سندھ میں دھان کی بوائی کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ لیکن جنوب مشرقی پاکستان کے صوبے نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے 10 اضلاع میں چاول کی کاشت پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس پابندی کا اعلان ہر سال اپریل کے آخر میں یا مئی کے شروع میں چاول کی لگاتار کاشتکاری کی وجہ سے ہونے والے سیم ، تھور اور خشک سالی جیسے حالات پر قابو رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے- کچھ لوگوں کے مطابق، ان علاقوں میں چاول کی کاشت پر 90 برسوں سے پابندی عائد ہے۔ اسی طرح ، ہندوستان میں ، پانی کے ذخائر بچانے کے لئے حکومت ’ڈارک زونز‘ میں دھان کی کاشت پر پابندی عائد کرتی ہے۔
’ڈارک زون‘ کیا ہیں؟
زیر زمین پانی کے شدید استحصال کے علاقے جہاں پانی کی بحالی سے متجاوز استعمال کیا جاتا ہے
لیکن یہ احکامات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیے جاتے ہیں ، کیونکہ دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر کھیتوں میں چاول کی کاشت جاری رہتی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلی کے ترجمان ، رشید چنہ نے کہا کہ اس بار معاملہ مختلف ہوگا۔ چنہ نے کہا کہ حکومت پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے بارے میں “سنجیدہ” ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو پہلے ہی بتایا گیا ہے کہ وہ نرسریوں پر نظر رکھیں اور سیلاب زدہ کھیتوں میں پودے لگانے سے پہلے کونپلوں کو ختم کردیں۔
اس خبر سے کاشتکار برادری میں کافی غم و غصہ پھیل گیا ، کسانوں کا کہنا تھا کہ حکومت کا وقت اور سوچ کا طریقہ غلط ہے۔
“کاشتکاروں کو بوائی سے ٹھیک ایک ماہ قبل بتایا گیا تھا کہ دھان کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے متبادل فصل کو اگانے کے لئے زمین تیار نہیں کی تھی اور نہ ہی بیج خریدا تھا ، “صوبہ میں کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی گئی تنظیم سندھ آبادگر بورڈ کے سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسری فصلوں کے موسم گزرنے کے بعد 40،000 ہیکٹر سے زائد زمین پر فصل تبدیل کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
“اور اگر دوسری فصلوں کے لئے اچانک 20،000 ایکڑ [8،000 ہیکٹر] زمین کاشت کی جائے تو ، ہم خریدار کہاں سے لائیں گے؟ سبزیوں ، دالوں اور پھلوں کی قیمتیں گر جائیں گی، ” انہوں نے واضح کیا-
چاول اور پانی
ہائی ڈیلٹا فصل کیا ہے؟
ایسی فصلیں جن کو اگنے کے لئے بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم ڈیلٹا فصلوں کو نسبتا کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جہاں معاش کے لئے خوف درست ہیں وہیں پابندی سے پانی کی قلت کے بارے میں حکومت کے بڑھتے ہوئے خدشات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ وزیر اعلی ، جو خود ایک ترقی پسند کسان ہیں ، نے بتایا کہ ایک کلو چاول کے لئے 3،000 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
افسران نے بتایا کہ چاول کے کھیتوں میں طویل عرصے سے کھڑا پانی سیم کا باعث بنا ہے اور یہ کہ ہائی-ڈیلٹا فصلیں آبپاشی کے لئے دوسری فصلوں کے حصّے کا پانی بھی استعمال کرلیتی ہیں-
پاکستان میں برفانی پگھلاؤ اور غیر معمولی بارش کی لپیٹ میں ہے ، نہری آبپاشی اور پانی کی پیاسی چاول کی فصل کا انتظام ایک اور مسئلہ ہے- زیادہ طلب اور اس حقیقت کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑھ گیا ہے کہ چاول کی برآمد سے پاکستان کی 8 فیصد آمدنی پیدا ہوتی ہے۔
کسانوں کے ایک لابنگ گروپ ، سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے جنرل سکریٹری زاہد بھرگری اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ چاول سیم اور مٹی کی تباہی کا باعث ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ “محفوظ” ہے۔
بھگری نے کہا ، “یہ ایک محفوظ جوا سمجھا جاتا ہے ، خاص طور پر جب ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کررہے ہیں [جس کی وجہ سے] بہت زیادہ یا بہت کم پانی کپاس جیسی دیگر نازک فصلوں کو تباہ کرسکتا ہے-” انہوں نے مزید کہا کہ اگانے کے لئے چاول ایک آسان فصل ہے کیونکہ اس کو “تین سے چار انچ پانی میں ڈوبنے کے سوا کچھ درکار نہیں ہے”۔
چاول پر پابندی کا جواز
“اس سال 30 فیصد کم پانی ہوگا ،” سندھ کے وزیر زراعت ، اسماعیل راہو نے ، “واٹر گزلر” پر پابندی کا جواز پیش کرتے ہوئے ، دی تھرڈ پول کو بتایا۔
اگرچہ راہو تسلیم کرتے ہیں کہ “چاول سیکڑوں کسانوں کی ڈال روٹی ہے” ، لیکن انہوں نے تجویز پیش کی کہ کسان کم ڈیلٹا فصلیں ، جیسے پھلیاں ، خربوزے اور سبزیاں کاشت کریں ، کیونکہ وہ پانی میں کم مانگتی اور مٹی کے لئے نقصان دہ بھی نہیں ہیں۔
ان میں سے بیشتر اضلاع میں ، جو پانی دستیاب ہے وہ ناقص معیار کا ہے۔
محکمہ سندھ کے محکمہ آبپاشی کے چیف انجینئر ، ظریف کھیرو نے کہا کہ سب سے اہم چیز مٹی کی زرخیزی ہے ، جو چاول کے وجہ سے خراب ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا ، “[چاولوں کی کاشت] جس طریقہ سے کھیتوں کو سیلاب کر کے کی جاتی ہے یہ سیم بننے کا سبب ہے ، جو بالآخر مٹی کو ایک بنجر زمین میں بدل دے گا۔”
سیم سے مٹی کو کیسے نقصان پہنچتا ہے؟
مٹی میں پانی کی مقدار زیادہ ہونے سے:
اس سے آکسیجن کی سطح کم ہوجاتی ہے، جس سے پودوں کی جڑیں سڑ جاتی ہیں اور سانس رکتی ہیں۔ اور پودوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ ، ایک گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے۔
اکثر مٹی کو کھارا (تھور) بنا دیتا ہے۔
پابندی سے گریز کریں ، متبادل تلاش کریں
تجارتی باڈی رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے ترجمان ، رفیق سلیمان اس پابندی کو کسی “ظلم” سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا ، “مزید پیداوار کے لئے مراعات دینے کے بجائے حکومت ہماری روزی روٹی چھین رہی ہے۔” انہوں نے بتایا کہ چاول ، ٹیکسٹائل کے بعد پاکستان کی دوسری سب سے بڑی برآمد ، سالانہ ملک میں تقریبا 2.5 ڈھائی ارب ڈالر کی آمدنی لاتے ہیں۔
ہندوستان میں بھی ایسی ہی مزاحمت چل رہی ہے۔ دھان کی کاشت والے علاقوں میں زیرزمین پانی گھٹنے کے باوجود ، پنجاب اور ہمسایہ ریاست ہریانہ کی ریاستوں میں یقینی خرید کی وجہ سے کسان چاول کی کاشت نہیں چھوڑتے۔
کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ کاشتکاروں کو کچھ اور اگانے کی ترغیب دی جائے۔
ایک کسان اور ایک آئیڈیا
یہاں پر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پاکپتن کے ترقی پسند کسان ، آصف شریف آتے ہیں۔ شریف ، جو آن لائن جنوبی ایشیائی کاشتکار برادری میں کافی مشہور ہے ، اس کا حل تجویز کرتے ہیں: اگر چاول اگانے ہیں تو ، یہ سیلابی آبپاشی کے بغیر ہونا چاہئے۔ ان کے مطابق ، چاول کا پودا اپنی توانائی کا 70 فیصد صرف ڈوب جانے سے بچنے کے لئے استعمال کرتا ہے- 70 سالہ آصف شریف کہتے ہیں ، “چاول کم سے کم پانی سے اُگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے کچھ حصوں میں پابندی “غیرضروری” ہے۔
انہوں نے کہا ، “اسے کم پانی دیں اور دیکھیں پیداوار تین سے چار گنا زیادہ ہوگی۔” انہوں نے مزید کہا کہ مٹی کو معقول حد تک نم رہنا چاہئے۔
شریف اپنی 200 ہیکٹر اراضی پر مختلف قسم کی فصلیں اگاتے ہیں اور ہزاروں کسان ان کا ہر لفظ سنتے ہیں۔ وہ ورچوئل کمیونٹی کا حصّہ ہیں اور پوری دنیا کے لوگوں کو مشورے دیتے ہیں۔ ان کے 24،000 سے زیادہ سننے والے ہیں ، زیادہ تر کسان ، جن میں ہندوستانی پنجاب کے بھی کچھ شامل ہیں۔ وہ پیداوار کے نام سے انکے فیس بک پیج پر ویڈیوز شیئرکرتے ہیں، جس میں دکھایا جاتا ہے کہ آصف شریف کے مشورے پر عمل کرنے کے بعد ان کی فصلیں کتنی اچھی طرح اگ رہی ہیں۔
شریف نے کہا “کہیں بھی کچھ بھی اگیا جاسکتا ہے-“
وہ کاشتکاروں سے کہتے ہیں کہ نامیاتی کھاد کے استعمال اور زمین جوتے بغیر ریزڈ بیڈ پر کاشتکاری کی طرف واپس آجائیں- پیراڈوکسیکل ایگریکلچر ، یا پائیدار قدرتی نظام کشتکاری (پی کیو این کے) جیسے اس کے نام سے موسوم ہے ، ایک “جامع کلائمیٹ اسمارٹ پیداواری عمل کا مکمل حل” ہے۔ شریف نے کہا ، “پی کیو این کے کے عمل کو بننے اور پختہ ہونے میں کئی سال لگے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے 2008 میں چاولوں میں اضافے کے سسٹم سے آغاز کیا تھا۔ پھر 2011 تک یونائیٹڈ نیشنز کے کونزرویشن ایگریکلچر کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا نظامِ فصل کو ضم کیا- اور اس طرح 2014 تک پی کیو این کے کا ارتقا ہوا۔ “
سیم سے مٹی کو کیسے نقصان پہنچتا ہے؟
ایس آر آئی، چاول کی پیداوار میں اضافہ اور حال ہی میں دیگر فصلوں کے لئے کاشتکاری کا طریقہ کار ہے۔ اس میں پودوں ، مٹی ، پانی اور غذائی اجزاء کے انتظام کو تبدیل کرنا شامل ہے ، جس میں کم پانی اور زیادہ مزدوری کی ضرورت ہوتی ہے۔
نتائج متاثر کن ہیں۔ “پنجاب میں ہم نے گندم کی پیداواری لاگت 1500 پاکستانی روپے (9.70 امریکی ڈالر) سے گھٹا کر 400 روپے (2.60 امریکی ڈالر) فی 40 کلو گرام کردی ہے،” انہوں نے دعوی کیا- اور باوجود ان سب کے ابھی تک ، وہ کوئی انقلاب لانے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے ترقیاتی عمل کو ناکام بنانے میں فارم منشی یا منیجرکو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا ، “انہیں ہرپیداوار کی طلب پیدا کرنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے جس سے پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ بڑی بڑی زمینوں والے کسان بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ “کارپوریشنوں اور کاروباری اداروں کی ملی بھگت سے ، وہ دیہی آبادی کو علم سے محروم رکھتے ہیں اورنتیجتاً خوشحالی سے،” انہوں نے کہا۔
انہوں نے ایک “فصلوں کی پیداواری انتظام کرنے والی کمپنی” کی ضرورت کے بارے میں بات کی جو مختلف زرعی علاقوں تک سفر کرے ، اور کسانوں کو یہ سیکھاۓ کہ برآمد ہونے والی مصدقہ فصلیں کیسے اگائیں۔
محکمہ آبپاشی سندھ سے تعلق رکھنے والے ظریف کھیرو نے تربیت کے اس آئیڈیا کی حمایت کی- انہوں نے مشورہ دیا کہ “کاشتکاروں کو زرعی یونیورسٹیوں کے طلباء ملنا چاہئے تاکہ وہ پائیدار کاشتکاری کے جدید طریقوں کی طرف راغب ہوسکیں جس کے نتیجے میں بہتر پیداوار حاصل ہوسکے۔”