تیاری، اپنی آبی گزرگاہوں اور آب گاہوں کی بحالی، واٹرشیڈ مینجمنٹ اور شجرکاری کو ترجیح دے، جو مجموعی طور پر سیلابی ریلوں کی شدت کو 10 سے 20 فیصد تک کم کرسکتے ہیں۔ نیدرلینڈز کے 2023 کے ایک وائٹ پیپر میں بھی سیلاب کی انتظام کاری کے تین طریقے بتائے گئے ہیں: پانی کا ”دوبارہ استعمال“ (یعنی پھیلاو کے ذریعے زیرِ زمین پانی کو ریچارج کرنا)، ”کم کرنا“ (کراس ڈرینیج اور فلڈ چینلز کے ذریعے)، اور ”ہٹانا“ کا تصور، یعنی دریا کے لیے جگہ پیدا کرنا، پلوں کے ڈیزائن کی تبدیلی اور بند توڑنے کے ذریعے ،بجائے اس کے کہ بڑے ڈیم منصوبوں پر انحصار کیا جائے۔

ڈیم حل نہیں ہیں۔ یہ بھاری لاگت، ماحولیاتی نقصان، لوگوں کی بے دخلی کا باعث بنتے ہیں اور بعض اوقات سیلاب کو مزید بدتر بھی کر دیتے ہیں۔ ہم نے یہ 2025 میں دیکھا، جب بھارت نے راوی اور ستلج دریاوں پر اپنے بھرے ہوئے ڈیموں سے پانی چھوڑا جس سے زیریں میدان زیرِ آب آگئے جن میں انسانی آبادی کی صورت میں تجاوزات موجود تھیں، جبکہ چناب کا وہ حصہ جہاں ڈیم موجود نہیں تھے، ایک ملین کیوسک (فی سیکنڈ پانی کے بہاوکی مقدار) تک بڑھ گیا۔ ڈیموں کو عام طور پر غریب دشمن، ماحول دشمن اور غیر منصفانہ سمجھا جاتا ہے۔

حالیہ 2025 کے سیلاب میں سب سے زیادہ کون سا صوبہ متاثر ہوا ؟

ملک بھر میں، جون کے آخر سے اب تک، مون سون سے جڑی ہلاکتوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے، اور 11 ستمبر تک خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ اموات (504) ریکارڈ کی گئیں، جو طوفانی سیلاب، اور بادل پھٹنے کے واقعات کے باعث ہوئیں۔ 14 سے 16 اگست کے دوران صوبے میں بادل پھٹنے سے طوفانی سیلاب آئے۔ خیبر پختونخوا کا ضلع بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں کم از کم 380 افراد جاں بحق ہوئے۔ شانگلہ، سوات اور صوابی میں بھی اسی نوعیت کی تباہی دیکھنے میں آئی۔ شدید بارش، جنگلات کی کٹائی، وادیوں کی بندش اور بے قابو تعمیرات نے ملبے کے سیلاب کے لیے راستہ بنادیا جو مہلک ترین ہوتا ہے ، جو پہاڑی علاقوں میں منصوبہ بندی اور ضابطہ سازی کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔

پنجاب کو سب سے زیادہ بنیادی ڈھانچے اور زرعی نقصانات کا سامنا ہے۔ سندھ میں بڑا رقبہ زیر آب آیا اور آبادی کے انخلا کے مسائل پیش آئے، جو اس کی ہموار (اور ناقص نکاسی والے) زمین کی وجہ سے زیادہ بڑھے ۔ زمین کی جغرافیائی ساخت اثرات کو متعین کرتی ہے؛ خیبر پختونخوا کی ڈھلانیں مہلک ثابت ہوتی ہیں، جبکہ پنجاب اور سندھ کو اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے پھیلے ہونے کے باعث نقصانات کا سامنا ہے (کیونکہ یہ نسبتاً ہموار ہیں)۔ پورے ملک کو کثیر جہتی بحالی کی ضرورت ہے۔

زیریں صوبہ ہونے کے ناتے سندھ کے لیے کیا خطرات ہیں ؟

سندھ کی زیریں حصے (lower riparian) کی حیثیت اسے بالائی علاقوں سے آنے والے بے قابو سیلابوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے آبی انتظام یا زمین کے استعمال کے حوالے سے کوئی خاص اختیار حاصل نہیں ہے۔ صوبے میں بارشیں اپنی شدت میں اضافہ کرکے آفت بن جاتی ہیں کیونکہ یہاں کا میدان ہموار ہے اور سیلاب کے نکلنے کے راستے موجود نہیں۔ نتیجتاً دریا اپنے پھیلاو کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تباہ کن کٹاﺅ ڈالتے ہیں او رایک طویل المدت تک پانی کھڑا رہتا ہے۔

پاکستان میں موثر سیلابی انتظامات کے راستے میں طرز حکمرانی اور پالیسی کے حوالے سے بڑی رکاوٹیں کیا ہیں؟

سب سے بڑی رکاوٹ کمزور حکمرانی ہے۔ 2011 میں ایک سرکاری رپورٹ میں، جس پر میں نے بھی کام کیا، 400 سے زائد سیلاب کے راستوں میں رکاوٹیں شناخت کی گئیں، جن کے 350 سے زیادہ کوآرڈینیٹس نقشہ بندی کیے گئے تھے۔ سیلاب کی صورت حال میں ردعمل اکثر فوری اور موثر نہیں ہوتے ہیں، جبکہ ادارے جیسے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور اس کے صوبائی حصے کمیونٹی سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔

آبی انتظام کے محکمے وسائل کی کمی اور سیاسی اثر و رسوخ کا شکار ہیں، اور 10 سالہ فلڈ پلان IV رک گیا ہے۔ اسپیشل پلاننگ کے قوانین کمزور طریقے سے نافذ کیے جاتے ہیں، اوراشرافیہ کے ترقیاتی منصوبے مثلا راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی عوامی حفاظت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اختیارات غیر واضح ہیں، ادارے آپس میں ہم آہنگ نہیں ہیں اور صوبوں کے درمیان تنازعات حل نہیں ہوئے۔ آگے بڑھنے کے لیے پاکستان کو واضح طور پر متعین کردہ کرداروں کی ضرورت ہے کہ کون سا کام کب ، کیسے اور کس قیمت پر کس کی ذمے داری ہے!

ترجمہ: شبینہ فراز

Privacy Overview

This website uses cookies so that we can provide you with the best user experience possible. Cookie information is stored in your browser and performs functions such as recognising you when you return to our website and helping our team to understand which sections of the website you find most interesting and useful.

Strictly Necessary Cookies

Strictly Necessary Cookie should be enabled at all times so that we can save your preferences for cookie settings.

Analytics

This website uses Google Analytics to collect anonymous information such as the number of visitors to the site, and the most popular pages.

Keeping this cookie enabled helps us to improve our website.

Marketing

This website uses the following additional cookies:

(List the cookies that you are using on the website here.)